اہل علم ، تحریک اور کام کے لوگ
سوال: یہ آیت کریمہ﴿وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ﴾ (التوبہ:122)(اور یہ تو نہیں ہو سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند افراد نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے اور اس میں سمجھ پیدا کرتے۔ اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ بھی محتاط ہو جاتے ) ہمارے زمانے کے ایمان والے لوگوں کے لیے کیا کیا پیغام دیتی ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ اس آیت میں پہلی بات ان الفاظ سے بیان فرمائی ہے: ﴿وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً﴾ (اور یہ تو نہیں ہو سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں) یعنی مومنوں کا جنگ کے لیے نکلنا اور سب کے سب کا لڑائی کے محاذ پر جا کر ایک ساتھ معرکے میں شریک ہو جانا درست نہیں ہے۔ اس کے بعد ﴿فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ﴾ (یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند افراد نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے اور اس میں سمجھ پیدا کرتے )کے الفاظ سے کچھ لوگوں کے پیچھے رہنے کی ضرورت کو بیان فرمایا کہ وہ دین میں فقاہت حاصل کریں اور روح کی حقیقت اور مغز تک پہنچیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آیت کو ان الفاظ سے ختم فرمایا : ﴿وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ﴾ (اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ بھی محتاط ہو جاتے ) اس سے اس بات کی ضرورت کو بیان فرمایا کہ اہل علم مختلف محاذوں سے واپس آنے والے لوگوں کو غلط رستے کے انجام سے ڈرائیں، ان کی دینی تربیت کریں اور ان کو ضروری امور کی تعلیم دیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو مجاہدین دشمن کے مقابلے میں مورچہ زن ہیں اور ایک محاذ سے دوسرے محاذ تک دوڑتے رہتے ہیں، شاید ان کو اس بارے میں اپنی ضرورت کوپورا کر نے کے لیے مکمل علم نہ ہو اور اس انتہای ضروری کام میں مصروفیت کی وجہ سے ان کو دینی امور کے بارے میں علم کی ضرورت ہو۔
علمی مرتبہ اورکامیابی
اسلام کے شروع کے زمانے میں مسلمانوں کو دین کے دشمنوں کی جانب سے حملوں اور زیادتیوں کا سامنا رہتا تھا کیونکہ اس وقت وہ حق اور حقیقت کی تبلیغ کرتے تھے اور عدل کی نمائندگی کرتے ہوئے اسے بیان کرتے تھے ۔ اس لیے ایسی حالت میں وہ دشمنوں کو یہ دعوت نہیں دے سکتے تھے کہ: ’’مسجد تشریف لائیے تاکہ ہم بیٹھ کر بات کرسکیں‘‘ اور اگر یہ فرض کرلیں کہ اگر وہ ان کو اس طرح دعوت دیتے تو یہ احتمال ہوسکتا تھا کہ وہ عناد پرست تخریب کار دشمن آجاتے اور مسجد کو بھی ڈھا دیتے۔ چنانچہ اس طرح کی تباہی کا موقع نہ دینے یعنی اپنی عزتوں، ناموس، دینی شعائر، اپنے وطن اور جھنڈے کی حفاظت کے لیے اس زمانے کے مسلمانوں نے اس دشمن کا مقابلہ کیا جس نے ظلم میں پہل کی تھی اور اپنا دفاع کیا۔
آنحضرت ﷺ کے بعد خلفائے راشدین کے زمانے میں ایسی ہی مشکلات پیش آئیں جن کی وجہ سے مسلمان دشمن کا مقابلہ کرنے اور مختلف محاذوں پر اس سے نبرد آزما ہونے پر مجبور ہو گئے مثلاً فتنہ ارتداد کو ختم کرنے کے لیے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں آٹھ محاذوں پر جنگ اور قتال ہوا۔علاوہ ازیں روم اور فارس کی سلطنتیں (جو اس زمانے کی سپر پاور تھیں) مسلمانوں پرحملے کے لیے موقع کی تلاش میں تھیں اور مسلمانوں کی راہ میں موقع ملتے ہی روڑے اٹکاتی تھیں جس کی وجہ سے مسلمان دنیا کے مختلف مقامات پر دفاعی معرکے لڑنے پر مجبور ہوئے۔
