جناب فتح اللہ گولن کی ترکی کے موجودہ حالات پر بی بی سی(BBC) کی ایک گفتگو
سوال: ’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘ کہہ رہی ہے کہ وہ تحریک خدمت سے وابستہپولیس اور عدالتی نظام میں موجود لوگوں کو ختم کررہی ہے۔ کیا آپ کو اس پر کوئی رنج ہے ؟ یہ کام حکومت کے اندر ہورہا ہے ۔ اس سے آپ کی تحریک کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے؟
جواب: ہر غلط کام سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے لیکن یہ بات درست نہیں کہ سب کا تعلق تحریک خدمت سے ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ تمام بائیں بازو، ڈیموکریٹ ، وطن پرست اور قوم پرست لوگ بھی شامل ہیں۔ ہم لوگوں میں یہ اعلان نہیں کرسکتے کہ خبردار۔۔۔ خبردار ہماری ہمنوائی نہ کرنا یا ہماری خدمت اور تحریک سے محبت نہ کرنا ،یا یہ ہمارا کام نہیں۔ اس لئے یہ فطری امر ہے کہ کچھ لوگ ہمارے ہمنوا ہوں گے جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ میں ان ہزار میں سے ایک آدمی کو بھی نہیں جانتا جن کو انہوں نے مشرق اور مغرب میں دربدر کیا۔ میں اس میں کوئی مبالغہ نہیں کررہا کیونکہ اللہ تعالیٰ میری ان باتوں پر میرا محاسبہ کرے گا۔ لیکن بعد میں یہ بات واضح ہوسکتی ہے کہ جب عدالتی حکام اور پولیس سے وابستہ یہ لوگ واپس اپنے مقامات پر آنے کا مطالبہ کریں گے تو وہ اپنی وابستگی کی حقیقت بھی بتلائیں گے ۔مثلاً کوئی کہے گا کہ میں فلاں تحریک سے وابستہ ہوں یا میں فلاح رخ پر سوچتا ہوں۔ اس وقت تو ہمیں کوئی ندامت نہ ہوگی مگر بہت سے لوگ شاید یقیناًشرمائیں گے ۔ موجودہ حالات میں ترکی ضرب المثل کے مطابق خشک و تر سب جل گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب افسران خود اپنے ضمیر کے روبرو ہوں گے تو وہ اس پر خود اپنا محاسبہ کریں گے۔
سوال: کیا آپ کو اس بات سے اتفاق ہے کہ یہ ’’تحریک خدمت‘‘ کی پچاس سالہ تاریخ میں سب سے مشکل وقت ہے؟ کیا آپ کو موجودہ اوران حالات میں کوئی مشابہت نظر آتی ہے جن سے سعید نورسی یک حزبی نظام کے وقت دوچاررہے؟
جواب: جس وقت آپ ان کے جذبات اورخیالات کے مطابق کام نہیں کرتے ، وہ اسے جرم سمجھتے ہیں اور جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں شاید یہ ہماری اپنی کسی غلطی کا نتیجہ ہوں۔ میں ذاتی طورپر یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت ہمارے ساتھ جو کچھ ہو رہاہے وہ اللہ کی جانب سے ہماری سزا ہے۔ آپ نے حضرت بدیع الزمان کا تذکرہ کیا وہ فرماتے ہیں کہ : ’’اب مجھے اس تکلیف اور تعذیب کی حکمت سمجھ میں آئی جس کا میں کئی سال سے شکار ہوں۔ میرا جرم یہ ہے کہ میں نے ایمانی خدمت کو اپنی مادی اور روحانی ترقی کے لیے بطور ذریعہ استعمال کیا‘‘ جبکہ مجھے صرف اللہ تعالی کی رضا کا طالب ہونا چاہیے تھا۔ میں جو کچھ کرتا ہوں اس سے انسانیت کو فائدہ ہونا چاہیے۔ میں جو کچھ کروں اس میں اس انسانیت کا کوئی نفع ہونا چاہیے۔ اس لئے اگر انسان اپنی ذات کو ہوا میں اڑنے اور پانی پر چلنے کی خاطر دین کے لئے وقف کردے تو یہ بات اخلاص کے منافی ہے اور اس وجہ سے وہ انسان اللہ کے عذاب کا مستحق ہوجاتا ہے۔
ایک آیت شریفہ میں آیا ہے: ((ما أصابك من حسنة فمن الله وما أصابك من سيئة فمن نفسك)) (النساء: 79) (تجھ کو جو فائدہ پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی (شامت اعمال ) کی وجہ سے ہے)
اس لئے ہم کہتے ہیں کہ ہم صراط مستقیم پر چلنے کے پابند ہیں اور ہم ان لوگوں کے رستے پر گامزن ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے لئے وقف کردیا ہے لیکن چونکہ ہم حقیقی طورپر ہم ان لوگوں جیسے کام نہیں کر سکے، اس لئے شاید اللہ تعالی ان تھپڑوں کے ذریعے ہمیں خبردار کررہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کے کام درست ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال پر ان کا بھی محاسبہ کرے گا۔
سوال: ترکی میں موجودہ بد عنوانی کے واقعات اور ان کے ہمراہ پیش آنے والے حالات کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: مجھے نہیں معلوم کہ کہاں سے بات شروع کروں، لیکن لگتا ہے کہ بدعنوانی ہوئی ہے ۔ سب یہی کہہ رہے ہیں پرانے لوگوں کے الفاظ میں عوام اور خواص سب یعنی عام لوگوں سے لے کر پڑھے لکھے اور چیدہ چیدہ سب لوگ تقریباً اس حقیقت کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں اور کوئی بھی اس حقیقت کو بدل نہیں سکتا لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان (حکمران پارٹی) کے اندر ایک اضطراب ہے، جماعت کے بارے میں اضطراب، چنانچہ بدعنوانی کے واقعات کو ان چیزوں کو ختم کرنے کا ذریعہ بنایا لیکن اس میں ان ججوں اور سرکاری وکیلوں کو قربانی کا بکرا بننا پڑا جنہوں نے تحقیقات کی تھیں ۔ چنانچہ انہوں نے قیمت ادا کی کہ ان کو دائیں بائیں دربدر کردیا گیا۔ یہ لوگ جب واپس اپنی جگہ آئیں گے تو گمان غالب ہے کہ وہ اپنے افکار سے پردہ اٹھائیں گے ۔ اس وقت سب دیکھیں گے کہ ان ججوں، سرکاری وکلاء اور پولیس میں قوم پرست ، قومی تحریک کے کارکن اور بعض قوم پرست لبرل لوگ بھی شامل ہیں لیکن انہوں نے اس مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے او ر اس میں مزید غموض پیدا کرنا چاہا تو یہ دعوی کردیا کہ یہ لوگ ریاست کے اندر متبادل اور متوازی ریاست ہیں جو کچھ مقامات تک خفیہ انداز میں پہنچے اور کچھ پر پوری طرح چھا گئے اور یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ لوگ (جن کو دربدر کیا گیا) ہم خیال اور ہم فکر ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ انہوں نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے بدعنوانی کے ان واقعات کو کچھ ایسے کام نکالنےنے کے لئے استعمال کیا جو ایک عرصے سے ان کے دل میں تھے۔ اس لئے انہوں نے مبالغےکا سہارا لیا اور اس طرح کی ایک فیصلہ کن کوشش کے ذریعے عوام میں اپنی جڑیں پھیلانے کی سعی کی اور وہ بھی خصوصاً اس لئے یہ کہ ایک نادر موقع تھا۔
