ایمانکیزبردست طاقت
سوال: جو لوگدینی روح کے الہام اور اپنی اقدار کی جمالیات کو دوسروں تکپہنچانےکیخواہشرکھتےہیں ان کوکونسیبڑیمشکلاتپیشآسکتیہیں؟
جواب: انسان کا سب سے بڑا امتحان اس کی خواہشات اور دنیوی چاہتیں ہیں اور جن معاشروں اور افراد پر ان خواہشات کا غلبہ ہوتا ہے وہ بڑے مظالم اور طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ چنانچہ حق اور حقیقت والے لوگ جن میں انبیائے کرام سر فہرست ہیں، طرح طرح کے مظالم اور انکار کے شدید حملوں اور توہین اور جھوٹے الزامات بلکہ قتل اور ذبح کیے جانے کے اقدامات کا شکار ہوئے ہیں۔ اسی طرح دل کو جلانے والا پہلا واقعہ حضرت آدم علیہ السلام کے گھر میں پیش آیا جس پر وحی کی برسات ہورہی تھی۔ اگرچہ قابیل نے اس خوبصورت ماحول میں پرورش پائی تھی مگر دنیا کی فانی خواہشات کے حصول کے لیے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر ڈالا ۔ ارشاد خداوندی ہے:﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ * لَئِنْ بَسَطْتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ * إِنِّي أُرِيدُ أَنْ تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ وَذَلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ * فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾(المائدہ: -2730) (اور (اے محمد) ان کو آدم کے دو بیٹوں کے حالات (جو بالکل) سچے (ہیں) پڑھ کر سنا دو۔ جب ان دونوں نے کچھ نیازیں چڑھائیں تو ایک کی نیاز قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی۔ (تب قابیل ہابیل سے ) کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کر دوں گا۔ اس نے کہا کہ اللہ پرہیزگاروں ہی کی (نیاز) قبول کرتا ہے۔اور اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ چلائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہیں چلاؤں گا۔ مجھے تو اللہ رب العالمین کا ڈر لگتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تو میرے گناہ میں بھی ماخوذ ہو اور اپنے گناہ میں بھی۔ پھر اہل دوزخ میں ہو اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔ مگر اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل ہی کی ترغیب دی تو اس نے اسے قتل کر دیا اور خسارہ اٹھانے والوں میں ہو گیا) اس طرح شیطان کے دھوکے سے انسان پہلے جرم کا مرتکب ہوا اور اس کے بعد اس دھوکے اور گمراہی اور بہت سارے واقعات پیش آئے جو آج تک جاری ہیں۔ ایک مقدس کتاب میں آیا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو حق تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ظلم اور ذلت سے نجات دلا کر عزت اور بلندی کی طرف لے جانے کے لیے بھیجا تھا، ان پربھی ان کی قوم نے (معاذ اللہ) زنا اور قتل کے ایسے الزامات لگائے جو کسی عام آدمی پر بھی نہیں لگائے جاتے۔ یہاں تک کہ ان کی قوم نے ان کو تنگ کرنے کے لیے تابوت پر قسم اٹھانے پرمجبور کردیا حالانکہ آپ ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے۔
ایسے ہی سید الکونین حضرت محمد ﷺ پر بھی آپ علیہ السلام کے دشمنوں نے کئی الزامات لگائے۔کبھی آپ کو (ہزار بار معاذ اللہ) جادوگر کہا جیسے کہ قرآن کریم کہتا ہے:﴿أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ أَنْ أَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ قَالَ الْكَافِرُونَ إِنَّ هَذَا لَسَاحِرٌ مُبِينٌ﴾(یونس:2) (کیا لوگوں کو تعجب ہوا ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک مرد کو حکم بھیجا کہ لوگوں کو ڈر سنا دواور ایمان لانے والوں کو خوشخبری دے دو کہ ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے (ایسے شخص کی نسبت) کافر کہتے ہیں کہ یہ تو صریح جادوگر ہے) کبھی آپ کو شاعر کہا:﴿بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلاَمٍ بَلِ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الأَوَّلُونَ﴾(الانبیاء:5) (بلکہ (ظالم) کہنے لگے (یہ قرآن) پریشان (باتیں ہیں )بلکہ یہ شاعر ہے، تو جیسے پہلے بھیجے گئے تھے (اسی طرح) یہ بھی ہمارے پاس کوئی نشانی لائے) کبھی کاہن ہونے کا الزام لگایا جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَلاَ بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلاً مَا تَذَكَّرُونَ﴾ (الحاقۃ:42)(اور نہ کسی کاہن کے مزخرفات ہیں لیکن تم لوگ بہت کم فکر کرتے ہو) ان دشمنوں نے بڑی کوشش کی کہ وہ ان حقائق کوروکیں جو دلوں میں داخل ہو کر ان کو روشن کرتے تھے اور جو نبی کریم ﷺ اللہ کی طرف سے پہنچا رہے تھے۔
تم نے اپنی اچھی چیزیں دینا میں لے لیں!
