دکھ اور غم کا وقت
سوال: ہم اپنی موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایسے واقعات اور حادثات سے دو چار رہتے ہیں جن پر دل جلتا ہےلیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے نفس پر ان کا وہ اثر نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے۔ ہمارے متاثر نہ ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ اور حساس مومن بندے بننے کے لیے ہمیں کس طرح کا برتاؤ کرنا چاہیے؟
جواب: قریب ترین سے لے کر دور ترین تک مختلف دائرے ہوتے ہیں جن سے انسان اس طرح جڑا ہوتا ہے کہ فرد ان دائروں کا مرکز ہوتا ہے ۔ بالفاظ دیگر یہ بات فطری اورطبعی ہے کہ سب سے پہلے انسان اپنی ذات میں مشغول ہوتا ہے۔ اسی طرح قرآن میں درج ذیل آیات: ﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ﴾ (سُورَةُ إِبْرَاهِيمَ: 41) (اے ہمارے پروردگار حساب کے دن میری اور میرے ماں باپ اور ایمان والوں کی مغفرت کیجیو) اور ﴿رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾ (نوح:28) (اے میرے پروردگار مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو ایمان لا کر میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو معاف فرما) میں انسان کی جانب سے مغفرت کی طلب کا آغاز اپنے نفس سے کرکے ایک مفہوم کے ذریعے اس فطری اور طبعی موقف کی جانب اشارہ کیا ہے۔
اس سب کے باوجود حقیقی مسلمان کے لیے ناممکن ہے کہ اس کے ارد گرد ہونے والے واقعات اس پر اثر انداز نہ ہوں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس شخص کو بھی انسانیت کا حصہ ملا ہے (ان میں مسلمان بھی شامل ہیں) ان بحرانوں اور تکالیف سے تکلیف اور بے چینی محسوس کرتا ہے جو دوسر وں پر آتے ہیں۔ چنانچہ وہ بے گناہوں پر ظلم و جور اور لوگوں کی آپس میں لڑائی بھڑائی سے دکھ محسوس کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اصل کو دیکھا جائے تو وہ ایک ہی درخت کی شاخیں یا اس کا پتے یا پھول یا پھل ہیں۔قرآن کریم ہمیں ﴿يَا بَنِي آدَمَ﴾ کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ اس وجہ سے ہر انسان اگر اس کا ضمیر مردہ نہ ہو تو آدم و حواء کی اولاد سے دکھی اور غمگین ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی روح درد سے تڑپتی ہے اور اس کے شفقت کے شعور اور احساس کی گہرائی کے مطابق اس کے دل سے خون بہتا ہے جبکہ رحمت اور وسیع شفقت کا مالک حقیقی مسلمان تمام لوگوں کی مشکلات اور بحرانوں سے متاثر ہوتا ہے اور دل کی گہرائیوں سے بے چینی اور درد کو محسوس کرتا ہے ۔ ان لوگوں میں سب سے پہلا نمبر ان لوگوں کا ہوتا ہے جن کا تعلق اس کے دین وطن اور قوم سے ہوتا ہے جو اسی کے قبلے کی جانب رخ کرتے ہیں، اس کے اقدار میں شریک ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک ہی سرزمین پر زندگی گزارتے ہیں۔ چنانچہ اس کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ مظالم کے سبب آگ جہاں بھی گر کر بھڑ ک اٹھے وہ اس کے اندر گرتی ہے اور اسے جلاتی اور کھاتی ہے۔
’’بے چینی آدھی رات کو بجنے والی گھنٹی کی مانند ہے۔‘‘
