ایسا نظام جو اسلام کو برداشت کرسکے
سوال: آپ نے ذکر فرمایا ہے کہ اسلام کو صرف اور صرف ایک ایسے موثر نظام کے ذریعے ہی اٹھایا اور اس کی تبلیغ کی جاسکتی ہے جووجود کی پوری روحانی فہرست کی نمائندگی کرتا ہو اور اس نظام کی تشکیل عقل، وجدان روح اور جسم سے مل کر ہوتی ہے (1)۔ اس بات کا کیا مطلب ہے؟
جواب: سوال میں جو کچھ بیان کیا گیا وہ ایسے عناصر ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کے بذات خود مختلف رخ ہیں جو انسان کے اندر پیدا کئے گئے ہیں اور یہ اسلام کی فہم اور لوگوں تک اس کی تبلیغ کے اہم ارکان ہیں۔
عقل
اگر ہم عقل کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس کا کام یہ ہے کہ وہ اچھے برے اور نفع بخش اور نقصان دہ چیزوں میں فرق اور تمیز کرے بشرطیکہ اسے درست انداز میں قلب و روح کی رہنمائی میں استعمال کیا جائے لیکن عقلیت پسندوں نے عقل کو ہی سب کچھ سمجھ لیا جیسے کہ ہمارے زمانے کے عقل پرستوں نے اسے کتاب و سنت پر بھی مقدم کردیا ہے جبکہ ان کے کچھ مخالفین نے عقل کا سرے سے انکار کردیا۔ مطلب یہ ہے کہ ایک گروہ کے ہاں عقل کی قدر میں افراط سے دوسرے گروہ کے ہاں اس کی قدر میں تفریط پیدا ہوگئی۔ اس لیے اگر ہم آج اسلامی دنیا پر نظر ڈالیں تو یہ بات بالکل واضح نظر آئے گی کہ عقل کے کاموں کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے اور اس بارے میں خوفناک کمی پیدا ہوگئی ہے۔
دوسری جانب عقل کی تخلیق میں ایک اہم حکمت ہے۔ (سب سے پہلے) یہ عبودیت اور مکلف بنائے جانے کی بنیاد ہے کیونکہ اگر انسان عقل سے محروم ہوجائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے خطاب کے شرف سے محروم ہوجائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت انسان کو صاحب عقل ہونے کی وجہ سے مخاطب کرتا ہے اور اس کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان معاملات ہوتے ہیں۔ اس کی مثال ملاحظہ فرمائیے: ﴿وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ﴾ (البقرۃ:40 ) (اور اس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا تو میں اس اقرار کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا) اور ﴿فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ﴾ (البقرہ: 152) (سو تم مجھے یاد کیا کرو تو میں تم کو یاد کیا کروں گا)ان باتوں کو سمجھنا اور عمل میں لانا عقل کے ساتھ جڑا ہوا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی عقل سے محروم کسی انسان کو جنت میں داخل کرنا نہ کرنا ایک اور مسئلہ ہے ، البتہ انسان کا عقل کی نعمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا مخاطب ہونے کا شرف حاصل کرنے اور عقل سے مربوط اوامر شر عیہ کو سمجھنے اور اس کو عمل میں لانے کی بڑی اہمیت ہے۔ اس سے عقل کا مرتبہ اور دین میں اس کی قیمت کو سمجھا جاسکتا ہے۔