کس کو معلوم ؟ کہ شاید کسی دن وہ اپنے اس تصرف پر شرمندگی محسوس کریں گے اورندامت اور افسوس کااظہار کریں گے کیونکہ ہم ماضی میں بھی ایسے تلخ تجربات سے گزر چکے ہیں جن کا اختتام ندامت پر ہوا کیونکہ سینکڑوں لوگوں نے ہمیں برقی خطوط بھیجے کہ ’’ہمیں معاف کرنا، ہم نے تم پر ظلم کیا ‘‘ ۔یہ باتیں اس وقت بھی ہوچکی ہیں جب فوج کی حکمرانی تھی اور دیگر زمانوں میں بھی جب بعض ظالم طاقتوں نے سب کے اوپر اپنی حکمرانی قائم کرنے کی کوشش کی۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اور خصوصاً قریبی زمانے میں یہ معاملہ کئی بار پیش آچکا ہے ۔ ان میں سے بعض لوگ نادم ہوں گے اور آج جو کچھ کہا ہے اس کی تصحیح کریں گے البتہ اس وقت یہ مسئلہ ایک معروف رخ پر چل رہا ہے خصوصاً پارٹی کے ہم نوا ذرائع ابلاغ اور ایسے اقلام کی موجودگی میں جو بعض مسائل میں ردوبدل کرکے حقیقت کو بگاڑ رہے ہیں۔
جمہوریت اور قانون کی مخالفت
اس وقت میں یہاں (امریکا میں) تھا اس مسئلے کو جون کے طوفان کا نام دیا گیا۔ یہ 1999کی بات ہے ۔ اس وقت بھی ذرائع ابلاغ نے وہی کہا تھا جو آج کہہ رہے ہیں۔ آٹھ سال تک کیس چلا اور انجام کار ہمیں بری کردیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اس حکم کی تصدیق کی یہاں (امریکا) سے ایک سکالر نے اس مقدمے کے بارے میں ایک کتاب لکھی اور اس میں بہت سے ایسے واقعات بھی تحریر کئے جن کو میں خود بھی بھول چکا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ ہم اس طرح کی مشکلات سے بارہا گزرے ہیں اور آج بھی ایسی ہی ایک مشکل سے گزر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات پیش آئیں گےلیکن میرے خیال میں ان واقعات نے ترکی کا بڑا نقصان کیا ہے اوراس کا اثرہمیں امریکا اور یورپی یونین کی ترکی کے بارے میں منفی سوچ پر نظر آگے گا کیونکہ جو غلطیاں کی جارہی ہیں وہ جمہوریت ، انصاف اور قانون کے منافی ہیں اور اس بات پر ان دنوں تقریباً سب کا اتفاق ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان غلطیوں کو فوری طورپر درست کیا جاسکتا ہے؟ کیا معاملات دوبارہ اپنی جگہ آسکیں گے؟ جی ہاں اگر انصاف کا بول بالا ہو تو ایسا ہوسکتا ہے۔ اس فقیرنے اپنا دفاع کرتے ہوئے بھی کوئی لفظ زبان سے نہیں نکالا، خصوصاً اس لئے اس وقت جب میں کچھ بیمار بھی تھا۔ میں اس بات پر مصر ہوں کہ اس بارے میں کچھ نہ کہوں جبکہ بعض احباب کچھ وضاحتیں ، تصحیحات اور تردیدی بیانات چھاپنے پر اکتفا کرلیں گے کیونکہ جن لوگوں کو اس بھلائی کا حصہ سمجھا جاتا ہے انہوں نے کچھ بیانات دیئے ہیں لیکن میں نے اس موضوع پر کچھ نہیں کہا اور میں اسی طرح رہوں گا۔ جی ہاں، میں آج کے بعد کچھ نہیں کہوں گا۔
سوال: صرف وزیر اعظم نے ہی آپ کی تحریک پر ’’متوازی ریاست‘‘ قائم کرنے کا الزام نہیں لگایا بلکہ کچھ دیگرلوگ بھی ایسا ہی کہتے ہیں۔ اسی طرح ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مالی بدعنوانی کا پیچھا اس وقت نہیں کیا جاسکتا جب تک آپ کا حکم نہ ہو۔
جواب: ذرائع ابلاغ نے ایک خبر نشر کی کہ وہ (حکومت) پہلے سے اس مسئلہ کے بارے میں باخبر تھے۔ قومی خفیہ نے آٹھ ماہ قبل اس کی خبر دے دی تھی۔ خفیہ ، جناب وزیراعظم کی زیر نگرانی ایک ادارہ ہے اور اس نے پہلے ہی ان کو بتا دیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تحقیقات ہوتی رہیں، چھان بین لگی رہی اور افسران نےحسب معمول کام کیا۔ اس سلسلے میں مجھے اجازت دیجئے کہ میں مسئلے کی وضاحت کروں۔ میرے ایک دوست نے چند روز قبل مجھے بتایا کہ ’’میں سڑک پر گاڑی چلا رہا تھا اور سرخ روشنی پر رک گیا۔ اس کے بعد پولیس کی گاڑی آگئی جس کی رفتار تیز تھی اور پیچھے سے میری گاڑی کو ٹکر ماردی ۔ پھر پولیس والامجھے تنگ کرنے آگیا اور کہنے لگا کہ تم کیوں رکے ؟ تم حادثے کا سبب ہو ۔ میں نے اس سے کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ کوئی ایساقانون آگیا ہے جس کے بموجب سرخ اشارے پر رکنے کو ختم کردیا گیا ہے۔ اس لئے میں رک گیا۔ اگر میں نے غلطی کی ہے تو معذرت خواہ ہوں‘‘۔
رشوت کو معمول کی ایک چیز ظاہر کرنے کی کوشش
سب جانتے ہیں کہ رشوت، سفارش، تعلقات اور ٹھیکوں میں بدعنوانی بذات خود جرائم ہیں۔ اس وجہ سے جب عدالتوں اور پولیس کے اداروں کے( مختلف فکری جہات سے منسوب لوگوں نےان غیرقانونی کاموں کو دیکھا تو انہوں نے قانون کے مطابق مجرموں پر ہاتھ ڈالا لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ قانونی خلاف ورزیاں اب جرائم نہیں؟! چونکہ ان کو یہ بات معلوم نہ ہوسکتی تھی اس لئے وہ اس غلطی کے مرتکب ہوئے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں مالی تحقیقات نے ان (حکومت) کو پریشان کیا۔ اس لئے انہوں نے ’’متوازی ریاست‘‘ کا مسئلہ کھڑا کیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ رشوت ستانی اور ٹھیکوں میں بدعنونی کے اسکینڈلز کا ایک سلسلہ تھا لیکن اس بارے میں کوئی بھی بات نہیں کرتا ۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ سب معمول کی باتیں ہیں یا ان کو کوئی ایسا ہونا چاہیے ۔ یہ لوگ مجھ سے کوئی احکام حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ جونہی کسی شہر میں تحقیقات کا آغاز ہوا انہوں نے فوراً مداخلت کی ا ور پولیس والوں ، سرکاری وکیلوں اورججوں کو پریشان کرنا شروع کردیا ، ان کو معزول کردیا اور دور درااز مقامات پر پھینک دیا ۔ اس سے قبل بھی وہ ان لوگوں کے ساتھ یہی کچھ کرچکے تھے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کو یہ لوگ خود لے کر آئے تھے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر نئے ملازمین ایسا کریں گے تو ان کو بھی معزول کردیں گے اور ان کی جگہ اور لوگ لگا دیں گے۔ میرا خیال ہے کہ آج اس طرح کی انارکی پھیلی ہوئی ہے۔اس لئے میرا اس معاملے سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ جیسا کہ میں کئی موقعوں پر کہہ چکا ہوں کہ میں وہ تحقیقات کرنے والے ہزار لوگوں میں سے کسی ایک کو بھی نہیں جانتا اور یہ بات میں پوری وضاحت اور اطمینان سے کہہ سکتا ہوں۔
