قریبکیچیزوںکا نظر نہ آنا اورمسلسلکام
سوال: بہت سے لوگوں نے بہت سی عظیم ہستیوں کے زمانے میں پرورش پائی بلکہ ان کے قریبی ماحول میں رہے لیکن اس کے باوجود ان سے مستفید نہ ہوسکے۔ تاریخ میں ایسے لوگوں کی تعداد کوئی کم نہیں۔ اس کے اسباب کیا ہیں؟ اس طرح کے حالات سے بچنے کے لیے ہمیں کیسا رویہ اپنانا چاہیے؟
جواب: ہوسکتا ہے کہ کوئی انسان نہایت قریب ہونے کے باوجود ایسے اقدار کو نہ دیکھ سکے جو انمول ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی تو وہ اپنے نقطہ نظر پر قابو نہیں رکھتا، کبھی کسی شے کے بارے میں اپنے تعصب کی وجہ سے اور کبھی کچھ ایسے احکام کی وجہ سے جو اس نے پہلے ہی صادر کئے ہوتے ہیں اور کبھی بھی اپنے اندر پیدا ہونے والے بغض کی وجہ سے نہیں دیکھ سکتا۔ اگلی بات یہ کہ پھر یہ معاملہ صرف احترام نہ کرنے پرختم نہیں ہوجاتا بلکہ بعض اوقات ان اقدار کی کھلم کھلا دشمنی پر اتر آتا ہے۔ ایسی حالت کو آپ ’’قریب کی چیزوں کا نظر نہ آنا ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔
ابو لہب: حسد اور کینہ کا حقیقی نمونہ
جو لوگ اس طرح کے اندھے پن اور بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں ان کے لیے (کسی بھی حال میں) ایسی عظیم شخصیات سے مستفید ہونا اور اپنے لیے مناسب چیزوں کو دیکھنا ناممکن ہوتا ہے کیونکہ چیزوں کے بارے میں ان کی سوچ میں کمی اور کوتاہی ہوتی ہے۔ ان کے لیے یہ کام بہت مشکل ہوتا ہے ا گرچہ وہ ان کے کتنے ہی قریب کیوں نہ ہوں۔ بالکل اسی طرح جیسے آنحضرتﷺ کے حقیقی چچاابولہب کا حال تھا اگرچہ اس کی زندگی نبی کریم ﷺ اور آپ علیہ السلام کے گھریلو ماحول میں گزری ۔ ابولہب نے آپ علیہ السلام کو بار ہا گلے لگایا۔ بچپن میں آپ کو کھلایا اور اپنی لونڈی ’’ثویبہ‘‘ کو آ پ علیہ السلام کو اپنا دودھ پلانے کی اجازت دی۔(1) کئی سال تک اس کا گھر آپ علیہ السلام کے گھر کے ساتھ تھا۔ ہمیشہ رستے میں ایک دوسرے سے ملاقات رہتی تھی۔ اسی طرح ابو لہب نے اپنے دو بیٹوں ’’عتبہ اور عتیبہ‘‘ سے نبی کریم ﷺ کی دو دختران نیک اختر ام کلثوم اور رقیہ کی شادی کرا کر ایک اور رشتہ بھی قائم کیا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابو لہب نے ان تمام اخلاق حسنہ کامشاہدہ کیا جن سےآپ ﷺ کی ساری زندگی آراستہ و پیراستہ تھی لیکن اس کے باوجود وہ بد قسمت تھا کیونکہ وہ نبی کریم ﷺ کی نبوت پر ایمان نہیں لایا۔ اس طرح وہ ’’قریب کی چیزوں کے نظر نہ آنے‘‘ کی بیماری میں مبتلا ہو گیا اور پھر معاملہ نبی کریم ﷺ کے انکار تک ہی نہیں رہا بلکہ نہایت سخت دشمنی میں بدل گیا ۔ جی ہاں، نبی کریم ﷺ (جن کے پاؤں تلے ستارے اس طرح بچھے جس طرح فرش کےپتھر ہوتے ہیں) کا ایک نہایت قریبی عزیز آپ علیہ السلام سے خوش ہونا تو کجا آ پ کی عظمت اور بلندی کو قبول کرکے اس پر ایمان تک نہ لا سکا۔
اس رخ سے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ اکثر اوقات اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو عظیم خدمات کے لیے استعمال فرماتا ہے، ان کو بہت سی دفعہ اپنے قریبی ماحول کی جانب سے تحقیر اور برے سلوک کا شکار ہونا پڑتا ہے حالانکہ وہ ایسی خدمات انجام دے رہے ہوتے ہیں جن کا احترام کیا جانا چاہیے بلکہ وہ دھوکے اور عداوت کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا سبب دشمنی، تقدیر کے فیصلوں اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر غصہ، حسد اور کج فہمی ہوتا ہے حالانکہ انسان کے پاس جو بھی صلاحیتیں ہوتی ہیں وہ حق تعالیٰ کی جانب سے ملتی ہیں اور حکم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا چلتا ہے۔
