کسی حد تک ‘‘معیّنیّۃ‘‘ (Determination)
کل کی نسلوں کی یکجہتی،قوت اور سعادت آج کی ارواح وانفاس کی قربانی کا نتیجہ ہو گا۔ اکتاہٹ کے شکار،گمراہ اور راحت وآرام کے خوگر بے پرواہ لوگوں سے ہمہ جہت اور منظم مستقبل کی امید رکھنا محض وہم اور جھوٹی تسلی ہے۔مستقبل حال کے رحم میں کلی کی صورت اختیار کرتا ہے اور اپنے اجزائے ترکیبی کی مضبوطی کے لیے حال کے دودھ سے پروان چڑھتا ہے۔جس طرح ہمارا آج کا وجود ہمارے ماضی کی اچھی اور بری علامات لیے ہوئے ہے اسی طرح ہمارا مستقبل ہمارے حال ہی کی ایک ترقی یافتہ، وسیع تر اور انفرادیت سے اجتماعیت میں بدلی ہوئی تصویر ہوگی۔ہماری ملی زندگی اپنے رنگوں اور مخصوص حالات کے لحاظ سے ماضی کے پہاڑوں،وادیوں اور میدانوں سے گزر کر اپنے مخصوص رنگوں کے ساتھ مستقبل کی طرف بہنے والی نہر کی مانند ہے۔ جب یہ نہرمستقبل کی طرف بہتی ہے تو جن علاقوں سے گزرتی ہے ان کی خصوصیات بھی اپنے ساتھ لیتی جاتی ہے۔جس آبشار میں ہم بہہ رہے ہیں اگر ہم اسے غور سے دیکھیں تو اس میں ہمیں اپنے آباء و اجداد کے نشاناتِ قدم،ان کی روحوں کے تفکرات، ان کے دماغوں اور اعصاب کے نتائج،ان کے افکار اور ان کے دلوں کی دھڑکن محسوس ہوگی۔بلاشبہ وہ ہماری زندگی کا سرچشمہ ہیں اور ہم اپنی روحوں اور تاریخی تحریکوں سمیت آنے والی نسلوں کا نچوڑ ہیں۔
اگر ہم توارث کا یہ لطیف نکتہ سمجھ جائیں تو ہمیں یقین ہو جائے گا کہ دنیا کی عمر کتنی ہی زیادہ ہو جائے،زمانہ کتنا ہی بدل جائے،کتنی ہی صدیاں بیت جائیں،جو آئے تھے وہ چلے جائیں اور جانے والوں کے بعد اور آجائیں،لیکن اس امت کی روح اپنی تروتازگی اور شباب کو محفوظ رکھتے ہوئے ابدالآباد تک قائم رہے گی۔اس تبدیلی کے خط میں جب حضرت ابوبکرصدیق،حضرت عمربن عبدالعزیزمیں اور حضرت عمر سلطان محمدفاتح میں تبدیل ہوتے ہیں اور حضرت علی غازی‘‘بطال’’ کی روح بن جاتے ہیں اور بدر کے ہیرو ایک بار پھر ملازگرد،کوسوو اورچناق قلعہ(۲۹)میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہر چیز ابدیت سے مربوط ہے۔میرے نزدیک تجدید اور شباب کی حفاظت کا یہی رازہے۔ضروری ہے کہ ہم مستقبل میں اپنے انفرادی زوال کو ملت کی حیثیت سے اپنے وجود کی اساس اور نچوڑ بنائیں،جس کے نتیجے میں ہم دنیوی و اخروی پہلوؤں سمیت ابدیت کو یقینی بنانے کے لیے موت کی خوفناک ترین صورت کو بھی بخوشی گلے لگا لیں گے۔جو بہادرانِ قوم ہمارے مستقبل کو سنوار رہے ہیں اور جن کے سامنے ‘‘مثالی شہروں’’کے تصورات بھی ہیچ ہیں وہ وہ لوگ ہیں،جو دنیا کے گلابی رنگوں کا ادراک کرنے کے دن سے لے کر پرجوش اور رنگین عالم شباب تک اور مضبوطی،قوت اور عزم کے لحاظ سے تمیز اور پختگی کے مرحلے سے لے کر مستقل بڑھاپے کے دور تک عمر کے تمام موسموں سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں۔وہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہیں۔ان کی زندگی کے دن بہت مصروف گزرتے ہیں۔وہ زندگی کے ہر موڑ پر موت کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور جب مرتے ہیں تو ابعاد کی طرف رخ کرکے عشق میں غرق ہو کر مرتے ہیں۔وہ نامعلوم ہیرو اور چلتے پھرتے روحانی محل ہوتے ہیں۔وہ ہمیشہ آگے کی طرف دوڑتے ہیں، لیکن بعد والوں میں بھی ہمیشہ ظاہر ہوتے رہتے ہیں وہ ایسی زندگی گزارتے ہیں کہ کئی نسلوں تک انہیں یاد کیا جاتا رہتا ہے،لیکن وہ موت کا ایسے طور پر سامنا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے بارے میں کہا جائے: ‘‘یہ مسکین یہاں مرا تھا۔‘‘
