ہم اپنارخ اپنی ذات کی طرف کرتے ہیں
یہ وہ دور ہے جس میں ہمیں مشکلات کا سامنا رہا ہے اور اب بھی ہم ان میں گھرے ہوئے ہیں،تاہم ان میں ایک ایسی مشکل بھی ہے،جس نے اپنی گہرائی،علاج کی دشواری اور ناقابل تاخیر حد تک فوری علاج کی ضرورت کی وجہ سے دوسری مشکلات سے ہماری توجہ ہٹا دی ہے۔یہ مشکل ہماری قوم خصوصاً نوجوانوں کا اپنی ذاتی اقدار کو نظرانداز کرنا ہے۔اگر ہم نے وقت نکلنے سے پہلے پہلے ماہرطبیبوں کے ذریعے اس کی شدت کے مطابق اس کا علاج نہ کیا تو ہمیں غیرمتوقع رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا،بعض اوقات فتح کے میدان میں بھی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑے گا اور غیرمتوقع صورت میں نئے پیش آمدہ حوادث کی وجہ سے ہمارامستقبل تاریک ہوجائے گا۔
جو پھوڑے ماضی قریب میں بے توجہی،غفلت،بے پروائی،کمزورصلاحیت اور تبدیلی کے خوابوں کی وجہ سےظاہر ہوئے تھے،انہوں نے ورم کی صورت اختیار کرلی اور پھر تیزی کے ساتھ جسم کے دوسروں حصوں میں پھیل کر ہمیں اپنا تابع بنالیا،یہاں تک کہ اس کی وجہ سے معاشرے کے ہر طبقے پر خزاں کا موسم چھا گیا،جس نے اس کے اصلی رنگوں کو زائل کر دیا۔کتنی ہی بار ان بیماریوں نے ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ان کے غلبے کی وجہ سے ہم بدقسمتی کی زندگی گزارتے رہے! کتنی ہی بار ہم نے اپنے منہج کے خلاف ہونے کے باوجود اپنا غصہ نکالنے کے لیے اس کے خلاف نامناسب الفاظ استعمال کیے یا نامناسب الفاظ ذہن میں نہ آنے کی صورت میں غصے میں پیچ وتاب کھاتے ہوئے ‘‘لا حول و لا قوۃ الا باللہ’’ پڑھنے پر اکتفا کیا! اس طلاطم خیز صورت حال میں بعض تومہلک احساسات کے اس چکر میں سلگتے رہے اور بعض نے گندگیوں میں ملوث ہونے والی غلطیوں سے پردہ اٹھانے پر ہی اکتفا کیا۔
ہمیں چاہیے تھا کہ ہم تشدد اور غصے کی حرارت کو اپنے اندر جذب کرنے کے لیے ان کے جذبے کا احترام اور ان کی نازیبا باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے نئی اور تروتازہ زندگی پیش کرکے انہیں اپنے گلے سے لگالیتے،بلکہ اصولی طور پر مشترکہ معاملات میں مفاہمت کی فضا کو سازگار بنانے کے لیے بعض امور میں دلجوئی کرتے ہوئے رکھ رکھاؤ سے پیش آتے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ بیک وقت ایک سے زائد فکر،فہم اور فلسفے کو قبول کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، اسی لیے ہم اپنی مخصوص ملی تحریک میں فرانس کے علاقائی اثرات،جرمن تصورات پر غوروفکر اور بعض اوقات انگریزی طرزِفکر کے ساتھ موافقت پاتے ہیں اور آج کل امریکی آزادی کا نشہ دیکھنے میں آرہا ہے،لیکن تمام حالات میں ہم اپنے مرکزی راستے کے مخفی پہلوؤں پرزور دیتے ہیں۔
یہ مفاہیم،تصورات اور فلسفے ہماری ملی ثقافت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں،لیکن تمام حالات میں اس قسم کے تنوع کی بامعنی اور عمدہ قدرپیمائی کی جاسکتی ہے۔ میرے نزدیک اہم بات یہ ہے کہ قوم اپنی ذاتی اقدار اور اپنے ذاتی فلک میں گردش کی حفاظت کرے،لیکن یہ بات باعث افسوس ہے کہ اس ثقافتی تنوع کی مفید اصلاح کرسکنے والے حضرات ایسے وقت میں اس کی اصلاح کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے سے عاجز رہے جب ان میں سے ہر دو پیشکشوں کو تضاد سے نجات دلانے والی متبادل پیشکش کا اہم عنصر سمجھا جاتا تھا۔