مثالی نسلیں
خوشی کے دور پر جھانکنے والے ان ایام میں کہ جن کی صبحوں میں عید کے سانسوں کی مہک محسوس ہوتی ہے،ہمیں عملی صورتحال میں ناقابل حل دکھائی دینے والی بیماریوں کے حملوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔معاشرتی بیماریوں،ملی امراض،قدرتی آفات اور معاشرے کے جسم میں سرایت کیے ہوئے اس قسم کی دیگر بحرانوں کا حل روزمرہ کی قصیرالمیعاد تدابیر کے ذریعے ممکن نہیں،کیونکہ اس طرح کے گہرے اثرات کے حامل بحرانوں کا حل معاشرے میں بصیرت،علم اور حکمت کی اشاعت کے ساتھ مربوط ہے۔اس کے برعکس روزمرہ کی بے مقصد اور تنگ افق کی حامل سیاسی چالوں کے ذریعے ان کے حل میں مصروف ہونا وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں۔ہم اپنے ماضی اور حال کے مشاہدے کی بنیاد پر جانتے ہیں کہ روح،حقیقت اور بصیرت کے حامل حضرات نے مشکل ترین بحرانوں کو اپنے آفاق کی وسعت،ارادے کی بلندی اور آج کی قوت کے بعض سرچشموں کو مستقبل کی خاطر حرکت دے کر اتنی آسانی سے حل کر دیاکہ ہمارے لیے اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔بہت دفعہ ہم ان کی نادر تدابیر کو مافوق الفطرت خیال کرتے ہیں اور مارے حیرت کے انگشت بدندان رہ جاتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے جو کام کیا ہے ہر کامیاب شخص اسی انداز میں کام کرتا ہے۔اس سے مراد حق تعالیٰ کی عطاکردہ تمام صلاحیتوں اور طاقتوں کو بہترین اور مفید مصرف پر خرچ کرنا ہے۔
یہ لوگ اٹھتے بیٹھتے دورحاضر میں مستقبل کے معاملات میں مصروف رہتے ہیں،موجودہ امکانات اور وسائل کو مستقبل تک پہنچانے والا پل تعمیر کرنے کے لیے بطور تعمیری سامان کے استعمال کرتے ہیں،دورحاضر کو آنے والے دور کی طرف منتقل کرنے کو اپنے گلے میں پھنسے ہوئے لقمے کی طرح محسوس کرتے ہیں اور اس منتقلی کے معاملات کو ایک ایک لقمہ کرکے نگلتے ہیں، کیونکہ کسی مشکل کو حل کرنا نہ صرف دورحاضر سے متجاوز ہونے بلکہ اس حد تک زمانے کی قیود سے آزاد ہونے سے مربوط ہے کہ وہ بیک وقت ماضی،حال اور مستقبل پر نظر رکھ سکے،نیز اس کے لیے تحلیل و تقویم کی اہلیت اور صفائے باطنی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔یہ کشادہ فکر جو ابھی سے مستقبل کو آغوش میں لینے اور اس کی حقیقت اور روح کو سمجھنے سے عبارت ہے اسے آپ ‘‘مثالیت’’ کا نام بھی دے سکتے ہیں،لیکن جس شخص کی فکر میں اس قدر وسعت نہ ہو وہ اس نوعیت کی مشکلات پر قابو پاسکتا ہے اور نہ ہی مستقبل کے نام پر ہمیں کوئی اہم چیز دے سکتا ہے۔ فرعون،نمرود،نپولین اور قیصر وغیرہ کی عظمت،بڑائی اور مصروف ترین زندگی نے مستقبل کے نام سے کوئی چیز پیش نہیں کی،بلکہ ان کے لیے ایساکرنا محال تھا،گو بلاتحقیق ان کے بارے میں حسنِ ظن رکھنے والے لوگوں کی نظر میں ان کے کارنامے کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں،کیونکہ انہوں نے حق کو طاقت کا محکوم بنا کر رکھا، معاشرتی تعلقات کو مفادات کے گرد بُنا اور اپنی زندگی نفس پرستی کی ایسی غلامی میں گزاری،جو آزادی کی خواہش ہی نہ رکھتی تھی۔