سوال: آپ نے کئی بار اپنی تحریک کو ممکنہ حد تک سیاست سے دور رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا جبکہ اس وقت یہ تحریک سیاسی جھگڑوں کا مرکز بن گئی ہے ۔ کیا آپ کو اس پر کوئی ندامت محسوس ہوئی؟
جواب: مجھے کبھی ندامت محسوس ہوئی نہ میں قضاء و قدر پر کبھی تنقید کرتا ہوں۔ جب کبھی میرے دل میں تقدیر پر تنقید کا کوئی شائبہ گزرتا ہے تو میں اپنے رب سے معافی مانگ لیتا ہوں۔ جیسے کہ کچھ دیر قبل میں نے کہا، اللہ تعالی دوسروں کے ہاتھوں ہمیں سزا دے رہا ہے کیونکہ ہم مطلوبہ مرتبے کے مطابق اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط نہیں کرسکے۔ ایک جملہ ہے جسے حدیث شریف کہا جاتا ہے کہ ’’ ظالم اللہ کی تلوار ہے، اس کے ذریعے وہ ا نتقام لیتا ہے، پھر اس سے انتقام لیتا ہے۔‘‘ یہاں مسئلہ ندامت کا نہیں بلکہ ہمیں اپنے نفس کا مقابلہ کرنے کے لئے اس موقع کو غنیمت جاننا چاہیے۔ ایک روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’اپنے نفسوں کا اس سے قبل احتساب کرو کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔‘‘ میں اس مسئلے کو اس رخ سے دیکھ رہا ہوں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے مقابلے میں ان بھائیوں(حکومت) نے جوکچھ کہا وہ سوفیصد درست تھا۔
سوال: آپ نے ’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘ کی حکومت کی اکثر مدت اور مختلف مشترکہ میدانوں میں تائید کی لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کے بعد آپ کے درمیان کُردی بحران کے حل کے مرحلے اور ’’مادی مرمرہ‘‘ جہاز اور اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی خرابی کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوگئے۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: ہم کسی بھی زمانے میں کسی بھی سیاسی جماعت سے بالکل متفق نہیں رہے۔ خواہ وہ جماعت کوئی بھی ہو۔ یہ جماعت قومی جمہوی پارٹی یا عوامی جمہوری پارٹی یا انصاف و ترقی یا صراط مستقیم پارٹی یا مادر وطن پارٹی ہوسکتی ہے جبکہ موخر الذکر دو پارٹیاں اس وقت اپنا وجود نہیں رکھتیں۔ ان پارٹیوں نے جو بھی صحیح کام کئے ہم نے ان کی تائید کو اپنا انسانی فریضہ سمجھا۔ اسی وجہ سے 2010کے ریفرنڈم کے دوران میں نے کچھ ایسی تقریریں کیں جو میں نے آج تک نہیں کی تھیں۔ میں نے کہا کہ یہ جمہوری آزادی ہے، یہ جمہوریت کے لئے ریفرنڈم ہے اور سب پر لازم ہے کہ وہ تبدیلی کو’’ہاں‘‘ کہیں یعنی اعلیٰ عدالتی کمیٹی اور ایڈووکیٹ جنرلز کمیٹی کی تشکیل جمہور ی طریق کار کے مطابق کی جائے۔
جی ہاں، میں وہ الفاظ پہلی بار نہیں کہہ رہا تھا بلکہ بیس سال قبل میں نے کہا تھا کہ’’جمہوریت ایک ایسا مرحلہ ہے جس سے ہمیں واپس نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ چنانچہ لوگ میرے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک قیامت بپا کردی۔ وہی لوگ آج میرے خلاف لکھ رہے ہیں ۔ انہوں نے دلیل یہ پیش کی کہ :’’ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے؟ کیا اسلام اور جمہوریت کے درمیان کوئی تعلق ہے؟‘‘ لیکن اس کے بعد انہوں نے مجھ سے بھی زیادہ کہا اور بہت دور چلے گئے اور کہا کہ دیگر طریقوں کے بارے میں بھی سوچا جاسکتا ہے۔ اس لئے موقف میں یکسانیت کا یہ مطلب نہیں کہ ہماری سوچ بھی ایک ہے لیکن جب ہم ان کو دیکھیں گے کہ وہ اپنے اقدامات میں کس قدر معقولیت کا اظہار کرتے ہیں، حقوق کے لحاظ سے،جمہوریت کے لحاظ سے، امت کے لحاظ سے اور پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات استوار کرنے کے لحاظ سے ،تو ہوسکتا ہے کہ ان امور کے بارے میں ہم ان سے متفق معلوم ہوں اوران کے ساتھ ایک ہی شکل میں نظر آئیں مگر اصل بات یہ ہے کہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے سوا ہمارا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں لیکن ایسا ہوسکتا ہے کہ دو آدمی کسی پارٹی کے ہمنوا ہوں اور پھر پارٹی میں شامل ہونے کا کہہ دیں ۔ یہ ہوسکتا ہے مگر یہ بات آج بھی دوکے عدد سے متجاوز نہیں، ورنہ اگر ہم چاہتے تو دوسروں کو بھی اسی رخ پر جانے کو کہہ سکتے تھے اور وہ اس پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی بن جاتے اور وہاں دوسری آوازیں بھی ہوتیں مگر ہم نے ایسا کبھی نہیں چاہا۔
ہم نے کردی بحران کے حل کے لئے تجاویز پیش کیں۔ رہی بات کردی مسئلے کی تو ہم نے حکومت سے کئی برس قبل امن منصوبے کی حمایت کی۔ یہ فقیر صرف حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ قبل ازیں میں لکھی ہوئی تجاویز پیش کرچکا ہوں ۔میں نے کہا کہ اس (جنوبی اور مشرقی) علاقے کا خیال رکھا جائے۔ تعلیم، صحت ، دینی امور ،ائمہ اورموذنین اور پولیس کے محکمے میں اس کا خیال رکھا جانا لازمی ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ان کا خیال رکھیں کیونکہ وہاں کے لوگ بڑے مظالم کا شکار رہے ہیں ۔جلدی کرو ورنہ مشکلات کو بڑھادیں گے اور ان کو اگلی نسل کی جانب منتقل کردیں گے۔ لیکن افسوس کسی نے اس موضوع پر توجہ نہیں دی۔
