بدگمانی: ایک مہلک مرض
سوال: حدیث شریف میں آیا ہے کہ ’’جب کوئی آدمی یہ کہے کہ لوگ ہلاک ہوگئے تووہ ان سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہوگا۔‘‘(1) کیا بدگمانی یا دوسروں پر مسلسل تنقید جیسے کام بھی اس حدیث کے عمومی مفہوم میں داخل ہیں؟
جواب: یہ مبارک حدیث ’’جوامع ا لکلم‘‘ میں سے ہے جس میں کئی حقائق پوشیدہ ہیں۔ ان حقائق میں سے ایک بدگمانی بھی ہے جس کی طرف سوال میں اشارہ کیا گیا کیونکہ دوسروں کے بارے میں خواہ مخواہ یہ کہنا کہ وہ ’’ہلاک ہوگئے‘‘ یا یوں کہنا کہ ’’بس اس کا کام تمام ہوگیا‘‘ ۔ یہ بات صرف اور صرف بدگمانی کا نتیجہ ہے جبکہ آنحضرت ﷺ فرما رہے ہیں کہ ہلاک ہونے والا اور کام تمام ہونے والا شخص وہ ہے جس نے دوسروں کے بارے میں بدگمانی کی اور اس طرح کی باتیں کیں۔
نفس کی پوجا کرنے والے گنہگار کو باہر تلاش کرتے ہیں
’’انانیت ‘‘، ’’ذات کی مرکزیت‘‘ بلکہ ’’نرگسیت‘‘ کا مرض تک بدظنی کا نتیجہ ہے جبکہ نرگسیت کامطلب یہ ہے کہ دوسروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سارے کاموں کی نسبت اپنی طرف کرنا اور جو شخص سب پر تنقید کرتا ہے، ان کو ڈانٹتا ہے اور ہر فرد میں کوئی جرم تلاش کرتا ہے،در حقیقت وہ بالکل انجانے میں اپنے نفس کو معبود بنا لیتا ہے اور اس کی پوجا کرتا ہے اور آئینے کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو اس کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ :’’میرا کوئی مقابل نہیں، اس لئے دنیا و مافیہا کو مجھ پر قربان ہوجانا چاہیے۔‘‘
جو شخص حسن ظن سے محروم ہو اور اس پر بد ظنی کے جذبات کا غلبہ ہو تو ہوسکتا ہے کہ وہ دوسروں کی عبادات جیسے نماز، کا بھی مذاق اڑائے گا۔ مثلاً جب کسی آدمی کو نماز پڑھتے دیکھے گا تو اس کے ذہن میں فوری طورپر یہ سوال آسکتا ہے کہ ’’کیا یہ شخص پوری طرح نماز میں منہمک ہو چکا ہے، کیا اس کی نماز میں خشوع و خضوع ہے؟‘‘ لیکن جب وہ اس انداز سے سوچے گا تو اس کے سامنے نبی کریمﷺ کا یہ جواب آئے گا کہ’’ تم نے اس کا دل کیوں نہ چیر لیا۔‘‘(2) ہم کسی انسان کے دل کے اندر کی بات کو نہیں جان سکتے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی انسان کے بارے میں ہم یہ سوچیں کہ وہ ظاہری طورپر نماز ادا کررہا ہے جبکہ ہم پر لازم ہے کہ دوسروں کی عبادات اور کاموں کے بارے میں اس طرح کی منفی رائے سے بچیں اگرچہ درست باتوں ، جیسے نماز کے صحیح ہونے اور مومن کی صفات کو بیان کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسر وں کی عبادت اور اطاعت کو اس حالت میں دیکھنا کہ ہمارے ذہن میں ان کے بارے میں پہلے سے ایک فیصلہ موجود ہے ا ور ان کی نیتوں کا حال جاننے کی کوشش نہیں خوفناک اور دہشتناک بدگمانی ہے۔ اس طرح کی بدگمانی انسان کے گرنے کا سبب بھی بن سکتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے بدگمانی کو بالکل وضاحت اور صراحت کے ساتھ حرام قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلاَ تَجَسَّسُوا﴾(الحجرات: 12) (اے اہل ایمان! بہت بد گمانی کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو )۔ اس لیے جب دوسروں میں کوئی ایسی چیز موجود ہو حسن ظن کا سبب بن سکتی ہو تو حسن ظن ہی رکھنا چاہیے بلک حسن ظن پر بھروسہ کرتے ہوئے بدظنی سے دور ہونا ضروری ہے ۔ اگرچہ دوسرے شخص میں کوئی ایک بھی ایسی بات ہو جو حسن ظن کا سبب بن سکتی ہو۔ مثلاً ایک انسان کا سارا سرمایہ صرف کلمۃ توحید ہے اور ہم نے اس کی کوئی نیکی اور عمل صالح نہیں دیکھا تو بھی اس کے بارے میں یہ یقین ہونا چاہیے کہ ’’میرے اس بھائی نے دل کی گہرائی سے کلمہ پڑھا ہے اور ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ کلمہ بڑے بلند مرتبے پر فائز ہو اور روز قیامت اس کی نجات کا ذریعہ بن جائے۔‘‘ دوسری جانب ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہمیں اس بات کا خوف ہو کہ اگر ہماری عبادات میں ریاکاری اورشہرت کا عنصر شامل ہو جائے تو ہم ہلا ک ہوجائیں گے اگرچہ ہم نماز پنجگانہ کے علاوہ پچاس اور نماز یں کیوں نہ پڑھ رہے ہوں۔