یہ بات ناممکن ہے کہ جو لوگ اسلامی دنیا کی حالت کو سمجھتے ہیں اور آج مسلمانوں کے خلاف تیار کی جانے والی سازشوں اور حیلوں سے آگاہ ہیں اور خصوصاً جب وہ خود ان واقعات کا سامنا کررہے ہیں، کہ وہ پریشان نہ ہوں اور ان کی نیند نہ اڑ جائے۔اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ وہ درد و کرب سے لوٹ پوٹ نہ ہو جائیں اور رات دن اس فکر میں نہ لگے رہیں۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ ماضی اور حال میں بعض لوگ اسلامی دنیا میں مختلف معاشروں کے درمیان اختلافات اور تفریق کو ہوا دیتے رہے ہیں حالانکہ یہ معاشرے زمانوں اور صدیوں تک ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی سے رہتے رہے اورکبھی بھی کسی اختلاف یا ٹکراؤ کے بغیر کئی صدیوں تک ان میں تعلقات رہے۔ آج ہم جب اغیار کو ان کے درمیان اختلاف اور جھگڑے کا بیج بوتے دیکھتے ہیں تو ہمیں افسوس ہوتا ہے۔ یہ لوگ ان کے ساتھ بد ترین کھیل کھیلتے ہیں اور ان مختلف معاشرتی فرقوں کوآپس میں لڑانے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کرتے ہیں۔۔۔ اور جو لوگ عالمی توازن میں اپنے اپنے طاقتور مرتبے کو برقرار رکھنے کے لیے ہر طریقے اور رستے کو جائز اور حلال قرار دیتے ہیں، وہ آسانی سے حکومت چلانے کے لیے ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کے مقولے کے مطابق تفریق کے حیلوں کو بغیر کسی سستی کے نافذ کرتے ہیں۔
جب مسلمان آپس میں لڑتے ہیں تو اغیار حکم اور فیصل کا کردار ادا کرتے ہوئے مداخلت کرتے ہیں اوران کی دولت کے سرچشموں پر قابض ہو جاتے ہیں اسی طرح ان اغیار نے ایک عالمی اور عظیم سلطنت کے مختلف عناصر کے درمیان دشمنی پیدا کی اور اس کا تیا پائنچا کردیا اور اس کے قدرتی و سائل پر ٹوٹ پڑے۔ یہ لوگ آج بھی وہی کھیل کھیل رہے ہیں اور آج بھی ان کی خواہشات اور امیدیں وہی ہیں۔ جی ہاں، جن لوگوں نے کسی وقت مختلف مسلمان فرقوں کے درمیان اختلاف اور تفریق کی آگ بھڑکائی تھی، وہ آج بھی ان شرور اور خباثتوں کو پہلے سے بھی زیادہ چالبازی اور خباثت سے نافذ کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں جو مسلمان آپس میں لڑتے ہیں، اسلامی اصولوں اور اقدار کی حفاظت کے بارے میں ان کی طاقت نہایت کمزور ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امت کے جسم کو دیمک نے کھوکھلا کردیا ہے۔ اس وجہ سے باہم دست و گریبان لوگوں کی جانب سے کوئی متوازن سوچ اور درست منطقی فکر پیش کرنا نہایت مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہےکیونکہ آپس میں لڑنے والے گروہ اور افراد منطقی طرز فکر سے دور بعض جانوروں کی طرح اپنی خواہشات اور شہوات کے مطابق کام کرتے ہیں۔ جیسے کہ قرآ ن کریم نے اس جانب یوں اشارہ کیا ہے: ﴿أُولَئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ﴾ (الاعراف:179)(یہ لوگ بالکل چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے) وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ بات نہیں سوچتے کہ آخریہ سارے جھگڑے اور لڑائیاں کس لئے ہیں؟ ان سے اسلامی دنیا کو کیا ملے گا؟ اور ہم کسی کو اس بات کی اجازت کس طرح دے سکتے ہیں کہ وہ ہماری آپس کی لڑائی کو دلیل بنا کر فیصل کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے اوپر حکومت کرے گا؟ اس لیے جس شخص کو ان سارے واقعات پر کوئی دکھ اور غم نہ ہو، وہ ان واقعات کا تجزیہ کرکے ان کے پیچھے پس پردہ چیزوں اور مختلف رخوں کو نہ دیکھ سکے تو وہ انسانیت کے بعض جذبات کھو چکا۔
’’اگر ہم رو نہ سکیں تو کم از کم ہنستے تو شرم کریں!‘‘