شاید اس بات کو دس سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے۔ اس لئے ہم نے اپنی تجاویز ان سے بہت پہلے پیش کردی تھیں۔ جب انہوں نے کوئی بھی کام کرنے کی کوشش نہیں کی تو اس فقیرنے بھائیوں، دوستوں، محبین اور ہمنواؤں کی حوصلہ افزائی کہ وہ کام کریں۔ مجھے بالتحدیدتو معلوم نہیں کہ انہوں نے کیا کیا لیکن طلبہ کو یونیورسٹیوں اور ہائی اسکولوں کے لئے تیار کرنے کی خاطر اسکول اور ادارے کھولے اور تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعے پہاڑوں پر جانے کا رستہ کاٹ دیا۔ یہ بات بالفعل ہوچکی ہے۔
لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کیاکہ ہم امن منصوبے کے خلاف ہیں۔ ہر گزنہیں ۔ کبھی نہیں۔ لیکن مسئلے کے حل کے لئے ہمارا طریقہ مختلف تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ حل تعلیم و تربیت اور اتفاق اورہم آہنگی کی روح پیدا کرنے اور ایسی سرمایہ کاری کے ذریعے ہونا چاہیے جس سے اس علاقے سے غربت کا خاتمہ ہوجائے اورسرگرمیاں اسی رخ پر جاری بھی رہیں۔ پھر یہ سرگرمیاں صرف ترکی کے اندر تک محدود نہیں رہیں بلکہ عراق کے شمال تک پھیل گئیں اور ہمارے بھائیوں نے وہاں بھی یہ خدمات فراہم کیں۔ میں وہاں گیا اور نہ ان کامیابیوں کو بذات خود دیکھا لیکن جو کچھ وہاں ہوا وہ یقینی طورپر ایک جنگی قصہ ہے۔
حقیقت واقعہ یہ ہے کہ تحریک خدمت پر الزام تراشیاں کی جارہی ہیں اور ظلم اور تعدی ہورہی ہے لیکن اس کے باوجود جس درست بات پر ہمارا ایمان ہے جو ہمیں نظر آرہی ہے وہ یہ کہ ہم مولاناجلال الدین رومی کا موقف اپنائیں کہ اگر ہمارا ایک پاؤں ہماری فکری دنیا اور ہماری اقدار اور اعلیٰ ہدف کے اندر ہو تو ہم دوسرے پاؤں کو ساری انسانیت کے لئے کھول دیں اور سب کو گلے لگائیں۔ یہ وہ فلسفہ ہے جس پر ہم یقین رکھتے ہیں۔ یہی ہمارا اخلاق اور سب لوگوں کے بارے میں ہماری رائے ہے۔
جو لوگ اس فقیر کو جانتے ہیں وہ یقیناًاس بات کو جانتے ہیں۔ اس کے بعد ریاست نے اس سوچ کو قبول کیا لیکن صرف اس پر بس نہیں کی بلکہ ہم نے بارہاا ن آرتھوڈکس اور آرمینی گروہوں سے ملاقاتیں کیں جن کو دیوار سے لگایا گیا اور ترکی سے دور کردیا گیا تھا۔ چنانچہ ہم ایک ہی دسترخوان پر بیٹھے اور ایک ہی تھالی میں کھایا۔ اللہ کے فضل و کرم سے تعلقات کے اس دروازے کو ترکی میں سب سے پہلے ہمارے بھائیوں ، دوستوں اور احباب نے کھولا۔
اگر ’’ماوی مرمرہ ‘‘ کا واقعہ آج بھی ہو تو میں وہی موقف اپناؤں گا۔ لوگ اسرائیل اور عظیم مشرق وسطیٰ وغیرہ سے متعلق بعض مسائل کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ہم نے کبھی حاخام سے ملاقات کی ہو اور استنبول میں ’’پنج صد سالہ وقف‘‘ کے اس وقت کے سربراہ’’بینتو‘‘ اور اسحاق الاتون سے بھی ملے ہوں جو ایک سچا آدمی ہے اور اس نے ان سرگرمیوں کی تعریف کی جو تحریک خدمت ترکی سے باہر کررہی ہے اور بعض اوقات یہاں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ بھی کیا۔ اس نے یہ سب کچھ صرف انسانی جذبے سے کیا۔ بات صرف اتنی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ایسے معمولی تعلق کے بارے میں کوئی لفظ کہے۔ دوسری جانب اس تحریک کو یوں پیش کرنا کہ وہ اسرائیل کی حامی ہے اور گویا وہ اسے اپنی امت پر ترجیح دیتی ہے ، تو ان کے لئے ممکن نہیں کہ اس پر کوئی دلیل پیش کرسکیں۔ ہاں ان کو بطور ’’بشر اور انسان‘‘ قبول کرنا جیسے کہ فخر دو عالم ﷺنے کیا ، یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن وہ لوگ اپنے دعوؤں کو ’’مادی مرمرہ‘‘ جہاز کا سہارا فراہم کرتے ہیں،چنانچہ میرے ساتھ ایک انٹرویو کے بعد اسی طرح سوال کیا گیاجس طرح آپ کررہے ہیں کہ:’’ اس موضوع کو آپ کس حیثیت سے دیکھ رہے ہیں؟‘‘میں نے جواب دیا:’’ کیا ہی اچھی بات ہوتی کہ سفارتکاری کو آخری حد تک استعمال کیا جاتا اور طاقت کے استعمال کی ضرورت پیش نہ آتی کیونکہ اس سے بہت سی معاشرتی اور دیگر مشکلات پیدا ہوں گی۔‘‘
مجھے معلوم نہیں کہ اخبارات نے میرے الفاظ کو کس طرح شہ سرخی بنا دیا۔چنانچہ ترکی میں اس کی مختلف توجیہات کی گئیں یعنی جیسے میں اپنے بھائیوں اور انسانیت کے خلاف اور دوسروں کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہوں۔ لیکن بات یہ نہیں تھی بلکہ میں نے اپنا نقطۂ نظر بیان کیا تاکہ مزید مشکلات پیدا نہ ہوں۔ اگر یہ معاملہ آج پیش آجائے تو میں پھر وہی ملاحظات پیش کروں گا۔ میرے خیال میں سفارتکاری کو آخر ی حد تک استعمال کرنا چاہیے اور لوگوں کو ان کا خون بہانے اور جان نکالنے کے لئے محاذ کی طرف نہیں دھکیلنا چاہیے۔ میں نے اس وقت یہ بات کہنا چاہی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس تہمت کا تعلق ہمارے اس موقف سے ہے۔
سوال: میں چاہتا ہوں کہ آپ سے ایک اور سوال کروں تاکہ کردی مسئلے کے بارے میں آپ کے خیالات کی مزید وضاحت ہوجائے۔ آپ نے فرمایا کہ آپ نے کردی مسئلے کے حل کے لئے پہلے ا قدامات کئے اور وہاں اسکول کھولے لیکن سرکاری اہلکاروں نے اس وقت اس موضوع کو کوئی اہمیت نہیں دی لیکن اس کے باوجود بعد میں اور خصوصاً پچھلے پانچ سالوں کے دوران بعض کارروائیاں آپ کے ذمے لگائیں گئیں جیسے کردی گروہوں کے اتحاد کے بارے میں ابتدائی تحقیقات، اوسلو مذاکرات کے دوسرے دور کے متعلق معلومات کا افشا اور اس کے بعد وہ کارروائی جس میں 7 نومبر 2012کو ترکی خفیہ کو نشانہ بنایا گیا اورایک گفتگو میں آپ نے کردوں کو اپنی زبان کے استعمال کا حق ہونے کا بھی تذکرہ کیا۔ کیا جس مسئلے کی آپ مخالفت کرتے ہیں وہ دہشت گرد تنظیم ’’کردستان مزدور پارٹی‘‘ سے جاری مذاکرات ہیں؟
