زمین کے وارث
زمین مسلسل گھوم رہی ہے اور گھوم کر واپس اپنے اصل مدار میں آ جاتی ہے۔کیا زمین کے حقیقی وارث اپنی اُس متاع گم گشتہ کو واپس لینے کے لیے تیار ہیں، جسے دوسروں نے ایک مدت سے اٹھا رکھا ہے؟ابتدا میں حق کا ملنا اور چیز ہے اور حق کی صحیح نمائندگی کر کے اسے حاصل کرنا دوسری بات ہے۔اگر حق کو اس کی ذاتی اقدار کے مطابق پیش نہ کیا جائے تو وہ کسی بھی وقت واپس لیا جا سکتا ہے، اگرچہ وہ ابتدا میں کسی خاص قوم یا گروہ کو عطا کیا گیا ہو ۔۔۔ ایسی صورت میں اسے ان سے لے کر نسبتاً بہتر لوگوں کو عطا کر دیا جاتا ہے،یہاں تک کہ جب حق کے حقیقی نمائندے تیار ہو جاتے ہیں تو اسے ان کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن بدیع البیان میں فرماتے ہیں: ﴿وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِیْ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ﴾ [الأنبیاء:۱۰۵](اور ہم نے نصیحت کی کتاب [یعنی تورات] کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا کہ میرے نیکوکار بندے ملک کے وارث ہوں گے۔) یہ اللہ تعالیٰ کا پختہ وعدہ ہے،لہٰذا کسی بھی شخص کو اس دن کے آنے میں تردد نہیں ہونا چاہیے،نیز یہ وراثت صرف زمین تک ہی محدود نہ رہے گی، کیونکہ جو لوگ زمین کے وارث و حاکم ہوتے ہیں ان کی حکومت فضا اور آسمان پر بھی ہوتی ہے۔دوسرے لفظوں میں ان کی حکومت ساری کائنات پر ہوتی ہے۔چونکہ یہ حاکمیت بطور نیابت اور خلافت کے حاصل ہوتی ہے،اس لیے زمین و آسمان کے حقیقی مالک کی پسندیدہ خصوصیات کو اپنے اندر پیدا کرنا لازمی اور ناگزیر ہے،بلکہ یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ یہ خواب اسی قدر شرمندہ تعبیر ہو گا اور یہ امید اسی قدر بر آئے گی،جس قدر ان خصوصیات کو سمجھا اور اپنایا جائے گا۔
اگر حقیقی مالک الملک نے کہر اور دھوئیں سے آلودہ کسی تاریخی مرحلے میں زمین کی حقیقی وراثت کا دعوی کرنے والوں کو اس آسمانی وراثت کی خاطر اس کے مناسب حال جدوجہد نہ کرنے کی وجہ سے اس سے محروم کر دیا تو اس محرومی سے چھٹکارہ پانے کی یہی صورت ہے کہ وہ ازسرنو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔
اللہ تعالیٰ نے زمین کی وراثت کا وعدہ اپنے ان نیک بندوں سے کیا ہے، جو محمدی روح اور قرآنی اخلاق کی نمائندگی کرتے ہیں۔اتحادواتفاق سے کام میں لگے رہتے ہیں،اپنے زمانے کا صحیح ادراک رکھتے ہیں،علم و فن کے اسلحے سے لیس ہوتے ہیں اور دنیاوآخرت کے درمیان توازن قائم رکھتے ہیں۔حاصل یہ کہ وہ روح اور حقیقت کے شاہین ہیں۔اس حقیقت کے ذریعے وہ آسمانِ نبوت کے ستاروں یعنی صحابہ کرام کے مدار میں گھومتے رہتے ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کی مستحکم سنت اور فطری شریعت ہے،جس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی: ﴿فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَبْدِیْلاً وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَحْوِیْلاً﴾ [فاطر:۴۳](سو تم اللہ کی عادت میں ہرگز تبدیلی نہ پاؤ گے اور نہ اللہ کے طریقے میں کوئی تغیر دیکھو گے۔)
