سُوئے عالم اسلام
دیدہ ور انسان پر تاریخ کے عظیم واقعات میں فکروعمل کا باہمی ارتباط مخفی نہیں رہ سکتا۔یہ ایک ایسا ارتباط ہے،جس میں ایک طرف تحریکی کام فکر سے غذا حاصل کرکے نشوونما پاتا ہے تو دوسری طرف تحریکی جدوجہد اور کاوش نئے فکری منصوبوں کے لیے زمین ہموار کرتی ہے۔اس پہلو سے دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے فکر عمل کے لیے بارش اور پانی یا ہوا اور فضا ہے اور عمل فکر کے لیے زمین، مٹی اور نشوونما کی صلاحیت ہے۔
میں فکروعمل کے درمیان اس موازنے کو غلط نہیں سمجھتا،کیونکہ ہر تحریکی جدوجہد کسی نہ کسی فکر اور منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے عبارت ہوتی ہے اور ہر فکر ضروری اقدامات کے ذریعے اپنے حقیقی دائرہ کار اور مقاصد کے حصول کی ابتدا اور اس کا ایک ذریعہ ہوتی ہے۔ارادے کا پہلا مرحلہ باطنی میلان ہوتا ہے اور اس کی آخری حد کام کرنے کا عزم اور فیصلہ ہوتا ہے۔اس حکمت عملی میں فکر کی حیثیت گولوں کے ان دھاگوں کی سی ہوتی ہے جو ابتدا اور انتہا کے درمیان رابطہ قائم کرتے ہیں اور ظاہری اعمال کی حیثیت ان گولوں کو مزین کرنے والے نقش و نگار کی سی ہوتی ہے۔جو اقدامات اور منصوبے فکری پسِ منظر نہیں رکھتے وہ اکثر ناکامی اور انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں اور عمل سے خالی افکار فکر کی معراج سمجھے جانے والے نمونے کے عملی صورت اختیار کرنے کے راستے میں حائل ہو کر جذبات کو ٹھنڈا کر دیتے ہیں۔
عصرحاضر تک پہنچتے پہنچتے معاشرے کو منور کرنے والی فکری روشنیاں بجھا دی گئیں۔قوت ارادی کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا گیا۔‘‘نمائندگی’’کو اثرانداز ہونے سے روک دیا گیا۔عملی جدوجہد کو بدامنی کے بھینٹ چڑھا دیا گیا۔تاریخ کے نامبارک حادثات نے انسانی معاشروں کو ایک مصیبت سے دوسری مصیبت میں اور ایک اختلاف سے دوسرے اختلاف میں دھکیل دیا اور متکبر اور مفادپرست عناصر نے انسانی معاشروں کی چولیں ہلا کے رکھ دیں اور ہمیشہ ان کا استحصال کیا۔
جب تک معاصر انسان کی قلبی اور ذہنی صلاحیتوں کو تحریک دینے کے لیے مناسب پختگی پیدا نہیں ہو جاتی اس وقت تک اس میں موجود ان منفی پہلوؤں سے یہ کہے بغیر کوئی چارہ نہیں: ‘‘آہستہ ۔۔۔ ذراٹھہرو!’’اور اسی طرح جب تک ہم انفرادی سطح پر اپنی فطری کمزوریوں کو دور نہیں کر لیتے،اپنی قوت ارادی کو مضبوط نہیں بنا لیتے،ضروری معیار کے مطابق اپنے معتقدات کی تربیت نہیں کر لیتے،اپنے دلوں سے ناامیدی کی مکمل طور پر بیخ کنی نہیں کر لیتے اور سب سے اہم بات یہ کہ اپنے آپ کو مغرب کی مرعوبیت سے نہیں نکال لیتے اس وقت یہ کہے بغیر کوئی چارہ نہیں: ‘‘آہستہ ۔۔۔ ذرا رکیے!‘‘
مغرب میں صنعتی انقلاب اور جدید ٹیکنالوجی میں پیش رفت جیسے پیش آنے والے پے در پے واقعات نے ہمیں مسلسل حیرت میں ڈال کر مفلوج کر دیا ہے، نیز علمیت کے غلط تصورات اور جدیدیت کے کھوکھلے دعوؤں نے ہمارے ذہنوں کو مرعوب اور ہماری نگاہوں کو خیرہ کر رکھاہے۔ہو سکتا ہے یہ کمزوری اور تزلزل کچھ عرصہ تک برقرار اور نیند کی حالت میں چلنے اور بولنے کا سلسلہ جاری رہے،لہٰذاکچھ سالوں تک جن کا حقیقی علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے،ہمیں صبر اور برداشت سے کام لینا ہو گا،کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ مرجان کی گہرائیوں میں زندگی پیدا ہونے کے لیے سالہاسال تک انتظار کرنا پڑتا ہے اور انڈوں کو سینچنے کے لیے ایک منظم اور مؤثر حرکت کی ضرورت ہوتی ہے،یہاں تک کہ بے جان جسم صحت یاب ہو کر زمانے کے ساتھ اپنا حساب بے باق کرنے کے لیے قوت حاصل کر لے۔