اس قسم کے واقعات ہمارے زمانے میں آج بھی ہو سکتے ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ وہ آئندہ بھی نہیں رکیں گے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس بارے میں اس طرح نہ کریں جیسے بعض شعراء نے ان واقعات کو غموں اور دکھوں کی داستان بنا کر ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا اور ان کو شکایت کی شکل میں اگلی نسلوں تک منتقل کردیا۔ جی ہاں، اہم بات یہ ہے کہ انسان اپنے ا وپر آنے والے ان مصائب کو خوشدلی سے قبول کرے اور لوگوں کے سامنے ان کا شکوہ نہ کرے اور عزلت کے ایسے مواقع تلاش میں رہے جب وہ اللہ کے حضور اپنے دل کے حالات کو پیش کرسکے لیکن اس وقت بھی یہ کام اس طرح کرے کہ اس کی چیخیں اور آواز کسی اور کو سنائی نہ دے کیونکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی زمان و مکان کا مالک ہے اور حکم صرف اسی کا چلتا ہے۔ اس لیے نتائج میں مداخلت کرنا ہمارا کام نہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کے احکام کا احترام کریں اور ان کی جتنی ہو سکتی ہو قدر کریں اورترکی کے صوفی شاعر ابراہیم تنوری کے شعر کے مطابق اپنے رستے پر سفر جاری رکھیں ۔ وہ کہتے ہیں:
اگر آزمائش اللہ تعالیٰ کے جلال کی جانب سے ہو تو وہ کتنی اچھی ہے!
اگر وفا اللہ تعالیٰ کے جمال کی طرف سے ہو تو وہ کتنی اچھی ہے!
کیونکہ ان دونوں سے روح میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے۔
اس لیے اس کا لطف کتنا میٹھا اور اس کا غضب کس قدر اچھا ہے!
بعض اوقات حق تعالیٰ کے جلال کی جانب سے سختی اور اس کے جمال کی جانب سے پاکیزگی آسکتی ہے۔ اس لیے ان دونوں میں توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ پس انسان کو پاکیزگی پر خوش ہونا چاہیے اور نہ سختی پر مایوس ۔ ہمیں یہ کہنے سے بچنا چاہیے کہ :’’ چونکہ میں نے یہ یہ کیا ہے، کیا اس کی وجہ سے یہ تکلیف آئی ہے؟ یہ ساری مصیبتیں، تکالیف، ظلم یا افواہیں اور بغض وعداوت صرف میرے ساتھ کیوں پیش آتی ہے؟ ‘‘ اس بارے میں حضرت محمد لطفی آفندی کے کچھ شعر کتنے خوبصورت ہیں جو موتی اور مرجان کی طرح چمک رہے ہیں:
حق تعالیٰ کا عاشق حساس آدمی سے کہتا ہے
اس سے تنگ نہ ہو جو تکلیف دیتا ہے
کیونکہ جو شخص ایذا سے تنگ ہوتا ہے
اس کا مرتبہ تکلیف دینے والے سے کم ہو جاتا ہے
جی ہاں، اگر آپ کو آخرت کے کمال کا شوق ہے تو پھر خبردار یہاں کی دنیوی چیزیں طلب نہ کریں کیونکہ ان چیزوں کو دنیا سے طلب کرنا نقص کی علامت ہے اور لوگوں کی واہ واہ اور احترام کا انتظار آخرت کے مقابلے میں نقصان اور کھوٹی سرمایہ کاری ہے۔ اس بارے میں قرآن کریم نے تنبیہ فرمائی ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا﴾ (الاحقاف:20) (تم اپنی دنیا کی زندگی میں لذتیں حاصل کر چکے اور ان سے متمتع ہو چکے) اس لیے ہمارے لیے مناسب بات یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور لطف و کرم کو آخرت پر اٹھا رکھیں اور آخرت میں جن نعمتوں اور اچھائیوں اور بھلائیوں کے ملنے کا وعدہ کیا گیا ہے ان کو اس دار فانی میں ختم نہ کریں۔
