ذات کی تلاش اورعبودیتمیںگہرائی
سوال: آپ نے پہلے ذکر فرمایا کہ انسان جب اپنے نفس کو پہچان لیتا ہے اور اس کی گہرائیوں میں اترتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس کی عبادت میں گہرائی آتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ اس کی مزید وضاحت فرمائیں گے؟
جواب: عربی زبان میں کہا جاتا ہے کہ : ’’العادات لاتترک‘‘ (عادتیں نہیں چھوڑی جاتیں) اور اسی سے یہ قاعدہ مستنبط ہے کہ ’’ترک العادات من المہلکات‘‘ (عادتوں کو چھوڑنا ہلاکت ہے) ۔ اس لیے اگر کوئی ایسی شے ہو جس کو عادت میں تبدیل کیا جاسکتا ہو تو وہ عبادت سے زیادہ کوئی شے نہیں ہوسکتی۔ اس لیے مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے اوپر لازم اللہ تعالیٰ کی عبادت اور فرمانبردای اور اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو ایسی عادتیں بنا لے جن کو وہ کبھی نہ چھوڑ سکتا ہو۔ اگر انسان ، عبادت، فرمانبرداری اور تعلق مع اللہ کے ذریعے یہ خاصیت حاصل کرلے اور اس کو اپنے وجدان کا ایک اندرونی حصہ بنا لے تو شاید وہ بھی اس رتبے تک پہنچ جائے جہاں تک بعض اولیاء پہنچے ہیں۔ انہی میں سے ایک کا یہ قول ہے کہ: ’’اگر میرا دل اللہ تعالیٰ کے خیال سے ایک لمحے کے لیے بھی ہٹ جائے تو میں اسی وقت مر جاؤں گا!‘‘ اس لیے انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس طرح کام کرے کہ گویا وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے یا یہ یقین کر لے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے اور ہمیشہ اپنے احساس، شعور اور ارادے سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی تلاش میں مگن رہے اور ہر اس چیز سے دور رہے جو اس کے غصے اور ناراضگی کا سبب بن سکتی ہو اور اپنے دل کے اندر موجزن محبت اور احترام کے جذبات کو صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کردے۔
پختگی کے اس حال تک پہنچنا ہر مسلمان کا ہدف ہے بلکہ صحیح تر بات یہ ہے کہ اس کو ہدف بنانا ضروری ہے البتہ اس مرتبے تک رسائی کے لیے انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت اپنے نفس کی نگرانی کرے اور پورے اخلاص کے ساتھ یہ سوال کرے کہ : ’’کیا میں وہ حال پیش کررہا ہوں جو اس مرتبے تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے؟ کیا میں اپنی موجودہ حالت پر قناعت کرنے کی بجائے ہمیشہ ترقی کے آسمان پر بلندیوں کی جانب مزید سے مزید تر کی تلاش میں پرواز جاری رکھ سکتا ہوں؟‘‘
حقیقت اور تواضع کا رستہ
حقیقت کے رستے پر چلنے والے سالک کے لیے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ وہ ہمیشہ بلندیوں اور چوٹیوں تک پہنچنے کو اپنا نصب العین بنائے اور کبھی بھی اس مرتبے پر اکتفا نہ کرے جس تک وہ روح و قلب کی بلندیوں پر پرواز کرتے ہوئے پہنچا ہے۔ ہماری اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ انسان اپنے نفس کا اظہار کچھ خرق عادت امور سے کرے بلکہ یہ اظہار اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی عبادت میں گہرائی پیدا کرنے سے ہو گا کہ آدمی اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے آپ کو بالکل ہیچ سمجھے۔ اس بنیاد پر اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ ایک آدمی اپنی طاقت سے صرف کرہ ارض نہیں بلکہ سارے عوالم کی حرکت کا رخ تبدیل کردے تو بھی اس کو یقین اور ایمان ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے کاموں کے سامنے وہ پرکاہ کے برابر بھی نہیں بلکہ ہر شے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے۔ اس رخ سے حقیقت کے رستے پر گامزن لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کبھی بھی کسی خرق عادت شے کا سوال نہ کریں جیسے پانی پر ڈوبے بغیر چلنا یا بغیر پروں کے ہوا میں اڑنا یا بیٹھے بیٹھے فاصلے سمٹ جائیں اور وہ ایک لمحے میں خانہ کعبہ کا طواف کرلیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بعض اولیاء کو عطا کردہ ان عطیوں کی طلب حقیقت کے رستے کی روح کے خلاف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس رستے کی بنیاد تواضع، نرمی اور نفس کی تحقیر اور اس پر سختی پر ہے۔ اسی مناسبت سے میں یہ بھی کہتا ہوں کہ حقیقت کے وہ ابطال جو اس قسم کے روحانی مرتبے اور مقامات تلاش نہیں کرتے، وہ کبھی والی، قائم مقام، ممبر یا وزیر جیسے دنیوی عہدوں اور مرتبوں کے پیچھے بھی نہیں بھاگتے۔
اس بات کو ایسے نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم اس قسم کے ادارتی عہدوں کو حقیر سمجھتے ہیں لیکن ان مطلوبہ اعلیٰ اور افضل اقدار کی عظمت کے مقابلے میں ان چیزوں کی طرف مائل ہونا ان پسندیدہ حقائق کی بے ادبی ہے۔ اس لیے اگر انسان اس رستے میں ’’اللہ تعالیٰ کی خوشنودی‘‘ کوطلب کرتا ہے تو ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ کوئی اور چیز اس خوشنودی کی ہم پلہ نہیں ہوسکتی اور اگر اللہ تعالیٰ کے جمال کا مشاہدہ مطلوب ہو تو یہ یقین ہونا چاہیے کوئی بھی شے اس سے خوبصورت نہیں جس کی جانب توجہ کی جائے اور جب ہم جنت الفردوس کی دعا کریں تو ہمیں یہ یقین ہونا چاہیے کہ اس سے بڑھ کر ایسی کوئی جگہ نہیں جس کی جانب توجہ کی جائے۔ اس طرح جب انسان اعلیٰ اہداف کو اپنا نصب العین بنا لیتا ہے تو اس کے بعد ان سے پھرنا اور دوسروی چیزوں کی طرف مائل ہونا اور ان اعلیٰ اہداف کی توہین کے سوا کچھ نہیں۔ جی ہاں، اگر حقیقت کی راہ پر چلنے والوں میں سے کوئی شخص نبی کریم ﷺ کے خدام میں سے ایک خادم اور آپ کے غلاموں میں سے ایک غلام بننا چاہے تو پھر وہ اس سے آزادی کبھی بھی قبول نہیں سکتا بلکہ وہ ببانگ دہل حضرت محمد مصطفیﷺ کا غلام ہونے کا اعلان کرتا ہے اور اسلام پر رضامندی کا اظہار کرتا ہے جیسا کہ مولانا جلال الدین رومی کہتے ہیں: (ترجمہ)
میں غلام ہو گیا، میں غلام ہوگیا
مبارک ہو، میں تیرا غلام ہوگیا
تیری خدمت میں میری عمر بہت بیت گئی اور میں بوڑھا ہو گیا
میری کمر جھک گئی اور میں تھک کر چور چور ہوگیا
جب غلام آزاد ہو تے ہیں تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے
جبکہ میں تیری غلامی پر پھولے نہیں سماتا
اس لیے ایسا انسان اس غلامی کو کسی بھی شے سے نہیںبدل سکتا بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسا نہ کرے۔
’’انا پرست ‘‘ کے لیے دروازے بند ہیں