میرا پختہ ایمان ہے کہ یہ انتظار اور جدوجہد ہمارے لیے حیات بخش ثابت ہو گی اور ایک نہ ایک دن ہمارے ہاتھوں دنیا میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کا پیش خیمہ بنے گی،لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ زندگی کی رگوں میں اس حکمت عملی کے خون کو جاری کرنے کے لیے وقت، مناسب حالات اور وسائل کی ضرورت ہے،جس کے نتیجے میں شیخ عبدالقادر جیلانی جیسی گہرائی، امام غزالی جیسی وسعت،مجدد الف ثانی امام احمد فاروقی سرہندی جیسی ربانیت،مولانا جلال الدین رومی جیسے عشق اور جذبے اور بدیع الزمان سعید نورسی جیسی جامعیت اور تمکنت سے متصف مضبوط اور بلند ارادے وجود میں آئیں گے،نیز عصرحاضر کے انسان میں نئی روح پھونک کر تروتازہ اور حیات افروز ماحول بنانے کے لیے بھی وقت،سازگار حالات اور وسائل کی ضرورت ہے کہ جس کے نتیجے میں صدیوں سے مسلمانوں کی فکر،فراست اوراحساس کو مجروح کرنے والے بحرانوں کا زور ٹوٹ جائے اور ان کی روحوں میں ‘‘جُودی’’پہاڑ جیسی مضبوطی پیدا ہو جائے۔اسی طرح خود اپنی ذات کو فتح کرنے ،اپنی روحوں کے نظام کو نئے سرے سے ترتیب دینے اور اپنی قلبی،شعوری اور فکری دنیا کو آباد کرنے کے لیے بھی ہمیں وقت،سازگار ماحول اور وسائل درکار ہیں۔جب تک ہم ایسے نورانی شہسوار تیار نہیں کریں گے،جو ہمیں ہاتھ سے پکڑ کر خضر علیہ السلام کے چشموں تک لے جائیں،جب تک ہم اپنی ذات اور اپنی اقدار سے دور رہیں گے اور جب تک ہم اپنے روحانی نظام سے باہر بھٹکتے پھریں گے اس وقت ہم راستے کی ایک منزل بھی طے نہ کر سکیں گے،جیسے کہ ہم ابھی تک طے نہ کر سکے۔کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے دشمن کو باہر تلاش کریں۔ہمارا دشمن ہمارے اندر موجود ہے۔۔۔ وہ اپنے محل میں ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ رکھے دریچے سے ہماری بربادی کو دیکھ کر دل ہی دل میں ہنس رہا ہے۔
اگر جہاد کے لیے حکمت عملی وضع کرنا ناگزیر ہے تو اسے ہمارے دلوں میں جلوہ افروز دشمنوں کو باہر نکالنے پر مبنی ہونا چاہیے۔ان دشمنوں کا کوئی ایمان ہے اور نہ ان سے کوئی محفوظ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ صرف انہی دشمنوں نے صدیوں سے عالم اسلام کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔سالہاسال گزر چکے ہیں،لیکن ہماری قوم اس جان لیوا حصار کو توڑ سکی،نہ اپنی خُودی کی طرف لوٹ سکی اور نہ ہی اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکی۔وہ فرقہ واریت کا نمونہ بن گئی،لیکن اپنی شیرازہ بندی نہ کرسکی۔یوں لگتا ہے جیسے وہ مختلف معاشروں،روایات اور رسم و رواج کی تجربہ گاہ بنی ہوئی ہے یا پھر عقل کھو چکی ہے اور اس کے سامنے سے مختلف اقوام،قبائل اور مفاہیم کا گزر ہوتا ہے۔وہ ایک ہی وقت میں بہت سے بتوں کی پوجا کرتی ہے،ایک ہی وقت میں بہت سے موہوم معبودوں کے سامنے جھکتی ہے اور ایک ہی دن میں بہت سے جھوٹے خداؤں کے ساتھ عہدوپیمان کی تجدید کرتی ہے۔یہ سب کچھ اس لیے پیش آیا کہ اس نامبارک دور میں اس نے کسی بھی فکر کی صحت و درستگی کو صدقِ دل سے قبول نہیں کیا اور ایک ہی نظام کے مطابق مکمل زندگی ڈھالنے کے بجائے ایک ہی وقت میں متعدد فکری نظاموں سے وابستہ رہی۔