جواب: اس تنظیم’’کردستان مزدور پارٹی‘‘ سے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ اس میں ہمارے خیال میں کوئی برائی نہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ریاست کے وقار اور مرتبے کا خیال رکھا جائے ورنہ تاریخ میں وہ وقت آئے گا جب مذاکرات کاروں کے بارے میں کہا جائے گا کہ یہ ’’ریاست کے اندر ریاست ہے‘‘ ، یعنی آپ ان سے ملے اور ’’متوازی ریاست ‘‘ سے معاملات طے کئے۔ میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا کیونکہ اس آدمی (عبداللہ اوحلان) کو بچوں کے قاتل اور دہشتگرد کے نام دئے گئے۔ پھر جب حکومت نے اس کو گرفتار کیا تو بھی اسے ایک دہشت گرد کے لحاظ سے گرفتار کیا اور اسے ترکی لے آئی ۔ اس زمانے کی عدالتوں نے اسے قید کی سزا دی۔ یہ حکومت اس وقت موجود نہیں تھی۔ گزشتہ حکومت نے اسے جیل میں ڈالا۔
ہم نے ان لوگوں کے خلاف کوئی سرگرمی نہیں کی لیکن وہ ہمارے خلاف کررہے ہیں اور خصوصاً ان دنوں میرے خیال میں موجودہ ترکی حکومت اس علاقے میں ا پنے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے اس علاقے کے باشندوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ اس لئے ان کے ساتھ نرمی اور تعاون کا اظہار کرتی ہے اور یہ کوشش کررہی ہے کہ اس کی قیمت وہ گروہ چکائے جس کو ’’جماعت ‘‘ ، ’’معاشرہ‘‘ یا ’’تحریک ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
اس بارے میں میں نے کوئی بیان نہیں دیا لیکن انہوں نے ایک وقت اسے دہشت گرد کہا اور اسے عمر قید کی سزا دے دی بلکہ اس وقت اسے پھانسی دینے کے بارے میں بھی بحث ہوئی لیکن سزائے موت کے بارے میں یورپی یونین کے سخت موقف کی وجہ سے یہ حکم نافذ نہ کرسکے ، یہاں تک کہ قومی تحریک پارٹی نے اس پر احتجاج بھی کیا جبکہ انصاف و ترقی پارٹی کا موقف بھی قومی تحریک جیسا تھا لیکن بعد میں ان کا موقف بدل گیا۔ کیوں؟ اس کا جواب مجھے معلوم نہیں۔ کیا اس لئے کہ اہل علاقہ سے نرمی کا اظہار کرکے انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھائیں؟ اگر میں یہ کہوں تو یہ بدگمانی ہوگی۔
علاقے کے لوگوں کا خیال رکھنے سے ان کو تکلیف ہوئی
حقیقت یہ ہے کہ جمہور یہ ترکی، کردوں ، ترکوں ، لاز، چرکس اور ابخازیوں سب کے ہمراہ ایک قوم ہے۔ وہ سب کے سب اناطولیہ کے باشندے ہیں ۔ ہم یہ اصطلاح اکثر و بیشتر استعمال کرتے رہے ہیں۔ ہماری ادبیات میں اس مفہوم کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ یہ ہمارے اتحاد اور ہم آہنگی کو بیان کرتا ہے۔ ہم نے اوسلو مذاکرات کی کبھی مخالفت نہیں کی اور نہ کردستان مزدورپاٹی کے آدمی( عبداللہ اوجلان) سے ملاقات سے ا ختلاف کیا جو جزیرے میں موجودہے اور نہ ہی پہاڑوں پر موجود مسلح گروہوں سے مذاکرات سے اختلاف کیا۔ اس فقیر نے تھوڑا عرصہ قبل ایک انٹرویو میں عرض کیا تھا ’’ صلح اصل اور ۔۔۔ ایک دوسرے سے موافقت بنیاد ہے‘‘ اور مشرقی علاقے کے جو لوگ ان افکار کا احترام کرتے ہیں شاید وہ 80% ہیں۔ جو لوگ ان افکار کی مخالفت کرتے ہیں ان میں پہاڑوں پر رہنے والے مسلح گروہ اور وہ لوگ ہیں جو ایران یا شامی حکومت سے متاثر ہیں۔ صرف یہی لوگ ان افکار سے پریشان ہوتے ہیں۔ یعنی جمال بایک کو تکلیف ہوتی ہے، فہمان حسین کو تکلیف ہوتی ہے اور ایران میں موجود بیجاک نامی تنظیم سے وابستہ مسلح گروہ اس سے تنگ ہوتے ہیں۔ اس تکلیف کا سبب کیا ہے؟ سبب یہ ہے کہ ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ ’’ تم کردی شناخت کو ختم کرنا چاہتے ہو‘‘ جبکہ میں اس بات کو بیان کرچکا ہوں اور بارہا حوصلہ افزائی کرچکا ہوں اور جو متعلقہ لوگ مجھ سے ملنے آئے ان کو نصیحت کی کہ ٹی وی پر کردی زبان میں درس ہونے چاہئیں اور ایک ایسا چینل قائم کیا جائے جو ان کو مخاطب کرے۔ اسی طرح اسکولوں میں کردی زبان کو اختیاری مضمون کے طورپر پڑھایا جائے۔ جامعات میں بھی اس کی تعلیم دی جائے۔ اس علاقے کے بارے میں سارے معقول اور ضروری افکار ہم نے پیش کئے ہیں۔ اگر ہم ان کو یکجاکرنا چاہیں تو ایک پوری کتاب تیار ہو جائے لیکن مجھے سمجھ نہیں آتا کہ تحریک کی بدنامی اور علاقے کے لوگوں کے سامنے اسے شیطان کے طور پر پیش کرنے کا سبب کیا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے ایک جانبدار گروپ نے ہمیں نشانہ بنایا اور یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ ’’خدمت‘‘ امن کے عمل کی مخالف ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اوجلان ان خدمات سے ناراض ہیں جو ہم اپنے ہموطنوں کو اس علاقے میں فراہم کررہے ہیں یعنی وہ تربیتی اسکولوں اور ثقافتی مراکز بنانے سے مایوسی کا شکار تھے کیونکہ یہ ادارے پہاڑوں پر جانے کا رستہ روکتے ہیں ۔وہ ہماری جانب سے غریبوں کی مدد سے ناراض تھے ۔ پہاڑوں پر رہنے والے مسلح گروہ ناراض تھے، شامی کردوں کے مسلح گروہ تنگ تھے ، شامی اتحادی ڈیموکریٹک پارٹی کے لوگ تکلیف میں تھے اور ایران میں بیجاک کے مسلح گروہ پریشان تھے ۔ ان کی خواہش ہے کہ پہاڑوں پر جانے کا رستہ کسی طرح نہ رکے۔ اس وجہ سے ان کو ہر اس چیز سے تکلیف ہوتی ہے جو قوم کو جوڑتی اور ترکوں اورکردوں میں اخوت اور اتحادپیدا کرتی ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ترکوں کے خلاف نفرت دلوں میں برقرار رہے اور ایسا کوئی کام نہیں چاہتے جس سے کسی بھی طرح امن اور باہمی محبت کا رستہ ہموار ہوسکے۔
