فکری افق کی وسعت
سوال: فکری افق کی وسعت کا کیا مطلب ہے؟ اور یہ وسعت کس طرح حاصل کی جاسکتی ہے؟
جواب: پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں اس زمانے میں فکری وسعت رکھنے والے ایسے لوگوں کی اشد ضرورت ہے جن کو تحقیق سے عشق ہو اور جو تجزیہ کرکے مسائل کو سائنسی بنیادوں پر کھڑا کرسکتے ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ یہ بات آسان نہیں کہ لوگ اس زمانے میں فکری گہرائی کو قبول کرتے ہوئے اس جانب متوجہ ہوں کیونکہ اس وقت ہمیں ایک طرف باہر سے ظالمانہ حملوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف اندرونی طور پر کمزوری کے اسباب کا شکار ہیں جبکہ اس زمانے میں مغربی ممالک اپنے ہاں سائینسی، فکری اور صنعتی انقلاب لائے ہیں۔ اس لیے ایسا ہو گیا کہ ہم انیسویں صدی سے گویا مکمل طورپر شل ہو گئے ہیں اور جب ہم جب بالکل گونگا کردینے والے تھپڑوں کا شکار ہوئے تو ہماری زبان بند ہوگئی ۔ پھراس کے بعد جو واقعات رونما ہوئے ان میں ان سے بھی بڑی آزمائشیں اور مصیبتیں تھیں جن کی وجہ سے ہم ایک ایسی قوم ہوگئے جس کو نہایت تنگ جگہ جمع کیا گیا ہے اور دنیا سے اس طرح الگ تھلگ کردی گئی ہے کہاسے دوسری قوموں کے دکھوں کا کوئی خیال نہیں اور کسی جغرافیائی علاقے سے تعلق نہیں رکھتی جبکہ چاؤنزم(انتہاء پسند قوم پرست)جذبات (1) اس کے علاوہ تھے ۔ یہاں تک کہ ہم یہ سمجھنے لگے کہ سب کے ساتھ معاملات ترش روئی سے ہوتے ہیں اورلوگوں پر دھونس جمانا ایک مہارت ہے!
پہلا قدم: احساس کمتری سے چھٹکارا
مذکورہ بالا زمانے میں خوف، ذلت اور رسوائی جیسے جذبات ہمارے آباؤ اجداد کی رگ و پے میں سما گئے۔ چونکہ ہمارے اندر بھی انہی کا خون دوڑ رہا ہے اس لیے یہ کہنا محال ہے کہ ہم اس صدمے کے اثر سے آزاد ہوگئے ہیں جس میں ہم آج تک جی رہے ہیں، خواہ ہمیں اس کا ادراک ہو یا نہ۔ ایسا لگتا ہے کہاس طرح کےاحساسات اور افکار کی وجہ سے ہم بھی سن ہو کررہ گئے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان تمام منفی افکار سے آزادی ، وسیع اور اعلی فکر کو قبول کرنا، سوچ میں اپنی پہچان کو برقرار رکھنا، اس منزل تک پہنچنا جس کی جانب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے رہنمائی فرمائی ہے، قرآنی ہدایات کی روشنی میں غور
وفکر اور تدبر کرنا اور ہمیشہ نئے نئے تجزئیے اور تحلیل پیش کرنا وغیرہ ۔۔۔ان لوگوں کے لئے آسان کام نہیں جو احساس کمتری کی رسیوں سے جکڑے ہوئے ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود یہ کام ناممکن نہیں۔
ہم پر لازم ہے کہسب سے پہلے احساس کمتری کے ملعون طوق کو گلے سے اتار پھینکیں جس کی شدت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہوگئے تو اس کامطلب ہو گا کہ ہم وسیع اور گہری فکر کے مرتبے کی جانب کھلنے والے دروازے کو کھولنے کے لیے پہلا قدم اٹھاچکےہیں۔
اصل اہمیت صفات کی ہے ناموں کی نہیں