ان حالات میں اگر سارے لوگ جنگ میں شریک ہو جاتے تو تعلیم کے میدان میں پڑا خلا پیدا ہو جاتا ۔ اس لیے حق سبحانہ و تعالیٰ نے مندرجہ بالا آیت شریفہ میں حکم فرمایا کہ ایک گروہ علم میں مشغول رہے اور جنگ کے لیے نہ جائے تاکہ جنگ سے واپس آنے والوں کا یہ خلا پورا ہو جائے۔ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے اس بات کی ضرورت کی جانب اشارہ فرمایا کہ مسلمان اپنے علمی مرتبے کو ہمیشہ برقرار رکھیں ا ور اپنے زمانے کے حالات کے مطابق مطلوبہ اور ضروری مرتبے تک پہنچیں اور حقیت یہ ہے کہ مختلف محاذوں پر ہونے والے حملوں کو روکنے میں کامیابی حاصل کرنا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک اس طرح کا مقام اور مرتبہ حاصل نہ کرلیا جائے۔
علم و معرفت کے سفیر
ہم اپنے اس زمانے کے حالات کی روشنی میں جس میں علم اور بیان کی قوت کو سب چیزوں پر فوقیت حاصل ہے، اپنی ثقافت اور وجود کو صرف اور صرف علم، قلم اور بیان کی قوت سے ہی محفوظ رکھ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے زمانے میں تہذیب یافتہ لوگوں پر غلبہ دلیل سے قائل کرانے سے ہو سکتا ہے زبر دستی سے نہیں۔ اس لیے اپنے آپ کو بشریت کی خدمت کے لیے وقف کرنے اور علم و معرفت کے سفیر بننے والے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مخصوص اقدار ، علم و عرفان، محبت نرمی اور امن کے ساتھ دینا کے مختلف جغرافیائی خطوں تک پہنچائیں تلوار، ٹینک، توپ ، بندوق، اسلحے اور ظالمانہ طاقت کے ذریعے نہیں کیونکہ محبت اور سلامتی کا طریقہ دلوں تک پہنچنے کا رستہ کھولے گا جبکہ ظالمانہ طاقت کا طریقہ بغض و عناد کے جذبات کو بھڑکائے گا۔ اس لیے مشکلات کو حل کرنے کے لیے مادی قوت کے استعمال سے اس وقت تک بچنا چاہیے جب تک اس کی ضرورت نہ ہو کیونکہ مادی قوت کا استعمال صرف جان کا دفاع کرنے یا کسی حقیقی خطرے کو دور کرنے کے لیے ہی ہوسکتا ہے۔
اس بنا پر آج جو کام ہمارے ذہن اور انسانیت کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہم دنیا کے مختلف علاقوں میں جائیں اور وہاں تک اپنے ثقافتی اور علمی اقدار پہنچائیں اور ان سے وہ اقدار لیں جو ہمارے اقدار اور بنیادی نظریات سے مطابقت رکھتے ہیں ۔ جی ہاں، حق کے رستے میں اپنی جانوں کو وقف کرنے والے لوگ ہمارے اقدار کے اعزازی سفیر ہیں اور وہ ان مقامات پر لوگوں سے رابطوں کے ذریعے ہماری ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں جہاں وہ جاتے ہیں اور وہاں کی جن جمالیات کو اچھا سمجھتے ہیں ان کو اپنے گھر والوں اور ہم وطنوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ ان سے استفادہ کرسکیں لیکن اس کے باوجود یہ اہم فریضہ ادا کرتے وقت وہ علمی اور روحانی غذا کی ضروری مقدار حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ حرکت اور کام پر توجہ مرکوز رکھنے کی وجہ سے ان کے حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ جب معاملہ یہ ہے تو پھر ایسے افراد کی تربیت ضروری ہے جو ہمارے بنیادی مصادر اور ہماری روحانی جڑوں سے ابھرنے والے اقدار کو اچھی طرح سمجھتے ہوں اور اس طرح وہ حرکت اور عمل کے میدان میں مصروف لوگوں کے لیے ضروری علمی اور روحانی غذا فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اسی طرح جو لوگ علم اور فقہ میں گہرائی پیدا کرنے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں ان کو بھی چاہئے کہ وہ ایک میٹھے چشمے کا کردار ادا کریں اور اس طرح میدان میں کام کرنے والی روحوں کو غذا فراہم کریں تاکہ وہ بھی موقع کے مطابق اس چشمے سے سیراب ہو سکیں اور علم سے اپنے آپ کو سجا سکیں۔ اس طرح وہ اپنے نفس کی مسلسل تجدید بھی کرسکیں گے۔
مادی اور روحانی علوم سے آگاہ فقہاء