سوال: اگر انتخابات کے دنوں آپ ترکی میں ہوں تو کیا انصاف و ترقی پارٹی کو ووٹ دیں گے یا اگر اردوغان صدارتی امیدوار ہوں تو ان کو ووٹ دیں گے؟
جواب: میری پوری زندگی میں ایک ہی بار ووٹ دینے کا موقع آیا ہے کیونکہ میں یا تو جیل میں ہوتا تھا، یا پھر مطلوب ہوتا تھا یا اپنے حقوق استعمال کرنے سے محروم ہوتا تھا۔ اس لئے میں نے صرف ایک بار ووٹ دیا۔ اس وقت تورغت اوزال مرحوم صوبہ ازمیر سے پارلیمنٹ کے امیدوار تھےاور اس وقت ان کا تعلق نجم الدین ا ربکان کی جماعت سے تھا۔ اس وقت یشارتوناکور بھی ایک اہم شخصیت تھے۔ جس وقت میں ادرنہ شہر میں امام تھا وہ وہاں کے مفتی تھے۔ دونوں ازمیر سے پارلیمنٹ کے امیدوار تھے ۔ ان انتخابات میں میں نے ووٹ ڈالا اور ان دونوں کو ووٹ دیا ۔ اس کے بعد ووٹ ڈالنا میرے نصیب میں نہیں تھا لیکن میں کبھی بھی اس بات کے خلاف رہا ہوں اور نہ ووٹ ڈالنے کی مخالفت کی ہے۔ میں نے کبھی بھی ان کے بائیکاٹ کا ا رادہ نہیں کیا بلکہ یہ ایک جمہوری حق ہے اور میں سب کے لئے یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ اس حق کو استعمال کریں۔
آج ،گزشتہ ریفرنڈم کے برخلاف میں کچھ بھی کہنے کا نہیں سوچ رہا ۔ ریفرنڈم ایک مسئلہ تھا لیکن اگر کوئی بات کہنی ضروری ہوئی تو میں کہوں گا :’’ اس شخص کی تائید کریں جو حق، حقوق اور ان کی پاسداری کے لئے سینہ مرد کی طرح کھڑا ہو، اس کی حمایت کریں جو سچا اور راست باز ہو، اس کا ساتھ دو جو جمہوریت کی قدر کرے۔ اس کی پشت مضبوط کرو جو پڑوسیوں کے ساتھ اچھا تعلق رکھے۔‘‘ اگر مجھے کچھ کہنا پڑا تو میں یہی کہوں گا لیکن میں یہ کہوں گا یا نہیں؟ اس بارے میں میں سوچوں گا ۔ مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو ووٹ دو جو ان اوصاف کا حامل ہو۔ رہی بات کسی پارٹی کا نام لے کر اس کی تعیین ، سو میں اس کو اپنی جانب سے لوگوں کی فراست، ان کی عقل، سمجھ اور فہم کی توہین سمجھتا ہوں۔ سب لوگ ہر شے کھلے طورپر دیکھ رہے ہیں۔ اس لئے کسی کو بھی کسی خاص شخص کا انتخاب کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
سوال: آپ پوری دنیا کی سطح پر مختلف ادیان کے بیچ گفتگو کی بات کرتے ہیں جبکہ ترکی میں اہل سنت ا ور علویوں کے درمیان زبردست خلیج حائل ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کے ’’مسجد کے ساتھ دارالجمع‘‘ والے منصوبے کا تعلق1995ء سےہے لیکن جب اس منصوبے کو عمل میں لایا گیا تو کچھ علویوں نے شناخت کے ختم ہونے کے اندیشوں کا اظہار کیا۔ آپ علویوں کے ان اندیشوں کا جواب کس طرح دیں گے؟
جواب: میں سمجھتا ہوں کہ تمام علوی اس طرح نہیں سوچتے بلکہ بعض اس تجویز کو قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں خصوصاً ترکی کے بعض معروف علوی مثلا پروفیسر عزالدین روغان ۔ میری ان سے معرفت کئی سالوں پر پھیلی ہوئی ہے ۔ ہم نے بارہا ملاقاتیں کیں۔ میں ان سے ملنے ان کے گھر گیا اور وہ بھی میری ملاقات کو آئے ۔ ہم نے اس وقت آپس میں کہا کہ اس طرح کے منصوبے کو بے شک کئی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ ہمیں یقین تھا کہ یہ تجویز ہمارے اور ہمارے علوی بھائیوں کے درمیان وحدت اور باہمی محبت پیدا کرنے کے لئے نہایت اہم ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم غلط ہوں کیونکہ انسان کسی بھی چیز میں غلطی کرسکتا ہے لیکن بہت سے لوگوں نے اس منصوبے کو پسند اور اس تجویز کی تائیدکی۔
جی ہاں، کچھ لوگوں نے شناخت ختم ہونے کی بات بھی کی مگر یہ وہ لوگ تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سرے سے جانتے ہی نہیں اوران کو عام طورپر ’’بغیر علی کے علوی‘‘ کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق حضرت علی صرف ایک علامتی ہیرو ہیں جنہوں نے کچھ کاموں کے خلاف بغاوت کی اس لئے احترام اور محبت کے مستحق ہیں مگر یہ بات کہ حضرت علی مسلمان تھے اوران کے افکار، یوں یوں تھے، اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ان مسائل کی ہمارے لئے قطعاً کوئی اہمیت نہیں ۔
مخالفت کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق انہی لوگوں سے تھا۔ میرا خیال ہے کہ ایک دن آئے گا جب یہ لوگ بھی اس مخالفت پر پچھتائیں گے ۔ کیوں؟ کیونکہ ’’مسجد کے ساتھ دارالجمع‘‘ والی تجویز کسی کو اپنے اندر لینے کے لئے یا کسی کی شناخت کو ختم کرنے کے لئے نہیں تھی لیکن حقیقت واقعہ یہ ہے کہ کچھ سالوں سے اہل سنت کو بعض اندیشوں کی تعلیم دی گئی کہ: ’’ علوی آئیں گے اور تمہیں آدم خوروں کی طرح کھا جائیں گے‘‘ ۔ اسی طرح علویوں سے کہا گیا کہ :’’ اہل سنت تمہیں آدم خوروں کی طرح کھا جائیں گے۔‘‘ چونکہ ترکی ریاست نے ان کے خلاف 1938اور 1939میں بعض پرتشدد کارروائیاں کی تھیں خصوصاً درسیم کے واقعات جو گہرے گھاؤ لگانے کا سبب بنے اور اس کے نتیجے میں ان لوگوں نے ان غلط اقوال اور افکار کو قبول کرلیا۔
وقت ہمیں علویوں اور اہل سنت میں اخوت دکھائے گا ۔ اس منصوبے کے مطابق ، جو شخص مسجد جا کر نماز پڑھنا چاہے تو پڑھ لے اور جو دارالجمع جا کر سماع کی رسوم ادا کرنا چاہے تو کرلے ۔ پھر جب وہ لوگ باہر نکلیں گے تو ایک ہی جگہ آپس میں ملیں گے ۔کھانا ایک ساتھ کھائیں گے، چائے پئیں گے اور ایک ساتھ بیٹھیں گے تو سب دیکھیں گے کہ وہ ایک دوسرے کو نہیں کھا رہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ ایک دوسرے کو کھانے کی سوچ لاشعور میں پختہ ہوگئی ہے جس کو لوگ اپنے خوابوں میں دیکھتے ہیں اور اٹھتے بیٹھے اس کے خواب دیکھتے ہیں ۔ یہ اندیشے کہاں تک درست ہیں؟ یہ بات ہمیں وقت بتائے گا۔