معمولی لوگوں کا بڑے کاموں میں استعمال
جس طرح اللہ تعالی بعض اوقات بڑے لوگوں کو بڑے کاموں کے لیے استعمال کرتا ہے اسی طرح بعض اوقات معمولی لوگوں کو بھی بعض بہت بڑے کاموں کے لیے چن لیتا ہے اور ان کو بڑے اعلیٰ کام کرنے کی توفیق دیتا ہے ۔ اس بارے میں انسان پر جو چیز لازم ہے وہ یہ ہے کہ وہ حق سبحانہ و تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر دل کی صفائی سے دعا کرے اور کسی کو حقیر یا معمولی نہ سمجھے کیونکہ بہت سے لوگ دیکھنے میں پراگندہ لگتے ہیں مگر ان کے دل خزانہ ہوتے ہیں۔ ’’ابراہیم حقی‘‘ نے اس بات کو شعر میں یوں بیان کیا ہے:(ترجمہ)
اگر تم اس رستے میں ماہر ہونا چاہتے ہو
تو پھر اے دوست اپنے راز کو فاش مت کرو
اور اے ’’ذاکر‘‘ اہل خرابات کو کم تر نہ سمجھو
کیونکہ کتنے ہی خرابات خزانوں سے پر ہیں
کہا جاتا ہے کہ حقی کے دو بیٹے تھے۔ ایک کا نام ذاکر اور دوسرے کا شاکر۔ ذاکر بڑا نیک تھا۔ ہر وقت اللہ کی یاد میں مشغول رہتا تھا جبکہ شاکر اس زمانے میں شراب خانوں میں اور ہمیشہ نشے میں رہتا تھا۔ ایک روز حقی آفندی نے اپنے بیٹے ذاکر کو ہمراہ لیا اور دونوں ایک ساتھ چلتے رہے۔ رستے میں دونوں کاگزر ایک شراب خانے پر ہوا تو حقی آفندی ذاکر سے انتظار کا کہہ کر شراب خانے میں داخل ہوگئے اور وہاں دیکھا کہ ان کا بیٹا شاکر نشے میں دھت میز پر پڑا ہے۔ پھر شراب خانے والے سے پوچھا کہ اس پر کتنا قرضہ ہے۔ اس کے بعد قرضہ ادا کر کے باہر نکل آئے اور اپنے بیٹے ذاکر کے ہمراہ آگے چل دئے ۔ پھر جب شاکر کو ہوش آیا تو ا س نے شراب خانے کے مالک کو رقم د ےکر وہاں سے نکلنا چاہا لیکن اس نے اس سے کہا کہ ’’آپ کے ذمے کچھ نہیں کیونکہ آپ کے والد نے سارے پیسے دے دئے ہیں۔‘‘ یہ سن کر شاکر بے ہوش ہوتے ہوتے رہ گیا اور مارے ندامت کے پانی پانی ہوگیا اور فوراً اپنے والد صاحب کو تلاش کرنے کے لیے چل پڑا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے والد اور ذاکر ایک گڑھے کے کنارے بیٹھے ہیں۔ شاکر چھپ کر دونوں کی گفتگو سننے لگا تو اس نے سنا کے اس کے والد حقی آفندی ذاکر سے کہہ رہے ہیں: ’’بیٹے! چالیس اولیاء میں سے ایک ولی وفات پا چکے ہیں ۔ اگر تم اس کنارے سے چھلانک لگا دو تو تم ان کی جگہ لے لو گے‘‘ مگر ذاکر کو تردد ہوا اور وہ کسی بھی حال میں چھلانگ نہ لگا سکا۔ اس پر شاکر بول پڑا جو چھپ کر باتیں سن رہا تھا:’’ ابا جان! اگر میں چھلانگ لگا دوں تو کیا ہوگا؟ کیا مجھے اس سے کچھ فائدہ ہوگا؟‘‘ اس کے بعد ان سے معافی مانگی اور فوراً چلانگ لگا دی اور اس طرح چالیس اولیاء میں سے ایک بن گیا۔
اس وجہ سے حقی آفندی نے ذاکر کی حیرانی اور درماندگی کے دوران یہ دو مشہور شعر کہے۔