اگر انسان معاملات کو اپنی طرف منسوب کرنے کے دائرے سے باہر نہ نکل سکے تو اس کی وجہ سے وہ ’’انانیت‘‘ کی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور وہ اپنی انانیت کے بقدر شیطان کے قریب اور اللہ سے دور ہوتا ہے۔ پھر ہر ’’اناپرست‘‘ صرف اپنے بارے میں سوچنے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والے سارے رستے اس کے لیے بند ہو جاتے ہیں اور جب بھی وہ ان کو کھولنا چاہتا ہے تو وہ اسے بند ملتے ہیں۔ اس لیے وہ خواہ مخواہ ان کے سامنے انتظار کرتارہتا ہے کیونکہ دو چیزوں کا ایک ساتھ یکجا ہونا ناممکن ہے کیونکہ ’’انا‘‘ کے بول کے اندر تکبر اور غرور کی علامت پوشیدہ ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺ کے پاس اپنے والد صاحب کے قرضے کے بارے میں بات کرنے گیا اور دروازے پر دستک دی، تو آپ ﷺ نے پوچھا: ’’ کون ؟‘‘ میں نے کہا: ’’میں‘‘ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’میں، میں‘‘گویا آپ نے ان الفاظ کو برا جانا۔(1)کیونکہ ’’انا‘‘ (میں) کے لفظ میں ایک طرح کا تکبر ہوسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ گویا یہ کہا جارہا ہے کہ ’’مجھے اپنا تعارف کرانے کی ضرورت نہیں۔‘‘
جی ہاں، ہمیشہ ’’انا‘‘(میں) کا لفظ کہنا ڈھول کی طرح ہے جس کے کھوکھلا ہونے کی وجہ سے اس سے آواز نکلتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ڈھول سے اس لیے آواز نکلتی ہے کہ وہ اندر سے خالی ہوتا ہے۔ اس لیے جو شخص ’’میں ‘‘کہتا ہے وہ ہمیشہ انپے آپ کو ڈھول جیسی نہایت حقیر مخلوق کے درجے تک پہنچا دیتا ہے کیونکہ جس شخص کا دل آباد ہوگا اس سے ایسی آواز نہیں نکل سکتی۔ مولانا جلال الدین رومی نے ایسے فضول لوگوں کو ایسے ڈبوں میں سے تشبیہ دی ہے جن کے اندر چند چھوٹی چھوٹی چیزیں اور کھلونے پڑے ہوتے ہیں کہ ذرا سی حرکت سے ان میں آواز پیدا ہو تی ہے جبکہ آباد دل والوں کو جواہرات کے ایسے صندوقوں سے تشبیہ دی ہے جن سے کوئی آواز نکلتی ہے اور نہ کوئی راز افشا ہوتا ہے کیونکہ وہ جواہرات سے بھرے ہوتے ہیں۔
خاموشی ، حیا، تواضع اور نرمی کی علامت ہے اور جو لوگ ان جذبات کو اپنی تمام عادات میں عملی جامہ پہنچاتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو عمل اور کام کو سب چیزوں پر مقدم رکھتے ہیں اور اپنے ملک، قوم اور ساری انسانیت کے لیے ہمیشہ قائم رہنے والے منصوبے اور پروگرام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے افعال ان کے اقوال سے آگے ہوتے ہیں اور ان کی ایجادات ان کی آواز اورکلام سے بالکل اس طرح آگے ہوتی ہیں جس طرح بجلی گرج کی آواز سے قبل اپنے ہدف تک پہنچتی ہے۔ اس کے مقابلے میں غرور و تکبر میں شور شرابے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے جو لوگ اپنی زندگی کی بنیاد اس کے اوپر رکھتے ہیں وہ خالی شور شرابے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے جبکہ اصول یہ ہے کہ قول سے عمل آگے ہونا چاہیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا فرمائی: ﴿وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الآخِرِينَ﴾ (الشعراء:84) (اور بعد والے لوگوں میں میرا ذکر نیک باقی رکھیو) اس طرح آپ علیہ السلام نے ایسی ابدی خدمات کی انجام دہی کی دعا کی جو آنے والی نسلوں تک قائم رہ سکیں۔ یہ قول کام اور حرکت کو آپ علیہ السلام کی ترجیحات میں سر فہرست بناتا ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے علم اور طاقت کے مطابق کھیت میں بیج بوئے اورباقی کام اللہ کے حوالے کر دے لیکن یاد رہے کہ ایسی گہری اورعمومی سوچ سے پیدا ہونے والی خدمت اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جبکہ تک انسان کو اپنے رب کی معرفت حاصل نہ ہو جبکہ دوسری طرف یہ معاملہ خود انسان کی اپنی ذات کی معرفت اور اس کی گہرائی میں اترنے کا مرہون منت ہے۔