دوم: ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی صفات کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ انسان کو اس کا بدلہ دیتا ہے اگرچہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو بشرطیکہ اس کے اندر اجتہاد، ادارہ جاتی کام، بحث و تحقیق کے عشق کی وجہ سے تجزیہ اور تجربہ اور مختلف عناصر کو آپس میں جوڑنے کی طاقت جیسی اسلامی صفات آپ سے زیادہ ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ساری صفات اللہ رب العالمین کے ہاں پسندیدہ اور اچھی ہیں اور کسی غیر مقبول انسان کے ان سے متصف ہونے سے ان صفات کی قدر میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ اگرہیرا کیچڑ میں گر جائے تو اس کی قیمت میں کوئی کمی نہیں آتی۔
اس لیے ان صفات کو اس رخ سے دیکھنا چاہیے کیونکہ اگر مومن کی صفات غیر مومنوں میں پائی جائیں گی تو ان کو سطوت ملے گی اور دنیا کی زندگی میں ان کی حکومت ہوگی اور وہ اپنی صلاحیتوں اور علم کے ذریعے حاصل ہونے والی طاقت اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے اپنا دست نگر بنا دیں گے جیسا کہ وہ ’’ترقی کے زمانے‘‘ سے کررہے ہیں اور جب تم بھی حقیقت سے عشق کرنے لگوگے اور اس کے مطابق تحقیق کرو گے اور اپنے آپ کو جنون کی حد تک اس کام میں لگا دو گے اور واقعات اور اشیاء کو انتہائی باریک بینی سے دیکھو گے تو اس وقت اللہ تعالیٰ تم پر بھی اپنا حقیقی فضل و کرم فرمائے گا اور مزید نعمتیں عطا فرمائے گا اور یوں تم بھی اپنی دنیا کو آباد کرو گے اور اخروی سعادت کے رستے پر چل پڑو گے۔
قرآن و سنت کے اصول
ہم کسی بھی مسئلے کو لیں تو ضروری ہے کہ اسے عمومی زاویے سے دیکھیں خواہ اس مسئلے کا تعلق ہمارے منصوبوں اور مستقبل کے تصورات سے ہو یا اسلام کو اس کی وسعت اور شمولیت کے ساتھ سمجھنے سے یا ہماری قلبی اور روحانی زندگی سے۔ اس کے بعد ہم واقعات کا شمولی انداز سے تجزیہ کریں اور جن چیزوں کو اپنے علم سے دیکھنا ممکن ہو ان کو اول سے آخر تک دیکھیں اور جب چیزوں کو دیکھنا مشکل ہو جائے تو متبادل افکار پیش کریں اور پھر ان افکار کو آزمائیں اور ان کو کتاب وسنت کے پیمانے سے ما پیں جبکہ جن مفاہیم کو زمانے نے قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق ظاہر کیا ہے ان تک رسائی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک ہم اپنے زمانے کے حالات اور اپنے بنیادی مصادر سے بار بار رجوع نہ کریں کیونکہ زمانہ اور اس کے حالات و واقعات اشیاء کے سب سے بڑے شارح ہیں۔
مثال کے طورپر جب ہم آج کی دنیا پر غور کرتے ہیں تو اچھے مستقبل اور مختلف قوموں کے درمیان تفاہم اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ہم پر لازم ہو جاتا ہے کہ ہم نسلی، دینی اور مذہبی تمیز کو بالائے طاق رکھ کر ساری انسانیت کو گلے سے لگائیں اور ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم پورے عالم بشری میں ساری انسانیت کے سر پر بنیادی انسانی اقدار کا تاج رکھیںصرف اسلامی دنیا میں نہیں کیونکہ اس بات کی شدید ضرورت ہے بلکہ ہمیں ایسی وسیع سوچ کی اشد ضرورت ہے کیونکہ مہلک ہتھیار ہر جگہ پھیل چکے ہیں۔ اگر ہم اپنا فرض ادا نہیں کریں گے اور کسی نے کسی ایک جگہ کوئی غلط کام کردیا تو اس کی وجہ سے دوسرے بھی وہ غلط کام کرسکتے ہیں اور اس کا یقینی نتیجہ دنیا کی بربادی اور ویرانی کی صورت میں نکلے گا۔