مناقب( بزرگوں کی تعریف) میں واقعات کے مفہوم اور ان سے ملنے والے سبق کو دیکھنا چاہیے ان کی اصل کو نہیں کیونکہ وہ واقعہ درست اور غلط دونوں ہو سکتا ہے لیکن جس حقیقت کو ظاہر کرنا مطلوب ہوتا ہے وہ انتہائی اہم ہوتی ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے اس مفہوم کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ كَمْ مِنْ أَشْعَثَ أَغْبَرَ ذِي طِمْرَيْنِ لاَ يُؤْبَهُ لَهُ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لأَبَرَّهُ، مِنْهُمُ البَرَاءُ بْنُ مَالِكٍ“ (کتنے ہی پراگندہ بال، غبار آلودہ پرانے کپڑوں والے لوگ ایسے ہیں کہ ان کی کسی کو پروانہیں ہوتی لیکن اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو پورا کرے دے گا، براء بن مالک انہی میں سے ہیں۔) (2)
جی ہاں اللہ تعالیٰ بعض اوقات ایسے لوگوں سے (جن کو تم چھوٹا سمجھتے ہوئے ان کی کوئی پروا نہیں کرتے) بڑے بڑے کام لے لیتا ہے یہاں تک کہ ہو سکتا ہے کہ تم وہ کام دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاؤ۔ پس جس طرح اللہ تعالیٰ سفید چیونٹی یعنی کیڑی سے اس کی شخصیت سے بہت اعلیٰ عمارات بنوا لیتا ہے ، اسی طرح ایسے لوگوں سے جن کو تم حقیر اور چیونٹی جیسا سمجھتے ہو بڑی بڑی عمارتیں بنواتا ہے کیونکہ حضرت ابو عبیدۃ بن جراح، قعقاع اور سعد بن ابی وقاص اگرچہ دیہات میں پرورش پانے والے معمولی لوگ تھے مگر انہوں نے نہایت قلیل مدت میں فارس اور روم کی ان سلطنتوں کو زیر کر لیا جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ ان کا سقوط کبھی نہ ہوگا اور وہ کبھی ختم نہ ہوں گی اور اس کے بعد دونوں کو حقیقی انسانیت کی راہ دکھائی۔
ایسے الفاظ میں جن میں شرک کی بو ہے: ’’یہ میرے علم کی وجہ سے ملا ہے۔‘‘
ارشاد خداوندی ہے:﴿ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾ (المائدہ:54)(یہ اللہ کا فضل ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑی کشائش والا ہے سب کچھ جاننے والا۔)اورحضرت بدیع الزمان سعید نورسی کے الفاظ میں ’’نفس سب سے کم تر اور کام سے سے اونچی چیز ہے ۔‘‘(3) اگرچہ ہم معمولی اور عام لوگ ہیں مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ اپنی عنایت اور قدرت ابدیہ کے ذریعے ہمیں بڑے کاموں میں استعمال نہ فرمائے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جو اس کی جانب سے ہو سکتا ہے اور اس بارے میں یوں کہنا ہے کہ: ’’ہم نے کیا، ہم نے بنایا اور ہم نے اس کی منصوبہ بندی کی جبکہ دوسرے لوگ ان امور کو دیکھ سکتے تھے اورنہ اپنے خوابوں میں بھی ان کا تصور کرسکتے تھے‘‘ ان الفاظ سے شرک کی بو آتی ہے۔ اس لیے اس قسم کے اقوال اور گمان سے نہایت دور رہنا ضروری ہے۔ بقول حضرت نورسی ( عربی زبان کا قاعدہ بھی ہے) ’’نفی کی نفی اثبات ہے‘‘ (4) اس بنیاد پر آپ اس وقت تک کسی مرتبے تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنے نفس کا انکار نہیں کرتے اور اگر مسئلے کی وضاحت ایسے الفاظ سے ضروری ہو جو بار بار دہرائے جائیں، تو وہ یہ ہیں کہ حقیقت میں باقی اور ہمیشہ رہنے والی ایک ہی ذات ہے، اس کے علاوہ کوئی نہیں۔ اگر خالد مطلق سامنے دیگر موجود ات کی کوئی قیمت ہے تو وہ صرف اور صرف صفر ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اور انسان کے درمیان تعلق صفر اور خلود کے درمیان نسبت کی طرح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ باقی اور ہمیشہ رہنے والا ہے جبکہ صفر فانی انسان ہے۔ اگرچہ صفر کی اپنی کوئی قیمت نہیں لیکن جب اس کو ہندسوں کی دائیں طرف لکھا جاتا ہے تو اس کی بھی قیمت ہو جاتی ہے۔ انسان کا بھی یہی حال ہے کیونکہ جب وہ اپنی عاجزی اور فقر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پناہ لیتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی کے الف کی دائیں جانب لگائے جانے والے صفروں کی طرح دہائیوں بلکہ سینکڑروں اور ہزاروں کی قیمت مل جاتی ہے۔