جو اپنے آپ کو نہیں جانتا وہ اپنے رب کو بھی نہیں جانتا۔
ایک روایت میں ہے کہ: ’’ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو بھی پہچان لیا۔‘‘ (2)اس لیے جو شخص اپنی ذات کو پڑھے اور اس کا تجزیہ کرے( اس کے طبعی خدوخال اور وجدان کے چاروں ارکان یعنی ارادہ، لطیفہ ربانیہ( دل) ذہن اور حس) تو وہ اپنے رب کو زیادہ اچھے اور بہتر انداز میں جان سکے گا۔ اگر اس عبارت کا مفہوم مخالف نکالا جائے تو وہ یوں ہوگا کہ جو شخص اپنے آ پ کو نہیں جانتا وہ اپنے رب کو بھی نہیں جانتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کو اپنی ماہیت کی حقیقت اس لیے جاننی چاہیے کہ وہ اس کے ذریعے اپنے رب کو پہچان سکے اور بقول حضر ت بدیع الزمان انسان ’’ایک مکمل کارخانہ‘‘ ہے (3) جس کا ہر حصہ دوسرے سے حقیقی تناسب رکھتا ہے اور یہ مخلوق اس کے ساتھ ساتھ مادی کائنات کے ساتھ بھی پختہ اور حقیقی تناسب رکھتی ہے۔ مثلاً انسان کے منہ اور اس کی خوراک بننے والی چیزوں کے درمیان،اس کی آنکھوں اور ان سے جن چیزوں کو دیکھے گا ان کے درمیان ایک تعلق اور ربط ہے۔ یہ ایک ایسا تعلق اور مناسبت ہے جس کی روشنی میں انسان مختلف چیزوں میں تمیز کرسکتا ہے جو مختلف انداز میں ظاہر ہوتی ہیں۔
انسان کے اعضاء میں موجود یہ تناسب اس کے علاوہ کائنات کی دیگر چیزوں کے ساتھ بھی ہے جن کے ساتھ وہ رہتا ہے۔ طبیعیات اور فلکیات کے بعض علماء کہتے ہیں کہ کائنات کے دور ترین نظاموں ، اجرام فلکیہ اور اس انسان کے درمیان بھی ایک تعلق ہے جو بظاہر روئے زمین پر ایک چھوٹی سی مخلوق معلوم ہوتا ہے لیکن سب سے پہلے آغاز قریب ترین نقطے سے کرنا چاہیے تاکہ اس تعلق کو سمجھا جاسکے۔ مثال کے طورپر جب انسان اپنی ذات کا اپنے منہ اور اس کی خوراک کے درمیان تعلق ا ور آنکھوں اور ان کو نظر آنے والی چیزوں کے درمیان تعلق کے رخ سے تجزیہ کرے گا تو لامحالہ وہ ان دلائل تک پہنچ جائے گا جو حق تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت کو ثابت کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے تصوف کی کتابوں میں ایک بابرکت عبارت وارد ہوئی ہے جس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ حدیث ہے۔ اس میں آیا ہے کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اے ابن آدم! مجھے وہ جانے گا جو اپنے نفس کو جانے گا اور جو مجھے جانے گا وہ مجھے تلاش کرے گا اور جو مجھے تلاش کرے گا وہ بے شک مجھے پا لے گا اور جو مجھے پا لے گا وہ اپنی تمام خواہشات اور امیدوں بلکہ اس سے بھی زیادہ کو پا لے گا۔ وہ ان کو پا لے گا اور میرے اوپر کسی کو ترجیح نہیں دے گا۔ اے ابن آدم! تواضع اختیار کر، تاکہ مجھے پہچان سکے۔۔۔ بھوکا رہ ، تاکہ مجھے دیکھ سکے۔۔۔ اپنی عبادت کو میرے لیے خالص کردے ، مجھ تک پہنچ جائے گا۔۔۔اے ابن آدم! میں اللہ ہوں، مجھے وہ جانے گا جو اپنے آ پ کو جانے گا اور مجھے وہ پائے گا جو اپنے آپ کو چھوڑ دے گا۔۔۔ جو اپنے نفس کو چھوڑ دے گا مجھے پہچان لے گا کیونکہ جوبھی دل میری معرفت سے آباد نہ ہوگا وہ اندھا اور زنگ آلودہے!‘‘