علاوہ ازیں اس قسم یعنی ’’مسجد کے ساتھ داراالجمع‘‘ کی تجویز بیس سال قبل بھی پیش کی گئی اور ذرائع ابلاغ نے اس کو نشر کیا۔ یعنی یہ موضوع کوئی نیا یا اچھوتا نہیں ہے بلکہ وہ ذرائع ابلاغ کے لئے ایک اہم موضوع بن گیا اور شاید یہ بات اس کے لئے مفید بھی تھی۔ اس لئے اس جیسا ایک اور منصوبہ بھی پیش کیا جاسکتا ہے ۔ اگر یہ منصوبہ انقرہ میں ہو تو اسے ازمیر میں بھی بروئے کار لانے کا سوچا جاسکتا ہے
اور استنبول میں بھی ۔ پکی بات ہے کہ بعض لوگ یہ منصوبہ وہال پر بھی نافذ کرنے کی کوشش کریں گے جہاں ہمارے علوی بھائیوں کی اکثریت ہے اور ان کو وہ وسائل فراہم کئے جائیں گے جو دینی امور کے ادارے کو حاصل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے بڑے آئیں گے ، اس کام کی نگرانی کریں گے اور ان کی تنخواہیں ہوں گی اور وہ اپنے رسم و رواج کو ادا کریں گے اور ان کو وہاں پیش کریں گے۔ اس تجویز کا مقصد اس اخوت کو زمین کے اوپر قائم کرنا تھا جبکہ کسی کو اپنے ساتھ ملانے یا کسی کی شناخت کو ختم کرنے کی سوچ کسی کے ذہن میں نہیں تھی۔
مزید برآں ، چونکہ علوی حضرت علی سے محبت کا دم بھرتے ہیں اس لئے فارسیوں نے بارہا اس نقطہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ۔ چنانچہ وہ لوگوں کو ترکی سے قم لے گئے اور جو وہاں سے واپس آیا اپنے دل میں ترک معاشرے کے لئے نفرت لے کر آیا حالانکہ اناطولیہ کے علوی اور ایران کے شیعہ میں بہت فرق ہے کیونکہ ترکی میں علوی ہمارے ان اقدار کا احترام کرتے ہیں جو ایک ہزار سال سے بھی زیادہ پرانے ہیں۔ اسی طرح ان کے بھی اپنے رسم و رواج ہیں جو مولانا جلال الدین رومی کے ہاں سماع کی رسم سے مشابہت رکھتے ہیں جبکہ ہمیں چاہیے کہ ہم ان فروق کو سبب نزاع کے طورپر نہ دیکھیں بلکہ ان کا احترام کرنا چاہیے۔ رہی بات اوہام اور اندیشوں کی، تو وقت ان کے درست ہونے نہ ہونے کا اظہار کرے گا۔ وقت ثابت کرے گا کہ ہم میں سے کوئی بھی قطعاً دوسرے کی شناخت ختم کرنے کے درپے نہیں۔
سوال: تحریک خدمت کے اہداف کی عدم شفافیت کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ مزید وضاحت کے لئے سوال ہے کہ آپ کی ترکی کے بارے میں سوچ کیا ہے؟ اگر ہم بالتحدید ترکی پر توجہ دیں، تو آپ کے خیال میں ترکی کو کون کونسی مشکلات درپیش ہیں اور آپ ان کا کیا حل تجویز کرتے ہیں؟
جواب: شاید سب سے زیادہ جلدی ان موضوعات کی ہے جو اس وقت تک اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں جیسے لڑائی جھگڑے، اختلافات اور تفرقہ ۔ بعینہ ان نقاط کو اس عظیم انسان( بدیع الزمان سعید نورسی) نے مشروطیت کے زمانے (یعنی پارلیمنیٹری سلطنت 1908) میں بیان کیا تھا۔ ہم تین امراض سے دوچار ہیں:
اول ایسے اختلافی افکار جن کی بنیاد کسی معقول اور منطقی مفہوم پر ہے اور نہ ان کوئی درست بنیاد ہے لیکن لوگ ان کو ایک دوسرے کو کھانے کے لئے چھیڑتے ہیں ۔ اس مرض کو دور کرنا ضروری ہے ۔ اس لئے اگر اس کو ’’مسجد کے ساتھ دارالجمع ‘‘ جیسی تجاویز کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہو تو تمہارے اوپر ایسا کرنا لازم ہے اوراگر اس ترکی کردی جھگڑے کو ختم کرنا ہو تو یہ کام تعلیمی ،تربیتی اور دیگر سرگرمیوں کے ذریعے ہوگا جو ان کو ان ہاتھوں سے نجات دلائیں جو ترکی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں تم وہ سرگرمیاں انجام دو گے۔
اس کے بعد غربت کا مسئلہ ہے ۔۔۔ یہ مسئلہ بھی خلافت عثمانیہ کے آخری زمانے میں ذکر کیا گیا۔ اسے بھی ختم کرنا چاہئے کیونکہ یہ بھی ایک مرض ہے۔ اس کے بعد ناخواندگی کا مسئلہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ تین امراض ہیں جن کے خلاف اس عظیم ا نسان نے اس زمانے سے اعلان جنگ کرنے کو ضروری سمجھا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج بھی حالت ماضی سے مختلف نہیں ہے۔ جھگڑے، جہالت، وہی مشکلات، غربت اور ایسے گروہوں کا وجود جن کا حق مارا جاتا ہے ۔ اس کو درست کرنے اور تلافی کی ضرورت ہے۔
دوسری شمع روشن ہونے سے پہلی کی روشنی کم نہیں ہوتی
آج حالات اور واقعات کے اختلاف اور تغیرات کے لحاظ سے مختلف اسالیب اور طریقوں کو کام میں لایا جاسکتا ہے۔ اس زمانے میں اسکولوں، ثقافتی مراکز اور دیگر اداروں کے قیام کا خیال دل میں نہیں آسکتا تھا ۔ اس لئے اصل یہ ہے کہ آج کے حالات اور مقتضا ئے حال پر نظر کی جائے اور پھر اس رخ پر کوشش کی جائے۔ رہا اس فقیر کا کردار، تو وہ حوصلہ افزائی سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طورپر جب (1989) میں روس کا شیرازہ بکھر گیا تو ہمیں معلوم ہواکہ وسطی ایشاء میں ہماری قوم سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ ہیں کیونکہ ہماری جڑیں وہاں سے ملتی ہیں ۔ ہم میں سے بعض ازبکستان سے آئے ہیں اور بعض ترکمانستان وغیرہ سے۔ تو ہم نے کہا کہ ان لوگوں کا ہمیں خیال رکھنا چاہیے ۔چنانچہ شروع میں پانچ یادس آدمی گئے ہوں گے ۔ اس کے بعد ایک رستہ کھل گیا اوران کے پیچھے دوسرے لوگ گئے پھر اور لوگ گئے اور بعد ازاں محبت کی مشعلوں کے ہمراہ دنیا کے کونے کونے کی طرف ہجرتیں ہونے لگیں ۔ اللہ کے حکم اور فضل اور مولانا جلال الدین رومی کے قول کے مطابق ایک شمع کے جلنے سے دوسری کی روشنی میں کوئی کمی نہیں آتی۔ یعنی اگر ہمارے پاس ایسے اقدار ہیں جن سے دوسروں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے تو ہمیں یہ اقدار ان تک پہنچانے چاہئیں کیونکہ ہمارا دروازہ لینے دینے کے لئے کھلا ہے۔ چنانچہ مختلف افکار سے وابستہ بہت سے لوگوں نے اس سوچ کو خوش آمدید کہا اور حیران کن تجاویز پیش کیں ۔ کچھ نے کہا کہ ’’میں ایک یونیورسٹی بنا کر اس میں حصہ ڈالونگا‘‘۔ کسی نے کہا’’ میں اسکول بناؤں گا‘‘ اور اس طرح کام چلتے رہے ۔