ظلم ہمیشہ باقی نہیں رہتا
جب ہم سوال کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنے آپ کو خدمت کے لیے وقف کردیا ہے ان کو ظالم اور جابر لوگ کئی طرح سے گھیرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ کسی اور کے جینے کے کا حق کا اعتراف نہیں کرتے اور ’’تنافس‘‘ (اللہ کی راہ میں مقابلہ) کا مفہوم غلط سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کا رستہ روکنے کے جذبات سے ساتھ آگے بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں: ’’اس عالم میں صرف ہم کوئی اور نہیں‘‘ لیکن اس حالت کے جاری اور ہمیشہ باقی رہنے کی توقع رکھنا ناممکن ہے کیونکہ ظلم کسی بھی زمانے میں کبھی بھی باقی نہیں رہا جبکہ اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے مگر چھوڑتا نہیں۔ جیسے کہ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ : ’’اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے یہاں تک کہ جب اس کو پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا‘‘(5) ﴿وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ﴾(ہود:102)(اور تمہارا پروردگار جب نافرمان بستیوں کو پکڑا کرتا ہے تو اس کی پکڑ اسی طرح کی ہوتی ہے۔ بیشک اس کی پکڑ دکھ دینے والی سخت ہے۔)جی ہاں ، ’’کفر شاید باقی رہ جائے مگر ظلم باقی نہیں رہتا‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کفر کو اس لیے مہلت دیتا ہے کہ اس بارے میں فیصلہ آخرت کی بڑی عدالت میں ہوگا اور اللہ تعالیٰ اپنے سامنے کفر کی سزا دے گا لیکن ظلم کا بدلہ دنیا میں ہی جلد یا بدیر مل جاتا ہے اور ظالموں کو ان کا بدلہ مل کر رہتا ہے کیونکہ یہ عام اور بے گناہوں کے حقوق پر تعدی ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے کہ یہی اللہ تعالیٰ کا رستہ ہے اور وہ اس اخلاص اور سچائی کے ساتھ اس پر چلنے والوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ﴿وَتِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ﴾(آل عمران:401)(اور یہ ایام زمانہ ہیں کہ ان کو ہم لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں۔) میں بیان فرماتا ہے کہ وہ کبھی شکست سے دو چار کردیتا ہے، کبھی آزمائش اور امتحان اور مختلف حکمتوں کی وجہ سے مصائب لاتا ہے جن کو اس کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا اور چیزوں اور واقعات کو اپنے دست قدرت سے اپنے ارادے کے مطابق شکل دیتا ہے۔ اس لیے اگر آج کا دن کچھ لوگوں کے لیے عید ہے تو آنے ولاکل کچھ اور لوگوں کے لیے عید ہوگا۔ ایسے ہی ا گر آج کا دن کچھ لوگوں کے لیے ماتم ہے تو کل کا دن دوسرے فریق کے لیے ماتم ہوگا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنی روح کے الہامات کو انسانیت تک پہنچانے کی خواہش رکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ جاہلوں کی باتوں اور اقوال میں اپنے آپ کو مشغول نہ کریں بلکہ اس کے بالکل برعکس ان کو چاہیے کہ وہ یہ کہیں:﴿سَلاَمٌ عَلَيْكُمْ لاَ نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ﴾(القصص:55)(تم کو سلام۔ ہم جاہلوں کو نہیں چاہتے۔)اور اپنے دلوں اور دماغ کو قرآن کریم کے ہیروں جیسے اصولوں اوراسلام کی جمالیات لوگوں تک اچھے اور احسن انداز سے پہنچانے کی کیفیت کی تلاش میں مشغول رکھیں اور اس وقت مخاطبین کے دلوں کو اختیار ہو گا کہ وہ اپنے آزاد ارادے سے ان باتوں کو قبول یا مسترد کردیں کیونکہ نتیجہ ہمارا کام نہیں لیکن عمل ہم سے مطلوب ہے۔اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے اقدار خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر ان کو بیل بوٹوں اورخوبصورت نقوش سے سجائیں اور پھر ان کو عالمی بازار میں نہایت دلکش انداز میں پیش کریں۔
جی ہاں، ہمیں ظلم و جور کے زمانے میں اس طرح نہیں دیکھنا چاہیے کہ وہ رات کو گھٹا ٹوپ اندھیرے کی طرح ہیں، ہم کبھی بھی مایوس اور بدشگون نہ ہوں کیونکہ جس طرح ہر خزاں کے بعد بہار آتی ہے، اسی طرح ہر رات کے بعد صبح بھی آتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم یہ بات فراموش نہ کریں کہ اندھیری رات کے بعد دن آئے گا اور گھٹا ٹوپ اندھیرے کے بعد سورج چمکے گا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم رات کے اندھیرے میں روشنی اور چمکدار مستقبل کے لیے تیاری کریں اور بالکل اسی طرح ہمارے لیے ضروری ہے کہ دن سے لطف اندوز ہوتے ہوئے یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ دن کے بعد ایک رات آئے گی۔ بالفاظ دیگر مومن کے لیے مناسب ہے کہ جب وہ روشن دن میں اپنا گھوڑا خوشی اور سرور کے ساتھ آگے بڑھاتا ہے اور نزاکت کے ساتھ کبھی دائیں اور کبھی بائیں جاتا ہے تو وہ یہ نہ بھولے کہ دن کے بعد ایک اور رات آئے گی اور اس پر لازم ہے کہ وہ اس دن رات کے لیے ایک الگ تھلگ منصوبہ تیار کرے کیونکہ بغاوت اور جھگڑے روئے زمین پر آج تک ختم ہوئے ہیں اور نہ آئندہ ہوں گے۔ اس لیے عناد اور نافرمانی کی ایسی تحریکیں ظاہر ہوں گی جن کی بنیاد کبھی الحاد اور کفر پر ہو گی اور کبھی حسد اور عناد پر اور لوگوں کو اس رستے میں ہزاروں حیلوں اور سازشوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنی سوچ کو صرف رات کے اندھیرے سے جوڑنا چاہیے اور نہ اس سے خوفزدہ ہونا چاہیے۔ اسی طرح ہمیں دن کی روشنی سے خوش ہو کر اس کی طرف مائل نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم رات کو دن (مستقبل) کے منصوبے تیار کریں اوردن کو رات (مشکلات) اوراس کے اندھیرے کے مقابلے کے لیے منصوبہ بندی کریں۔
مسلسل حرکت اور کام
ایسے ایماندار لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ عمل صالح کے فلک میں سرمایہ کاری کرنے میں صرف کریں اور دن کی روشنی رات تک اور بہار کی گرمی خزاں تک پہنچائیں کیونکہ ایمان بذات خود انسان کو ہر موقع ہر حالت میں اپنی طاقت کے مطابق نیک عمل کرنے کا مکلف بناتا ہے۔ مسلسل عمل اور حرکت کے مفہوم کو اس طورپر سمجھنے کے لیے طواف کے دوران چال کو یاد کریں کیونکہ جب مسلمان طواف میں رمل کرتا ہے تو وہ کاندھے ہلاتے ہوئے اور چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ چکر جلدی پورے کرتا ہے بشرطیکہ صحن کعبہ میں اس کی گنجائش ہو لیکن اگر ازدحام کی وجہ سے گنجائش نہ ہو تو اپنی ہی جگہ پر دوسروں کو تکلیف دئیے بغیر آہستہ آہستہ کودتا رہتا ہے یعنی ہر حالت میں حرکت جاری رکھتا ہے اور اس طرح اپنی روحانی قوت کو برقرار رکھتا ہے اور (اللہ کے حکم اور اس کی عنایت سے) مناسب زمان و مکان میں اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔
جی ہاں، جمود بذات خود ایک کوتاہی ہے جبکہ چیزیں فطری طور پر جامد ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی ان میں حرکت پیدا کرتا ہے جبکہ انسان بھی اپنی طبعی دنیا کے اصولوں سے وابستہ ہے۔ اس لیے جب وہ اپنی جگہ رک جاتا ہے تو اس کے گرنے اور بکھرنے کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس بارے میں وہ شہابیوں کی مانند ہے کہ جب وہ خالی فضا میں آتے ہیں تو جاذبیت کی ایک اور تاثیر کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر آپس میں ٹکرانے کی وجہ سے چھوٹے ہونے لگتے ہیں اور پھر پگھل کر ختم ہو جاتے ہیں لیکن جب انسان اپنی حرکت کو جاری رکھتا ہے جیسے کہ سورج، چاند اور ستارے گھومتے ہیں توہ وہ زندہ رہتا ہے اور اپنے ماحول کو اس روشنی سے منور کرتا ہے جو نور حقیقت سے حاصل کرتاہے۔حق تعالیٰ کی جانب سے فرض عبادات کو دن کے مختلف اور محدود اوقات میں تقسیم کے اندر بھی مسلسل اور دائمی حرکت کی روح کوسمجھنے کے لیے ایک اچھی مثال ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان رات کے ایک خاص حصے میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان﴿وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ﴾ (الاسراء:79)(اور بعض حصہ شب میں تہجد کی نماز پڑھا کرو۔ یہ شب خیزی تمھارے لئے ایک اضافی عمل ہے)کو بجالاتے ہوئے رات کے ایک خاص حصے میں اٹھتا ہے، قرآن کی تلاوت کرتا ہے، تہجد پڑھتا ہے اور وقت سحر :﴿كَانُوا قَلِيلاً مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ﴾(الذاریات:17)(رات کے تھوڑے حصے میں سوتے تھے)پر عمل کرتے ہوئے استغفار کرتا ہے۔ اس کے بعد جب نماز فجر کا وقت آتا ہے تو پہلے سنتیں اور پھر فرض ادا کرتا ہے۔ پھر جب سورج طلوع ہوتا ہے اور مکروہ وقت نکل جاتا ہے تو اشراق پڑھتا ہے۔ اسی طرح ظہر سے قبل چاشت کی نماز پڑھتا ہے، بعد ازاں ظہر کی نماز اس وقت ادا کرتا ہے جب اپنے روز مرہ کے کاموں سے تھک چکا ہوتا ہے اور جب عصر کی نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری دیتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ چور چور کرنے والی دن کی تھکاوٹ کو روح کی منزلوں کی جانب ایک عالی سفر میں بدل دیتا ہے اور تھوڑا سا آرام کرلیتا ہے۔ پھر مغرب اور عشاء کی نماز بھی اسی سوچ، فکر اور شعور کے ساتھ ادا کرتا ہے اور اس طرح کسی بھی قسم کی روحانی کمزوری اور خلا سے محفوظ رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہماری روز مرہ عبادات کو ایسے نظام الاواقت کے مطابق تقسیم کردیا ہے جس میں کوئی خلا نہیں۔ اس لیے انسانیت کی خاطر انجام دی جانے والی خدمات کو ہفتوں، مہینوں، موسموں بلکہ مسلسل حرکت اور عمل کے مفہوم کے مطابق سالوں میں تقسم کرنا چاہیے۔