فتح اللہ گولن کی فکر اور دعوت اور تصوف
بعض لوگ جب جناب فتح اللہ گولن کی اصلاحی دعوت کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ تصوف پر تنقیدشروع کردیتے ہیں۔اس لئے چلئے ہم دیکھتے ہیں کہ تصوف کی طرف منسوب غلطیوں پر تنقید کا زیادہ کون مستحق ہے: اول: ہم جانتے ہیں کہ اللہ کی توحید کا مطلب محبت ، امید اوربیم کے ساتھ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرنا ہے ، جبکہ یہ بات ظاہری اور باطنی عبادتوں میں ظاہر ہوتی ہے اور کائنات کے تمام ذرات کا پورے توکل اور کمال اعتماد اور حضور کامل کے مفہوم کے ساتھ تعالیٰ کے آگے جھکنا، وہ توحید ہے جس کی تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے دعوت دی ہے۔ یہی توحیدایمان کی حقیقت ہے اور یہی شرعی دعوت ،قبر پرست اور خرافات بھری سوچ سے جدا کرتی ہے۔ یہ مفہوم جناب فتح اللہ گولن کی دعوت میں نہایت اعلیٰ انداز میں موجود ہے یہاں تک کہ کلمۂ شہادت کے بارے میں ان کی سوچ کی بنیاد ہے (جیسے کہ ان کی بعض کتابوں میں لکھا ہے)کہ:’’ لاالہ اللہ ‘‘مقصود اور ’’محمد رسول اللہ‘‘ ذریعہ ہے۔ یہ بات بغیر کسی قید کے ذکر ہونے کے باوجود بعض لوگ زبردستی تنقید کرتے ہیں کہ یہ دونوں لفظ مقصود ہیں۔ اگرچہ اس باتکلف تنقید کا جواب بڑا آسان اور واضح ہے اور ساتھ ہی اس دعوت کی مخلوق کے بارے میں غلو سے دوری کو بھی بیان کرتا ہے اوراس بات کا کوئی اندیشہ نہیں کہ یہ غلو اسے کسی بھی مخلوق (خواہ وہ سرور کائنات ﷺ ہی کیوں نہ ہوں) کو اللہ تعالیٰ کے درجے تک پہنچا دینے کا سبب بن جائے۔ اس لئے سوال یہ ہے کہ جو دعوت اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان پر ہستی کو فنا کرنے، ہر
خیر کو اس کی جانب منسوب کرنے اور اللہ کے بغیر کسی بھی قوت اور طاقت سے دستبرداری پر قائم ہو، اس کی توحیدمیں کہاں خلل ہوسکتا ہے۔
آئیے اب بہت سے ناقدین کی حالت پر نظر ڈالتے ہیں کہ ان میں کیسا غرور اور تکبر ہے جوان کے اپنے علم اوراس مسلک پر اعتماد میں غلو سے ظاہر ہوتا ہے جس پر وہ (چھوٹی بڑی اور اصولی اور فروعی) تفصیلات کے ساتھ یقین رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ بس وہی سنت اور اسلام ہے۔ ایسا گھمنڈ صرف وہی آدمی کرسکتا ہے جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہو۔ یہاں تک کہ اللہ کی عظمت بھی اس کے دل سے رخصت ہوجاتی ہے۔ اب بتائے کہ توحید کوماننے کا زیادہ حقدار کون ہے؟ دوم: تصوف کی جانب منسوب بہت سے لوگوں پر شدید تنقید کا ایک سبب خرافات کا یقین ہے جس کا مطلب ایسی کرامات اور برکات کو تسلیم کرنا ہے جن کو شریعت اور عقل مسترد کرتی ہیں۔ اس کی سب سے واضح شکل یہ ہے کہ اللہ تعالی پر توکل اوربھروسے کے نام پراسباب کو ترک کردیا جائے۔ کیا فتح اللہ گولن کی دعوت ایسی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس دعوت کے مخالفین بھی اس پر یہ تہمت نہیں لگا سکتے کیونکہ ا س نے منصوبہ بندی،مہارت اور امید کے ساتھ اسباب کو اس طرح اختیار کیا ہے کہ اسباب حاصل کرنے کی دوڑ میں، وہ اسباب کے پجاریوں سے بھی آگے نکل گئی ہے لیکن فرق صرف ان کی سوچ میں ہے کہ مسبب الاسباب یعنی اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسے کے بغیر صرف یہ اسباب کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے۔ کیا ان پر تصوف کا الزام لگانے والے ناقدین بھی ایسے ہیں؟ آپ ذرا جہاد کا دعویٰ کرنے والے ان واعظموں، داعیوں اور علم کے دعویداروں کی خرافات کو دیکھیں جو پہلے اور اب بھی اس سوچ کی دعوت دیتے اور اس کا دفاع کرتے ہیں مگر ان کی خرافات یہ ہے کہ وہ اسباب کو بالکل ترک اور اللہ کی جانب سے واجب کردہ تیاری کو چھوڑ کر ان لوگوں سے چھیڑ چھاڑکرتے ہیں جن پر فتح کے اسباب ان کو میسر نہیں اور دعو یٰ کرتے ہیں اللہ کی مدد کا اور اسباب کی دنیا میں ہر طرح سے ناکام معرکہ شروع کرنے کے بعد انتظار کرتے ہیں کہ خرق عادت امور اور کرامات کے ظہور سے ان کے لیے عالم اسباب بدل جائے۔ یہاں تک کہ انہوں نے نوجوانوں کو ان کرامات (جیسے آیات الرحمن فی جہاد الافغان) کے ذریعے دھوکہ دیا! خرافات، توکل کے دعووں اور خرق عادت امور پر اعتماد کے بعد ان کے اور تصوف کی جانب منسوب لوگوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ سوم: تصوف کی جانب منسوب بعض لوگوں کی فکر میں یہ خرابی ہوتی ہے کہ وہ زمین
کی آبادکاری اور زہد کے درمیان کے تعلق کو غلط انداز سے سمجھتے ہیں۔ چنانچہ دنیا سے بے رغبتی کو دلیل بنا کر انہوں نے زمین کی آبادی سے ہی منہ موڑ لیا۔ کیا فتح اللہ گولن کی دعوت ایسی ہے ؟ یا اس نے پوری وضاحت کے ساتھ دنیوی علوم کو پھیلانے اوران علوم کے میدان میں ترقی یافتہ ممالک سے بھی زبردست مقابلہ کیا ہے؟ اس بات کا موازنہ ان لوگوں سے کریں جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے ذریعے زمین کی آبادکاری کو دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کی غلطی تصور کرتے ہیں اور اس غلطی کا منبع عصر حاضر سلفیت کے دعویداروں کی سوچ کا نتیجہ ہے۔ اب بتائیے کہ ان میں سے کون سافریق اس غلط تصور کے زیادہ قریب ہے جس میں غالی اور جاہل صوفی مبتلاء ہیں؟ اس کے علاوہ درج ذیل امور ایسے ہیں جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کونسا فریق تصوف کی جانب منسوب لوگوں پر کی جانے والی تنقید کا زیادہ مستحق ہے:
- شیوخ کے بارے میں غلو
- تقوی ، تشدد اور دقیانوسیت کو گڈمڈ کرنا
- کسی بھی نص شرعی کو اصل گہرائی سے سمجھے بغیر اس کی سطحی فہم
یہ سب باتیں اوران کے علاوہ دیگر امور اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ فتح اللہ گولن کی دعوت پر تصوف کا لیبل لگا کر اس پر تنقید کرنے والے خود اس کے زیادہ مستحق ہیں بلکہ فتح اللہ گولن کی دعوت ان غلطیوں سے بہت دور ہے۔ ہاں اگر تزکیہ نفس اور دل کے اعمال کو قابل تنقید تصوف کہا جائے تو یہ موجود ہے! اگر اسی کو نشانہ بنایا جائے تو پھر یہ عیب قبول ہے جو عین کمال ہے!
پروفیسر ڈاکٹر الشریف حاتم العونی، سعودی عرب
- Created on .