ہماری حالت ان سادہ لوح کان کنوں کی سی ہے جو پتھروں اور مٹی کے درمیان میں سے سونے کی کان تک جانے والا راستے دیکھتے ہیں، لیکن پتھروں اور مٹی کے ساتھ دل بہلانے یا کان کے جس صحن میں وہ گھوم پھر رہے ہوتے ہیں اسی کو سونے کی کان سمجھ کر اصل مقصد کو بھول جانے کی وجہ سے راستے میں ہی سرگرداں رہتے ہیں۔کتنی ہی بار روشنی کے سرچشمے ہمارے ہاتھ آئے،لیکن ہم ان سے روشنی کا فائدہ نہ اٹھا سکے، بلکہ ان سے ہمارے ہاتھ صرف آگ اور تپش ہی آئی، جس کے نتیجے میں جہاں سے ہم روشنی لینا چاہتے تھے وہاں سے ہمیں آگ ملی۔کتنی عجیب بات ہے کہ جب ہم میں سے کوئی علم کے دوقطرے جان لیتا ہے تو دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے یا ایک قطرے کی بقدر سوچنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہوکر اپنے آپ کو فلسفی خیال کرنے لگتاہے! اور جو لوگ صاحب اقتدار بنتے ہیں وہ عقل ودانش کو ایک طرف رکھ کر اندھی طاقت کا استعمال کرنے لگتے ہیں۔سیاست دانوں نے گروہ بندی کو اپنا مقصد بنا کر ہر چیز کو جماعتوں کے پاس گروی رکھا ہوا ہے اور گروہ بندی پر ہر چیز کو فدا کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ہماری معاشی،سیاسی اور ثقافتی سرگرمیاں حسد، مقابلہ بازی اور تنگدلی کے باعث‘‘تعارض وتضاد’’کے دور کے فاسد دائرے (Vicious Circle) کے جال سے باہر نہ نکل سکیں،حتی کہ نوجوان بچپن سے ہی اپنی زیتون کی شاخوں یا پروں کی بنی ہوئی نرم ونازک گڑیوں سے ڈنڈوں کا کام لیتے ہوئے ایک دوسرے کو مارنے لگتے ہیں۔نوجوانوں نے اپنی روح میں موجود حرکتِ عمل کے جذبے کو اپنی ملت کے مخالف راستوں پر صرف کیا اور اس طرح انہوں نے اپنے کھوئے ہوئے اعتبار اور پامال کی ہوئی عزت آبرو کو بحال کرنے کے بجائے اپنی روح کو خراب کر دیا۔
یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ہم ایک دوسرے سے محبت کرسکنے کے باوجود ایک دوسرے سے محبت کیوں نہیں کرتے؟ہم لازوال دوستی کا رشتہ کیوں نہیں قائم کرتے؟ ہم ایک دوسرے کے دکھ درد اور غمی خوشی میں کیوں نہیں شریک ہوتے؟ کیا دلوں کو جیتنے کے لیے جدوجہد اور حمیت میدانِ جنگ میں جانبازی کا مظاہرہ کرنے سے زیادہ دشوار کام ہے؟یا انسان کے قیمتی ترین عضو دل کے دروازے محبت، درگزر، ایک دوسرے کوگلے لگانے،قبول کرنے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کے جذبات کے لیے بند ہیں اور بغض،حسد،دھوکے،ناگواری اورفکری تنگی کے لیے کھلے ہیں؟ہرگزنہیں!میں دل کو پیدا کرنے والے خدا کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ انسانی شخصیت کا اہم ترین پہلو اعلیٰ اخلاق کے لیے اس قدر تنگ ہوسکتاہے اور نہ ہی گندگیوں کو اس قدر قبول کر سکتا ہے۔
