دنیا ولادت کی گھڑی میں ہے
حالیہ دور میں سارا عالم اسلام عقائد،اخلاق،طرزفکر،علوم،صنعت،رسم و رواج اور سیاسی و معاشرتی حالات کے لحاظ سے اپنی تاریخ کے سنگین ترین بحران سے گزر رہا ہے۔
مسلمانوں کو ناقابل تصور حد تک کامل ترین حکومت قائم کرنے میں کامیابی ہوئی تھی۔یہ وہ دور تھا جب وہ سارے اہل مذاہب سے بڑھ کر اپنے دین سے وابستہ تھے۔وہ سب سے بڑھ کر اخلاق کا التزام کرنے والے تھے۔ان کے رسم ورواج سب سے بہتر تھے اور وہ اپنے سیاسی و معاشرتی آفاق اور فکری نظاموں کی وسعت کی بدولت دنیا کی قیادت کرنے کے سب سے زیادہ اہل تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی زندگی دین کے عین مطابق تھی،ان کے اخلاق اعلیٰ درجے کے تھے،ان کی عقل علم سے مزین تھی اور وہ ہر دور میں سب سے آگے آگے رہتے تھے۔انہی خصوصیات کی بدولت وہ تین ستونوں الہام،عقل اور تجربے پر قائم اپنے نظام حکومت کو کوہ پائرینیز (Pyrenees) سے لے کر بحرہند تک،قازان سے لے کر صومالیہ تک اور Poitiers(۲) سے لے کر دیوارِچین تک پھیلانے میں کامیاب ہوئے۔انہوں نے اس وسیع رقبے میں آباد اقوام کو مثالی نظام حکومت کے ذریعے نئی زندگی بخشی،جس کے نتیجے میں زمین کا یہ حصہ اس دور میں گلزارِارم بن گیاجبکہ باقی دنیا تاریک ترین دور سے گزر رہی تھی۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ عالم اسلام تاریخی عوامل اور صدیوں تک اسے بلند رکھنے والی اسلامی اقدار سے دور ہو کر جہالت،اخلاقی بے راہ روی، خرافات اور جسمانی خواہشات کا اسیر بن گیا ہے،جس کے نتیجے میں وہ تاریکی اور نقصان کی کھائی میں مسلسل گرتا چلا جا رہا ہے۔وہ ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں یا اکھڑی ہوئی جلد والی کتاب کے صفحات کی مانند بکھر رہا ہے۔اس کی عزت کو پامال کیا جا رہا ہے اور اس کی بنیادیں متزلزل ہیں۔اس کی کوشش اکارت اور اس کی جدوجہد بے ثمر ہے۔ہزاروں قسم کے اختلافات کی وجہ سے اس کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔وہ بے وقوفی کی حد تک حیران و سرگرداں ہے،کیونکہ اس کا دل بدترین قسم کی اسیری پر دکھ سے پھٹ رہا ہے،لیکن اس کے باوجود وہ آزادی کے نغمے گا رہا ہے۔اس کی اناپرستی شخصیت سے محروم ہے۔اس نے اللہ اور اس کے رسول اللہﷺکی نافرمانی پر کمر کسی ہوئی ہے اور ممنوعہ افکار کو اپنا کر علم بغاوت بلند کیا ہوا ہے،حالانکہ اس کے بدحالی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اور ممنوعہ افکار اختیار کرنے کی وجہ سے وہ مصائب کا شکار ہے، تاہم بیرونی چوروں اور اندرونی حرام خوروں کے علی الرغم مصائب کا حالیہ دور زیادہ عرصہ تک نہیں رہے گا۔مسلمان جو انسانیت کا پانچواں حصہ ہیں ہر جگہ نشاۃثانیہ کے لیے کوشاں اور اس ملعون قید سے آزادی کے لیے برسرپیکار ہیں۔ماضی قریب میں ان پر صبح و شام نئی نئی مصیبتوں کا ٹوٹنا ان کے روحانی تعلق کو قائم کرنے،رجوع الی اللہ اور مقابلے کے لیے ان کے ارادوں کو مضبوط کرنے میں معاون ثابت ہوا ہے۔ ہم نے ‘‘اَلْحَقُّ یَعْلُووَ لَایُعْلٰی عَلَیْہِ’’ (۳)(حق غالب ہوتا ہے،مغلوب نہیں ہوتا) کے ماحول میں سانس لیا ہے اور زندگی کے تاریک ترین دور میں بھی ﴿وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْن﴾ [الأعراف:۱۲۸](اور انجام تو پرہیزگاروں کا ہی بھلا ہوتا ہے۔) کو پیشِ نظر رکھا ہے۔یہ روح اسلام کے انسانی فطرت سے ہم آہنگی،انسان کی مادی و روحانی ارتقا میں اسلام کے تعاون اور دنیا و آخرت کے درمیان توازن قائم کرنے میں دین اسلام کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے کا نتیجہ ہے۔ہم کبھی بھی شکستگی اور مایوسی کا شکار نہیں ہوئے۔یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ جبکہ امریکا سے لے کر ایشیا تک اور اسکینڈے نیوین ممالک سے لے کر آسٹریلیا تک ہر گروہ کے لوگوں میں تیزی سے اسلام کی طرف میلان پیدا ہو رہا ہے اور اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے حتیٰ کہ اسلام سب کی دلچسپی کا موضوع بن چکا ہے۔ چنانچہ عیسائیوں کے مختلف فرقوں اور تنظیموں کی محیرالعقول کاوشوں کے باوجود کنیسہ کو اسلام کو حاصل ہونے والے لگاؤ اور توجہ کا عشرعشیر بھی حاصل نہیں ہوتا۔ہر سال ہر براعظم میں لاکھوں انسان دین اسلام کو قبول کرکے قرآن کریم کی روشنی کی پناہ لیتے ہیں،حالانکہ انہیں اس بات کا اچھی طرح احساس ہوتا ہے کہ ان کے اس اقدام کے نتیجے میں ان کے خلاف بھوک اور فقر کا محاذ کھول دیا جائے گا۔ ہمیں قوی امید ہے کہ اگر ہم نے اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو نہ توڑا تو ہم عنقریب ایک بار پھر سورۃالعصر کے معانی کو پوری عظمت و شوکت سے پورا ہوتے ہوئے دیکھیں گے۔عنقریب ایک بار پھر اسلام کی برکت سے ایمان،امید،اطمینان اور مسرت کے پرچم لہرانے لگیں گے، انسانیت سارے روئے زمین پر ایک نئے محیرالعقول عالمی نظام کو قائم ہوتے ہوئے دیکھے گی اور بادِنسیم کے ان خوشگوار جھونکوں سے ہر انسان اپنی فطرت اور فکری افق کی وسعت کے مطابق استفادہ کرے گا۔- Created on .