لہٰذا زمین کا وارث بننے کے لیے سب سے پہلےاعمال صالحہ بجا لانے کے لیے بھرپور کوشش کرنا ہو گی،جس سے مراد دین کو قرآن و سنت کے مطابق اپنانا اور اسلام کو زندگی کے احیاء کا ذریعہ بنانا ہے۔دوسرے درجے میں عصری علوم و فنون سے آگاہی ضروری ہے۔ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ جو معاشرے قدرت و ارادے کی صورت میں جلوہ گر فطری شریعت اور صفت کلام کی صورت میں کائنات میں کارفرما خدائی قوانین کی طرف التفات نہیں کرتے اور جو قومیں داخلی طور پر اپنی روحانی زندگی کو بدل دیتی ہیں وہ آج کتنی ہی غالب کیوں نہ ہوں ان کا مستقبل تاریک ہے۔تاریخ جسے گزشتہ اقوام کا قبرستان بھی کہہ سکتے ہیں،واضح الفاظ میں اس حقیقت کا اعلان کر رہی ہے: ﴿إِنَّ اللّہَ لاَ یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ﴾ [الرعد:۱۱](اللہ اس نعمت کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو نہ بدلے۔)
معاشرے کا اندر سے روحانی طور پر کھوکھلا ہونا خدائی نعمتوں سے محرومی کا سبب بن جاتا ہے۔یہ آیت مبارکہ ہمیں غلبہ و مغلوبیت اور عزت و ذلت کے بارے میں ایک اہم قاعدہ بتاتی اور عصرحاضر کے مسلمانوں میں پائے جانے والے وسیع خلا کی نشاندہی کرتی ہے۔
ہم اس خلا کو تمام مسلمانوں کے باطن کو روحانی و معنوی حیثیت سے گھن لگنے اور داخلی اعتبار سے ان کے اپنے زمانے سے بہت پیچھے رہ جانے سے تعبیر کرسکتے ہیں۔اس گھن لگنے یا پیچھے رہنے کا سبب ڈیڑھ دو صدیوں سے خارجی طور پر پیش آنے والے موانع ہوں یا ہماری اپنی جہالت،کمزوری اور عجز، اس سے نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑتا،لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ امت مسلمہ پچھلی چند صدیوں سے کمزور ہوتی جا رہی ہے اور اپنی طاقت کے ان سرچشموں سے غافل ہے،جن کے بل بوتے پر وہ اپنے قدموں پر کھڑی ہوئی تھی اور جنہوں نے اسے معزز اور زمین کا حقیقی وارث بنایا تھا۔
کچھ دیر کے لیے غور فرمائیے!کیا ہم یہ کہنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ جو لوگ ہماری قوم کی بدبختی کے دور میں اسلام کی نمائندگی کا دعوی کرتے تھے وہ اسلاف کے معیار کے مطابق گہری قلبی اور روحانی زندگی کے مالک تھے؟کیا ہم اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ اس دور کے مسلمان صحابہ کرام کے طرززندگی کی پابندی یا کم از کم اس کی طرف رغبت رکھنے کی وجہ سے تناؤ کا شکار اور جوش و جذبے سے سرشار تھے؟اس دور میں کتنے ایسے لوگ ملتے ہیں، جنہوں نے ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دیتے ہوئے یہ کہا ہو: ‘‘یا تو ہم باعزت طریقے سے حکومت کریں گے یا ہمارے جسموں کو کوّے نوچیں گے’’؟{qluetip title=[۱]}(۱) یہ ترکی کی ضرب المثل ہے جو کسی اچھے مقصد کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔بعض اوقات جان کی بازی لگا کر مقصد کو پانے پر اصرار کے لیے بھی اس کا استعمال ہوتا ہے کہ یا تو جان جائے گی یا مقصد حاصل ہو جائے گا۔(مترجم عربی){/qluetip} کتنی پرنور روحوں نے دشمنوں کے سامنے سرتسلیم خم کیا اور نہ ہی جادۂ استقامت سے سرِمو انحراف کیا؟