گزشتہ باتوں کے علاوہ عقل مرئی اور محسوس چیزوں کو سمجھنے کے لیے بھی بنیادی عنصر ہے لیکن اس کی فطرت کے مطابق اس کا اپنا ایک محدود دائرہ ہے جب تک اس کو حاصل ہونے والی معلومات کو شریعت کے ترازو سے نہ تو لاجائے تو وہ کسی بھی وقت پھسل کر گمراہ ہوسکتی ہے۔ اس لیے عقل کو اتنا ہی مرتبہ دیا جانا چاہیے جس کی وہ مستحق ہے لیکن جب آپ عقل کو اپنے کام نہیں کرنے دیتے تو آپ اس نظام کے ایک حصے کو معطل کردیتے ہیں جس کے آپ مالک ہیں۔ اس وجہ سے جو نظام اس طرح شل ہوجائے وہ اپنی مطلوبہ ذمہ داری ادا نہیں کرسکتا۔ جس طرح ریس کے بغیر گاڑی اپنے نام اجزاء کے سلامت اور اپنی جگہ ہونے کے باوجود حرکت نہیں کر سکتی ، اسی طرح انسان کا عمومی نظام بھی اس وقت شل ہوجاتا ہے جب عقل (جو اس نظام کا ایک رکن ہے) اپنے اہم اور اس سے مطلوب ذمہ داریوں کو ادا نہ کرے۔
وجدان
وجدان اس نظام کا ایک اور رکن ہے۔ بقول حضرت بدیع الزمان نورسی وجدان کے درج ذیل چار ارکان ہیں: حس، ارادہ، شعور اور لطیفہ ربانیہ جبکہ ’’لطیفہ ربانیہ‘‘ کی اپنی درج ذیل گہرائیاں ہیں، اول: ’’راز‘‘ جو انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، دوم: ’’خفی‘‘ جس کا تعلق حق سبحانہ و تعالیٰ کی صفات سے ہے اور سوم: ’’اخفیٰ‘‘ جس کو ہم ’’ذات محض ‘‘ کی تلاش کا مرتبہ کہہ سکتے ہیں جبکہ ہمارے جیسے ان پڑھ لوگوں کی ایسی باتوں سے ناواقفیت ان کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی کیونکہ جو لوگ ان مراتب تک پہنچے ہیں انہو ں نے ہمیں اپنے روحانی تجربات کے ذریعے یہ باتیں بتائی ہیں۔
پھر جب وجدان کے نظام کو تشکیل دینے والے یہ سارے عناصر یکجا ہوجائیں تو ’’حدس‘‘ وجود میں آتا ہے جسے ہم ’’اندرونی حس‘‘ یا اندرونی تجزیہ اور تحلیل کا نام دے سکتے ہیں کیونکہ انسان عالم خارجی میں ہونے والے واقعات اورچیزیں نتھارتا اور حدس کے ذریعے صاف کرکے ان کو درست انداز میں سمجھتا ہے لیکن اگروجدان کے عناصر میں سے کسی ایک عنصر کو بھی مہمل چھوڑا جائے تو وجدان کو پوری طرح کام میں نہیں لایا جاسکتا اور جب ہم وجدان کے نظام کومعطل کرتے ہیں تو ہم اس ہستی کو شل کردیتے ہیں جسے انسان کہا جاتا ہے کیونکہ وجدان اس کے نظام کا ایک بنیادی رکن ہے۔ اس حالت میں انسان کی حیثیت اس کی جسمانی ساخت و پرداخت یا اس کے چہرے اور اعضاء کے خدوخال جیسے ناک، کان اور آنکھ وغیرہ کی اہمیت اور قیمت کم ہو جاتی ہے حالانکہ ان میں بلا کا حسن و جمال ہوتا ہے۔
روح
روح اس عجیب و غریب حیران کن مشین کے عناصر میں سے ایک اور اہم رکن ہے کیونکہ روح ’’لطیفہ ربانیہ‘‘ سے بلند ایک نظام ہے جبکہ اولیاء روحانی سیر وسلوک کا رستہ متعین کرتے ہوئے کہتے ہیں: لطیفہ ربانیہ سے روح کی طرف بڑھنا چاہیے کیونکہ روح کا ایک رخ خدائی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک تروتازہ تحفہ ہے جو نفخہ الہٰیہ ہونے کی وجہ سے ہم تک پہنچتا ہے۔ چنانچہ اس کے ذریعے ہمیں محسوس کیا جاتا ہے، ہمیں دیکھا جاتا ہے، ہمیں پہچانا جاتا ہے اورہمارا خیال رکھا جاتا ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اس وجہ سے لطیفہ ربانیہ سے روح کی منزل کی طرف چھلانگ لگانا اس نفخہ الہٰیہ کا احترام ہے جو اللہ تعالیٰ نے ابتدائے آفرینش میں ہمارے اندر ودیعت فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: ﴿وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي﴾ (الحجر:29) (اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دی) جبکہ یہ بذات خود ایک اعلیٰ مرتبہ ہے اور جو شخص اس تک پہنچتا ہے اسے یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ اس کا منبع اور سرچشمہ خدائی ہے۔ بہرحال لطیفہ ربانیہ کا حصول جتنا بھی اہم مرتبہ ہو، جو لوگ اس کے اندر رہتے ہیں اور روح کے مرتبے تک نہیں پہنچ سکتے، ان کو اس عظیم خدائی احسان کے بارے میں کچھ زیادہ احساس نہیں ہوسکتا۔
جسم
مذکورہ بالا عناصر میں ہم جسم کا بھی اضافہ کرتے ہیں جو انسان کا مادی رخ ہے۔پھر جس طرح عقل،وجدان ، روح اور قلب کے نظام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جن سے انسان کا روحانی رخ بنتا ہے ، اسی طرح انسان کے جسم کی بھی خاص اہمیت ہے جو اس کے مادی رخ کو تشکیل دیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طاقت اور نماز،روزہ اور حج جیسی عبادات کی ادئیگی اس نظام کی درست انداز سے کام کرنے پر موقوف ہے۔ جس طرح ہمیں اس بات کا ادراک نہیں ہوتا کہ نماز ادا کرنے، اللہ کے آگے عاجزی کرنے اور قرآن کریم کی تلاوت سے کیا حاصل ہوتا ہے، اسی طرح ہمارے لیے یہ جاننا بھی مشکل ہے کہ ان عبادات کی ادائیگی کا فائدہ کیا ہوگا۔ ایک حدیث شریف میں آیا ہے:’’جب آدمی اچھی طرح نماز پڑھتاہے، اس کا رکوع اور سجدے پورے طورپر ادا کرتا ہے تو نماز کہتی ہے:اللہ تعالیٰ تیری بھی اسی طرح حفاظت فرمائے جس طرح تو نے میری حفاظت کی۔ اس کے بعد نماز بلند کی جاتی ہے۔ اگر نماز بری طرح پڑھے اوراس کا رکوع اور سجدے مکمل نہ کرے تو نماز کہتی ہے : اللہ تعالیٰ تجھے بھی اسی طرح ضائع کرے جس طرح تو نے مجھے ضائع کیا ہے۔اس کے بعد نماز کو پرانے کپڑے کی طرح لپیٹا جاتا ہے اور اس کے منہ پر ماردی جاتی ہے۔‘‘(2 )
دوسری جانب آپ بدنی عبادات کے ذریعے اپنے جسم کی تہذیب اور تربیت کرتے ہیں اوران سے انسان کے فطری اورطبعی سانچے کو کئی فوائد ہوتے ہیں لیکن ان عبادات کی بنیاد ان حکمتوں اور فوائد پر نہیں رکھی گئی بلکہ ان کو انسان کے جنت میں داخلے کا پل بنانے اور وہاں ہمیشہ کی زندگی عطا کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کی رویت سے محظوظ ہو سکے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے مرتبے تک پہنچ سکے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر چہ نماز، روزہ اور زکاۃ جیسی عبادات سے بہت سے دنیوی فوائد اور منعفتیں ہیں جو نفس کی تربیت کے لیے مفید ہیں مگر ان کا حقیقی پھل دار آخرت میں حاصل ہو گا۔ چونکہ جسم انسان کو یہ ساری نعمتیں حاصل ہونے اور آخرت میں کایمابی کا ذریعہ ہے ، اس لیے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ نعمتوں اور عطاؤں میں سے ایک ہے۔ اس نعمت پر ابتدائے آفرینش سے ہی زور دیا گیا جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی کیونکہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ان کے سامنے سجدے کا حکم فرمایا تو تمام کے تمام فرشتے حکم بجا لائے مگر ابلیس نے تکبر کیا اور فرمانبرداری سے انکار کردیا اور سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ قرآن کریم نے اس واقعے کو یوں بیان فرمایا ہے: ﴿وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِكَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ﴾ (البقرۃ:34)(اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو وہ سب سجدے میں گر پڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آ کرکافر بن گیا )