اس موضوع سے متعلق ایک پر اثر واقعہ ہے۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے صالح بندوں میں سے ایک کی بیوی نے زندگی کی مشکلات اور تنگی کی اپنے شوہر سے شکایت کی اور درخواست کی کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ان کو اس حالت سے نجات مل جائے۔ اس نیک بندے نے بیوی کا دل نہیں توڑا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا سن لی اور ابھی وہ اپنی جگہ پر ہی بیٹھے تھے کہ ان کے پاس سونے کی ایک اینٹ ظاہر ہو گئی۔ تو اس نے نے بیوی سے کہا: ’’لو یہ ہمارے آخرت کے محل کی ایک اینٹ ہے۔‘‘ اس پر اس مبارک خاتون نے نادم ہوتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ہم حقیقت میں محتاج ہیں لیکن (ہم نہیں چاہتے کہ) آخرت میں ملنے والا انعام اس دنیائے فانی میں ضائع ہو جائے جو اللہ کے حکم سے اس دار باقی میں ملے گا اور اس لیے کہ جنت میں ہمارے محل کی ایک اینٹ کم نہ ہو، میری آپ سے درخواست ہے کہ (جس طرح آپ نے پہلے دعا کی) دوبارہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس اینٹ کو واپس اس کی جگہ پہنچا دے۔‘‘ تو اس صالح بندے نے اپنی بیوی کی سچی خواہش کو پورا کرتے ہوئے دوبار ہ دعا کہ تو وہ اینٹ اچانک آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گئی اور وہاں چلی گئی جہاں سے آئی تھی۔
جی ہاں، جن لوگوں نے اپنے آپ کو حق کے لیے وقف کردیا ہے ، جن کے دل ایک اعلیٰ مقصد سے جڑے ہیں اورجن کا مقصد اس امت کے مستقبل کے ستارے کو دوبارہ چمکانا ہے، ان کی زبردست قوت اس میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو دنیا سے دور کریں۔ استغناء کی روح کے ساتھ کام کریں اور اپنے آپ کو دوسروں کی مکمل خوشی کے لیے وقف کردیں۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے مانع نہیں جو تجارت پر زندگی بسر کرتے ہیں اورایمان اور قرآن کی خدمت کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ ان کے لیے دنیا کو طلب کرنا ممنوع نہیں بشرطیکہ وہ دل سے اسے چھوڑ دیں۔ البتہ خدمت کی نمائندگی کرنے والے لوگوں کو چاہیے جنہوں نے اپنی زندگی وقف کردی ہے کہ وہ دنیا کے مقابلے میں ثابت قدم رہیں اور ہمیشہ اسی استغناء کے ساتھ کام کریں کیونکہ استغناء ان کی سب سے بڑی دولت ہے۔ یہ لوگ جس قدر زیادہ مستغنی ہوں گے ، لوگ اسی قدر زیادہ ان کی طرف کان لگائیں گے ، ان پر اعتماد کریں گے اور ان کے سامنے جو بھی مسئلہ بیان کیا جائے گا اس پر اطمینان سے اتفاق کریں گے اور اس کے بعد اپنی ذمہ داریاں اور کام ذرہ بھر شک اورتردد کے بغیر بجا لائیں گے۔
ایک طرف یہ کام کرنا ضروری ہے مگر دوسری طرف افسوس کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کی تعداد بھی بہت ہے جو دنیا کی جانب شروع میں اس دعوے کے ساتھ مائل ہوئے کہ ’’اس سے تھوڑا سا فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں‘‘ لیکن پھر اس میں ڈوب گئے اور انتہائی گہرائی میں اتر گئے اور اس رستے پر سفر کے آغاز میں متحد ہونے اور قربانی اور فداکاری کے جذبے سے سرشار ہونے کے باوجود اس کے سامنے شکست کھا گئے جس کی وجہ سے ان کا بھی وہ حال ہو گیا جو حضرت محمد لطفی آفندی نے بیان کیا ہے:
کتنی ہی عظیم شخصیات
اور نورانی چہروں والے سلاطین
