ہمارا سب سے بڑا قومی قضیہ (Cause)
آج جبکہ سارا عالم موسم بہار کی طرف بڑھ رہاہے،سب اس پرمتفق ہیں کہ تاریخی صورتحال سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں کے باوجود مستقبل روشن ہوگا۔ہمیں ان لوگوں کے حالات سے باخبر رہنا چاہیے،جو عزم وارادے اور اعلیٰ صلاحیتوں کے ذریعے اس عالمی تشکیل پر زور دے رہے ہیں۔بلاشبہ ہرتعلیم یافتہ شخص کا فرض ہے کہ وہ کچھ دیر اپنے وطن اور قوم کے مستقبل کے بارے میں سوچے،لیکن یہ بات محل نظر ہے کہ تمام لوگ اپنی ان ذمہ داریوں کا احساس رکھتے ہیں،تاہم اتنی بات میں یقینی طور پر جانتا ہوں کہ اس وطن کے کچھ لوگ اس امید پر کہ دشوار گزار راستے ایک نہ ایک دن ہموار راستے تک پہنچا دیں گے سالہاسال سے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں اور اس کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
اس وطن اور سرزمین پر جسے عرصہ دراز سے لاکھوں قربانیاں دینے والوں کے خون سے سیراب کیا جاتا رہا ہے،اس کے ایسے باوفا سپوت بکثرت رہتے ہیں،جو ماضی سے حال کی طرف منتقل ہونے کے جذبے سے سرشارہیں،جو امیدوں کو اپنے سینے میں لیے ہوئے اپنی قوم کی ترقی کے بخار میں مبتلا ہیں۔ان کے آدھے اعضاء روزمرہ کے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں تو باقی آدھے اعضاء مستقبل کی منصوبہ سازی اور پروگرام وضع کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ پرانی پرشکوہ تاریخ اور خوش بخت اور ذہین قوم جس نے ایک ہزار سال تک اپنے سب سے بڑے قضیے (Cause) کی نہ صرف حفاظت کی،بلکہ اسے ترقی دے کر بہترین شکل وصورت عطا کی،اس کی چنگاری ایک بار پھر پرانے شوق کے ساتھ دلوں میں سلگنے لگی ہے،کیونکہ نسل نو کی ایک بڑی تعداد اپنے آپ کو اس قضیے (Cause) کے رموز اور اس پیغام کی نمائندہ سمجھتی ہے،وہ اتحاد ویکجہتی کے جذبے سے سرشار اور اپنی قوم کو زمانے بھر کی اقوام سے زیادہ ترقی یافتہ بنانے کے بارے میں پرعزم ہے۔یوں لگتا ہے کہ اگر کوئی تباہ کن بادِمخالف نہ چلی تو مستقبل ایسے لوگوں کے لیے ایک دائمی پنڈال کی صورت اختیار کرلے گا۔
اس قضیے (Cause) نے اسلام کی ابتدائی عظیم ہستیوں کے ہاتھوں اپنے وسیع پر پھیلائے۔پہلے امویوں اور عباسیوں کی باری آئی،پھر اس قضیے (Cause) کو سلجوقیوں کے ہاں ایک مختلف قسم کی قدرومنزلت ملی اور آخر میں عثمانیوں کے ہاں اسے عظیم اور بلندترین قضیے (Cause) کا مقام حاصل ہوا،لیکن پھر وہ ایک مخصوص مرحلے میں تلخ صورتحال سے دوچار ہوا،تاہم آج ہم گاؤں اور شہروں،خاندان اور ریاست،شاہراہ اور مدرسے،علم وفن اور اخلاق وعمل میں زندگی کی ایک نئی لہر اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور ہمیں ان لوگوں کی کاوشوں سے جنہوں نے اپنے دل کی دھڑکنوں سے وطن کے لیے روحانی خاکہ تیار کیا اور اپنے آنسوؤں سے اس میں رنگ بھرا اور اس کی آبیاری کی ہرقسم کی رکاوٹوں کے باوجود ہر بلندی وپستی پر اس قضیے (Cause) کے پرچم صبح صادق کی طرح لہراتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔اگر فجرکاذب کے فریب کا دورگزر گیا تو سورج کے طلوع ہونے کی سب سے سچی شہادت یعنی فجرصادق بھی اسی افق پر دکھائی دے گی۔