دوسری طرف جن لوگوں نے اناطولیہ کو اپنا وطن بنایا،انہوں نے بلکہ ان سے پہلے خلفائے راشدین نے اپنے پیچھے ایسے آثار چھوڑے،جو اپنے نتائج کے اعتبار سے دنیا کو عبور کرکے عقبیٰ تک پہنچ رہے ہیں اور ان لوگوں کی نظر میں جو وقتی چاند یا سورج گرہن سے دھوکا نہیں کھاتے، زمانے بھر کو چیلنج کر رہے ہیں۔یہ حضرات بھرپور زندگی گزار کر اس دنیا سے چلے گئے،لیکن جن دلوں میں وہ اپنے اچھے کارناموں کی بدولت زندہ ہیں ان دلوں سے نہیں نکلے۔آج بھی ہمارے ملک کا کونہ کونہ الپ ارسلان، ملک شاہ، غازی عثمان اور سلطان فاتح کی روح اور جذبات کی خوشبو سے مہک رہا ہے اور ان کے خیالات اور امیدوں سے ہماری روحوں کو امید اور خوشخبری کی غذا مل رہی ہے۔
قیصرنے اپنی ہوا و ہوس کی خاطر‘‘روما کے عقیدے’’ کو مسل کر رکھ دیا۔ نپولین نے عظیم فرانس کی امیدوں کو اپنی خواہشات کے جال میں محبوس کیا اور ہٹلر نے عظیم جرمنی کے خوابوں کو اپنی مہم جوئیوں کے ذریعے شکار کرکے تارتار کر دیا،لیکن اس ملت کی دوام اور پھیلاؤ کو قبول کرنے والی فکر،جس کی شجاعت کے کارنامے ہمہ جہتی اور استمرار سے متصف ہیں،ہمیشہ دناءت سے محفوظ رہی اور فتح ہو یا پسپائی اس پرچم کی طرح محترم رہی جس پر جانیں لٹائی جاتی ہیں۔سلطان فاتح نے اس پرچم کے سائے میں استنبول کو روند ڈالا، مغرب کے آفاق میں ہلچل مچا دی۔۔۔اور ایک آہ بھری۔قانونی نے دوردراز کے سفر کیے،جبکہ وہ اپنی آنکھیں اس عظیم پرچم کی پھڑپھڑاہٹ سے مغرب کے میدانوں کی طرف پھیر رہے تھے۔جناق قلعہ کے بہادروں نے اس کے نام پر اپنے خون سے بدر کی جنگ کی طرح کی جنگ رقم کی اور اناطولیہ کے سپوت نے اپنے ذمے وفا کے قرض کو ایسے وقت میں ادا کیا جب وہ ہزاروں مشکلات میں گھرا ہوا تھا اور پرشکوہ تاریخ کے دل کی طرح اس نے ایک بار پھر دھاڑ کر کہا: ‘‘أبدیۃ المدۃ! ’’ {qluetip title=[۱]}(۱) ’’أبدیۃ المدۃ!’’کے الفاظ سے مؤلف مختلف پہلوؤں کے حامل ظاہری اور باطنی معانی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ان کا ایک پہلو یہ ہے کہ تاریخ میں اسلام کی عظیم ریاستیں مثلاً خلافت عباسیہ قیامت تک عزت وسعادت کے دوام سے موصوف کی جاتی رہی ہیں۔خلافت عثمانیہ بھی ‘‘الدولۃ العلیۃ الأبدیۃ المدۃ’’ کے اوصاف سے موصوف کی جاتی تھی۔یہاں اسی پہلو کی طرف اشارہ ہے، نیز اس طرف بھی اشارہ ہے کہ نشاۃ ثانیہ کی امید کی شمع نہیں بجھی،دین ہمیشہ رہے گا، قربانی کا جذبہ ابھی مٹا نہیں اور یہ کہ شاید بیداری کا آغاز اسی ملک سے ہوگا۔‘‘جناق قلعہ’’وہ مقام ہے جہاں تاریخ کا یہ مشہور معرکہ لڑا گیا۔اس معرکے میں عثمانی فوج نے بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے 18مارچ، 1915ء کو پہلی جنگِ عظیم کے دوران اتحادیوں کی فوج کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔(عربی مترجم){/qluetip}