اور کسریٰ اور نوشروان جیسے بادشاہ اور شہنشاہ
پیٹھ پھیر کر گئے اور یکے بدیگرے ڈھیر ہوگئے
اور خون اور پیپ کے اس سمندر میں غرق ہو گئے جس کو ہم دنیا کہتے ہیں
اس لیے حق والے لوگوں کا اس قسم کے شیطانی افکار کے سامنے جھکنا اور یہ کہنا کہ: ’’چلئے ہم کچھ کما لیں، ہمارے بھی گھر اور دولت ہونی چاہیے اور ہمیں بھی ان کی طرح زندگی گزارنی چاہیے۔۔۔ ‘‘ اس کا حقیقی مطلب بذات خود اپنے ہاتھوں سے اپنی دولت کو تباہ کرنا ہے دوسر وں کے ہاتھوں سے نہیں۔ اس وجہ سے تقدیر کا فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے ہاتھوں میں موجود نعمتیں چھین لی جائیں ۔ ان کے پاؤں پھسل جائیں اور وہ بھٹک جائیں۔ پس جب اچھی اور مطلوب چیز کے خلاف کام ہونے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کولے جاتا ہے جو سڑ کر روح کے بغیر جسم بن گئے ہیں اور ان کی جگہ ایسے لوگوں کو لے آتا ہے: ﴿فسوف يأتي الله بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ﴾ (المائدہ:54)(تو اللہ ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں)
متکبرینکوجھکانےکا طریقہ
قربانی اور فداکاری کی قیمت اور عزت کو ہر حال میں بچانا اور اس کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔فخر موجودات آنحضرت محمد ﷺ اس بارے میں سب سے بڑے قربانی دینے والے تھے اور سب سے بلند تھے۔ اس بارے میںبھی آپ علیہ السلام کا حال دیگر امور کی طرح تھا ۔ جب آپ علیہ السلام نے جان جان آفرین کے سپرد کی تو اس وقت بھی آپ علیہ السلام کی زرہ اپنے گھر والوں کے لیے غلہ لینے کی وجہ سے ایک یہودی کے پاس رہن تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے، فرماتی ہیں کہ: ’’نبی کریمﷺ کا انتقال اس حال میں ہوا کہ آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کے بدلے رہن تھی۔‘‘(1) اس بارے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی نبی کریم ﷺ سے مختلف اور پیچھے نہیں تھے کیونکہ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو اپنے ارد گرد بیٹھے لوگوں سے فرمایا کہ وہ زندگی بھر یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ اپنی ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کریں اور اپنے وظیفے میں سے ضرورت سے زائد مال کو جمع کرتے رہے ہیں۔ اس لیے اگران کی وفات ہو جائے تو اس مال کو بیت المال میں لوٹا دیا جائے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ، فرماتے ہیں: ’’ہم مرض الموت میں حضرت ابو بکر کے کمرے میں گئے ا ور پوچھا کہ خلیفہ رسول ﷺ نے صبح یا شام کس طرح کی (کیا حال ہے)؟ کہتے ہیں انہوں نے ہم پرایک نظر ڈالی اور پھر فرمایا: کیا تم میرے کاموں سے خوش نہیں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں ہم راضی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ ان کی تیمار داری کررہی تھیں۔ فرمایا کہ حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ میں مسلمانوں کا مال ان کے لیے بچانے کی کوشش کرتا تھا اگرچہ میں گوشت اور دودھ استعمال کرچکا ہوں۔ اس لیے جب تم میرے پاس سے لوٹ کر جاؤ تو ہمارے پاس موجود چیزوں کو دیکھو اور عمر کو بتاؤ۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ ان کے پاسکوئی درہم و دینار نہیں تھے۔ بس ایک خادم ،ایک اونٹنی اور دودھ دوہنے کے برتن سے سوا کچھ نہیں تھا۔ پس جب حضرت عمر نے دیکھا کہ وہ چیزیں ان تک پہنچائی جارہی ہیں تو فرمایا: اللہ تعالیٰ ابو بکر پر رحم فرمائے انہوں نے اپنے بعد آنے والے کو مشکل میں ڈال دیا ہے‘‘۔(2)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اس فہم اور شعور کے ساتھ مسلمانوں کے خلیفہ کے فرائض انجام دیے۔ آپ نے کبھی بھی اپنے بیٹھنے کے لیے کوئی تخت نہیں بنوایا بلکہ مسجد میں تشرف فرما ہو کر امت کے کام چلائے۔ انہوں نے اس مقولے کوبھی اپنے لیے دلیل نہیں بنایا کہ ’’ متکبر کے سامنے تکبر کرنا صدقہ ہے۔‘‘ اور اس بہانے سے عیش و عشرت اور ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی گزاریں۔ اس کے برعکس (اپنے تواضع کے باوجود) اس زمانے کے ممالک کو اپنے سامنے جھکا دیا اور جب آپ مسجد اقصی کی چابیاں وصول کرنے کے لیے بیت المقدس تشریف لے گئے تووہاں کے حکاام اس زمانے میں آپ کے ملاقات کے لیے خوبصورت اور زرق برق لباس پہن کر نکلے جبکہ آپ تواضع اور ایثار کےانتہائی درجے پر تھے جیسے کہ آپ کے پیوند زدہ لباس اور غلام کے ہمراہ باری باری سواری پر سوار ہونے کے معلوم ہوتا ہے ۔ یہ بات مشہور ہے کہ بیت المقدس پہنچنے سے قبل جب سپہ سالاران لشکر آپ سے ملے تو عرض کی کہ: امیرالمومنین آپ بڑے لوگوں کے پاس جارہے ہیں جبکہ آپ کا حال یہ ہے کہ قمیص پر پیوند لگے ہیں اور اونٹ پر سوار ہیں! یہ برذون ہے اس پر سوار ہو جائیے(برذون گھوڑے اور خچر کے درمیان کا ایک جانور ہوتا ہے اور اس کی چال میں نزاکت ہوتی ہے)اور یہ نیا کرتہ پہن لیجئے۔ جب وہ کترتہ لایا گیا تو وہ کتان کا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ میرا کرتاو اپس لاؤ اور اسے دھو لو تو انہوں نے وہ دھو کر پیش کیا اور آپ نے زیب تن کرلیا اور جب برذون سامنے لائے تو اسے مسترد کردیا اور اونٹ لانے کو کہا۔ اس کا پالانکھجور کے پتوں کا تھا۔ اس کے بعد جب آپ بیت المقدس میں داخل ہوئے تو سوار ہونے کی باری غلام کی تھیاور آپ اونٹ کی مہار پکڑے ہوئے پیدل چل رہے تھے اور غلام سوار تھا۔ چنانچہ جب آپ ان کے حکمرانوں، راہبوں اور علماء کے پاس پہنچے (جن کو آپ کی صفات معلوم تھیں) تو وہ یوں بول اٹھے کہ : یہ صفا ت ہماری کتابوں میں لکھی ہیں اور بیت المقدس کی چابیاں آپ کے حوالے کر دیں۔ (3(جیسا کہ اس مثال سے بالکل واضح ہورہا ہے کہ تواضع اور انکساری اس زمانے کے متکبروں کو نیچا دکھانے کا واحد رستہ ہے کیونکہ یہ حال اور یہ کام ہر طرح کے تکبر اور غرور کو روندتا اور اسفل سافلین میں دفن کردیتا ہے۔جی ہاں ، ساری زندگی حضرت عمر رضی اللہ کا یہی طریقہ اور اسلوب تھا کیونکہ آپ نے کبھی بھی اپنے بیٹوں اورپوتوں کے لئے کچھ جوڑنے کا نہیں سوچا بلکہ ان کو صحابہ کی فہم اور رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنی منزل کی جانب چل دئے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تاجر تھے ۔ وہ مکہ اور مدینہ کے امیر ترین شخص تھے مگر بقول حضرت بدیع الزمان ’’انہوں نے دنیا کو دل سے چھوڑ دیا تھا کمانے سے نہیں‘‘(4)کیونکہ جب تبوک جانے والے ’’جیش العسرۃ‘‘ (تنگی والا لشکر) کی تیاری کی ضرورت پیش آئی تو آپ نے تین سو اونٹ بمع تمام ساز وسامان ذرا سی بھی تنگی کے بغیر دے دئیے اور اس پر ذرا نادم نہیں ہوئے۔ یہ صدقہ انہوں نے صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے کیا۔(5) اگر آنحضرت ﷺ ان سے فرمادیتے کہ اپنا سارا مال خرچ کرڈالو توکبھی بھی اس میں تردد نہ کرتے اور سارا مال راہ خدا میں فوراً لٹا دیتے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا طرز زندگی بھی ایسا ہی تھا۔ آپ کی حکومت اتنے بڑے علاقے پر تھی کہ شاید وہ آج کے ترکی سے بیس گنا بڑا ہو۔ اگرچہ آپ کے زیر تسلط علاقوں میں بھی اختلافات بھی پیش آئے مگر اس کے باوجود وہ اتنے وسیع تھے کہ اسلام سے قبل کی دونوں سلطنتیں یعنی فارس اور روم اس میں سما سکتی تھیں۔ اس کے باوجود آپ سردیوں میں گرمی اور گرمی میں سردیوں کا لباس زیب تن فرماتے۔ عبدالرحمن بن ابو لیلیٰ کی روایت ہے، کہتے ہیں کہ ابو لیلیٰ رات کو حضرت علی کی مجلس میں جاتے تھے اور حضر ت علی گرمیوں کا لباس سردیوں میں اور سردیوں کا گرمیوں میں پہنا کرتے تھے۔(6) حقیقی اسلام یہ ہے مگر ہم کہاں ہیں؟
آج ان لوگوں سے سوال کرنے کی ضرورت ہے جو زندگی سیاحت اور گرمائی اور سرمائی مقامات پر گزارتے ہیں مگر دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ’’ہم بھی ان صحابہ کرام کے رستے پر چل رہے ہیں‘‘ اور ان لوگوں سے بھی سوال کرنا چاہئے ہیں جو اس بارے میں سوچتے ہیں کہ ان کی آل اولاد کا مستقبل کیا ہو گا اور اس میں مشغول رہتے ہیں اور ان سے بھی پوچھنا چاہئے جو اس جھوٹی مثال کے مطابق کام کرتے ہیں کہ:’’سرکاری خزانہ ایک سمندر ہے اور جو اس سے نہ پئے وہ احمق ہے۔‘‘ ان سے پوچھنا ضروری ہے کہ :’’تمہارا آئیڈیل کون ہے؟ تمہارا ا علیٰ نمونہ کون ہے؟‘‘ کیا مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان پر لازم نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے حیا کریں اور ان افکار سے بالکل دور ہو جائیں جو قارون، رمسیس اور آموفیس جیسے لوگوں کے ذہنوں میں آسکتے ہیں؟ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اعلیٰ اور مثالی ایمانی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والوں کو توفیق عنایت فرمائے کہ وہ ندامت ، شرم اور حیا کے جذبات کی حفاظت کرسکیں تاکہ دنیا کی طرف مائل نہ ہوں، ان کو گرایا نہ جا سکے اور ان میں نا اتفاقی پیدا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے میری دعا ہے کہ وہ ثواب کی نیت سے یہ کہتے ہوئے صبر کریں کہ : ’’ہم انپے دین کو دانتوں سے مضبوطی سے پکڑیں گے، ہم صبر کریں گے اور ہمار ے لیے یہی کافی ہے کہ آخرت میں ہمارے اجر سے کچھ کمی نہ کی جائے ۔ ان پر لازم ہے کہ وہ ’’ضیاءپاشا‘‘ کے درج ذیل قول پر عمل کرتے ہوئے ظلم اور آزمائش کو قبول کریں:
جاہل عیش و عشرت، سیر سپاٹے اور کشادگی کی زندگی گزارتا ہے
اور عارف آزمائشوں اور امتحانوں کے بھنور میں تیرتا ہے
