فتح اللہ گولن کی دعوت اور سیاست
جناب فتح اللہ گولن نے اپنے ہدف کو پہچان لیا ہے اور اپنی منزل متعین کرلی ہے۔ اس لئے ان کو معلوم ہوگیا ہے کہ ان کو اپنی منزل تک رسائی کے لئے سیاسی کام کی ضرورت نہیں بلکہ اگر ان کی دعوت سیاست میں داخل ہوجائے تو بہت دفعہ اسے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جناب فتح اللہ گولن نے اپنے مقصد کو دعوتی، سائنسی اور تہذیبی منصوبہ بنایا ہے جبکہ ان سب امور کے لیے کسی سیاسی سرگرمی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ سیاسی سرگرمیاں اگر ان کو برباد نہ بھی کریں تو ان میں رکاوٹ ضرور ڈالتی ہیں۔ جناب فتح اللہ گولن کو سیاست سے جو چیز مطلوب ہے وہ صرف یہ ہے کہ ان کو اس ایمانی، علمی اور تہذیبی دعوت کا کام کرنے دیا جائے جو ان کو مطلوب ہے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش ایک ایسا سیاسی ماحول ہے جو ان کو دور کرنے میں وحشت کا مظاہرہ نہ کرے ۔ وہ سیاستدانوں سے ایک طرح کی آزادی کے علاوہ کسی چیز کے طالب نہیں ۔ ان کو بس اتنی آزادی مطلوب ہے جو ان کو علم اور شعور کو پھیلانے کا موقع فراہم کرے۔ اگر چہ ان کی دعوت نے لادین استبدادی ماحول میں تقریباً پچاس سال قبل اپنا رستہ بنا لیا تھامگر ان کا ایمان ہے کہ جب بھی تصحیح اور اللہ کی جانب دعوت کا ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کوئی دوسرا دروازہ کھول دیتا ہے کیونکہ دین، اللہ کا ہے اور انسان بھی اس کے بندے ہیں جن کو وہ ہدایت اور سعادت دینا چاہتا ہے۔ جناب فتح اللہ گولن نے اس بات کو محسوس کرلیا ہے کہ سیاست اور پارٹی بازی ان کی دعوت میں بھی سیاسی لالچ اوراعلی اہداف سے ملادینے والے عیوب اور سیاست کے خاتمے کے ساتھ اس کو بھی ختم کردینے والے اندیشوں کا نشانہ بنا دے گی۔ پھر یہ عیوب اور اندیشے ان مصلحتوں سے بھی خالی تھے جو ان کے دعوتی، علمی اور تہذیبی مقصد کے لئے فائدہ مند ہوتے، تو ان کو معلوم ہوگیا ہے کہ ان میں کوئی بھلائی نہیں۔ اس لئے انہوں نے بطور ایک سیاسی جماعت ، میدان سیاست سے کنارہ کشی کرلی لیکن اپنے ملک کے ایک شہری ہونے کے لحاظ سے اس سے دور نہیں رہتے جبکہ ترکی کا باشندہ ہونے کے لحاظ سے ان سے یہ مطلوب بھی ہے کیونکہ ہر شہری کو اپنے ملک کے قوانین کے مطابق اس کی تعمیرو ترقی میں حصہ لینے کا حق ہے ۔ اس لئے ان کی دعوت اور تحریک خدمت سے منسوب کچھ عہدیدار ترکی میں موجود ہیں۔
اسی طرح سیاسی پارٹی بازی اور سیاسی لالچ اس دعوت کے منتظمین اور اس کے دعوتی، علمی اورترقی کے کاموں میں مصروف لوگوں کے لئے سرخ لکیر ہے۔ اس لئے اس تحریک کے نام پر یا اس کی خاطر کوئی پارٹی بنائی جاسکتی ہے اورنہ سیاسی مقاصد کے لئے کام کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ اس کو بالکل مسترد کرتی ہے اوراپنے ہدف کے بارے میں اپنی سوچ کی وجہ سے ایسا چاہتی بھی نہیں۔ اس کا ہدف سیاسی پارٹی بازیوں کی خدمت کرتا ہے اور نہ عہدوں اور سیاسی رہنماؤں کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ موقف سیاسی سرگرمیاں رکھنے والی اسلامی جماعتوں کو پسند نہیں لیکن تحریک’’خدمت‘‘ کی سوچ یہی ہے اور دینی نعروں کے سائے میں سیاسی پارٹی بازی کو مسترد کرتی رہے گی لیکن اس کے باوجود وہ دیگرافکار کے اندر مداخلت کرتی ہے اورنہ اپنے مخالفین سے صراحۃ ً دشمنی مول لیتی ہے اور نہ ان سے زبانی کلامی جھگڑوں میں پڑتی ہے کیونکہ وہ ان کاموں میں کوئی فائدہ نہیں سمجھتی۔ جناب فتح اللہ گولن کی تحریک کی قوت کا سبب سے بڑا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات اوراس کے بعد سیاست سے مکمل کنارہ کشی ہے۔ اس سیاسی کنارہ کشی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ سیاسی ماحول سے دور نہیں کیونکہ یہ بات شعور سے دوری اور ایسی جہالت ہے جو اس دعوت کے شایان شان نہیں جس کا مقصد اصلاح اور آگہی پیدا کرنا ہے۔ ہاں سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ضرور ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاسی ماحول کے تصور کو گہرا کرتی ہے تاکہ اس سے غافل نہ ہوجائے اور سیاسی ماحول سے ٹکرا نہ جائے جس سے اس کی کوششوں کو نقصان پہنچے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا جماعت کو اس میں کامیابی ہوئی کہ سیاست اس کی کوششوں میں رکاوٹ نہ ڈالے۔
پروفیسر ڈاکٹر الشریف حاتم العونی، سعودی عرب
- Created on .