جسم کی ساخت سے روح کی گہرائیوں تک
’’الیکس کا رل‘‘ نے 1935میں ’’الانسان ذلک المجہول‘‘ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی اورا س میں انسان کے جسم میں موجود کمال کی جانب توجہ مبذول کرائی اور یہ بتایا کہ یہ بات یقینی ہے کہ اس کا کوئی خالق ہو۔ اس سے اس نے ایک بڑا کام کردکھایا۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس کتاب کے مؤلف کے خلاف ترکی میں بعض لوگوں نے ایک پروپیگنڈا مہم چلائی، ہمارے قارئین نے اس کتاب کو پڑھا اور اس سے مستفید ہوئے۔ جس وقت لوگ اور خصوصاً طبیب اس کتاب میں موجود تجزیوں کا مطالعہ کرتے تھے تو ہرفصل کے آخر میں وہ ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کہنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ کی قدرت اور عنایت شامل حال نہ ہو تو انسان کے جسم میں موجود اس غیر معمولی تناسب کو بیان کرنا ناممکن ہے۔
اس انداز سے جب انسان ان امور اور دیگر چیزوں سے تعلق کو جان لے جس میں سب سے پہلا نمبر انسان کے اعضاء کے علم کا ہے۔ یعنی جب انسان اپنی خارجی دنیا کو جان لے تو اس کے بعد اپنے نفس کی معرفت اور اس کے وجدانی نظاموں اور اس کی حقیقت سے جڑے احساسات کو جانے۔ ان سارے امور کو ہم یکجا کرکے ’’اندرونی دنیا‘‘ کا نام دے سکتے ہیں اور کسی بھی شے کے وقوع پذیر ہونے سے قبل انسان کو اس کی معرفت حاصل ہو جانے کو ’’حادس یا اندرونی پیشین گوئی ‘‘کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً عصر کو کسی آدمی سے ملاقات ہو جانا جس کا خیال صبح کے وقت دل میں آیا تھا یا خواب کے عالم میں ’’عالم مثال‘‘ یا ’’عالم برزخ‘‘ کے مناظر کا مشاہدہ کرنا یا بعض ایسی چیزوں کو عالم واقع میں اسی شکل و صورت میں دیکھنا جس طرح خواب میں دیکھا تھا۔ اس کو تاویل احادیث کہا جاتا ہے۔۔۔یہ سارے واقعات ہیں جو انسان کے اندرونی عالم میں پیش آتے ہیں جبکہ محسوس اسباب کے دائرے میں ان کی وضاحت ناممکن ہے۔ اس بنیاد پر جب انسان اپنی اندرونی دنیا میں سفر جاری رکھتا ہے تو اسے اجمالی طورپر جان لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے وجود تک پہنچتا ہے اور اپنے رب کو حقیقی انداز میں جان لیتا ہے۔
کچھ الفاظ جن کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ حدیث ہے، ان میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’جو مجھے جانے گا وہ مجھے تلاش کرے گا۔‘‘ اس امر کو سابقہ بحث سے بھی جوڑا جا سکتا ہے کہ جب بھی انسان خالق عظیم کو زیادہ جانے گا، وہ اپنی سوچ کو اس انداز سے آگے بڑھائے گا:’’ اللہ تعالیٰ مجھ سے کیا چاہتا ہے ؟ میں کسی طرح اللہ کے قریب ہو سکتا ہوں اور اپنے دل کو اس کی محبت سے کس طرح بھر سکتا ہوں؟ کیونکہ میرا کام یہ ہے کہ میں دل کو اللہ کی محبت سے بھروں کیونکہ اس کا حق ہے اور صرف اسی کو میرے سینے پر ظاہر ہونا چاہیے اور یہ بھی لازم ہے کہ میں اس کے سوا ہر شے سے نکل جاؤں اور اسے پھینک دوں!‘‘ اس کے بعد وہ اپنی ذات کی تلاش میں مزید کوشش کرے۔ شاعر ’’فضولی‘‘ نے اس حقیقت کو شعر میں یوں بیان کیا ہے: وہ شخص عارف نہیں ہے جو دنیا اور اس کے اندر کے امور کو جانتا ہے