مادہ پرستی،مقام ومنصب کی محبت،زندگی کی خواہش،شہرت کے سامنے کمزور دلی،دنیا کے ہاتھ سے جاتے رہنے کے اندیشے اور ہر متروک اور پھینکی ہوئی چیز کی تقدیس وغیرہ جیسے ہمارے روحانی اور فکری معاملے کی جگہ لینے والے عوامل کے برعکس آج ہم انہیں اپنی جگہ سے ہٹتے ہوئے اور ان کی جگہ روح اور حقیقت کو مرکزی حیثیت دینے والے امور کو لیتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ہم علم و فن اور فضائل واخلاق کے اعلیٰ درجے کے نمائندوں یا اس نمائندگی کے لئے نامزد امیدواروں میں سے ماضی کی تمام اقدار کے پاسبان ابھرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ہم انہیں کل تک وطن کو بچانے اور ملک کو مغرب کی سطح تک لے جانے کے دعوے کرنے والوں اور مغرب کے روشن افکار و تخیلات کے ساتھ کام میں مشغول ہونے کا دکھلاوا کرنے والوں کی جگہ موجود پاتے ہیں۔
ابھی تک سیاست اورمصلحتوں کے میدانوں میں اور مفادات کی گزرگاہوں پر معرکے لڑے جا رہے ہیں۔بعض لوگ اب بھی حرص وہوس اور خواہشات کو اہمیت دیتے ہیں اور وطن کی حفاظت، قوم کی تربیت،ملکی ترقی اور دیگر بیہودہ دعوؤں کے ذریعے قوم کو تذتذب کی کیفیت میں مبتلاکرتے ہیں،لیکن مجھے کوئی ایسا دور بتلایئے جس میں ایسے لوگ نہ پائے گئے ہوں۔ایسے لوگ ہر دور میں رہے ہیں اور جس طرح آج موجود ہیں کل بھی موجود رہیں گے۔تاریخ جس طرح دشنام طرازوں،چیرپھاڑ کرنے والوں،جال بچھانے والوں،خیانت کرنے والوں اور جھوٹ بولنے والوں کے ذکر سے بھری پڑی ہے اسی طرح اس میں نیک اور اچھے لوگوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔اس موضوع پر زیادہ تفصیل سے گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں،کیونکہ خوف سے لرز اٹھنے کے لیے ماضی قریب میں جھانک لینا ہی کافی ہے۔کتنی ہی جانیں جمہوریت کے نام پر لی گئیں!کتنے ہی معاشرتی طبقوں میں عداوت پیدا کرکے انہیں بھیڑیوں کی طرح آپس میں دست بگریباں کیا گیا!اور کتنی ہی بار ہمارے دلوں میں بغض وعداوت اور حسد کے جذبات بھڑکائے گئے!ہمیں اس کی امید نہیں ہے کہ معاشرے کے بعض طبقات کی سرگرمیاں اپنی نوعیت اور فطرت کے لحاظ سے حال یا مستقبل میں ماضی سے مختلف ہوں گی۔بہترین اور پاکیزہ ترین معاشرہ بھی تاریک، دھوکادینے والوں،اختلافات پیدا کرنے والوں، استحصال کرنے والوں اوراپنے گمراہ کن نقاب باربار بدل کر نظروں سے اوجھل رہنے والوں سے خالی نہیں ہوتا۔ماضی میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا، تاہم عصرحاضر اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ اس میں دنیا بھر کو اپنی خوشبو سے مہکا دینے والی افرادی قوت اور جدوجہد وافر مقدار میں نظر آرہی ہے۔