اس دور میں حکومت اور خاص طور پر ارباب اقتدار کی کمزوریوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ہم اپنے آپ کو دوسروں کے زیرِاثر زندگی گزارنے سے محفوظ نہ رکھ سکے،حالانکہ قرآن کریم ہم پر دوسروں کی سرپرستی کے دباؤ میں زندگی گزارنے کو حرام قرار دیتا ہے۔کیا ہمیں ان ظالموں کے در پر ذلیل و خوار ہونے پر تعجب ہوتاہے جو جبرواستبداد سے ہمیں کچلتے ہیں؟ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے دین، وطن اور فکر کے دشمنوں کے خلاف مکمل تیاری اور چوکنا رہنے کی قرآنی پکار پر زمین کے وارثوں کے شایانِ شان انداز سے لبیک کہہ سکے ہیں؟رب جلیل کے قرآن کریم میں گھوڑوں اور سامانِ حرب کی سورت عادیات میں قسم اٹھانے اور﴿وَأَعِدُّواْ لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم﴾[الأنفال:۶۰](اور جہاں تک ہو سکے ان کے مقابلے کے لئے مستعد رہو۔) کے الفاظ میں اس کے عظیم حکم کو ذرا یاد کیجئے۔
صحیح بات تو یہ ہے کہ ہم نے اتنی بڑی غلطی کی ہے،جسے تاریخ کبھی معاف نہ کرے گی۔ہم نے دنیا سنوارنے کی خاطر دین کو دنیا کے بھینٹ چڑھایا اور دنیا کو دین پر ترجیح دینے والی فکر کو اپنایا۔اس وقت سے ہم پابندیوں کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں۔دین تو ضائع ہوا ہی دنیا بھی ہاتھ سے گئی اور بیک وقت عظمت و شقاوت کی علامات کا حامل عالم اسلام بیکاری کے ایک ایسے مرحلے سے گزرنے لگا،جس میں ایک ہزار سالہ ورثے سے منہ موڑ لیا گیا۔جعلی اصولوں کے ذریعے عوام کو دھوکا دیا گیا۔عظیم سلطنت کی عمارت کو کمزور اور متزلزل بنیادوں پر استوار کیا گیا۔ تاریخ، قوم، حسب و نسب اور موروثی تہذیب کو ذلت اور جعل سازی کا شکار بنایا گیا۔ اپنے آپ کو ایک ہزار سالہ پرانے دشمنوں کی آغوش میں دے دیا گیا اور بے دینی پر مشتمل بدترین افکار کے زہر کو بیہودہ ترین تحریروں کے ذریعے وطن عزیز کے جسم میں اتارا گیا،بلکہ ان افکار کو خوبصورت نظم و نثر کا جامہ پہنانے والوں پر انعامات و اعزازات کی بارش کی گئی نیز پسے ہوئے کمزور اور مظلوم طبقے کے اخلاق و افکار اور جذبات میں اشتراکیت کے احیاء کی کوششیں کی گئیں۔
اسی طرح بسا اوقات شکوک و شبہات اور بے دینی کے مرض میں مبتلا بعض لوگ دین پر حملے کرنے اور مقدسات پر الزامات لگانے کے لیے سیاسی نظریات و شخصیات اور ممنوعہ افکار کا سہارا لیتے رہے ہیں اور آج بھی وہ ان بدترین ہتھکنڈوں کو بطور خاص اختیار کیے ہوئے ہیں،چنانچہ مجھے وہ دور یاد ہے جب اشتراکیت اور سوشلزم کی شہرت کے دنوں میں اس قسم کے بدبخت لوگ بے بنیاد نظاموں کا سہارا لے کر اسلام کے خلاف اپنے غیظ و غضب ،ناپسندیدگی اور بغض و عداوت کا اظہار کرتے اور دین اور مسلمانوں کی آواز دبانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے تھے۔