جو شخص حقیقی انداز میں اپنے ضمیر کو زندہ رکھ سکتا ہے وہ انسانوں کے علاوہ دوسرے عوالم حتی کہ عالم حیوانات اور عالم نباتات بلکہ عالم جمادات میں جو کچھ دیکھتا ہے اس سے بھی متاثر ہوتا ہے جبکہ ان عوالم میں ہر چیز کی موجودگی اللہ رب العزت کی دلیل ہے اور زمین میں اللہ کا خلیفہ ہونے کے اعتبار سے ہر صاحب وجدان کی جانب سے کائنات میں موجود امور کا اہتمام اور سب کے درد کی وجہ سے درد محسوس کرنا انسانی ضرورت کی نمائندگی کرتا ہے۔ میں کئی سال قبل دستاویزی فلموں کے بعض مناظر دیکھ کر ان سے نہایت متاثر ہوا تھا۔ ان میں سے مثال کے طورپر ایک منظر ذکر کرتا ہوں کہ کچھ شیروں نے ’’بیسون ‘‘ خاندان کے ایک بیل کو گھیر رکھا ہے۔ ان میں سے ایک نے اس کی پشت پر چھلانگ لگا دی، دوسرے نے اس کا پاؤں پکڑ لیا جبکہ تیسرے نے اس کی گردن دبوچ لی اور سب نے مل کر اس بیچارے کو کھا لیا ۔ یہ منظر ہمیشہ میری آنکھوں کے سامنے رہتا ہے۔ اگرچہ اس بیچارے جانور کے سینگ تھے مگر وہ شیروں کے طاقتور پنجوں اور تیز دانتوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہ کرسکا۔ چنانچہ جب میں بستر پر لیٹ کر لحاف اوڑھتا ہوں تو خیالوں میں ان شیروں کے لیے جال بچھاتا ہوں جن کو میں نے شاید بیس سال قبل اس بیل کو چیرتے پھاڑتے دیکھا تھا اور اپنا تیر تیار کرتا ہوں اور یہ کہتے ہوئے ان پر چلا دیتا ہوں کہ : ’’تم نے ایسے مسکین جانور کیوں چیر پھاڑ کر رکھ دیا؟ تم اسی کے مستحق ہو؟‘‘
علاوہ ازیں عالم حیوانات میں غذا کا ایک سلسلہ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جس جانور کو گوشت خور بنایا ہے وہ اپنی زندگی دوسرے جانور کھا کر بسر کرتا ہے۔ اسی طرح سبزی خور جانور پیدا ہوتے ہی گھاس چرنے لگتے ہیں جبکہ گوشت خور جانور اپنے لئے گوشت کی تلاش میں لگ جاتے ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک کی فطرت کا تقاضایہی ہے ۔ ایسے ہی ہم بھی چھری اٹھا کر اللہ کا نام لے کر حلال جانوروں کا گوشت کھانے کے لیے ان کو ذبح کرتے ہیں۔ اس فطری حالت کو عقلی طورپر قبول کرنے کے باوجود ہم حتمی طورپر درندوں کی جانب سے بعض بے گناہ جانوروں کو چیرنے پھاڑنے پر دکھی اور غمگین ہوتے ہیں اور تنگی محسوس کرتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ جو شخص اپنے ضمیر کی آواز کو سن سکتا ہے وہ اس بارے میں ایسے ہی جذبات محسوس کرے گا۔ جو ا نسان اس طرح کے مناظر سے تکلیف محسوس کرتا ہو(خواہ ان کا تعلق جانوروں سے کیوں نہ ہو) اس کے لیے ناممکن ہے کہ ہ لوگوں کو قتل ہوتا دیکھے اور دکھ اور غم سے نڈھال نہ ہو جائے۔ اس لیے ہمارے اپنے ملک یا دیگر اسلامی ممالک میں بھڑکنے والی آگ سے متاثر نہ ہونا، انسان کی انسانیت سے خالی ہونے کی دلیل ہے کیونکہ جس انسان کی انسانیت ختم نہ ہوگئی ہو وہ یقیناً ان منفی باتوں سے متاثر ہوگا۔
شاعر محمد عاکف مسلمانوں کی حالت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
جو عزت تار تار ہے وہ ہماری ہے
جو بچے زیر خنجر ہیں وہ ہمارے ہیں
اس لیے اے فریب خوردہ ہوشیار ہو جا
اے بے حیا اگر تو رو نہیں سکتا تو کم از کم ہنسنے اور خوش ہونے سے شرم کر
اسی طرح آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث شریف میں ارشاد فرمایا ہے: مَنْ لَمْ يَهْتَمَّ بِأَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ“[1] (جو شخص مسلمانوں کے معاملات کا خیال نہ رکھے وہ ان میں سے نہیں۔) یعنی اگر کسی انسان کے پاس کچھ بھی ایمان ہو تو اس پر لازم ہے کہ (کم از کم) مسلمانوں کو پہنچنے والی تکالیف اور پریشانیوں پر درد محسوس کرے۔ اس لیے جو شخص تکلیف کو محسوس نہیں کرتا وہ ایسے متبادل حل نہیں پیش کرسکتا جو مذکورہ بالا مشکلات کو ختم کرسکیں۔