لیکن خیال رہے کہ وہ دوسروں کی طنطنے والی زندگی پر رشک نہ کریں، ان کے لیے مناسب دنیوی اشیاء کو ایسی گندگی سمجھیں جو ان کے پاؤں کے کناروں کو لگ گئی ہے، ان کے لیے لازم ہے کہ وہ جذبے کے ساتھ آخرت کی طرف بڑھیں کہ جب اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں اور ان سے پوچھا جائے کہ ’’دنیا میں کیا چھوڑ کر آئے ہو؟‘‘ تو جواب دیں کہ:’’ ہمیں کچھ بھی یاد نہیں‘‘ کیونکہ تواضع ، استغناء اور قربانی ہمارے کام کی بنیاد ہے اور اعلیٰ ہدف والے لوگوں(جنہوں نے اخلاق کے گرے ہوئے محل کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا ہے) کا اس کے خلاف برتاؤحق تعالیٰ کے ہاں ان کے مرتبے اور ساکھ کو نقصان پہنچائے گا ۔ اسی طرح اس سے لوگوں کا ان پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ تاریخ میں ایسے لوگوں کی مثالیں کتنی زیادہ ہیں جو حق سے گمراہ ہو کر باطل کی طرف اور سیدھے رستے سے ہٹ کر ٹیڑھے رستے پر ہولئے! ایسے لوگ (اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ فرمائے) قارون کی طرح لڑھکیں گے اور فنا ہو جائیں گے اگرچہ وہ اپنے آپ کو حضرت ہارون علیہ السلام کی شکل میں ظاہر کریں۔
جی ہاں، قربانی اور فدا کاری کرنے والے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اس نظریے سے نہ ہٹیں اگرچہ ان کو اعلیٰ مناصب اور بڑے بڑے عہدوں کا فریب کیوں نہ دیا جائے، اگرچہ وہ رتبہ فاتح استنبول یا فاتح ویانا یا روم ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم دنیا سے اسی طرح خالی ہاتھ جائیں جس طرح ہم یہاں آئے تھے کہ ہمارے پاس اس کے مال و متاع میں سے کچھ نہ تھا، جیسا کہ ہم مذکورہ بالا مثالوں میں دیکھ چکے ہیں ۔ اب جو شخص چاہے ان مثالوں کو دیکھے اور ان سے عبرت حاصل کرے اور جو چاہے ان سے آنکھیں پھیر لے کیونکہ جو شخص دیکھے گا، چاہے گا اور قدر کرے گا تو یہ بات آخرت میں اس کے لیے شفیع ہو گی اور جو اس کو ہلکا سمجھے گا، قدر نہیں کرے گا اور خیال نہیں رکھے گا تو روز حساب اس کے سرپر ہتھوڑے پڑیں گے۔
’’وہ کسی علامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے!‘‘
پھول کانٹوں میں گر گیا تو بلبل کا دل زخمی ہوگیا
اس نے کبھی کانٹوں اور کبھی پھول کو دیکھا اور بلبل رو پڑی(نائلی قدیم)
مندرجہ بالا شعر میں یہ بات مذکور ہے کہ کتنے ہی پھول کانٹوں کے درمیان گرے اور کتنی ہی بلبلیں آہیں بھرتی اور دکھ سے روتی رہیں اور آج اعلیٰ ہدف کے ابطال کے لیے بھی آہیں بھرنے اور رونے کا وقت آگیا ہے کیونکہ ان کے خلاف الزام تراشی، تنقید، مذاق، شازشیں اور حیلے بہانے بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔۔۔ ان تمام آزمائشوں کے مقابلے میں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ عقل کے مطابق ترکی شاعر ‘‘نفعی‘‘ کے مندرجہ ذیل شعر کے مطابق باوقار اور مستقل موقف اپناتے ہوئے آگے بڑھیں:
ہم دنیا سے لطف اندوز ہوئے اور نہ دینا سے کچھ مانگا
نہ ہم نے کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ کے سوا کسی کی تلاش نہیں کی
حکیم شاعر ’’سعدی‘‘ کا یہ قول کیسا خوبصورت ہے:
اگر (غلطی سے) غلیل کا پتھر سونے کے پیالے کو لگ جائے
تو اس سے پتھر کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ پیالے کی قیمت میں کمی