اس طرح وہ اصحاب رائے اور فکر جو اس معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ اس بارے میں اپنے حقیقی خدشات کا اظہار کریں اورانسانیت کو وحدت و یگانگت اور اتفاق و اتحاد کی دعوت دیں اور انسانت کو اس فکر کے گرد جمع کرنے کی سعی کریں۔ اس وجہ سے ان عناصر پرتوجہ دینا ضروری ہے جو اس مطلوبہ وجود کو شکل دینے کی قدرت رکھتے ہوں، ان رکاوٹوں اور مشکلات کا ادراک ضروری ہے جو پیش آ سکتی ہیں اور مختلف شعبوں کے درمیان ایک مشترک سوچ پیدا کرنے اور ان کے اذہان میں آنے والے افکار کو ایک عقل مشترک کے اس حوض میں ڈالنے اور اجتماعی سوچ کے ذریعے مشکلات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے مقابلے میں جن منصوبوں کو پورا کرنا اس وقت ناممکن ہے ان کو اگلی نسلوں پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ ان کا اندازہ لگائیں اور پھر ان کو عملی جامہ پہنائیں۔
نئے اور ہنگامی حالات اور رستے کی سلامتی
رستے کی سلامتیکو یقینی بنانے کے لئے ضروری تدابیر اختیار کرنا وسیع فکر کا ایک اور رخ ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آپ کے پاس ایمان اور اخلاق کی دولت موجود ہو اور آپ اپنے ا رادے اور چست چال سے عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم اور اس کی حفاظت پر تمہیں پورا پورا بھروسہ ہوگا لیکن یہ سب کچھ اس مسئلے کا صرف ایک رخ ہے جبکہ دوسرا رخ یہ ہے کہ ہمارے پاس دوسروں کے افکار ، احساسات اور حرکات کو بھی اپنے ذہن میں رکھنے کی قدرت ہو ورنہ جب تم اس امانت کو دوسرے امانتدار کے حوالے کرنے نکلو گے تو بھوتوں کے کسی گروہ کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اس لیے اگر تم (اپنے اقدار معاشرے کے حوالے کرتے ہوئے) اپنے خلاف کام کرنے والوں کی طاقت اور قدرت اور اپنے خلاف ان کے تاثرات کو بھول جاؤ تو ہو سکتا ہے کہ وہ تمہاری خدمات کی اس میراث کو ختم اور تباہ کرنا چاہیں گے۔ اس رخ سے آپ پر لازم ہے کہ پورے رستے میں اپنے رستے کی سلامتی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی تصرف کے بارے میں انتہائی حساسیت کو اپنائیں تاکہ رستے میں آپ کو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اسی طرح نئے اور ہنگامی حالات میں رستے کی سلامتی کے لیے دوبارہ ضروری تدابیر اختیار کرنا لازمی ہے۔
جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں اس کو درست انداز میں سمجھنا بھی گہری سوچ کا ایک حصہ ہے جبکہ ’’خدمت کے فدائی‘‘ ایک سو ستر ملکوں میں پہنچ چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ایک سو ستر مختلف ماحول اور ثقافتوں میں پرورش پانے والے لوگوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مخاطبین آپ کو قبول کرلیں اور محدود پیمانےپر آپ کی سوچ کو اچھا سمجھیں مگر کچھ عرصے بعد فکری اور ثقافتی ا ختلاف کی وجہ سے ٹکراؤپپدا ہوسکتا ہے۔ مثال کے طورپر آپ جن ممالک میں جاتے ہیں وہاں کے لوگوں کو یہ وہم ہوسکتا ہے کہ شاید آپ ان کو قومی اورثقافتی لحاظ سے اپنے اندر ضم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس لیے ان باتوں کو پہلے درست انداز سے دیکھ کر ان امور کے بارے میں ممکنہ طورپر اٹھائے جانے والے اقدامات کے بارے میں درست رویہ اپنانا چاہئے اور ایسے برتاؤ اورکاموں سے بچنا چاہیے جن سے دوسروں کے دل میں قلق اور شکپیداہو۔