﴿لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ﴾ کے الفاظ سے اللہ تعالیٰ اس بات کی ضرورت کی جانب اشارہ فرمارہے ہیں کہ جو لوگ جنگ سے پیچھے رہ جائیں وہ ایمان، اسلام اور احسان سے متعلق مسائل سیکھنا شروع کردیں یعنی یمان اور اسلام کو انسان کی فطرت میں اتارنے کی کوشش کریں۔ اس کے باوجود ان اقدار کو درست طریقے سے نافذ کرنا، کسی بھی معاشرے ک ان کو بغیر کسی مشقت کے قبول کرنا، دنیا کے مختلف معاشروں میں لوگوں کی جانب سے ان امور کا اہتمام، ان کی طرف میلان اور احترام کا تعلق تکوینی اوامر اورتشریعی علوم کو اچھی طرح تلاش کرنے سے ہے۔ اس وجہ سے دینی علوم کے ہمراہ ان طبعی علوم کو حاصل کرنے کی بھی زبردست اہمیت ہے جو تہذیبی علوم کا منبع اور تجربہ گاہ تصور کئے جاتے ہیں بلکہ ان کو بحث کا محور خیال کیا جاتا ہے۔ ان علوم کواچھی طرح سیکھنا، ان کے بارے میں تحقیق کرنا اور فطرت کی نمائش گاہ میں پیش کیے جانے والے وجود کو اچھی طرح دیکھنا چاہیے۔
دینی علوم پڑھاتے وقت طبعی علوم سے بھی غفلت نہیں برتنی چاہیے کیونکہ طالب علم کی ہمت میں اس وقت طاقت پیدا ہوسکتی ہے جب ان دونوں کو یکجا کیا جائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک کو الگ کرنا ایسا ہے جیسے دوسرے کے پر اور بازو کاٹنا۔ جی ہاں نہ تو دینی علوم کو قربان کیا جاسکتا ہے جن سے دل کو روشنی ملتی ہے اور نہ ہی فطری علوم سے غفلت برتی جاسکتی ہے جو عقل و منطق کی روشنی ہیں۔
علاوہ ازیں یہ آیت کریمہ مسلمان کے لیے علم اور تحقیقی کے عشق کی اہمیت کو بیان کررہی ہے۔ اس لیے انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دینی اور طبعی علوم حاصل کرنے کے لیے برابر اور زبردست کوشش کرے اور اپنی زندگی کے آخری لمحے تک طالب علم رہے کیونکہ طالب اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی شے کے لیے کوشش کرے اور اسے تلاش کرے۔ اس لیے جب انسان اپنی تحقیق کے نتائج سے مستفید ہوتا ہے اور اپنے علم کو (خواہ وہ دینی ہو یا طبعی) اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے اور توازن قائم کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے تو وہ طالب علم کی واردات سے محفوظ ہوتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ علم کی واردات کیا ہے؟ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو شخص علم کی تلاش میں کسی رستے پر چلے گا، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کے لیے جنت کا رستہ آسان کردے گا۔‘‘(1)
جب علم کی طلب اور عالم کی جانب سے معاشرے کو ملنے والے فوائد کی اس قدر اہمیت ہے تو پھر معاشرے سے اس بات کا مطالبہ ہے کہ وہ طالب علم کو گلے لگائے اور اس کا خیال رکھنے کے لیے اپنے سے جو کچھ بن پڑتا ہے وہ کر گزرے کیونکہ جو شخص اپنے آپ کو علم کے لیے وقف کردیتا ہے اس کے لیے کوئی اور کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے بعض فقہاء نے صرف علم کے لیے فارغ ہونے والے شخص کو زکاۃ دینے کا جواز لکھ ہے اگرچہ اس کا لباس ریشم اور اس کے دروازے کی چوکھٹ سونے کی کیوں نہ ہو کیونکہ کسی بھی امت کی زندگی اس طرح کے تحصیل علم سے کی مرہون منت ہے اور جب تک ایسا نہ ہو یا ایسا نہ کیا جائے تو وہ امت بکھر جائے گی اور گر جائے گی۔ خصوصاً پانچویں صدی ہجری میں اس بارے میں پیدا ہوانے والی رکاوٹ کی وجہ سے کچھ دراڑیں پڑیں اور تیرہویں اور چودھویں صدی میں ہونے والی پسماندگی کی وجہ سے مکمل ٹوٹ پھوٹ پیدا ہوگئی اور آج تک ہم دوبارہ اپنی کمر سیدھی کرکے اٹھ کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہو سکے۔
استغناء اور قیمت