آج مختلف ناموں اور عنوانوں سے کام کرنے والی تربیتی جماعت اور محبت، رواداری اور مکالمے کو فروغ دینے والی جدوجہد معاشرے کی بدحالی کی اصلاح اور اس کی روحانی قوت کے سرچشموں میں تحریک پیداکرنے کے سلسلے میں بہت اہم اقدام ہے۔یہ ایک ایسا اقدام ہے،جو غیبی اور مابعدالطبیعاتی حقائق اور ایمان رکھنے والی نسلوں کے ہاتھوں قوم کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو بحفاظت ساحل تک پہنچانے کا کارنامہ سرانجام دیتا ہے۔جن خاندانوں نے ماضی میں یمن سے بلقان اور عرب کے ریگزاروں سے ایشیا کے میدانوں تک کی وسیع وعریض سرزمین پر اپنے جگرگوشوں کو کھویا انہوں نے آزادی اور استحکام کی جدوجہد کی بدولت اپنے نقصان کی تلافی کرلی ہے اور ایک نئی دنیا آباد کرنے کے فیصلے کے نتیجے میں اس کی امیدیں جواں ہوگئی ہیں،لیکن آج کی وہ نسل جس کی روح اور شخصیت بدحالی کا شکار ہوچکی ہے اور اخلاق وفضیلت اور فکروفن کے لحاظ سے اس کی انسانی اقدار کے مجموعے سے بہت سی چیزیں کم ہوچکی ہیں، روحانی آزادی اور فکری استحکام کے سائے میں احیائے نو کا مشاہدہ کرے گی۔
انیسویں اور بیسویں صدی ہمارے انتشار اور پستی کا دور تھا۔کافی عرصے تک توہم اس انتشار اور پستی کے حقیقی اسباب ہی نہ جان سکے یا یوں کہیے: ‘‘اس بارے میں افکار کو قصدًا اور عمدًا بگاڑا گیا۔۔۔’’ یہی وجہ تھی کہ ہمیں دین،علم و فن اور ایجادات کے میدان میں پستی کے خوفناک مناظر دیکھنے پڑے،یہاں تک کہ فکری دائرے میں بعض متنافس رجحانات اپنے موہوم خوابوں اور حیرت کے زیراثر الحاد اور انکارِ خدا کے رجحانات میں تبدیل ہوگئے،بلکہ علمی قابلیت کی جگہ سفسطہ اور علمی دعوؤں کے فیشن، ثقافت کی جگہ گمراہی اور ملمع سازی اور جدوجہد کی جگہ مسخ اور خراب کرنے نے لے لی اور حیلہ گری کو مہارت سمجھنے والے بعض لوگوں نے جھوٹ،فریب اور جعل سازی کے ذریعے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔
لیکن قدرت کی کرشمہ سازی دیکھئے کہ وہ تاریخی محرکات اور قوم کی روحانی جڑیں آج بھی مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں اور انہیں مسخ کرنے والے پیٹھ پھیر کر بھاگ چکے ہیں۔نبی کریمﷺکے راستے پر چلنے کے لیے ایک بار پھر بیدارہونے والی یہ قوم بہار کے تروتازہ جھونکوں کے ساتھ نئے وجود کے نغمے گا رہی ہے۔اس کی حالت چنبیلی کے ان پودوں کی طرح ہے،جو زمین کے کسی ایک حصے پر اگتے ہیں تو وہاں سے دوسری جگہوں کی طرف پھیلتے چلے جاتے ہیں۔آج ہم اپنے آپ کو پہلے سے کسی قدر زیادہ پرعزم اور مضبوط ارادے کا مالک پاتے ہیں،کیونکہ ہم خودی کو پانے اور اس کی طرف لوٹنے سے حاصل ہونے والی امید اور انشراح سے مدد حاصل کرتے ہیں۔میری خواہش ہے کہ آج سے اور اس سے پہلے کی بھی ہر کاوش اور عزم اور آنسوؤں کا ہر قطرہ ہمارے بگڑتے ہوئے زخموں کی شفا اور بعض لوگوں کی نظروں میں ہمارے تاریک ہوتے ہوئے مستقبل کی ضیا بن جائے۔