بلکہ عارف وہ ہے جو دنیاوی چیزوں کی بجائے ان کی حقیقت اور ان کی ماہیت کے اسرار کو جانتا ہے
جی ہاں، جیسے کہ ان دو شعروں میں ذکر کیا گیا ہے، انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دل سے دنیا و مافیہا کو نکال دے اور اسے بالکل چھوڑ دے۔ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا بلکہ (جیسے کہ اس روایت میں آیا ہے کہ جسے حدیث قدسی کہا گیا ہے) اس کی تمام خواہشات کو پورا کرے گا بلکہ اس سے زیادہ دے گا۔ حضرت محمد لطفی آفندی نے اس حقیقت کو کیسے خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے: کیا یہ بات معقول ہے کہ تم اپنے رب سے محبت کرو
اور وہ تم سے محبت نہ کرے اورتمہارا خیال نہ رکھے؟!
کیا یہ بات معقول ہے کہ تم حق تعالیٰ کی خوشنودی طلب کرو
تو وہ تم پر اپنی رضائے مطلق کے دریانہ بہاد دے؟!
’’میںغنیمتکےلیے اسلام میں داخل نہیں ہوا‘‘
جو مسلمان اس درجے تک پہنچ جاتا ہے وہ بہت سی خواہشات سے آزاد ہو جاتا ہے اور حقیقی آزادی تک پہنچ جاتا ہے کیونکہ ’’حقیقی آزادی اللہ تعالیٰ کی عبادت سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘ اس لیے اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندے دوسروں کی غلامی سے آزاد ہو جاتے ہیں جبکہ اللہ کی سچی عبادت نہ کرنے والے لوگ سینکڑوں چیزوں کی عبادت کرتے ہیں اگرچہ ان کی جبین اللہ تعالیٰ کے حضور ہی کیوں نہ جھکتی ہو کیونکہ ایسے لوگ منصب و مرتبہ، خوف ، اہل و عیال، آرام و سکون، لہو و لعب، حیوانی خواہشتات، تعریف و توصیف،اپنے اہل خانہ کے لیے ساحل سمندر پر گھروں اور جائیدادوں اور محلات کی عبادت کرسکتے ہیں۔۔۔ جبکہ جاہلیت کے زمانے میں مشرکین کے اس قدر بت اور خدا نہیں تھے!
جی ہاں، چیزوں کی بندگی سے آزادی کا رستہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی بندگی سے نکلتا ہے۔ حضرات صحابہ کرام کی زندگی کس قدر اچھی تھی اور اس بارے میں اس میں کتنے زیادہ قابل تقلید نمونے ہیں۔ مثال کے طوپرحضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ نہایت ذہین سیاسی اور عسکری شخصیت تھے لیکن اسلام میں تاخیر سے داخل ہونے کے باوجود وہ دین کی روح کو اس طرح سمجھ گئے جس پر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ کے بعد اسلام لانے کی غرض سے مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور جب وہاں پہنچکر حضور اکرم ﷺ کے سامنے حاضر ہوئے تو ایسا لگتا تھاکہ گویا وہ مارے شرم کے کانپ رہے ہیں کیونکہ قبل ازیں وہ نبی کریم ﷺ کی بے ادبی کرچکے تھے لیکن آپ علیہ السلام کے قلب اطہر میں ان امور کے بارے میں کوئی بات نہ تھی بلکہ آپ علیہ السلام نے ان سب باتوں کو بھلا دیا تھا۔ آئیے یہ واقعہ حضرت عمر و بن العاص کی زبانی سنتے ہیں۔ وہ اپنے بارے میں بتاتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام ڈالا تو میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور میں نے کہا : اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجیے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں تو آپ علیہ السلام نے اپنا دست مبارک آگے فرمایا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا۔ اس پر آپ علیہ السلام نے دریافت فرمایا: ’’عمرو کیا بات ہے؟ ‘‘ میں نے کہا کہ میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ آپ علیہ السلام نے پوچھا: ’’کیا شرط رکھنا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے کہا : یہ کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرمادے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’آپ کومعلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے؟ ہجرت اپنے سے پہلے گناہوں کو ختم کردیتی ہے؟ اور حج اپنے سے پہلے گناہوں کو ختم کردیتاہے؟‘‘(4) حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے کچھ عرصہ بعد نبی کریمﷺ نے ان کو بلا بھیجا۔ حضرت عمرو کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ: ’’اپنا اسلحہ اور (جنگی) لباس پہن کر میرے پاس آجاؤ‘‘۔ چنانچہ میں واپس خدمت میں حاضر ہوا تو آپ علیہ السلام وضو فرما رہے تھے ۔ آ پ نے میری طرف دیکھا اور پھر نظر نیچے کر لی اور ارشاد فرمایا: ’’میں آپ کو ایک لشکر کا سپہ سالاربنا کر بھیجنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو محفوظ رکھے گا اور غنیمت عطا فرمائے گا اور مال میں سے میں آپ کے لیے اچھی خواہش رکھتا ہوں۔‘‘ حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ : ’’اللہ کے رسول میں مال کے لیے اسلام نہیں لایا بلکہ اسلام کو پسند کرکے اس میں داخل ہوا ہوں اور اس لیے کہ میں اللہ کے رسول کے ساتھ ہوں‘‘۔ اس پر آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’ عمرو اچھا مال اچھے آدمی کے لیے کیا خوب چیز ہے۔‘‘(5)
اسی طرح آپ علیہ السلام نے جب ایک صحابی (جن کا نام مصادر میں مذکور نہیں ہے) کو مال غنیمت میں سے ان کا حصہ دینا چاہا تو وہ بولے: ’’یا رسول اللہ میں اس کو قبول نہیں کرسکتا کیونکہ میں اس غرض سے اسلام لایا ہوں کہ مجھے یہاں (اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا) ایک تیر لگے اور میں شہید ہو جاؤں اور غنیمت کا حصہ واپس کردیا اور آخر کار اس صحابی کو ان کی تمنا کے مطابق منہ پر ایک تیر لگا اور اسی سے شہید ہو گئے اور خالق حقیقی سے جاملے۔(6) یہی حال حضرت ابو سفیان کا بھی ہے جو فتح مکہ تک رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرتے اور آپ سے لڑتے رہے۔ ان کی آنکھ زخمی ہوئی تو وہ اپنی آنکھ ہاتھ میں لے کر نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے : ’’یا رسول اللہ یہ میری آنکھ ہے جو اللہ کے رستے میں زخمی ہوئی ہے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’اگر چاہو تو میں دعا کردوں جس سے تمہاری آنکھ واپس مل جائے اور اگر چاہو تو اس کے بدلے جنت (ایک اور روایت میں ہے) جنت میں آنکھ، تو کہنے لگے پھر تو جنت اور آنکھ ہاتھ سے پھینک دی جبکہ ان کی دوسری آنکھ جنگ یرموک میں رومیوں سے مبارزت کے دوران نکل گئی۔(7) یہ سارے نمونے ہمارے سامنے معلم کی اپنے طلبہ اورمربی کی اپنے زیر تربیت لوگوں پر اثر کو ظاہر کرتے ہیں۔ ’’نیازی مصری‘‘ نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے:
کسی بھی رہنما کی طرف نہ جھکو کیونکہ اس سے کھلی چیز تمہارے لیے تنگی میں بدل جائے گی
لیکن جو شخص معصوم سے رہنمائی چاہے گا اس کے لیے رستہ طے کرنا آسان ہو جائے گا