دنیا کے عظیم فاتحین نے اپنے ہر کام کا آغاز دلوں کو فتح کرنے سے کیا اور پھر اس مرکز سے دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئے۔اگر انہوں نے اناطولیہ کے لوگوں کے دل نہ جیتے ہوتے تو’’ملازکرد‘‘کے معرکے میں کامیابی ان کے قدم نہ چومتی اور اگر استنبول کا محاصرہ کرنے والے بہادر نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن میں امیدکی کرن نہ ہوتی تو بازنطینی فصیلوں کے پیچھے سے آگ برساتی توپیں خاموش نہ ہوتیں۔یہ محبت و شفقت کاجال ہی ہے،جو اہل ایمان کے دلوں میں ایک شعور اور تعلق کی صورت میں نمودار ہوتا ہے اور پھر تمام سینوں میں پھیل کر انہیں محبت کے جذبات سے لبریز کر دیتا ہے،یہاں تک کہ جب اس کی تاریں کسی سرزمین پر پہنچتی ہیں تو لوگ دل ہاتھوں میں تھامے اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔وہ بھی بڑے نازوانداز سے ان کی طرف بڑھتی ہیں اور انہیں اپنی آغوش میں لے کر محبت کے قصے سناتی ہیں۔
جب ہماری تاریخ ان بیماریوں سے پاک ہے تو ہم میں بغض،عداوت، تنگدلی اور حسد کہاں سے سرایت کر آیا ہے؟ہم ایک دوسرے سے بغض کیوں رکھتے ہیں؟ ایک دوسرے کے لیے جال کیوں بچھاتے ہیں؟بھیڑیوں کی طرح ایک دوسرے کو کیوں چیرتے پھاڑتے ہیں؟اور ایک دوسرے پر زندگی کا دائرہ کیوں تنگ کرتے ہیں، جبکہ ہم پچھلی دو صدیوں سے فرانس، جرمنی،انگلستان،امریکا اور جاپان کے لیے اپنے دل میں پسندیدگی اور گہری محبت کے جذبات رکھتے ہیں؟کیا ہماری ‘‘شخصیت’’ کو کوئی بیماری لاحق ہوگئی ہے؟اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہم زبان حال سے کیوں کہتے ہیں: ‘‘ہم میں کوئی بھلائی نہیں ہے،لہٰذا ہمیں اجنبی خیالات کی پناہ لینی چاہیے۔’’کیا ہم خوابوں اور خیالوں کی خاطر ایک ہزار سال تک سربلند رہنے والی اپنی تاریخی اقدار و روایات کو کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیں؟
ہم بے مقصد مشکلات کے انبار لگاتے رہے۔۔۔اور اس دوران خواہشوں، رغبتوں اور خوابوں کے زیرِاثر سہارے،فلک،فکروعرفان اور راہنما و ناخدا سے محروم نسلیں پروان چڑھیں۔ وہ مابعدالطبیعی افکار سے تہی دامن تھیں اور ان کی صورت اور سیرت سے ملی رنگ غائب تھا۔وہ ساری عمر اس وہم میں مبتلا رہیں کہ وہ دنیابھر سے مانگے ہوئے بوسیدہ کپڑوں سے‘‘میں کون ہوں؟’’ کے سوال کا جواب پالیں گی، جس کے نتیجے میں وہ مادہ پرستی کے مد و جزر کی قید میں بغیر قلب و زبان کے مضطرب ہیں۔ بعض اوقات انہوں نے دین کو اساطیر سے خلط ملط کردیا،اباحیت کو خوش آمدید کہنے کی رسوم پر اخلاقیات کو قربان کردیا،فن کے تصورات پر شہوت پرستی کا رنگ چڑھا دیا اور شعروموسیقی کو بیہودگی کے منہ سے ٹپکنے والی رال میں تبدیل کردیا ۔۔۔ اور پھر انہوں نے اپنے آپ کو ایک ایسے مہلک معرکے میں پایا جہاں اس قسم کی پچاس غلط فہمیاں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار نظر آتی ہیں۔
اس کے بعد اس پرکوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ یہ نسل دائیں بائیں والوں پر زیادتی کرتی ہے،اپنے ماضی کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے،اپنا ایمان ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر اپنا اعتماد بھی کھوتی ہے اور دوسروں کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتی ہے،اپنے انسانی احساسات کے علاوہ محبت پر حسرت سے آہیں بھرتی ہے،اس مرحلے میں اپنے بچوں کی تربیت غیرملکی اسکولوں کو سونپتی ہے اور اس کی فکر بچوں کی طرح پروان چڑھتی ہے۔۔۔وہ ہر لحاظ سے مصیبت زدہ ہیں۔ان کے قریبی ساتھی غیروں میں سے ہیں۔وہ ان سے خود ان کی ذات سے بھی قریب تر ہیں۔