سوال: بعض شخصیات خواہ ان کا تعلق ’’خدمت تحریک‘‘ سے ہو یا دوسرے فریق سے ، وہ یہ کہتے ہیں کہ اس وقت جاری کشمکش صدارتی انتخابات تک کم نہیں ہوگی اور اس وقت تک صلح نہیں ہوگی۔ اس بنیاد پرآپ ترکی اور ’’خدمت‘‘ کے مستقبل قریب کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: تھوڑی سی مدت میں پیدا ہونے والی کشمکش اور بغض و عداوت کی آگ کو بجھانا مشکل ہے کیونکہ اس سے بعض بے گناہوں کی عزت کو بٹہ لگایا گیا اور ان کی توہین ہوئی ہے۔ اس کے اثرات کو ایک دم ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شے کو اس کی سابقہ ترتیب اور ہم آہنگی کی طرف لے جانا بڑا مشکل ہے لیکن میں کبھی بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ اس لئے مجھے یقین ہے کہ یہ بات دوبارہ ممکن ہے ۔ وہ خط، آخری خط ، جو اس رخ پر تھا، میں نے ایک دوست کے ہاتھ بھیجا جسے صدر جمہوریہ نے میرے پاس بھیجا تھا۔ یہ جناب فہمی کو رو تھے جن کو میں ان کی تعلیم کے ابتدائی دنوں سے جانتا ہوں اور آپ بھی جانتے ہیں۔ انہوں نے اس خط کا خیر مقدم کیا اور جناب صدر جمہوریہ نے بھی اس کا خیر مقدم کیا لیکن مجھے معلوم نہیں کہ شاید خط میں صدر جمہوریہ کو مخاطب کرنے سے وزیراعظم کو تکلیف ہوئی یا ان کو یہ بات اچھی نہ لگی کہ تمام فریق ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک دورسے پر سب و شتم روک دیں۔ مجھے نہیں معلوم۔ وزیر اعظم نے اس بارے میں کھل کر بات کی۔ انہوں نے ایک ملاقات میں بات کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے حاشیہ بردار ’’ہمایونی‘‘ یعنی سلطانی مشیر ہیں یہ نام سلطان کے حاشیہ برداروں کو دیا جاتا تھا۔ میرا گمان ہے کہ ان کے مشیر مسائل کو دوسری شکل میں ان تک پہنچاتے ہیں کیونکہ میں کسی پر توازن کھو دینے یا پاگل ہونے کا الزام قطعاً نہیں لگا سکتا۔ میرا دل ، میرا وجدان، یامیری زبان اس طرح کی کوئی بات کہہ ہی نہیں سکتی لیکن میرا گمان ہے کہ ان کے مشیران کا رخ اس چیز کی طرف موڑتے ہیں جو ان کو بھڑکاتی اور غصہ دلاتی ہے۔
ہمارے پاس صبر ہے اور ہم صبر کی کوشش سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
ابھی تک مجھے یقین ہے کہ یہ طوفانی ہوائیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے رک جائیں گی۔ اگر ضرورت ہوئی تو ہم خاموشی اختیار کرلیں گے یہاں تک ہم اس سے بھی دور کا رستہ نکال لیں۔ پچھلے سال کہا گیا کہ 140 ملکوں میں سکول کھولے گئے یعنی ان کے ساتھ محبت اور دوستی کا تعلق قائم کرلیا گیا۔ اس کا مشاہدہ ہم نے ترکی زبان کی بین الاقوامی تقریب میں حیران کن انداز سے کیا ۔ کوئی بھی ان خدمات کا انکار نہیں کر سکتا بلکہ سب کہتے ہیں کہ یہ زبردست ہیں۔ اگر وہ (حکومت) چاہے تو ان اسکولوں کو بند کرسکتی ہے۔ اگر ریاست چاہے تو وہ ان کو بند کرسکتی ہے بلکہ بند کرا بھی سکتی ہے ۔ میں ان کو صرف یہ مشورہ دوں گا کہ ان کو بند نہ کریں بلکہ ان کو لے لیں اور ان کا خیال رکھیں اور چاہیں تو اس وقت وہاں کام کرنے والے اساتذہ کو وہاں سے الگ کردیں۔
ماضی میں یہی بات میں جرنل ’’جویک بیر‘‘ کو کہہ چکا ہوں۔ اس طر ح حالیہ حکام کو بھی اس طرح کی خبریں کئی بار بھجوا چکا ہوں۔میں نے ان سے کہا: ’’ اگر آپ چاہیں تو ان میں مدرسین اور صدر مدرسین متعین کریں‘‘ کیونکہ یہ اسکول ترکی کے دنیا کے سامنے کھلنے کی علامت ہیں جبکہ ہماری قوم ماضی کے مختلف زمانوں میں بھی اعلیٰ انسانی اقدار کی ترویج کے لئے اس طرح کے کام کرچکی ہے۔ یہ بھی ان کاموں میں سے ایک کام ہے۔ یہاں تک کہ سلطنت عثمانیہ کو بھی ایسی کامیابی حاصل کرنے کی توفیق نہیں مل سکی حالانکہ اس کا رقبہ بہت بڑا تھا جس میں تقریباً بیس کروڑ لوگ بستے تھے۔ دیکھئے 160سے زیادہ ملکوں میں ایسے افراد پیدا ہوچکے ہیں جو وہ کام کرتے ہیں جو سفارتخانے اور ملکوں کے نمائندے کرتے ہیں۔
اس طرح ان میں سے بعض ہم مناصب تک بھی پہنچے ۔ ہوسکتا ہے کہ ہم ان کو وہ بلیغ حکمت یاد دلائیں کہ ’’تم جب تک دنیا میں ہر جگہ موجود نہ ہو اس جگہ تک نہیں پہنچ سکتے جہاں ہونا چاہتے ہو۔‘‘ یہ مسائل بڑی اہمیت کے حامل ہیں خصوصاً آج کی دنیا میں۔ اس لئے غیرت اور حسد کے جذبے سے یا اس وجہ سے کہ بعض لوگوں کا تعلق فلاں یا فلاں سے ہے، ان کو بند نہ کرو بلکہ ان کا خیال کرو۔ یعنی ان کو لے لو، یہ تمہارے ہوجائیں ، تم خود اس میں مدرسین اور صدر مدرسین لگاؤ اوران کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے دو۔ پس جس طرح ’’جو یک بیر‘‘ اور فوجی17 سال قبل کوئی مثبت جواب نہ دے سکے، ان لوگوں نے بھی کوئی مثبت جواب نہ دیا۔ ہمارے سامنے تمام رستے کھلے ہیں۔ یہ خدمات ایسی ذمہ داری ہیں جن کو انسانی اخلاق کے احترام کے لئے بجا لانا ضروری ہے خواہ ان کو بجا لانے والا کوئی بھی ہو۔ اس کو خوش آمدید کہنا چاہیے یہ ایک ایسی اچھی خدمت ہے جس کے ابتدائی بیج ان بھائیوں،محبین اور ہم خیال لوگوں نے بوئے ہیں جبکہ ہماری سوچ وہی ہے جو نہیں بدلی کہ:’’ تم بیج بو کر چلے جاؤ اور یہ بات چھو ڑ دو کہ ان کا پھل کون چنتا ہے ‘‘ کیونکہ جو بھی ہو گا وہ پھل چنے گا۔ یہی ہمارا فلسفہ ہے۔ ہمارا صرف اور صرف ایک مقصد اور فکر ہے کہ ہم وہ کام کرجائیں جو ہماری قوم اورپوری انسانیت کے درمیان تعلق قائم کرنے کے لئے کرنا چاہیے ۔ ’’فکر‘‘ کے اس مفہوم کو ہماری ادبیات میں ’’ضیاء کوک الپ ‘‘ نے شامل کیا اوراسے’’ خیال کا ہدف ‘‘ اور فرانسیسی زبان میں ’’ادیال‘‘ یعنی اعلی مقصد کا نام دیا۔ اس لئے ہم اس ’’خواب نما مقصد‘‘ کی طرف چلنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہم اپنی قوم اورانسانیت کی عزت کی خاطر آگے بڑھنے کی سعی جاری رکھیں گے۔
- Created on .