سوچکیپرورشحرکت اور کام کی گود میں ہوتی ہے
بے شک ہماری روح کے محل کی تعمیر کے لیے اپنے پاس موجود تحریری مواد کو اچھی طرح پڑھنا، ہماری ابدی اور مستقبل کی زندگی کے لیے مخصوص اہداف کو اچھی طرح سمجھنا اور ان میں موجود پیغامات اور ان میں بکھرے ہوئے مفاہیم کو سمجھنا اور اس دنیا کی فطرت کا اچھی طرح تجزیہ کرنا جس کی تصویر ہمارے لیے پیش کی گئی ہے بہت ضروری بات ہے کیونکہ صرف موجود چیزوں پر اکتفاکرلینا پست ہمتی ہے ۔ اس لحاظ سے جب ہم اپنے پاس موجود مصادر کا مطالعہ کریں تو یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ان کو مسلسل پڑھیں اور ساتھ ہی ہمارے اندر یہ سوچ بھی ہو کہ ’’ان سے ہم اور کون کون سے نئے معانی نکال سکتے ہیں؟‘‘ کیونکہ اس بات کو صرف پڑھنے سے لطف اندوز ہونے سے جوڑنا کم فہمی ہے جبکہ اہم بات یہ ہے کہ ان کتابوں کا اچھی طرح مذاکرہ کیا جائے اور اپنے اندر وہ طاقت پیدا کی جائے جس سے ہمیں وہ اہداف نظر آجائیں جو ہمارے مستقبل کے لیے اچھے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہ کام حرکت اورعمل کے ساتھ ہونا چاہیے جو ان کے متوازی چلے کیونکہ اگر افکار کو اعمال اور حرکات میں بدل دیا جائے تو زیادہ منطقی اور دانشمندانہ فیصلے کی جاسکتے ہیں کیونکہ جو شخص حرکت نہ کرے اور خوبصورت عوالم کو اس طرح سوچے جس طرح ’’اچھا شہر‘‘ نامی کتاب میں ہے، تو اسے اس خیال سے اس وقت تک کوئی نفع اور فائدہ نہیں مل سکے گا جب تک عملی زندگی میں اس کے مقابل کوئی وجود نہ ہو۔ آج تک کتنے ہی روشن خیالات پیش کئے گئے ہیں لیکن دو قدم بھی آگے چلےبغیر ان کی چمک ماند پڑ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقی زندگی میں ان کو نافذ نہیں کیا گیا۔ خصوصی طورپر قرآن کریم نے جن آیات میں ایمان کی بات کی ہے ان میں سے اکثر میں عمل صالح کی بات بھی کی ہے۔ اس سے اس جانب اشارہ فرمایا ہے کہ عمل اور حرکت کو سوچ کے ہمراہ ہونا چاہیے ۔ اس کی مثال یہ آیت ہے:﴿وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ﴾(البقرۃ:25)(اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کو خوشخبری سنا دو کہ ان کے لئے نعمت کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں)۔
عقل مشترک
ہماری آراء اور سوچ وحی سے پیدا نہیں ہوتی اس لیے اس میں اکثر اوقات ہماری سابقہ سوچ کا شائبہ موجود ہوتا ہے ۔مطلب یہ ہے کہ ہمارے ذہن میں موجود پرانی اور غلط معلومات ہمیں غلط تجزیے تک لے جاسکتی ہیں۔ اسی طرح ہم اپنے ذاتی اجتہاد اور استنباط میں بھی غلطی کرسکتے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے کچھ افکار سب کے لیے ہمیشہ مناسب نہ ہوں۔ اس لحاظ سے مستقبل کے بارے میں ہم جو ارادہ، منصوبے اور پروگرام بناتے ہیں ان کی تصحیح اور ان کے بارے میں مشاورت اور بحث کی ضرورت ہے۔ یہ بات فکر کی وسعت تک رسائی کے لیے نہایت اہمیتکی حامل ہے۔