قومی ترانے اور آزادی کی امید جگانے کے لئے شاعر کے مندرجہ ذیل اشعار کیا ہی خوب ہیں۔وہ اپنے اس ترانے میں اسطوری انداز میں تصویر بالضد کا اسلوب اختیار کرتے ہوئے اُس تاریک دور کی منظرکشی کر کے قوم میں نئی روح پھونکتا ہے کہ جس میں مسلمانوں کو قتل کرنے،ان کے جذبات کی چنگاری کو بجھانے اور ان کے مزاجوں کو خراب کرنے کے لیے ان کی نگرانی اور تعاقب کیا جاتا ہے۔
شرم و حیا ناپید ہو چکی ہے اور عار سے دشت وصحرا بھرے پڑے ہیں۔
کتنے ہی نامعلوم اور بدنما چہرے باریک پردے کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔
وفاشعاری ہے اور نہ عہد و پیما کا پاس۔امانتداری تو بے معنی لفظ بن کر رہ گئی ہے۔
جھوٹ کا دوردورہ ہے،خیانت کو ہر حال میں لازمی سمجھا جاتا ہے اور حق کا کسی کو علم نہیں۔
عقل خوفزدہ اور فریادی ہے:اے پروردگار!یہ انقلاب کس قدر دہشتناک ہے۔
دین اور ایمان دونوں برباد ہو چکے ہیں۔دین خراب اور ایمان مٹی میں مل چکا ہے۔{qluetip title=[۲]}(۲) دیوان‘‘الصفحات’’شاعرمحمدعاکف،ص۴۲۰۔یہ ترکی زبان سے ترجمہ ہے۔ (عربی مترجم){/qluetip}
یہ اشعار حسرت وانکسار کے جذبات سے لبریز ہیں،جنہوں نے شاعر کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے،تاہم اس پورے عرصے میں ظلم و استبداد اور کفر کا یہ تسلط اس شریف النسل قوم کے عزم و استقلال پر پوری طرح قابو پا سکا اور نہ ہی اس کے ازلی و ابدی ابعاد کے حامل افکار کی چنگاری کو بجھا سکا۔یہ افکار حالات کے مطابق خاکستر میں چھپی ہوئی چنگاری،سست روی سے سلگتا ہوا شعلہ یا ساری دنیا کو منور کرنے کی صلاحیت رکھنے والا سرچشمۂ نور ہیں،لیکن مرکز کی طرف کھینچنے والے انتظامی عوامل کی وجہ سے وہ گٹھلی میں سکڑ کر محفوظ ہو گئے ہیں،تاکہ وہ بڑی سے بڑی آزمائش کامیابی سے سہہ کر ساری زمین کو بقعہ نور بنا ہوا دیکھنے کے انتظار میں اس ذمہ داری کو ادا کر سکنے والی نسل نو تک پہنچ جائیں۔
ہم اپنی سرگردانی کے طویل برسوں کی قدروقیمت کا اندازہ اس دوران اٹھائی جانے والی تکلیفوں اور اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کی روشنی میں لگا سکتے ہیں۔اپنی مادی و روحانی ترقی کے سرچشمے اسلام کا صحیح فہم حاصل کر کے اور اللہ کے نیک بندوں کے زمرے میں شامل ہو کر اپنے آپ کو زمین کے حقیقی وارث ثابت کرنے کی ایک بار پھر کوشش کرنی چاہیے۔اللہ کے نیک بندے کامل،فکری،جذباتی، حسی،شعوری اور ارادی طور پر متانت کے حامل،دین کی سربلندی کے لیے ثابت قدم،علمی زندگی میں منظم،کردار کے لحاظ سے قابل بھروسا،مضبوط شخصیت کے مالک،نفسانی خواہشات پر قابو اور قلب و دماغ میں ہم آہنگی رکھنے والے ہوتے ہیں۔
ہم پر لازم ہے کہ ہم توفیق و مشیت الٰہیہ سے اس فراموش کردہ سمت میں مٹے ہوئے نشانات راہ پرمسلسل چلتے رہیں۔
- Created on .