اس بارے میں ہر مسلمان کو اس طرح کام کرنا چاہیے کہ وہ ایک تزویراتی تجزیہ کار ہے اوران کاموں کو متعین کرے جو وہ اپنی ذات ، اپنے خاندان اور اپنے معاشرے کے لیے انجام دے سکتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی ذاتی توانائی اور پیداواری قوت کو محفوظ رکھ سکے گا کیونکہ ہمارے بزرگوں کا قول ہے کہ ’’لوہا اس وقت چمکتا ہے جب کام کرتا ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ مسلسل کام اور چستی ہی تعفن اور ٹوٹ پھوٹ کے بغیر زندگی اور چمک تک پہنچنے کا رستہ ہے۔ قرآن کریم نے مومنین کے بارے میں وارد اکثر آیات میں ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾(البقرۃ:25)(اور نیک عمل کرتے رہے)کے الفاظ استعمال کئے ہیں اور ان کے ذریعے ان کے تحریکی اور عملی رخ کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے کیونکہ ’’عمل صالح‘‘ سے مراد ایسا کامل عمل ہے جس میں کوئی نقص اور کوتاہی نہ ہو۔ جیسے کہ نماز کی مثال میں گزر چکا کہ عمل میں خشوع یعنی اللہ تعالیٰ سے تعلق کی اندرونی گہرائی کا خیال رکھنا ضروری ہے جبکہ نماز کو کامل طورپر ادا کرنے کے لئے اس کےارکان اور شرائط کو بجا لانا ، اس کی کامل ادائیگی کے لئے ضروری ہے۔ اسی طرح مومن جتنےبھی اعمال کرتا ہے ، وہ سب اس سے اپنی اندرونی اور بیرونی شرائط کا خیال رکھتے ہوئے ادا کرنے کاتقاضا کرتے ہیں ۔ ایسے ہی مومن اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اس پر سچا انسان ہونے کی صفت کا اطلاق ہوتا ہے تو وہ اپنے اعتقاد کو ایک فکری بات بنا کر نہیں رکھ چھوڑتا بلکہ اسے حرکت اور عمل سے مضبوط کرتا ہے۔
جیسے کہ خلفائے راشدین کے زمانے میں خصوصی طورپر اور ان کے بعد سلجوقیوں اور عثمانیوں کے ابتدائی زمانوں میں افراد اور معاشرے حرکت کی روح کے دائرے میں رات دن کام کرتے تھے اور اللہ کے حکم اور عنایت سے ثابت قدم بھی رہے کیونکہ وہ بغیر اٹکے اور رکے مسلسل آگے ہی بڑھتے رہے لیکنیہ کسی چیز کے اتم اور اکمل ہونے کے اعتبار سے کہا جاسکتا ہے(یہ بات میں اپنے عظیم آباؤ اجداد پر تنقید یا ا ن کی برائی کے لیے نہیں کہہ رہا کیونکہ ان میں سے ادنیٰ سے ادنیٰ شخص بھی میرے سر کا تاج اور میرا سردار ہے)کہ جیسے ہی سوچ ، حرکت اور عمل میں خلا پیدا ہوا تو حکام نے جہاد کے لیے جانے والے لشکروں کی بذات خود سربراہی چھوڑ دی اور محلات میں عیش و عشرت کی زندگی گرارنے لگے اور فطری سی بات ہے کہ عوام بھی اسی کمزوری اور آرام کا شکار ہوگئے اور کسی اعلیٰ اور مثالی مقصد کے لیے تگ و دو کرنے سے غافل ہوگئے اور نرم، گرم اور آرام دہ بستروں کو پسند کرنے لگے اور جن لوگوں نے اپنے آپ کو اس طرح دنیا کے دباؤ کے حوالے کردیا تو وہ اپنی خواہشات کو بھی پورا نہ کر سکے اور اپنی دنیوی اور جسمانی خواشات کے جال میں پھنس کررہ گئے۔ اس زمانے میں ’’معاشرے کے مفہوم ‘‘ کا محور ہی بدل گیا جس کی وجہ سے (مسلسل کوششوں کے باوجود) مراد چہارم اورعثمان دوم جیسے حکام کی امیدوں پر پانی پر گیاکیونکہ یہ لوگ اپنے کاندھوں پر آنے والی ذمہ داریوں کو اچھی طرح جانتے تھے۔ ہو سکتا یہ سب کچھ ان مختلف اسالیب کی وجہ سے ہوگیا ہو جو شر کے اندرونی اور بیرونی مراکز استعمال کررہےتھے۔
[1] صحيح البخاري، النكاح، 21؛ البيهقي: السنن الكبرى، 262/7.
[2] سنن الترمذي، المناقب، 125؛ أبو يعلى: المسند، 66/7.
[3] بديع الزمان سعيد النورسي: الشعاعات، چودھویں شعاع، ص 477.
[4] بديع الزمان سعيد النورسي: الكلمات، سترہواں کلمہ، مقام ثاني، ص 233.
[5] صحيح البخاري، تفسير سورة هود 5؛ سنن الترمذي، التفسير، 12.
- Created on .