اس کی مثالیں بہت ہیں۔ مثلاً بظاہر عبادات میں کوتاہی کی وجہ سے کسی آدمی کا اللہ تعالیٰ سے تعلق کمزور نظر آتا ہو مگر جب وہ بولتا ہے تو سچ کہتا ہے، اس کی باتوں میں جھوٹ شامل نہیں ہوتا تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے اس برتاؤ کو خوف خدا کا نتیجہ قرار دیں اور اس بارے میں کہیں کہ ’’چونکہ یہ شخص اپنی باتوں میں اس قدر حساس ہے، اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق قومی ہے۔‘‘ اس طرح جو شخص حرام چیزوں کے بارے میں حساس ہو اور اپنے منہ میں حرام کا ایک لقمہ بھی نہ ڈالتا ہو اور جو کام اس نے نہیں کیا اس کی اجرت قبول نہ کرتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ وہ اس کا مستحق نہیں، تو یہ سارے تصرفات اتنے خوبصورت ہیں کہ ہم ان کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے جوڑے بغیر ان کی کوئی وضاحت نہیں کرسکتے۔ اس وجہ سے ہمارا فرض ہے کہ ایسی صورت میں ہم کسی بھی شخص کے اللہ تعالیٰ سے تعلق کے بارے میں حسن ظن رکھیں۔
توازن: احتیاط کے ساتھ حسن ظن
افراط و تفریط سے بچنے کے لیے حسن ظن اور احتیاط کویکجا کرنا ضروری ہے خصوصاً ان لوگوں کے بارے میں جن کا تذبذب اور تردد ہمیں نظر آتا ہے کیونکہ ایسا ہوسکتا کہ جس انسان کے بارے میں ہم حسن ظن رکھتے ہیں اگروہ مختلف اوقات میں استقامت کے رستے سے ہٹتا رہتا ہو تو شاید وہ کامل اور مکمل انسان نہ ہو۔ اس رخ سے ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے مشاہدے کے دائرے کو وسیع کریں اور خصوصاً کوئی اہم عہدہ یا اہم کام یا چیز یا کوئی اوربات اس کے ذمے لگاتے وقت اس کے ساتھ حسن ظن رکھنے کے ساتھ ان حساس معاملات کے بارے میں پوری پورری احتیاط بھی برتیں لیکن ہمیں اس کا کوئی حق نہیں کہ ہم اس کے بارے میں بدگمانی کا کوئی لفظ زبان سے نکالیں اور یوں کہیں کہ: ’’مجھے فلاں پر بھروسہ نہیں یا فلاں شخص پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ یہ الفاظ منہ سے نہ نکالنا ضروری ہے اگرچہ ہمارا شعور اس قسم کا کیوں نہ ہو۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب ہم دوسروں کے بارے میں سوچیں تو یہ یقین رکھیں کہ کمزور ترین اور معمولی ترین عمل بھی اللہ کے ہاں ان کی نجات کا سبب بن سکتا ہے اور ان کی غلطیوں کو تسامح کی نظر سے دیکھیں اور ان کے خلاف بات کرنے سے بچیں۔ اسلام کے ابتدائی زمانے میں ایک ایسا واقعہ پیش آچکا ہے جس میں ایمان والوں کے لیے اس بارے میں کئی اہم اسباق اور عبرتیں ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک صحابی کو کئی بار نشے کی حالت میں آنحضرتﷺ کی خدمت میں لایا گیا اور ان کو اس پر سزا بھی دی گئی۔ اس وقت شراب نئی نئی حرام ہوئی تھی۔ ایک بار ان کو پھر یہی غلطی دہرانے پر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو ایک صاحب نے ان کے بارے میں کہا: ’’اللہ کی لعنت ہو اس پر ،کتنی بار پکڑکر لایا جاتا ہے‘‘ لیکن جب رسول اکرمﷺ نے یہ بات سنی تو ارشاد فرمایا: ’’ اس پر لعنت نہ بھیجو کیونکہ بخدا جو بات مجھے معلوم ہے وہ یہ کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے‘‘ جبکہ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ: ’’اپنے بھائی کے بارے میں شیطان کے معاون نہ بنو۔‘‘(3) اس لیے ہم پر لازم ہے کہ جب ہم دوسروں کو دیکھیں تو ان کو نبی اکرم ﷺ کے اس ارشاد کی روشنی میں دیکھیں۔
حسن ظن کیا ہی اچھی عبادت ہے