کون جانتا ہے کہ کتنے ہی عظیم افکار عالم برزخ میں محبوس رہے اور انہیں عالم رنگ و بو میں آکر زندگی کا مزہ چکھنا نصیب نہ ہوا اور کتنی ہی سنجیدہ حکمت عملیاں ایسے کوتاہ نظر لوگوں کے گدلے افکار سے ٹکرا کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئیں،جو علم،اشیاء اور واقعات کے درمیان ربط پیدا کرنے والے حقائق اور انسان اور کائنات کے درمیان پائی جانے والی مناسبتوں کو کوئی اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی ان حقائق کو سمجھتے ہیں۔
وہ ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہم سمجھتے ہیں اسی پر اکتفا کریں اور جو بات سمجھ میں نہ آئے اسے اس امید پر چھوڑ دیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی بھی سمجھ آجائے گی،ہم ہر چیز کی تفصیل،تشکیل اور اس کا یقین ان کے مسلمات کے مطابق کریں،مہارت کے بل بوتے پر علم وتحقیق کو بھی ان کے معتقدات اور ناقابل اختلاف اصولوں کی روشنی میں پیش کریں،ضرورت پڑنے پر اظہر من الشمس حقائق کو اوہام اور اوہام کو حقائق بنا کر پیش کریں،فصاحت اور گفتگو کی مہارت کے ذریعے اپنے اسلوب میں یقین پیدا کریں اور مفروضات کی بنیاد پر یقینی اور قطعی حکم لگائیں!گویا وہ آغاز سے ہی کائنات اور اس کے ارتقائی مراحل پر گواہ ہیں۔
اگر کائنات ہر قسم کے لائقِ ایمان حقائق سے خالی ہے اور اگر کوئی بھی فکر ایمان لائے جانے اور قبول کئے جانے کی مستحق نہیں ہے تو کائنات بدنظمی سے عبارت ہے۔اگر دنیا میں اس قسم کی فکر کا راج ہو تومعاشرے کو ناقابل تردید یقینی امور میں بھی اضافی (Relative) سوچ سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟کیا اضافیت (Relativism) کو تسلیم کرنے والے سچے ترین حقائق کی صحت اور باطل امور کے فساد کو ان کی نقیضوں کی صحت اور فساد کی بقدر ہی تسلیم نہیں کرتے؟ خیروشر اور اخلاقی و غیراخلاقی چیزوں کو ایک جیسا سمجھنے والی اس قسم کی فکر کے عام ہونے کی صورت میں ہر چیز کا اضافیت (Relativism) کے تابع ہونا امربدیہی ہے۔آج ہماری قوم کو ایسے مخلص،پرجوش اور متوازن انسانی شخصیت کی ضرورت ہے،جسے علم، شعور اور احساسِ ذمہ داری سے تحریک ملتی ہو اور جس کے اقدمات اور طرزِعمل پر موجودہ ضروریات کے بارے میں غوروفکر کی بقدر مستقبل کے منصوبوں کی سوچ کی چھاپ ہو۔ہماری قوم کو ایسے فکری اور روحانی معمار کی شخصیت کی ضرورت ہے،جو کائنات کو دل کی آنکھوں سے دیکھتا ہو،جس کا ذہن علم کے شعور سے آراستہ ہو،جو ہر لحظہ اپنی ذات کی تجدیدکرنے کی اہلیت رکھتا ہو،ہمیشہ نظام کی جستجو میں رہتا ہو اور ہر لمحہ کسی نہ کسی بگاڑ کی اصلاح میں لگا رہتا ہو۔