کوئی بھی فکر صاحبِ فکر کے ذریعے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچ جاتی ہے اور فتح پر فتح اور کامیابی پر کامیابی کا طلسم بن جاتی ہے،لیکن اگر کسی فکر کے نمائندے اسے اٹھانے کے اہل نہ ہوں تو وہ فکر پرچم بننے سے محروم رہتی ہے اور اس کے برعکس ایک چھوٹا سا رمز بن جاتی ہے،جو اپنے گرد گھٹیا خواہشات کے نعرے لگانے والوں کو جمع کر لیتا ہے۔اس طرح کے چھوٹے چھوٹے رموز بعض اوقات نچلے طبقے کے بعض لوگوں کو اپنے گرد جمع کرکے غیرسنجیدہ اہداف ومقاصدکی تکمیل کی طرف تو لے جاتے ہیں، لیکن وہ قوم کے دلوں میں پائے جانے والے جذبات کی تسکین ہرگز نہیں کرسکتے۔
صاحبِ فکر انسان سب سے پہلے محبت کا ہیرو ہوتا ہے۔وہ اللہ تعالیٰ سے جنون کی حد تک محبت کرتاہے اور اسی محبت کے پروں کے سائے میں ایسی مضبوط ڈوریوں کو محسوس کرتا ہے،جو اس کا کائنات سے تعلق جوڑتی ہیں،جس کے نتیجے میں وہ ہر انسان اور ہر چیز کو جذبہ شفقت سے اپنی آغوش میں لے لیتاہے۔۔۔انتہائی محبت کے جذبات میں اپنے ہم وطنوں کو اپنے سینے سے لگا لیتا ہے۔۔۔بچوں کو مستقبل کی کونپلیں سمجھ کر انہیں سونگتا اور ان سے کھیلتا ہے۔۔۔نوجوانوں میں مثالی انسان بننے کی روح پھونک دیتا ہے،کیونکہ وہ بلند مقاصد تک پہنچنے میں ان سے مقابلہ کرتا ہے۔۔۔ بوڑھوں سے انتہائی عزت و احترام سے پیش آتا ہے۔۔۔سب کے ساتھ مکالمہ کا راستہ کھولتا ہے۔معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان حائل وسیع خلیجوں پر پل باندھ کر انہیں ایک دوسرے کے قریب کرتا ہے۔۔۔اور کسی حد تک باہم موافق طبقات کے درمیان مکمل ہم آہنگی پیدا کرنے کے شوق کی آگ میں جلتا ہے۔
سچا صاحبِ فکر صاحبِ حکمت بھی ہوتا ہے۔وہ ایک طرف چلتی پھرتی اور باخبر رہنے والی اپنی عقل کی دنیا سے ہر چیز کا احاطہ کرتا ہے تو دوسری طرف صحیح صحیح تعین کرنے والے قلبی ترازوؤں پر ہر چیز کو تولتا ہے،اسے محاسبہ و مراقبہ کے معیاروں پر پرکھتا ہے،محاکمہ کے برتن میں گوندھنے کے بعد اس کی صورت گری کرتا ہے اور ہمیشہ ریس کے گھوڑوں کی طرح عقل کی ضیا اور دل کے نور کے درمیان موازنہ کرتا رہتا ہے۔
صاحبِ فکر انسان معاشرتی ذمہ داریوں کے احساس کے سلسلے میں عمدہ مثال ہوتا ہے۔وہ اپنے اہداف کے راستے میں رضائے الٰہی کے حصول کے لیے بغیر کسی تذبذب یا ہچکچاہٹ کے اللہ کی عطاکردہ ہر چیز لٹا دیتا ہے۔وہ کسی بھی چیز سے نہیں ڈرتا اور اپنا دل صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو دیتا ہے۔وہ سعادت کے شوق کی پرواہ کرتا ہے اور نہ شقاوت کے قلق کی،کیونکہ وہ حقیقت کا ایک ایسا اسطوری ہیرو ہوتا ہے کہ اگر اس کی (اسلامی) فکر اور وطن بلندوبالا رہیں تو وہ جہنم میں جلنے کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔
بلندفکر کا حامل شخص اپنے دل کی عطاکردہ اقدار کا اتنی ہی گہرائی سے احترام کرتا ہے جتنی گہرائی اس کے مراقبے میں پائی جاتی ہے۔اسے اس میں عبادت کا سا کیف و سرور ملتا ہے۔وہ ہمیشہ جوان رہنے والے عشق اور جذبے کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ اپنی فکر کی خاطر پلک جھپکنے کی مقدار میں اپنی جان،محبوب چیزوں،مال وجان،اہل وعیال اورحال ومستقبل کو بغیر سستی کے کیسے قربان کرنا ہے۔وہ حق اور حقیقت کی انتہائی رعایت رکھتے ہوئے اپنی بلندفکر کے نقطہ نظر کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ اپنے نفس پر حاکم ہوتا ہے،لیکن حقیقت کا محکوم ہوتا ہے۔وہ مقام ومنصب کی پرواہ نہیں کرتا اور اپنے دل کی گہرائیوں میں شہرت،حرص،خودپسندی اور راحت طلبی جیسے امور کو سم قاتل سمجھ کر مسلسل جنگ کی کیفیت میں رہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ہر معرکے میں فتح یاب ہوتا ہے اور ناکامی کے مواقع کو کامیابی اور فتح کے لیے کی جانے والی فنی مشقوں کے میدان سمجھتا ہے۔
وہ عظیم لوگوں کے راستے پر چلتے ہوئے حق کو پختگی سے تھامے رکھتا ہے،حتی کہ جب خواہشات کی آندھیاں اس سے ٹکراتی ہیں تو اس سے اس کی قوت اور حق کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔جب اس کی طرف کینے اور بغض کا طوفان بڑھتا ہے تو اس کی روح میں محبت اور شفقت کے چشمے ابلنے لگتے ہیں۔کتنی ہی ایسی نعمتیں ہیں،جن کی طرف عام لوگ دوڑ کر جاتے ہیں،لیکن وہ انہیں نظرانداز کرکے اپنے راستے پر چلتا رہتا ہے اور کتنی ہی ناراضگیوں کا بہادرانہ مقابلہ کرتا ہے۔جب ہم اس کے محیرالعقول حقیقی آفاق کا تصور کرتے ہیں تو ہمارا ذہن فورًاانبیائے کرام کی اولوالعزمی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے،ہمارے خیال میں مافوق الفطرت صلاحیتوں کے حامل انسانوں کی صورتیں ابھرنے لگتی ہیں اور ہمارا ذہن تاریخی شجاعتوں سے لبریز ہو جاتاہے۔وہ افریقہ کے جنگلوں میں عقبہ بن نافع کے اخلاص و وفا کے جذبے کو دیکھ کر کانپ اٹھتا ہے، برج ہرقل {qluetip title=[۲]}(۲) جبل الطارق مراد ہے۔(عربی مترجم){/qluetip}کو بے نام ونشان کردینے والے طارق بن زیاد کی شجاعت پر انگشت بدندان رہ جاتاہے،حیرت سے محمدفاتح کے عزم اور جرأت کو دیکھتا ہے،‘‘بلونہ’’کے مقام پر سپردگی سے انکار کرنے والی تلوار کو بوسہ دیتا ہے اور‘‘جناق قلعہ’’کے مقام پر اپنے سروں پر توپوں اور بمبوں کے پھٹنے کا بخوشی استقبال کرنے والے شیروں کی عظمت کو سلام پیش کرتاہے۔
عصرحاضر میں ہمیں صرف وسیع آفاق کے حامل اور بلند شجاعت کے مالک مثالی لوگوں کی ضرورت ہے۔آنے والے سالوں میں ایسے ہی جذبے اور بلندفکر کے مالک لوگوں کے ذریعے ہماری قوم ایک بار پھر اپنے قدموں پر کھڑی ہوگی۔یہ بہادرانِ قوم جن کے وجود کے خمیر میں ایمان،عشق،حکمت اور بصیرت شامل ہے،نو دس صدیوں سے اندرونی اور بیرونی حملوں کے دباؤ کے سامنے نہ کبھی جھکے اور نہ کبھی پیچھے ہٹے،بعض اوقات ان میں کمزوری آئی،لیکن جلد ہی انہوں نے اپنی صفوں کو مضبوط بنا لیا اور اس قابل ہوگئے کہ مستقبل کے ساتھ اپنا حساب بے باک کرسکیں۔وہ آج بھی روح کی خارقِ عادت طاقت کے ساتھ اپنی باری پانے کے لیے تیار ہیں اور زمانے کو اپنی عقابی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔
بلاشبہ گزشتہ چند صدیوں میں عشق،حکمت،بصیرت اور احساسِ ذمہ داری میں کمی دیکھنے میں آئی اور روزمرہ کے غیر اہم مسائل نے ملی فکر کی جگہ لے لی۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس دور میں تجدید کے حصول کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔اس مرحلے میں تجدید کے نام سے جو کچھ پیش کیا گیا وہ گھٹیا قسم کی تقلید اور دوسروں کی بولی بولنے کے سوا کچھ نہیں۔اس تشکیلی ڈھانچے نے جسے ہم ملی فکر کے فسق اور ملی روح کی تخریب کے ساتھ اختلاط کا نام بھی دے سکتے ہیں،نفع سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ جب معاشرے کے بدن پر لگنے والے زخموں کی وجہ سے قوم کا خون بہہ رہا تھا اس وقت حقیقی بیماری کی تشخیص کی گئی اور نہ ہی علاج کا طریقہ دریافت کیاگیا،جبکہ غلط علاجوں نے عوام کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔گزشتہ چند صدیوں کی بیماری کی وجہ سے بخار کے حملوں کے اثرات اب بھی ہمیں بیماری کے پائے جانے کا احساس دلا رہے ہیں، کیونکہ وہ اپنے مرکز سے مسلسل شدت اختیار کرتی رہتی ہے۔
لہٰذا جب تک ہم بصیرت سے مشکلات کے حقیقی اسباب تلاش نہیں کریں گے،اپنی انفرادی،خاندانی اور معاشرتی بیماریوں کا حکیمانہ مہارت سے علاج نہیں کریں گے اور صدیوں سے گندگی کے جس تالاب میں ہم ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اس سے باہر نہیں نکلیں گے اس وقت تک ہم دواکی تلاش میں غلطی پر غلطی کرتے رہیں گے، پہلے سے بھی زیادہ سنگین بحرانوں میں مبتلا ہوتے رہیں گے اور کل کی طرح آج بھی بحرانوں کے فاسد دائرے (Vicious Circle)سے باہر نکلنے میں ناکام رہیں گے۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر اقتدار پر قابض لوگ کئی صدیوں تک بھی اپنے عناد پر قائم رہے تب بھی اپنے شعور،فکر اور تحریکی کام کے ذریعے مستقبل کی طرف رخ کرنے والی،اپنے پیغام،ملک اور ہم وطنوں سے عشق کی حد تک محبت کرنے والی اور خدمت اور احساسِ ذمہ داری کے بے پناہ جذبے سے سرشار فکر کی حامل مثالیں نسلیں تمام گھاٹیوں کو عبور کرکے نئے نظام قائم کریں گی۔ان کے دلوں میں موجود عشق اور جذبہ خدمت معاشرے کے تمام طبقات میں ضرور سرایت کرے گا،جس کے نتیجے میں ہر طرف نئی کونپلیں کھلیں گی۔جب یہ فکر موجودہ مادی اور جسمانی نظام کو ختم کرکے ایک طرف کر دے گی تو وہ یقیناًدنیا کے بارے میں اپنے مخصوص نقطہ نظر اور اپنی تحریک کے ذاتی پروگرام کے مطابق اپنی روح کے خالص ریشمی کپڑے پر ایک بار پھر نقش و نگار بنائے گی۔
- Created on .