اس بارے میں ہر شخص کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکے اور دوسروں کے بارے میں بد گمانی نہ کرے کیونکہ کس کو معلوم ہے کہ۔۔۔ ہمارے ارد گرد بعض لوگ جو بالکل بے حس معلوم ہوتے ہیں وہ نہایت صبر کرنے والے اور باہمت ہوں۔ اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے درد اور تلخی کو اسی طرح محسوس کرتے ہوں جس طرح ہم کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے دل مسلمانوں کو پیش آنے والی مشکلات اور بحرانوں پر خون کے آنسو روتے ہوں لیکن وہ اپنے اندرونی نظام کی قوت کی وجہ سے مصیبت کے درد پر اف بھی نہیں کرتے اور اس لیے آہیں نہیں بھرتے کہ دوسروں کو ان کے حال کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو۔
جنگ کا نعرہ انسانیت کو ختم کردے گا
لوگوں کو پیش آنے والی مشکلات ، مصائب اور آزمائشوں پر غم اور دکھ سے متعلق مسئلے کا ایک اہم رخ بھی ہے۔ وہ یہ کہ جس طرح اس معاملے کو محسوس نہ کرنا اور اس کا اہتمام نہ کرنا درست نہیں اسی طرح اس پر چیخنا چلانا، شور شرابا کرنا اور تخریب کاری،آتش زنی اور سختی پر اتر آنا بھی درست نہیں کیونکہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس طرح کا رد عمل اسلام اور انسانیت کا مخالف ہے۔ اس لیے اس کے کاموں کی قطعاً اجازت نہیں دی جاسکتی بلکہ انسانی اقدار کو بلند اور مضبوط کرکے اس طرح کی وحشت کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس لیے اگر ظلم و جور پر رد عمل کا اظہار ضروری ہو جائے تو ہر موقع پر یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ ہمار ا دین دہشتگردی اور تشدد کے ان واقعات سے بری ہے جن کے نتیجے میں بے گناہ انسان چھوٹے بڑے، عورت مرد اور بوڑھے جوان میں تمیز کے بغیر مارے جاتے ہیں اور جو لوگ اس طرح کے کام کرتے ہیں ان کی واضح طورپر مذمت کی جانی چاہیے اور تشدد اور طاقت کے استعمال کی ظالمانہ سوچ کا رستہ روکنا چاہیے اور اس بارے میں جو لوگ کجرائی کا شکار ہیں ان کے رخ کو درست کرنے اور ان کو گمراہی کے رستے سے بچانے کی بھی بھرپور کوشش کی جانی چاہیے۔ پھر جس وقت ہم یہ کام کررہے ہوں، عقلمند سیاستدانوں، معاشرتی علوم کے ماہرین، فلسفیوں اور اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ اکٹھے ہو کر تشدد اور جنگ کی زبان کی جگہ امن اور گفتگو کی زبان کو استعمال کریں۔ ایسے ہی عقل مشترک کے ذریعے بعض ممالک کی جانب سے اپنے مفادات اور ذاتی خواہشات کی وجہ سے لگائے جانے والے جنگ کے نعروں کا مقابلہ کرنے کے لیے امن کا ماحول اور امن کی زبان پیدا کی جائے۔ اسی طرح تیسری عالمی جنگ بھڑکانے کے لیے کی جانے والی کوششوں اور ہر قسم کی اشتعال انگیزی کا مقابلہ کرنے کے لیے متبادل منصوبے بنانے چاہئیں کیونکہ اگریہ جنگ بھڑک اٹھی تو احتمال یہ ہے کہ ساری دنیا ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک اس کے شعلوں میں جل کر خاکستر ہوجائے گی۔ پھر ان منصوبوں میں سے جن کی تنفیذ ممکن ہو ان کونافذ بھی کردینا چاہیے ورنہ تباہ کن جدید ہتھیار اوران کو استعمال کرنے والی عالمی جنگ ساری انسانیت کو نیست و نابود کردے گی۔
[1] الطبراني: المعجم الأوسط، 151/1، 270/7؛ الحاكم: المستدرك، 356/4.
- Created on .