ایسی شخصیت ایک فتح کے بعد دوسری فتح حاصل کرتی ہے،لیکن علاقوں کو تاخت و تاراج کرکے ان کے ملبے پر اپنی حکومت کا تخت سجانے کے لیے نہیں،بلکہ انسانی جذبات اور صلاحیتوں کو بیدار کرنے،محبت،لحاظ اور ساری انسانیت اور کائنات کے لیے مروت کے ذریعے ہمیں تقویت پہنچانے،تباہی کے شکار علاقوں کو آباد کرنے، مردہ جسموں کو کائنات کی رگوں میں دوڑنے والے خون اور زندگی میں تبدیل کرنے کے لیے ان میں روح پھونکنے اور ہم سب کو کائنات کے مقصد کے بے شمار مزوں کا ذائقہ چکھانے کے لیے ایساکرتی ہے۔ایسا انسان ہر حالت میں مکمل طور پر ربانی فطرت کا مالک ہوتاہے۔اللہ کا خلیفہ ہونے کی حیثیت سے اس کا ہر اقدام مقصدِکائنات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔اس کی تمام حرکات و سکنات مراقبہ کہلاتی ہیں،وہ ہر کام اس احساس سے کرتا ہے کہ اسے پرکھا جائے گا،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے کان اور آنکھیں بن جاتے ہیں کہ جن کی مدد سے وہ سنتا اور دیکھتا ہے۔اس کا اسلوب اس کی گفتگو کی اثرانگیزی کا ترجمان ہوتا ہے۔وہ مشیت خداوندی کے سامنے ایسے ہو جاتا ہے جیسے مردہ غسل دینے والے کے ہاتھ میں۔اللہ تعالیٰ کے سامنے ا پنے عجزوفقر کا احساس اس کی قوت اور مالداری کا سب سے بڑا سرچشمہ ہوتا ہے اور وہ اس خزانے کے کبھی نہ خشک ہونے والے سرچشمے سے بہترین انداز میں مدد حاصل کرتے ہوئے کبھی نہیں تھکتا۔
وہ اپنا مراقبہ و محاسبہ کرنے والاکشادہ دل انسان ہوتا ہے۔اس کی روح کے آئینے میں خیروشر اور حسن و قبح ایک دوسرے سے ایسے ہی ممتاز ہوتے ہیں جیسے رات اور دن اور روشنی اور تاریکی میں واضح فرق ہوتا ہے۔اس کے ہاں ہر چیز کو اس کے مناسبِ حال مقام ملتا ہے۔وہ وجدان اور اسے پیداکرنے والے لطائف کے عمل پر مترتب ہونے والے عظیم ترین مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے پورے دل،ارادے اور شعور سے جدوجہد کرتا ہے۔اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ بادشاہ کے انعامات کو بادشاہ کی سواریاں ہی اٹھا سکتی ہیں،وہ معرفت،ارادے اور ذمہ داری کے درمیان مناسبت،دل اور محبت کے درمیان تعلق،کائنات اور ماورائے کائنات کے اسرار سے آگاہی اور بلاکم و کیف ‘‘حقیقتِ مطلقہ’’ کے علم کے ذریعے قرب الٰہی کے سلسلے میں فرشتوں پر بھی سبقت لے جاتا ہے۔
وہ اپنی شخصی زندگی میں ایک ایسے مثالی انسان کے آفاق تک پہنچنا چاہتا ہے،جو اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کی اطاعت میں اولیاء و اصفیاء سے مسابقت و مقابلہ اور اس بارے میں انتہائی باریک بینی اور حساس مزاجی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ حقیقی اسلام پر کاربند ہونے،اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بننے والے امور کی مخالفت اور اپنے دین کے احیاء کے راستے میں پیش آنے والی مشکلات کے مقابلے میں استقامت کے سلسلے میں ناقابل تصور حد تک شجاعت کا مظاہرہ کرتا ہے۔لوگوں کے ساتھ اس کے حسنِ معاملگی،معرفت الٰہیہ کی گہرائی،بے پناہ تواضع،عظمتِ خداوندی کے احساس اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کائنات کے تعلق کے اس کے شعور کو الفاظ میں تعبیر کرنا مشکل ہے۔وہ عشق و محبت اور وابستگی و وارفتگی کا نمونہ ہوتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ وہ لدنّی علوم اور لدنّی ذمہ داریوں کا حامل انسان ہوتا ہے۔ ‘‘لدنّی ذمہ داریوں کے حامل انسان’’کے موضوع پرمستقل گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔
- Created on .