باہمی قرب کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی حرارت محسوس کرتے ہیں،لیکن باہمی تعلقات کی ٹھنڈک کی وجہ سے ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں،جن کا ایمان سینکڑوں شبہات کی وجہ سے تارتار ہے۔ان کے اعتماد کی بنیادیں متزلزل ہیں۔ان کی امیدیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ان کے دل خشک چشمے کی مانند ہیں۔ان کے انسانی احساسات بغض،حسد اور عداوت کے زیرِتسلّط ہیں۔ان کے ویران دل مختلف اندیشوں کی جولان گاہ بنے ہوئے ہیں۔وہ اہداف ومقاصد کی عدم موجودگی پر راضی ہیں۔شکست ان کا مقدر ہے۔ان کے فکری آفاق تاریک ہیں۔انہیں نشیب میں بھی فراز جیسی دشواری محسوس ہوتی ہے۔وہ مغز اور ست سے محروم ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے ان کا وجود صرف چھلکے پر قائم ہے۔غرض ان کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اس زندہ لاشے میں روح پھونکنا بہت دشوار کام ہے،کیونکہ یہ نسل اپنی ذاتی اقدار کی مخالفت کرنے کی وجہ سے ہمارے طرزِزندگی سے نامانوس ہو چکی ہے،لیکن اس کے باوجود اس میں بیداری پیداکرنے کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ہمیں یقین ہے کہ عنقریب وہ صور کی آواز سننے والے کی طرح اپنے قدموں پر اٹھ کھڑی ہوگی اور جب مشیت الٰہیہ ہمارے ارادے میں جان ڈالے گی تو وہ ایک بار پھر اپنے وجود کی آمد کا سنجیدگی کے ساتھ نعرہ بلند کرے گی۔ بلاشبہ معاشرے میں پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنا اور صدیوں کی سنگین غفلت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فساد اور بگاڑ کی اصلاح کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے،لیکن اپنی اور اپنی ذمہ داری میں داخل مظلوم و مقہور لوگوں کی پستی کو کئی بار بلندی اور عروج میں تبدیل کر چکنے والی فکر کے علمبردار اِن خوفناک رکاوٹوں کی آزمائش میں سرخرو ہو کر اپنی دنیا کے ویرانوں میں دوسروں کے لیے سرسبزوشاداب باغات لگائیں گے،جس معاشرے میں نئی روح پھونکنے پر وہ مامور کئے گئے ہیں اس کی دراڑوں اور خلا کو وسیع پیمانے پر درگزر سے کام لیتے ہوئے پُرکریں گے۔وہ دوسروں کی غلطیوں کی طرف انہیں چھوٹا کرکے دکھانے والے عدسے اور اپنی غلطیوں کا شعور رکھنے والے وجدان کی نظر سے دیکھیں گے اور انہیں روحانی ایذیت پہنچائے اور اپنی غلطیوں کا احساس دلائے بغیر ان سے چھٹکارہ پانے کے لیے ایسے حاذق طبیب کی طرح متعدد متبادل صورتوں کی طرف ان کی راہنمائی کریں گے،جو اپنے مریضوں کو ان کی بیماری کا احساس بھی نہیں ہونے دیتا۔
واضح طور پر یہ بات ناقابل تصور ہے کہ دو صدیوں سے اقدار کی تبدیلی کا شکار بننے والے معاشرے کی ہر چیز تبدیل ہو جائے۔رکاوٹوں اوردشواریوں پر ایک ہی کوشش میں قابو پانا خارقِ عادت کرامات میں سے ہے۔ایمان کو بے دینی کی جگہ،نظم وضبط کو آزادروی کی جگہ،نظام کو بدانتظامی کی جگہ،اخلاق کو اخلاقی سوزی کی جگہ اورعشق الٰہی اور ملت کی محبت کو خواہشات نفس کی جگہ لانا آسان کام نہیں ہے۔اسی طرح سالہاسال کے اثرات کو زائل کرنا،ایمان کے خیمے کے بیچوں بیچ اپنا تخت بچھانے والے الحاد کو ختم کرنا،اخلاقی اقدار کو بالکل الٹا کر دینے والی لاپروائی کا ازالہ کرنا،ہر اس غیرمفید اقدام کا سدِّباب کرنا جس کی وحشی خواہشات کو فوائد پہنچا کر بھڑکایا گیا اور پھر ان کی جگہ ان اقدار کو پیدا کرنا جن کا اللہ تعالیٰ ہم سے تقاضا کرتے اور رسول اللہﷺ حکم دیتے ہیں، بھی سہل نہیں ہے۔ برسہا برس سے دنیا میں جس کا ہم بھی حصہ ہیں،گمراہ کن نظریات،بے فائدہ تصورات،سرکشی و نافرمانی کی بیہودگیوں کی وجہ سے کسی معاشرے کو صحیح معاشرہ بنانے والے معیار ٹوٹ گئے ہیں اور معاشرہ انسانوں کا ایک انبوہ بن کے رہ گیا ہے،جس کے نتیجے میں دلوں سے احساسِ ذمہ داری نکل گیاہے اور فعال قوتوں پر ‘‘رِندی (Bohemianism) ‘‘کے احساسات کا تسلط ہوگیا ہے۔ اس نامبارک دور میں کہ جس میں ہردم تغیرپذیر خیالات و اوہام نے انسانی گروہوں کو اپنے پیچھے لگا لیا ہے، لوگوں نے اپنے آپ کو نامعلوم انجام کے حامل رجحانات کے حوالے کردیا ہے۔چنانچہ بے مہار لوگ کہنے لگے: ‘‘کتنے ہی سالوں سے میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں! ’’آزاد طبیعت کے لوگ کہنے لگے: ‘‘کتنے ہی ایسے امور پر میں نے حیا کا مظاہرہ کیا جو حیا کے قابل نہ تھے! کاش میں بے مقصد حدود پر نہ ٹھہرتا!’’اور صحیح سوچ سے محروم لوگ کہنے لگے: ‘‘ہم نے سرکشی اور نافرمانی کی،جس کے نتیجے میں ہمیں نجات اور خلاصی مل گئی۔’’یا یوں کہنے لگے: ‘‘ہم نے حلال و حرام کی حدود کو عبور کرکے آزادی کو پالیا۔‘‘
اب ایک بار پھر ہمارے اور محب وطن شخص کے کندھوں پر اس انتشار کو ختم کرکے اپنے پژمردہ نشاط کی قدرت میں اپنے فکری آفاق کے مطابق تحریک پیدا کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم ایک بار پھر جذبے کے حرم میں آجائیں،اپنے ارادے کے حق کو پوری طرح سے استعمال کریں اور اس راستے پر ایک بار پھر حواریوں اور ابتدائی مسلمانوں کی طرح ایسے حوصلے سے چلیں،جو سالہاسال کا ظلم وستم سہہ کر مستحکم ہو چکا ہو۔ہمیں چاہیے کہ جہاں بھی انسان پائے جائیں وہاں ایمان،یقین اور عرفان کی ضرورت کا گہرا شعور ہمیں عمربھر ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتے رہنے پر مجبور کرتا رہے تاکہ ہم اپنی باقی ماندہ زندگی میں رضائے الٰہی حاصل کرنے والے اہل حقیقت کی فکر اور حرکتِ عمل (Dynamism)کے کپڑے پر نقش ونگار بناتے رہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر اس قدر معتدل مزاج کے حامل اصحاب دل نے اپنے ہاتھ بڑھائے تو ساری روئے زمین کے لوگ احسان مندی سے ان کے ہاتھ چوم لیں گے۔اگر ہمارے دین،زبان،پیغام اور وطن کے پرچم کو بلندرکھ سکنے والے پختہ اور مستحکم ارادوں کے مالک حضرات روئے زمین پرشہرشہر پھریں گے توجس دروازے کوبھی وہ کھٹکھٹائیں گے وہاں ان کا حضرت خضرعلیہ السلام جیسااستقبال کیا جائے گا اور ان کے پیش کردہ افکار کو اکسیرِحیات سمجھ کر قبول کیا جائے گا۔ایسے لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضرعلیہ السلام جیسی دوستی کی معیت میں لانہایت کی طرف چلیں گے،کسی ذوالقرنین کے انتظار میں بیٹھے لوگوں کی حفاظت کے لیے دیواریں تعمیر کریں گے،صدیوں سے جنگلوں میں بھٹکتے پھرتے لوگوں کی احیائے نو کے راستے کی طرف راہنمائی کریں گے اور جہاں کہیں مناسب سمجھیں گے وہاں اس عظیم وسیع اور جامع نشاۃ ثانیہ کی ابتدائی چنگاریاں لگا دیں گے،جس کا لوگوں کو صدیوں سے انتظار ہے۔
- Created on .