جی ہاں، ابلیس نے تکبر ، انانیت اور غرور کی وجہ سے سجدہ نہیں کیا جبکہ فرشتوں نے انسان کے اندر موجود وسعت اور فرمانبرداری میں باریک بینی اور دقت کو دیکھا تو سجدے میں گر پڑے ۔ گویا یہ سجدہ احترام پیدا کرنے کا ایک خدائی عمل تھا۔ جیسے کہ میں پہلے کئی مواقع پر وضاحت کرچکا ہوں کہ اگر اللہ کے سوا کسی کے سامنے سجدہ جائز ہوتا تو انسان کے لیے ہوتا کیونکہ وہ اپنی اندرونی اور بیرونی ساخت کے لحاظ سے ایک محترم مخلوق ہے۔
فرشتے اپنی فطرت کے اعتبار سے فرمانبرداری میں موجود باریک بینی اور الوہیت کے اسرار کو جانتے ہیں اور عالم ملکوت کے سامنے رہتے ہیں اوروہ بیک وقت ایک سے زیادہ جگہوں میں موجود ہوسکتے ہیں لیکن اس کے باوجود عالم مادی کی خصوصیات کو پوری طرح محسوس نہیں کرسکتے۔ اسی وجہ سے ان کو انسان جیسی عجیب و غریب ہستی کے سامنے تعجب ہوا تو اعتراض کی وجہ سے نہیں بلکہ تعجب کی وجہ سے بول اٹھے کہ: ﴿أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ﴾ (البقرۃ:30)(کیا تو زمین میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت وخون کرتا پھرے)اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان شہوت، انانیت، فخر، غصے اور عقل کے لحاظ سے بپھر جاتا ہے۔ اس لیے اس زاویے سے اس میں برائیوں اور عیوب کا مرتکب ہونے کی صلاحیت موجود ہے لیکن جونہی وہ ان امور کو درست کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا مقبول ، محبوب اور محمود بندہ بن جاتا ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ شرور کے مقابلے میں بہت سا خیر پیدا کردیتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ فرشتے اس رخ کو نہیں دیکھ سکتے جبکہ انسان کی روحانی اور جسمانی ساخت اور جسم اور روح کے درمیان قائم تعلق میں اتنے نکات اور معانی ہیں جن کے لیے دفتر درکار ہیں۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اسلام کو اس کی اصل شناخت، اس کی وسعت اور اس کی درست شمولیت اور اس کی تطبیق اور تبلیغ اس (انسان) کے نظام کے اجزاء میں سے ہر چیز کو بغیر کسی غفلت کے اپنی اپنی جگہ استعمال کرنے سے ہی ہوسکتی ہے۔
جی ہاں، عقل ، وجدان، روح اور جسم میں سے ہر ایک کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے جس کے لیے اسے تخلیق کیا گیا ہے کیونکہ اگر انسان ان میں سے کسی کو بھی نامکمل چھوڑ دے تو وہ اپنے کاندھے پر عائد ذمہ داریوں اور فرائض کو ادا نہیں کرسکتا۔
[1] فتح الله كولن: ونحن نقيم صرح الروح، دار النيل، القاهرة 2008م، ص 23.
[2] أبو داود الطيالسي: المسند، 479/1؛ مصنف عبد الرزاق، 587/1؛ الطبراني: المعجم الأوسط، 263/3.
- Created on .