آزادسوچکاماحول اور اذہان کی ہجرت
عالمی سطح پر جاری اذہان کی ہجرت کا رخ اپنے علمی تجربات کے ذریعے اپنی دنیا کی طرف پھیرنا بھی اس مسئلے کا ایک اہم رخ ہے اور حقیت یہ ہے کہ ہمآزاد فکر کے ذریعے تازہ اور جدید تجزیوں، زندگی کی ذاتی صلاحیت اور دوسروں کی دریوزہ گری سے آزادی تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک نوجوان اور چست و چالاک اذہان کو ایسا ماحول اور وسائل فراہم نہ کردئے جائیں جن کے ذریعے وہ اپنے ملککی خدمت کرسکیں۔
ساری توفیق اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے
گزشتہ تمام باتوں کے بعد انسان کو چاہیے خواہوہ اپنے فکری مرتبے اور وسائل کے لحاظ سے کتنا بھی بلند ہو جائے بلکہ اگر اس کا سر چوٹی تک بھی پہنچ جائے تو بھی وہ کبھی اس بات کو فراموش نہ کرے کہ یہ سب کچھ اس پر اللہ کا احسان ہے اور اس پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال اور اس کے انعامات واحسانات کے آگے لاٹھی کی طرح جھک جائے کیونکہ بلندی تواضع کا تقاضا کرتی ہے جیسے کہ فخرانسانیت ﷺ کا وطیرہ اور عادت تھی حالانکہ آپ ﷺ کو رحمۃللعالمین بنا کر مبعوث کیا گیا تھا۔ آپ علیہ السلام سب سے اونچے اور اعلیٰ درجات کے مالک تھے مگر اس کے باوجود آپ علیہ السلام ساری زندگی تواضع اور نرمی کا ایسا نمونہ بنے رہے جس کی کوئی مثال اورنظیر نہیں ملتی۔ جس طرح ٹہنیوں پر پھلوں کا وزن بڑھنے سے درخت زمین کی طرف جھکتے چلے جاتے ہیں اسی طرح انسان کو بھی چاہیے کہ جب اس پر اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم اور انعامات میں اضافہ ہو جائے تو اس کے تواضع اورنرمی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ملنے والے انعامات کواپنا ایسا مرتبہ اور ترقی سمجھتے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں، ان کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور وہ جہنم میں جا گریں گے۔ ایسے لوگ اگر کسی زوال پذیر ملک کو بھی بچانے میں کامیاب ہوگئے تو بھی اگر وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان پر ہونے والی نعمتوں کو اپنی جانب منسوب کرنے اوران کے مقابلے میں احترام اور واہ واہ تلاش کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو گرائےگا۔ وہ ایک دن نہایت گہری کھائی میں جاگریں گے۔ اس بارے میں حضرت بدیع الزما ن فرماتے ہیں :’’تم میں سے جو شخص اخلاص میں کوتاہی کرے گا وہ ایک اونچے برج سے نیچے گرے گا اور ہوسکتا ہے کہ گہری کھائی میں گر جائے کیونکہ درمیان میں کوئی جگہ نہیں۔‘‘(2) بالفاظ دیگر جو لوگ ’’ماؤنٹ ایورسٹ ‘‘جیسی بلند چوٹی سے لڑھکیں گے وہ بحیرہ لوط کی گہرائی میں گریں گے جبکہ اعلیٰ اور ادنی اکثر اوقات ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس لیے اگر انسان اعلیٰ کا حق ادا کرے گا تو وہ اپنی جگہ برقرار رہے گا اور اس کا حق ادا نہیں کر ے گا تو وہ چوٹی سے لڑھک کر تہہ میں پہنچ جائے گا۔
(1)چاؤ ازم: وطن پرستی میں دوسرے ممالک اور ثقافتوں کی دشمنی تک پہنچنا۔
(2 )بدیع الزمان سعید نورسی، اللمعات، اکیسواںلمعہ، ص:224
- Created on .