اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اتنی قدر کرنا جتنا اس کا حق ہے
سوال: یہ آیت کریمہ:﴿وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَاْلأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّماوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾(الزمر:67)(اور انہوں نے اللہ کی قدر شناسی جیسی کرنی چاہئے تھی نہیں کی اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ اور وہ ان لوگوں کے شرک سے پاک ہے بلند وبرتر ہے) لوگوں کو کیا پیغام دے رہی ہے؟
جواب: آیت کی شروع میں وارد الفاظ: ﴿وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ﴾کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات جلال اور کمال کو یکجا کرکے اس کو اس طرح نہیں پہچانا جس طرح اس کو پہچاننے کا حق تھا اور انہوں نے اس کی حقیقی تعظیم نہیں کی کیونکہ انہوں نے اس کی مطلق قدرت سے اغماض برتا جو ہر شے پر غالب آتی ہے ، اس کی ابدی شفقت اور رحمت اور اس کی نعمتوں اور لوگوں پر ہونے والی عنایتوں سے چشم پوشی کی۔ اس لیے وہ اس کی ایسی تعظیم نہیں کرسکے جو حق تعالیٰ شانہ کی شان کے مطابق ہوتی۔ اس لیے وہ احسان فراموشی اور حق تعالیٰ کی تعظیم نہ کرنے کی دلدل میں پھنس گئے۔ اسی طرح ﴿حَقَّ قَدْرِهِ﴾کے الفاظ سے یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ اگرچہ لوگوں میں ایسے افراد موجود ہیں جنہوں نے اس کی تعظیم اور احترام ایک معین مقدار میں کیا لیکن وہ بھی اللہ تعالیٰ کی اس طرح تعظیم واحترام نہ کرسکے جو اس کی ذات عالی کا حق ہے کیونکہ ’’صرف احترام اور پورا پورا احترام‘‘ کرنے میں فرق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی ہمیں پیدا فرمایا، اسی نے ہمیں احسن تقویم کے سانچے میں ڈھالا اور ایک لمحے کے لیے بھی ہمیں ہماری ذات کے حوالے نہیں کیا۔ پس ان سب امور کو جاننا اور حق تعالیٰ کا احترام کرنا اور اس علم کی بنیاد پراس کا شکر بجا لانا، بندے کی جانب سے اپنے رب کی تعظیم ہے جبکہ اس کے برعکس چلنا اندھا پن،نعمت کی ناشکری اور بے ادبی ۔
﴿وَاْلأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾کے الفاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت اور جلال کی مثال بیان فرمائی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی قدرت کے سامنے دنیا ایک چھوٹا سا اور معمولی سا نقطہ ہے خواہ اس کی قیمت تمہاری نظروں میں کتنی ہی کیوں نہ ہو جائے جبکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بیان میں اس زمین پر رہنے والوں کے لیے ایک سبق ہے جس کا خلاصہ یہ ہےکہ : ’’اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ اور اس کے ارادہ باہرہ کے سامنے سر تسلیم خم کرو اور راہ راست کے دائرے میں چلو۔‘‘
آیت کے آخر میں وارد الفاظ ﴿وَالسَّماوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ﴾ ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کواس طرح لپیٹ لے گا جس طرح لکھنے والا کاغذ کو لپیٹتا ہے اوران کو لپٹے اور لفافے میں بند کاغذ کی طرح کردے گا۔
﴿سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾کے الفاظ آیت کا بنیادی محور ہیں۔ ان کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں سے بری اور پاک ہے جن کو یہ لوگ اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔
خشیت کا عارفانہ اور وجدانی رخ
اللہ تعالیٰ کے احترام اور تعظیم کے بھی مختلف درجات ہیں جو کائنات پر اللہ تعالیٰ کی قدرت اور عظمت کے بارے میں سطحی یا گہرے شعور اور ہم پر ہونے والی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور عنایتوں کے احساس کے مطابق ہوتے ہیں۔