علاوہ ازیں یہ بات یکبارگی عمودی ترقی کہلاتی ہے۔
اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آج کے مسلمانوں کو صحابہ کرام کی اقتدا کرنی چاہیے کہ وہ کوئی بھی دنیوی چیز طلب نہ کریں خصوصاً وہ لوگ جو کسی سرکاری عہدے پر کام کرتے ہوں۔ ان کو چاہیے کہ اپنے منصب اور اختیارات کو اپنی ذات، اپنی اولاد یا عزیزوں کے فائدے کے لیے استعمال نہ کریں اور کسی بھی چیز پر قابض نہ ہوں خواہ وہ گاڑی ہو یا جہاز ہو یا کوئی کشتی وغیرہ کیونکہ اس طرح وہ زیادہ اچھی چیز کومعمولی چیز سے بدل دیں گے بلکہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سعی اور کوشش کرنی چاہیے۔ اسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا ، اس کے جمال اور اس سے ملاقات کے شوق اور معیت نبوت کو کسی بھی چیز سے نہ بدلے تاکہ اس کی لسان حال اس مشہور شعر کی عکاس ہو جائے:
اللہ تعالیٰ میرا رب ہے اس کے سوا مجھے کچھ نہیں چاہیے
ہستی میں اس کے سوا کوئی وجود نہیں
اس پر لازم ہے کہ اگر اس کو ان سب چیزوں کو چھوڑ کر جنت لینے کی پیشکش کی جائے تو بھی وہ ان بہشتوں کو ٹھکرا دے اور کہے کہ : ’’عجیب بات ہے! ان کو میرے اندر کون سی کجی نظر آگئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ، اس کی محبت اور رویت کو چھوڑنے کے بدلے جنت کی پیشکش کررہے ہیں ؟‘‘اس کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے جذبات سے اپنے دل کو تیز کرے، اس کے احساسات کو بھڑکائے اور اس کے علاوہ دل میں کچھ نہ رکھے کیونکہ فضا میں اڑنے، پانی پربغیر بھیگے چلنے، انسانوں کے اندرونی حالات کو جاننے اور لوگوں کے چہروں کو دیکھ کر ان کے دل کے خیالات بتانے جیسی چیزیں اس قدر معمولی چیزیں ہیں کہ وہ سیلاب کے سامنے خس و خاشک جتنی بھی قیمت نہیں رکھتیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ جن لوگوں نے ایمان اور قرآن کے حقائق کو بلند کرنے اور روح کی عمارت کھڑی کرنے کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا ہے، ان سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ اس بات پر مجبور ہیں کہ مذکورہ بالا امور کا خوب خیال رکھیں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دنیا و مافیہا سے منہ موڑیں اور استقامت کو اس کی درست رونق اور صاف ستھرے اصولوں کے مطابق اس طریقے سے اختیار کریں جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب اور اس آیت کے حکم کے مطابق ہو کہ :۔۔۔۔۔ ﴿فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ﴾ (ہود:112 ((سو اے پیغمبر جیسا کہ تم کو حکم ہوتا ہے اس پر قائم رہو) اوراستقامت کا وہ مفہوم مراد نہ لیں جو ان کے نظریے کے مطابق درست ہو۔
[1] صحيح البخاري، الاستئذان، 17؛ صحيح مسلم، الأدب، 38-39.
[2] الأصبهاني: حلية الأولياء، 208/13، الغزالي: إحياء علوم الدين، 72/4؛ المناوي: فيض القدير، 225/1.
[3] الكلمات، الكلمة الثالثة عشرة، المقام الثاني، ص 173.
[4] صحيح مسلم، الإيمان، 192؛ مسند الإمام أحمد، 204/4.
[5] مسند الإمام أحمد، 298/29 .
[6] سنن النسائي: الجنائز 61؛ عبد الرزاق، المصنف، 276/5؛ الحاكم: المستدرك، 688/3.
[7] ابن عساكر، تاريخ دمشق، 435/23؛ ابن حجر، الإصابة، 334/3؛ ابن برهان الدين، السيرة الحلبيّة، 164/3.
- Created on .