آج جبکہ ہم اکیسویں صدی کی دہلیز پر کھڑے ہیں ہمارے ملک اور ہم سے وابستہ دیگر ممالک کا مستقبل جیش النور کے نورانی پروں والے ان عقابوں سے مربوط ہے،جو دورِحاضر میں علم،فضیلت اور اخلاق کے نمائندے متصور ہوتے ہیں اور جن کی اکثریت نے اپنے آپ کو تعلیم وتربیت کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ان شاء اللہ قائدانہ صلاحیتوں کی حامل یہ مبارک نسلیں نورانی آوازوں اور افکار کا روپ دھار کر زمانے کے ساتھ ہماری قوم کا حساب بے باک کریں گی،بلکہ اس سے بڑھ کر ہماری تاریخی اقدار کا احیائے نو بھی کریں گی۔
ہمارے اہداف کی تکمیل کے لیے کسی اندھی طاقت کے استعمال کی مطلقاً ضرورت نہیں،کیونکہ حق کی مطیع قوت کے وجود کی حکمت کو تسلیم کرتے ہوئے حق کے اثبات کے بارے میں ہمارا اپنا ایک نظریہ ہے،جو ہماری وسیع ذاتی فکر،ہمارے عمدہ ترین فنی تصورات اور بال سے بھی کہیں زیادہ لطیف عرق ریزیوں سے ہم آہنگ ہے۔علاوہ ازیں ہم تکنیکی مہارت اور ٹیکنالوجی کی ضرورت،صنعت کے لزوم اور فوری ضرورت کو تسلیم اور اقدار پر علم کی فوقیت کا احترام کرتے ہیں اور اپنے وطن کو ان تمام شعبوں میں مضبوط بنانے کی بے پناہ اہمیت اور اس مشکل کام میں اس کی بھرپور مدد کرنے کی ضرورت پر یقین رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں اعلیٰ دماغوں،کشادہ افکار اور وسیع آفاق کے حامل ایسے راہنماؤں کی ضرورت ہے،جو دورِحاضر کے انسان کے لیے اس قسم کا توازن قائم کریں،ہماری قوم کو فکری بلندیوں تک لے جائیں،ہماری اپنی ذاتی معنویات کے اصولوں کی طرف راہناجئی کریں اور بلندیوں کی مشتاق ہماری روحوں کو لانہایت کی طرف چھوڑ دیں۔
وطن عزیز کو جماعتوں اور جماعتی تعصب کی بجائے علم،اخلاق اور فضیلت کے حواریوں، ایمان اور امید کے لحاظ سے مستحکم،عشق اور جذبے سے سرشار اور مادی، روحانی، دنیوی اور اخروی اغراض سے پاک بہادرانِ قوم کی ضرورت ہے۔میرے خیال میں جب تک ہم ایسے لوگوں سے نہیں ملیں گے اور اپنے آپ کو ان کے سپرد نہیں کریں گے اس وقت تک ہماری غربت اور قید سے ملی جلی کیفیت کسی نہ کسی صورت میں برقرار رہے گی۔میں لامحدود رحمت کی مالک رحمان ذات سے دعا کرتا ہوں کہ وہ حضرت خضرعلیہ السلام کے سرچشموں سے سیراب ہونے والی اور ہمارے لیے اپنے ہاتھوں میں زندگی کے آبخورےاٹھائے ہوئے ان لافانی ہستیوں کے ذریعے ہماری مدد کریں،جن کی آفاق پر ظاہر ہونے والی علامات دیکھ کر ہمیں تسلی ملی ہوئی ہے اور جن کے ہم سالہاسال سے منتظر ہیں۔
- Created on .