اللہ تعالیٰ، اس کے رسول عظیم اور قرآن کریم سے جڑے ہوئے ان مومنوں کے بارے میں بد ظنی سے بچیں جنہوں نے اپنے آپ کو قرآن اور ایمان کی خدمت کے لیے وقف کردیا ہے۔اسی طرح ان کے عیوب تلاش کرنے سے بچیں کیونکہ نبی کریمﷺ نے خبردار فرمایا ہے کہ ’’جس نے اپنے کسی بھائی کو کسی گناہ پر عار دلائی تو وہ اس وقت تک نہیں مرے گا یہاں تک کہ وہ کام خود کرے گا۔‘‘(4) اس رخ سے کسی بھی انسان کو چاہیے کہ اسے خوف ہو اور اس بات سے اس کے رونگھٹے کھڑے ہوجائیں اور ہر وقت یہ سوچے کہ’’ میں نے یہ عیب فلاں کی طرف منسوب کیا ہے۔ اگرلوگ ایسے ہی عیوب خود میری طرف یا میری بیوی اوراولاد کی طرف منسوب کریں تو میں کیا کروں گا؟‘‘
جی ہاں، حقیقی مسلمان پرلازم ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں، خواہ کوئی بھی ہو ، احتیاط برتے اور نہایت احتیاط سے کام لے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ بیدار مغزی اوراحتیاط کمال کا پہلا مرتبہ ہے جبکہ مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے رستے پر ہمیشہ چوکنا ہو کر چلے اور جہاں تک ممکن ہو سکے اپنے افکار کو حسن ظن سے رنگ دے ا ور کبھی بھی بد گمانی کے گناہ میں نہ پڑے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’ حسن ظن عبادت کی خوبی میں سے ہے۔‘‘(5) اس سے آپ علیہ السلام نے ہمارے سامنے یہ بیان فرمایا ہے کہ حسن ظن ایک عظیم اور اعلیٰ مرتبہ ہے۔
اس کے باوجود خبردار خبردار ا! ان لوگوں کے بارے میں ہوشیار رہیں جو سانپوں کی طرح انسانوں میں زہر پھیلا رہے ہیں اور ہمیشہ دوسروں کی تنقیص اور مذمت میں لگے رہتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے سامنے بند باندھیں اور رکاوٹیں کھڑے کریں لیکن اس بارے میں تمہاری احتیاط اور ہوشیاری ان لوگوں کے لیے ہدایت کی دعا کرنے میں مانع نہیں جو تمہارے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے میں ان لوگوں کے بارے میں دعا میں جلدی کرتا ہوں جنہوں نے مجھ پر بہتان تراشی کی اور پچاس سال سے میرے خلاف لکھتے رہے کیونکہ جب میں یہ سوچتا ہوں کہ ان کا یہ فعل ان کے جہنم میں جانے کا سبب بن سکتا ہے تو کہتا ہوں: ’’ اے اللہ میں ان کے لیے تجھ سے خیر کا طالب ہوں! اس لیے تو ان کو دوزخ کا عذاب نہ دے! اے اللہ ایمان ان کے دلوں میں ڈال دے اور ان کو مشرف بہ ایمان فرما!‘‘
اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کوایک رستہ اختیار کرنے کا حق بھی دیا ہے کہ جب تمہیں تکلیف دینے والے تکلیف دیں تو آپ ان کے لیے بد دعا کریں کہ : ’’اے اللہ ان کو پکڑے لے، یا اللہ ان کو شکست سے دو چار کردے، ان کو ہلا ہلا ڈال، ان کا شیرازہ بکھیر دے، ان کو تتر بتر کردے، ان کی جنگ کو خود ان کے اوپر لوٹا دے اور ہمیں ان پر فتح نصیب فرما!‘‘ آ پ کو یہ سب کچھ کہنے کا حق ہے کیونکہ اگر ایسے لوگ موجود ہیں جو تمہیں ستاتے ہیں، تکلیف دیتے ہیں، تم پر سختی کرتے ہیں اور تمہارے خلاف طرح طرح کی سازشیں تیار کرتے ہیں، تمہارے لیے جال بچھاتے ہیں اور تمہارے خلاف چالیں چلتے ہیں تو تمہیں بھی حق پہنچتا ہے کہ ایسے کام کرو جن سے ان کی سازشیں اور منصوبے بالکل ناکام ہو جائیں اور ان کا وبال انہی کے اوپر آجائے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ﴾ (النحل:126)(اور اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی۔)لیکن اس سب کے باوجود اس آیت کا اختتام ان الفاظ پر ہورہا ہے: ﴿وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ﴾ (اوراگر صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لئے بھت اچھا ہے)۔ اس سے یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ اپنے ذاتی حقوق کے بارے میں صبر کرنا اور شرافت اور نرمی کا دامن نہ چھوڑنا افضل ہے۔
[1] صحيح مسلم، البرّ والصلة، 139.
[2] صحيح مسلم، الإيمان، 158.
[3] صحيح البخاري، الحدود، 6.
[4] سنن الترمذي، صفة القيامة، 53؛ البيهقي: شُعب الإيمان، 67/9.
[5] سنن أبي داود، الأدب، 88؛ مسند الإمام أحمد، 338/13.
- Created on .