یہاں ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے کہ :’’ کیا یہ احترام صرف اس کی معرفت ہے یا انسان کے تمام اعضاء پر مشتمل ہے جن میں لطائف بھی شامل ہیں؟‘‘ اسی طرح محبت بھی معرفت کی گود میں پروان چڑھتی ہے کیونکہ محبت علم کے ساتھ جڑی ہوتی ہے ۔ بالکل یہی معاملہ اس وقت بھی ہوتا ہے جب دل میں ایسا خوف اور ڈر پیدا ہو جائے جس کی بنیاد اور محور اللہ تعالیٰ کا احترام اور تعظیم ہو کیونکہ علم ہی ایسے شعور کے پیچھے کارفرما بنیادی عامل ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے ہوسکتا ہے کہ علم ہی معرفت اور وجدانی کیفیت میں انسان کی فطرت کا ایک حصہ اور اس کی گہرائیوں میں سے ایک گہرائی بن جائے اور مسلمان جو بھی اعمال اس درجے تک پہنچنے کے بعد کرے گا وہ اس کے اندرونی جذبات کے نتیجے میں وجود میں آنے والے واقعات بن جائیں گے۔ یعنی مثال کے طور پر انسان ’’سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ، اَللهُ أَكْـبَـرُ كَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا وَسُبْحَانَ اللهِ بُـكْرَةً وَأَصِيلًا ‘‘ صرف اس لیے نہیں کہے گا کہ یہ ایک حکم ہے اور ان کو کہنے کا کہا گیا ہے جبکہ اس کے برعکس جب بھی چیزوں اور واقعات اور اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ اورارادہ باہرہ پر غور کے گا تو اس کے اندر سے تعظیم اور احترام کے یہ الفاظ خو بخود نکلیں گے اور ان کے ذریعے وہ شعور کے ایسے درجے پر پہنچ جائے گا جو صرف امر کو بجا لانے سے حاصل نہیں ہو سکتا۔
اس رخ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ مومن اصولی طورپر اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ ، ارادہ باہرہ اور مشیت سبحانیہ کے لیے احترام کے جذبات کا اظہار کرسکتا ہے لیکن اصل حقیقت اس احترام کوایک اندرونی کیفیت اور اپنی فطرت کا حصہ بنانے میں پوشیدہ ہے ورنہ احترام اور تعظیم کے جذبات کا اظہار صرف مامور بہ (جس کا حکم دیا گیا) ہونے کی وجہ سے ہوگا یا اس وقت ہو گا جب اور اللہ جہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو گا جبکہ اس کے مقابلے میں جن مومن دلوں نے تفکر اور تدبر کے ذریعے اپنے وجدان میں شہد کا چھتا بنا رکھا ہے، وہ اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں بلکہ زندگی کے لمحات میں سے ہر لمحے میں تعظیم اور احترام کے جذبات سے چھلکتے رہتے ہیں ۔ مثلاً وہ جب بھی ایسا کوئی واقعہ دیکھتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور عظمت جھلکتی ہے تو اس سے متاثر ہو کر ’’سبحان اللہ‘‘ کہہ اٹھتے ہیں اور جب ایسا انسان یہ دیکھتا ہے کہ وہ سرکی چوٹی سے پاؤں تک اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے پر ہے تو وہ ’’الحمداللہ حمد اکثیرا‘‘ پکار اٹھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف و ثنا میں مشغول ہو جاتا ہے اور جب اس کی آنکھوں کو وہ عظیم کام نظر آتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں تو وہ اللہ کا ذکر اور تعظیم کرتے ہوئے ’’اللہ اکبر‘‘ کہتا ہے۔
رجائی زادہ محمد اکرم کا قول ہے:
پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی عظیم کتاب ہے
جب بھی اس کا کوئی حرف پلٹے گا تو دیکھے گا کہ اللہ تعالیٰ سب سے سخی ہے
مطلب یہ ہے کہ مومن کے سامنے پیش آنے والا کوئی بھی حرف اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کی مناسبت سے اس کی ذات کا اظہار کرتا ہے اور یہی حقیقی احترام ہے اور اہم بات یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے احترام کو فطری اور وجدانی مسئلہ بنا لے۔
خوف خدا کافرد اور ماحول پر اثر
ایک حدیث شریف ہے جو اس موضوع پر روشنی ڈالتی ہے۔ آپ علیہ السلام نے جب ایک شخص کو نماز کے اندر داڑھی سے کھیلتے دیکھا تو فرمایا: ’’اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء میں بھی سکون ہوتا۔‘‘(1) کیونکہ اگر انسان کا دل اللہ تعالیٰ کی خشیت اور سچے احترام سے معمور ہو گا تو اس کا اثر اس کے تمام تصرفات اوربرتاؤ بلکہ اس کے تمام اشاروں میں بھی سرایت کرجائے گا۔
اس طرح جب ہم ان عظیم لوگوں کی حرکات و سکنات ملاحظہ کرتے ہیں جن کے دل اللہ تعالیٰ کی خشیت اور احترام سے معمور ہیں تو ان میں ہمیں خشیت الہٰی کی نشانیاں اور عکس معلوم ہوتا ہے اوراگر ہم ان کی مجلس اختیار کریں تو ہم بھی ان کے رنگ میں رنگ جائیں گے اور سکون اور اطمینان سے لطف اندوز ہوں گے۔ میں نے انسان کے دل کو کھولنے والے ان جذبات اور احساسات کو اس وقت محسوس کیا جب مجھے حضرت ’’محمد لطفی آفندی‘‘ کی مجلس میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوتا تھا کیونکہ یہ عظیم لوگ جب اللہ جل جلالہ اور نبی اکرم ﷺ کا ذکر کرتے ہیں تو مختلف موضوعات کے بارے میں بڑی حساسیت سے کام لیتے ہیں اور آپ کے اندر ایسا ایمان اور یقین پیدا کرتے ہیں کہ کتابیں اس کو بیان کرنے سے عاجز ہیں۔ حضرت محمد لطفی آفندی کی حالت اس کی بہترین مثال تھی۔ ایک دن ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ کہ ’’حضرت شیخ ! میں نے حج کیا تو دیکھا کہ مدینہ منورہ کے کتے (غفلت کی وجہ سے) خارش کا شکار ہیں!‘‘ جب حضرت نے یہ بات سنی تو اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’خاموش ہو جاؤ! کیونکہ مدینہ پر میری جان فدا ہے بلکہ اس کے خارش زدہ کتوں پر بھی میری جان فدا!‘‘ یہ بات ضروری ہے کہ جس بات نے حضرت کو یہ الفاظ کہنے پر ابھارا وہ آپ کے دل کے عرش پر فخر انسانیت آنحضرت ﷺ کی گہری محبت کابراجمان ہونا تھا۔ چنانچہ حضرت نے فوراً اس حساسیت کا اظہار فرمایا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ بنیادی اور حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس کو مقدس اقدار کے سامنے نہایت حساسیت کے ساتھ خشوع و خضوع کی آبشار کے حوالے کر دے اور اس پر چھوڑ دے کہ وہ اسے کہاں لے جاتی ہے۔
وہ قیمتی اقدار جو ہم کھو چکے ہیں
افسوس کی بات ہے کہ ان امور کو وجدان میں اتارنا ان اہم اقدار میں سے ہے جن کو ہم کھو چکے ہیں۔ ہم (ظاہری اسلام کے شکار ہیں) اور اپنے دل کھو چکے ہیں، ہم اپنی اندرونی کیفیات کو بھول چکے ہیں۔ باوجود اس کے کہ ہمیں دینکی جانب منسوب بہت سے اقدار کی تعلیم دیگئی ہے (اللہ تعالی ان سے راضی ہو جائے جنہوں نے ہمیں ان کی تعیم دی)لیکن ہم نے فکری اور روایتی معلومات پر اکتفا کرلیا اوردل اور روح کی گہرائی سے تعلق رکھنے والے خصوصی اقدار کو نہ سیکھ سکے۔ اس لیے ہمیں ان کو اپنانے کا موقع مل سکا اور نہ مل رہا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿يَوْمَ لاَ يَنْفَعُ مَالٌ وَلاَ بَنُونَ * إِلَّا مَنْ أَتَى اللهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ﴾(الشعراء:88-89)(جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے سکے گا اور نہ بیٹے، ہاں جو شخص اللہ کے پاس بےروگ دل لے کر آیا (وہ بچ جائے گا))اور ﴿جَزَاؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ﴾(البینۃ:8)(ان کا صلہ ان کے پروردگار کے ہاں ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ اللہ ان سے خوش اور وہ اس سے خوش۔ یہ صلہ اس کے لئے ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرتا ہے)کیونکہ اگر انسان کے پاس ’’قلب سلیم ‘‘ ہو گا تو وہ اسے آخرت میں نجات دلائے گا جبکہ قلب سلیم اپنے رب کے احترام، اس کی تعظیم اور خشیت سے بنتا ہے۔
اسی طرح منبر ومحراب کو ہلا دینے والی اس آیت سے ہمارے دلوں کا متاثر نہ ہونا ہمارے اس حال کی دلیل اور نشانی ہے جس پر افسوس اور ندامت کرنی چاہیے۔ ایک بار آنحضرت ﷺ نے سوال میں مذکور آیت شریفہ اپنے منبر شریف کے اوپر تلاوت فرمائی( جو ہمارے اس موضوع کی بنیاد ہے)تو منبر کو جنبش ہوئی یہاں تک آپ علیہ السلام گرنے کے قریب ہوگئے جبکہ آپ علیہ السلام اپنے دست مبارک سے اشارہ فرما رہے تھے اور اسے آگے پیچھے کر رہے تھے۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑتا ہے اور فرماتا ہے:میں اللہ ہوں (اور اپنی انگلیوں کو کھولتا ہوں اور بند کرتا ہےاور کہتا ہے)میں بادشاہ ہوں۔‘‘ اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ ابن عمر فرماتے ہیں کہ :’’میں نے منبر کو دیکھا کہ وہ نبی کریم ﷺ کے نیچے ہل رہا ہے یہاں تک کہ میں کہنے لگا کہ کیا یہ نبی کریم ﷺ کو گرا دے گا!؟‘‘ (2)
اگر ہم اپنے دل اور احساسات کو نہ کھو چکے ہوتے تو یہ آیت جس نے منبر نبوی کو ہلا ڈالا تھا، ہمیں بھی ہلا کر رکھ دیتی اور ہمیں خوف خدا کی جانب لے جاتی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں شاہری اورسطحی امور سے نجات عطا فرما کر اصل اور جوہر تک پہنچنے کی توفیق عنایت فرمائے اور ہمارے دلوں کو خشیت کے جذبات سے اس طرح معمور فرمائے کہ وہ ساری زندگی ہمارے احساسات اور برتاؤ پر چھا جائیں۔
اللہم آمین۔
[1] عبد الرازق: المصنف، 266/2؛ ابن أبي شيبة: المصنّف 86/2؛ البيهقي: السنن الكبرى، 404/2.
[2] صحيح مسلم، صفات المنافقين، 25؛ مسند الإمام أحمد: 304/9.
- Created on .