اگر ہم دورحاضر میں اس طرح کے ہیرو تیار نہ کرسکے یا انہیں اوپر ذکرکردہ ذمہ داریاں ادا کرنے کا موقع نہ دے سکے یا اس جذبے اور حقیقت کے کتلے سے اپنی عمر کے مختلف مراحل کو بُن نہ سکے تو ہم مستقبل نام کی کسی چیز کا وعدہ کر سکیں گے اور نہ ہی آنے والے دنوں میں اپنے وجود کو دوام بخش سکیں گے۔اگر ہمیں اس بات کا یقین ہو گیا ہے کہ جس مرحلے سے ہم اب گزر رہے ہیں وہ مستقبل کے سنہری دور کی بنیاد ہے توہمیں اس بنیاد سے بصیرت،شعور،ادراک اور صبر کے ساتھ زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہیے،روح اور جوہر کی حفاظت کرتے ہوئے اسے مستقبل کے لیے تیار کرنا چاہیے اور اس کے قابل تشریح پہلوؤں کو ایسے خزانوں سے سیر کرنا چاہیے کہ جن کی بدولت یہ مستقبل کو سنوارنے کے قابل بن جائے۔اگرہم نے ضروری اقدامات کو نظرانداز کیا تو اوپر ذکرکردہ وعیدوں سے بچنا ممکن نہ رہے گا۔دین کی روح اور ‘‘فطری شریعت’’(۳۰) کے قواعد کی رو سے اسباب کو نظرانداز کرنا اور پھر اسباب سے متعلقہ نتائج کی توقع رکھنا درست نہیں ۔ ہم کائنات میں مخصوص مقدار اور حالات کے مطابق شرائط کے ساتھ جس ‘‘معیّنیّۃ‘‘ (Determination) (۳۱)کا مشاہدہ کرتے ہیں،اس کا اطلاق تاریخ پر بھی ہوتا ہے۔ماضی کے انسان اور واقعات،جو تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں وہ آج رحم میں موجود سپرمز (sperms) یا ہیچریوں (hatcheries) میں رکھے ہوئے انڈوں کے مشابہ ہیں اور زمانہ حال کی صورت گری کا ماخذ شمار ہوتے ہیں۔اسی طرح علیت کے لحاظ سے آج تاریخ کی سرزمین پر پھیلائے گئے بیج ہی وہ عوامل ہیں،جو حکمت کے پہلو،عدالت کے رنگ،استحکام کے کردار اور استقامت کی معادلت کے نام سے موسوم مستقبل کے نتائج کا تعین کرتے ہیں۔
کیا ہمیشہ سے آج تک ایسے ہی نہیں ہو رہا۔تاریخ کے مخصوص مرحلے میں ہمیں جن تاریک ایام کا سامنا کرنا پڑا کیا وہ اس سے پہلے مرحلے کی آلودگیوں کا نتیجہ نہ تھا؟کیا طوفان کا تنور اس سرزمین پر نہیں پھوٹا،جس پر سرپھرے عنادپرست لوگ حضرت نوح علیہ السلام کو روندتے تھے؟کیا احقاف کی تباہ کن آندھیاں قوم عاد کی غلاظتوں سے زمین کو پاک کرنے کے لیے نہیں چلیں؟کیا سدوم اور عاموراء (۳۲)کی قربانی زمین کا آسمان کی خدمت میں فدیہ نہ تھا؟کیا ماضی قریب تک ہندوستان انگریزوں کے بوٹوں تلے اسی لیے پامال نہیں ہوتا رہاکہ بعض ہندوستانی دوسرے ہندوستانیوں کو اچھوت سمجھتے تھے؟کیا ماضی بعید میں چنگیزخان اور ہلاکوخان جیسے لوگوں کے ہاتھوں ایشیائی اقوام کے ایک دوسرے کو نوچ کھانے اور دورحاضر میں کمیونزم، سوشلزم اور کیپٹلزم کے ہاتھوں غربت اور بدحالی میں مبتلا ہونے کا سبب کائنات کی غلط توجیہہ،باہمی اختلاف اور جہالت نہ تھی؟ذرا ان لوگوں کو دیکھو جنہوں نے ایک ایسی عظیم سلطنت سے غداری کی جو بیسویں صدی کے اوائل تک افریقہ سے بلقان تک اور بلقان سے ایشیا کے بعض حصوں تک کے مبارک علاقے میں طاقت کے توازن کا باعث تھی۔کیا اس عظیم امت کو اپنے کیے کا وبال نہیں پہنچا؟قرطاج (Carthage) کے لوگوں کی مایوسانہ چیخوں، ابتدائی خوفزدہ نصاری کی آہ وبکا اور عظیم سلطنت روماکے مظلوموں کی سسکیوں نے کیا کیا؟کیا وہ سلطنت نیست و نابود نہ ہو گئی؟ لینن،اسٹالن، ہٹلر اور موسولینی کا اپنے افکار اور جذبات کے ساتھ انسانیت کے بدن سے ایک گندے ورم کے طور پر نکلنا اور آج ان پر لعنتوں کا بھیجا جانا ان کی اس سرکشی کے سبب نہ تھا،جس کے سامنے تاریخ کے بڑے بڑے جابروں کی سرکشی ہیچ دکھائی دیتی ہے؟