اس لیے ان کو جس طرح چاہیں پتھر مارنے دو کیونکہ تم سونے کا پیالہ ہو۔ اللہ کے حکم سے کوئی بھی تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گا۔ خصوصاً اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے:﴿وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ﴾(المائدہ:54) (اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس رویہ کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جو اس طرح کے حالات میں اپنانا چاہیے۔ اس کے ساتھ دوسری بات یہ ہے کہ انسان پر ظاہری اسباب سے بڑھ کر جو بھی حادثات آتے ہیں وہ امتحان اور آزمائش ہوتے ہیں ا ور آنحضرت ﷺ سے قربت کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ خاص طورپر اس لیے کہ اس مرتبے کے بطل جلیل اور اس زمانے کے غمگین انسان حضرت بدیع الزمان نورسی فرماتے ہیں: ’’میں نے اس اٹھائیں سال کے دوران جو تکالیف اور مشکلات برداشت کی ہیں ، وہ سب حق حلال ہونی چاہئیں اور جن لوگوں نے مجھے ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف کھینچا، جنہوں نے مجھ پر مختلف الزامات اور تہمتیں لگانے کی کوشش کی اور جنہوں نے مجھے قیدتنہائی میں رکھا، میں نے اس سب کو معاف کردیا اور ان کے مقابلے میں اپنے تمام حقوق سے دستبرار ہوگیا ہوں۔‘‘(7) اس لیے جو لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اسی رستے کے راہی ہیں ،ان کو بھی وہی کہنا چاہیے جو شاعر ’’نسیمی ‘‘ نے کہا:
اے حبیب اور محبوب میں تجھ پر فریفتہ عاشق ہوں
اگر میں خنجر سے انپے دل کو چیروں گا تو بھی تیری محبت سے ہٹوں گا اور نہ واپس آؤں گا
اگرچہ ترکھان مجھے دھمکاتے ہوئے آری میرے سر پر رکھ دے
بلکہ اگر وہ حضرت زکریا علیہ السلام کی طرح مجھے دو ٹکڑے کردے
اگرچہ وہ میرے جسم کو جلا کر میری راکھ کو اڑا دیں
اے اللہ ! اے میری مراد میں تجھے سے کبھی دستبردار نہیں ہو ں گا
ان کو چاہئے کہ وہ مزید ہمت کریں اور اپنے کام کے لیے جس قدر ہو سکے اپنی توانائیں صرف کریں اور بازاری الفاظ پر کان نہ دھریں، اپنے ذہنوں کو ان میں مشغول نہ کریں اور ان پر لازم ہے کہ سر اٹھا کر اس راہ حق پر ثابت قدمی کے ساتھ سفر جاری رکھیں جس کو وہ جانتے ہیں۔ آ پکے دلوں میں ذرا بھی شک نہیں ہونا چاہیے کہ جن لوگوں نے اپنے آپ کو ایمان کی خدمت کے لیے وقف کردیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے اپنا کام جاری رکھیں گے اور کوئی بھی ان کے رستے کو کبھی بھی نہیں روک سکے گا بشرطیکہ وہ اپنا کام اورسفر جاری رکھیں اور اپنے معاملات کو اللہ کے حوالے کردیں اور اس بات پر کاربند رہیں:
چلئے دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کیا مقدر کرتا ہے
کیونکہ جو وہ مقدر کرے گا وہی سب سے خوبصورت ہے
[1] صحيح البخاري، الجهاد، 89، سنن الترمذي، البيوع، 7، سنن ابن ماجه، الرهون، 1.
[2] ابن سعد: الطبقات الكبرى، 3/ 173.
[3] عطية سالم نے اس کو شرح بلوغ المرام میں ذکر کیا ہے، 86/3.
[4] سعيد النورسي: المثنوي النوري، الحبة، 231.
[5] سنن الترمذي، مناقب عثمان، 2؛ الطبراني: المعجم الكبير، 625/5.
[6] سنن ابن ماجه، المقدمة، 15؛ مسند الإمام أحمد 168/2.
[7] سعيد النورسي: لاحقة أميرداغ 2، ص 337-338.
- Created on .