اس صورت حال میں طلبہ کا فرض ہے کہ وہ علم و معرفت کے رستے میں جو کچھ کرسکتے ہوں وہ کر گزر یں اور اپنے وقت میں سے ایک بھی سیکنڈ ضائع نہ کریں اور انتہائی سنجیدگی سے نظام الاوقات بنا کر اپنے وقت کو محفوظ کریں اور اپنی ہمت بلند کریں، کاموں کو تقسیم کریں اور آپس میں تعاون کریں۔ ان پر لازم ہے کہ وہ اپنی توانائیاں صرف کر ڈالیں تاکہ وہ امت کی جانب ان سے کئے جانے والے حسن سلوک کے مستحق ہوسکیں۔ ان کو دن میں چار گھنٹوں سے زیادہ نہیں سونا چاہیے۔ اس کے بعد باقی بیس گھنٹوں کو کام اور تحصیل علم میں لگا دیں کیونکہ کس کو پتہ ہے کہ اگر وہ اس طرح سے کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ صرف دو سال میں ہی اتنا علم عطا فرما دے جو عام طورپر دس سالوں میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اسی مناسبت سے میرے دل میں ایک احساس ہے جو میں آپ سے نہیں چھپانا چاہتا۔ وہ یہ کہ جو لوگ تعلیم کے لیے باہر جاتے ہیں اور دس سال میں بھی پی ایچ ڈی مکمل نہیں کر پاتے ان پر میرا دل دکھتا ہے۔ ان پرمیرا دل کڑھتا ہے جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ انسان سے اس قدر وقت ضائع کرنے پر پوچھے گا اور اس کا محاسبہ کرے گا کیونکہ ہماری قوم اور ملک کو بہت سے پڑھے لکھے لوگوں کی ضرورت ہے اور وقت ہی انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ اس لیے اگر کوئی آدمی اس رستے پر چل پڑے تو اسے اپنے وقت کا خیال رکھنا چاہیے اور اس کو مضبوطی سے تھامنا چاہیے۔ اسے اپنے ذہن کو تیز کرنا چاہیے اور جس چیز بھی فائدہ اٹھا سکتا ہو اٹھا لینا چاہیے۔ اسے تمام مصادر سے سیراب ہوناچاہیے جن سے وہ سیراب ہونا ممکن ہو۔ اسی طرح اسے وقت کو طول دینے کی بجائے اگر ممکن ہو تو مقررہ وقت سے قبل ہی ڈگری پوری کرلینی چاہیے۔
یہاں اہل علم سے متعلق ایک اور بات بھی ہے جو میں ذکر کرنا چاہت ہوں وہ یہ کہ استغناء علم اور اہل علم کی عزت کے لیے بڑی اہم بات ہے اور یہ ان اصولوں میں ہے جن پر منہج نبوت کی بنیاد ہے کیونکہ قرآن کریم کئی مقامات پر بتاتا ہے کہ انبیائے کرام اپنے منصب کا پیغام پہنچانے پر لوگوں سے کسی طرح کی اجرت نہیں طلب فرماتے۔ مثلاً ﴿وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾( (الشعراء:127) (اور میں اس کا تم سے کوئی بدلہ نہیں مانگتا۔ میرا بدلہ رب العالمین کے ذمے ہے) اس رخ سے اہل علم کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ایسی جگہ نہ رکھیں جہاں وہ کسی کو قیمت یا مقابل دینے پر مجبور ہوں خواہ وہ کوئی بھی ہو تاکہ وہ زندگی کے تمام مراحل میں سے اس سے بچ سکیں خواہ وہ تعلیم کا مرحلہ ہو، یا تعلیم دینے یا علم میں گہرائی پیدا کرنے کا۔
اس لیے اگر کوئی شخص استغناء کا احساس چھوڑ دے اور اپنے کاموں کو مختلف امیدوں کے ساتھ جوڑے کہ وہ ڈائریکٹر بنے گا، ڈائریکٹر جنرل بنے گایا ممبربنے گا یا وزیر یا وزیر اعظم بنے گا تو ایسا شخص کبھی بھی اپنے آپ کو اپنی تعلیم کی قیمت ادا کرنے سے نہیں بچا سکتا(اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ فرمائے)اور افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ جو قیمت ادا کرے گا وہ بہت سے لوگوں کو چکانا پڑے گی صرف اس کو نہیں بلکہ ان کو بھی جن سے اس کا تعلق ہے۔ اس لیے طالب علموں کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو استغناء کے اصول کے مطابق مرتب کریں اور اس پر اس کی بنیاد رکھیں اور ضرورت ہو تو اپنے والدین کے وسائل اگر دستیاب ہوں تو استعمال میں لائیں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے کام اپنے خون پسینے کی کمائی سے چلائیں اگرچہ وہ بہت کم کیوں نہ ہو اور کفایت شعاری کو اپنائیں تاکہ کبھی بھی کسی کو قیمت اور مقابل ادا کنے پر مجبور نہ ہوں۔
[1] صحيح مسلم، الذكر، 38.
- Created on .