ابتدائی مظلوم اور نقصان رسیدہ مسلمانوں نے اپنے دشمنوں کو آپس کے جھگڑوں کے سمندر میں غرق کر دیا اور اپنی انصاف پسندی کے ذریعے چہار دانگِ عالم میں اسلام کے پرچم لہرا دیئے۔بدر اور فتحِ مکہ حق اور انصاف کی حاکمیت کی علامت تھی اور احد مظلوموں اور نقصان رسیدہ لوگوں کی فتح کا نشان تھا۔جب تک تلوار دل کے کنٹرول میں رہی پے درپے کامیابیاں ہوتی رہیں،حتی کہ اس مبارک دور میں بظاہر ہزیمت دکھائی دینے والے واقعات بھی فتح و کامرانی میں بدل جاتے اورمستقبل تک پہنچانے والے راستوں پر مدد کی کمانیں آراستہ ہو جاتیں،لیکن جب تلوار طاقت کے ہاتھ میں آگئی اور دل کی زبان پر تالے ڈال دیئے گئے تو اس کے برعکس نتائج سامنے آئے۔کیا اس صورت میں کامیابی کے لباس میں ملبوس تمام تر مادی حاکمیت نے ہی جذبوں میں ہزیمت اور ناکامی کو پیدا نہیں کیا؟جس کے نتیجے میں فتح اور کامیابی کا انداز حسرت و حرمان میں بدل گیا۔
نام یا عنوان کچھ بھی ہو برائی سے برائی ہی پیدا ہوتی ہے اور ظلم سے خالی یا فاسد دائرے کے گرد گھومنے والے مزید مظالم جنم لیتے ہیں۔جن لوگوں نے ماضی یا حال میں فتنوں کے بیج بوئے وہ برائی ہی کاٹیں گے اور جو لوگ بھلائی کی پنیریاں لگا رہے ہیں وہ خیروبرکت کے پھل چنیں گے۔امرواقع میں بسااوقات اچھی اور بری مساعی کے نتائج کچھ مؤخر بھی ہو جاتے ہیں،لیکن جب بھی ان کے پکنے کا وقت آتا ہے وہ ظاہر ہو جاتے ہیں،چنانچہ وہ ظالموں کو حسرت و یاس کی کیفیت میں عذاب کا مزا چکھاتے ہیں،لیکن مظلوموں کے لیے نجات اور سعادت کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ بسااوقات سبب اور اس کے نتیجے کے درمیان سالوں بلکہ صدیوں کی مسافت حائل ہو جاتی ہے،لیکن جب مقررہ وقت اور اثرات کے احساس کی گھڑی آپہنچتی ہے تو وہ بری الذمہ لوگوں کے لیے جنت اور گنہگاروں اور ظالموں کے لیے دوزخ بن جاتی ہے۔
ہم اس سب کی توجیہہ تاریخ کی روح میں کسی نہ کسی درجے میں پائی جانے والی ‘‘معیّنیّۃ‘‘ (Determination) یا سبب اور نتیجے کے درمیان مناسبت سے کرسکتے ہیں،بلکہ شاید زیادہ بہتر اور درست یہ ہوگا کہ ہم اس کی توجیہہ فطری شریعت میں پائے جانے والے انصاف کی روح کے مطابق کریں یا اسے تاریخ کے دہرائے جانے کا سبب قرار دیں۔اگرچہ تاریخی واقعات کے پس پردہ بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں،لیکن قادرمطلق ذات نے اسباب کو اپنی قضاوقدر کے لیے پردہ بنا کر عالم رنگ و بو کو ان سے بھر دیا ہے۔یہ انسان کو عطاکردہ حکمت سے معمور لطفِ الٰہی ہے،نیزوہ ایک ایسا وسیلہ اور ناگزیر زینت ہے،جس کے ذریعے ہم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہیں۔
اس پہلو سے دیکھیں توبعض اوقات معمولی سی تحریک کئی سالوں بعد بہت بڑے نظام کا آغاز بن جاتی ہے اور بسااوقات کسی غلط فکر یا اقدام کے ایسے برے نتائج برآمدہوتے ہیں،جن کا خمیازہ صدیوں تک بھگتنا پڑتا ہے۔
لہٰذا ہمیں اس بات کا حق ہے کہ ہم ان چھوٹے چھوٹے نقوش سے جنہیں بھلائی کے افکار کے کتلوں کے ذریعے دورحاضر کی خوش قسمت نسل کات رہی ہے مبارک مستقبل کے رنگوں پر مشتمل ایک ایسے بابرکت کپڑے کی امید رکھیں،جسے ساری انسانیت کا غم ہوگا۔
- Created on .