ہر شے اللہ تعالیٰ کی طرف سے
سوال: آپ فرماتے ہوتے ہیں کہ اب تک انجام دی جانے والی خدمات کے لیے ہزاروں وسائل کا یکجا ہونا ضروری تھا اور اللہ تعالیٰ کے سوا ان کو اکٹھا کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے کیونکہ وہی سب اسباب کا مالک اور خالق ہے اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ کامیابی کی نسبت ذات یا نفس کی جانب کرنا غیر معقول بات ہے۔ کیا اس کی کچھ وضاحت فرمائیں گے؟
جواب: سب سے پہلے تو یہ بات بیان کرنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے اور اس کے لطف و کرم اور احسان کے ساتھ بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرنا صرف اور صرف ہمارے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو تاریخ میں چلی آرہی ہے۔ مثال کے طورپر جب حضرت نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے طوفان سے نجات ملی( جیسے کہ تفسیر کی کتب میں مذکور ہے) تو آپ نے نجات کے بعد کے زمانے میں بھی لوگوں میں حق اور حقیقت کی تبلیغ کو جاری رکھا اوراپنی امت کو حیوانیت کی غلامی اور بدن کے تنگ زندان سے آزاد کرکے قلب و رو ح کی زندگی کے مرتبے کی جانب متوجہ کیا۔ تو وہ قوم اللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ ہوئی اور بندگی کی شرائط اور ذمہ د اریاں ادا کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ اسی لیے حضرت نوح علیہ السلام کی مجاہدانہ زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے مظاہر روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتے ہیں کیونکہ اگر آپ کے معاملے کو صرف اسباب کی جانب منسوب کیا جائے تو طوفان سے آپ کی نجات اور اس کے بعد لوگوں پرآپ کے اثر کی کیفیت کی کوئی توجیہ کرنا ناممکن ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿بِسْمِ اللهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا﴾ (ہود:41)(اللہ کے نام سے ہی اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے)اس بات کو بیان نہیں کررہا کہ کشتی نوح اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہی چلتی اور رکتی تھی؟ اس کا مطلب ہوا کہ یہ اللہ کی عنایت تھی اسباب نہیں تھے۔
اسی طرح صرف اسباب ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فرعون کے ظلم سے نجات پر قائل کرسکتے ہیں اور نہ ہی بنی اسرائیل کی مصر سے نکلنے کے بعد چالیس سال تک صحرائےتیہ میں سرگردانی اور ایک محدود زمانے کے بعد حضرت یوشع علیہ السلام کے پرچم تلے فلسطین کی جانب جانے کی کوئی وضاحت پیش کرسکتے ہیں کیونکہ اگر اس مسئلے کو اسباب کے زاویے سے دیکھا جائے تو اس کا احتمال بیس لاکھ میں ایک ہے۔
اللہ کی عنایت اور ناکام سازشیں
اگر ہم فخر انساینت ﷺ کی حیات طیبہ پر نگاہ ڈالیں تو وہاں بھی ہمیں اللہ تعالیٰ کا فضل پورے آب وتاب سے نظر آتا ہے کیونکہ مشرکین ہمیشہ آپ علیہ السلام اورمسلمانوں کی امیدوں کا خون کرنے کے درپے رہتے تھے کیونکہ وہ ہر جگہ ان پر وحشی درندں کی طرح اچانک حملہ آور ہوتے تھے اور طرح طرح کی اذیتیں دیتے تھے جن میں قتل او ر خون بہانا بھی شامل ہے مگر آپ علیہ السلام کی لازوال شخصیت کبھی مایوس نہیں ہوئی کیونکہ آپ علیہ السلام ایک منفرد روحانی کیفیت کے مالک تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ ترکی شاعر ’’سلیمان نظیف‘‘ نے اسی کیفیت کو بیان کیا ہے:
جب تک میری روح اس ایمان سے بھری ہے
وہ تین سو سال، چار سو سال بلکہ پانچ سو سال بھی صبر کرسکتی ہے
جیسے کہ قرآن کریم نے اس آیت کریمہ: ﴿وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ﴾ (الانفال:30)(اور اس وقت کو یاد کرو جب کافر لوگ تمہارے بارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید کر دیں یا جان سے مار دیں یا وطن سے نکال دیں ، تو ادھر تو وہ چال چل رہے تھے اور ادھر اللہ تدبیر کر رہا تھا۔ اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے ) میں بیان فرمایا ہے، مشرکین مکہ آپ علیہ السلام سے جان چھڑانے کے لیے طرح طرح کی تدبیریں کرتے تھے ۔ پھر جب آپ علیہ السلام کے گھر کا محاصر ہ کرلیا گیا اور سبب اور نتیجہ کے قانون کے مطابق نجات کا کوئی امکان باقی نہ رہا اورجب غزوہ احد میں آپ علیہ السلام کے سر مبارک اور رخسار شریف کے زخمی اور دانت مبارک ٹوٹنے کی وجہ سے خون اطہر بہا تو ایسا لگتا ہے کہ گویا آپ علیہ السلام بھی دیگر تمام انبیائے کرام کے مصائب میں شامل ہیں جبکہ اسباب کے دائرے میں ان واقعات سے نجات کا کوئی رستہ نکالنا ناممکن تھا لیکن اللہ تعالیٰ ہر بار اپنے حبیبﷺ کو معجزانہ طریقے سے بچا لیتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو لوگوں کے ضرر سے محفوظ رکھا اور آپ علیہ السلام کو محصور گھر سے کفار کے لشکروں کے بیچ سے اس طرح نکالا جس طرح گوندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس رستے کو آپ کے لیے آسان فرمایا جس کی مسافت چار سو کلومیٹر سے زائد ہے اور وہاں سے اس طرح گزارا کہ کوئی بھی آپ علیہ السلام تک نہ پہنچ سکا۔یہاں تک کہ سراقہ بن مالک مدلجی کنانی نے آپ علیہ السلام کے نقش پا کو تلاش کرتے ہوئے آپ تک پہنچنے کی کوشش کی تو وہ بھی بے نیل و مرام الٹے پاؤں واپس چلا گیا اور آپ علیہ السلام کے پیچھے آنے والے کھوجیوں کو آپ علیہ السلام کے رستے سے بہکا کر دوسرے رستے کی طرف موڑ دیا۔(1)
حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اگر ہم غور سے دیکھیں تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاں کرنے والے تمام مجاہدین کی زندگیوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے مظاہر دیکھ سکتے ہیں۔ طارق بن زیاد اور عقبہ بن نافع رحمہمااللہ انہیں عظیم شخصیات میں شامل ہیں۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں عقبہ بن نافع نے افریقہ کو اول سے آختر تک فتح کیا یہاں تک کہ سمندر کے کنارے تک جا پہنچے اور کہا: ’’اے میرے رب اگر یہ سمندر نہ ہوتا تو میں تیرے رستے میں جہاد کرتا ہوا ملکوں میں چلا جاتا۔‘‘(2)جس وقت ہم ان حضرات کی مثالی زندگی کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو یہ نعمتیں صرف چند احتمالات کے یکجا ہونے سے ملی تھیں۔ سلطنت عثمانیہ کی ترقی، استنبول کی فتح اور دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والے لوگوں کی خدمات کو بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ ان خدمات کا آغاز حضرت بدیع الزمان سے ہوا اور آج تک جاری و ساری ہیں۔مثال کے طور پر شروع میں اس بات کا کوئی احتمال نہیں تھا کہ حضرت اس مرتبے تک پہنچ جائیں گے جس پر اس وقت ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ زیر نگرانی رہے، ہر وقت ان کا پیچھا کیا جاتا ،جگہ جگہ سے نکالے گئے مگر ان سب منفی اسباب کے باوجود اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی عنایت سے ایمان اور قرآن کے وہ انوار جو انہوں نے پیش کئے ہر طرف اور ہر جگہ پھیل گئے۔ اس لئے حضرت بدیع الزمان امید والی شخصیات میں سے ہیں کیونکہ آپ سخت ترین حالات میں بھی ببانگ دہل کہا کرتے تھے: ’’امید رکھو کیونکہ مستقبل کے انقلابات میں سب سے اونچی آواز اسلام کی گرجدار آواز ہوگی۔‘‘ (3) آپ اپنے ارد گرد لوگوں میں یہ کہہ کر امید پیدا کرتے تھے کہ: ’’مجھے اس بات کا یقین ہے کہ ایشیا کا مستقبل اس کے آسمان اور زمین کے ساتھ اسلام کے یدبیضا میں ہوگا۔‘‘(4)اگر ہم اس زمانے کے حالات پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فطری حالات میں یہ سب کام نہیں ہو سکتے تھےلیکن ہو سکتا ہے کہ یہ خدمات اس زمانے میں پیش آنے والی بعض بشارتوں کا مظہر ہوں ۔
دس لاکھ میں ایک
ہمارے اس زمانے میں تعلیم و تربیت کے میدان کے رضا کار ابطال نے مولانا جلال الدین رومی سے ایک پیغام حاصل کیا کہ : ’’ جو شمع دوسری شمع کو روشن کرتی ہے، اس کی اپنی روشنی میں کوئی کمی نہیں آتی۔‘‘ چنانچہ وہ اپنے ہاتھ میں روشنی کا سرچشمہ لے کر دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گئے ہیں اور جہاں بھی جاتے ہیں (اللہ کے فضل و کرم سے ان کو حسن قبول حاصل ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ خدمات کئی شرائط اور حالات کے ملنے سے حاصل ہوئی ہیں اور اس سلسلے میں ان کی مثال بھی ماضی میں انجام دی جانے والی خدمات جیسی ہے۔ مثلاً ہم پچھلی صدی کی نوے کی دہائی میں وسطی ایشیاء میں ہونے والی کامیابی کو دیکھیں تو وہ اس زمانے میں حاصل ہوئی جب اس زمانے کی ایک سپر پاور بکھر گئی اور اس وقت ایسے نوجوان مربیوں اور معلموں کی ضرورت تھی جو رضاکارانہ طورپر ان مقامات پر جائیں۔ اگرچہ وہاں ان کے جانے کے حالات نہایت مشکل تھے مگر اس کے باوجود ان کے دل میں ایک خواہش اور امید تھی کہ ایسے مقامات تک پہنچیں جو ان کو نقشے پر بھی معلوم نہیں تھے حالانکہ نئے نئے فارغ ہونے والے جوان مردوں اور خواتین کو اپنے ملک میں رہ کر خدمت کا شوق ہونا چاہیے تھا کیونکہ (وطن سے محبت) کی بیماری بڑی شدید ہوتی ہے لیکن کم عمری کے باوجود ان لوگوں نے ان جذبات پر قابو پایا اور ایسے ملکوں میں بلاتردد چلے گئے جہاں کی عادات و اطوار سے بلکہ زبان سے بھی ان کو کچھ و اقفیت نہ تھی۔
ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ اپنے آپ کو وقف کرنے والے ان لوگوں کے والدین کی بھی تمنائیں اور خواہشات تھیں جن کو وہ پورا کرنا چاہتے تھے لیکن میدان تعلیم و تربیت کے ان رضا کاروں نے (جنہوں نے اپنی زندگیوں کو وقف کردیا تھا) ان کو کس طرح راضی کیا ؟ (کیا ہی خوب بات ہے جس سے انہوں نے اپنے والدین کو راضی کیا!) اور یہ والدین راضی کس طرح ہوگئے ؟ کس طرح انہوں نے اپنی اولاد کے فراق کو برداشت کر لیا!؟ اس بارے میں گفتگو بڑی طویل ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف ملکوں میں جانے والے ان فدائین میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کو ان ملکوں میں جانے کی وجہ سے ایک عرصے تک اپنی منگیتروں کو بھی چھوڑنا پڑا اور جدا ہونے والوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں سمجھا کہ یہ شوق اور محبت ان خدمات کے رستے میں آسکتی ہے۔ انہوں نے ایسی فداکاری کا اظہار کیا جس سے آنکھیں حیران ہوجاتی ہیں اور ان میں آنسو آجاتے ہیں کہ: ’’یہ وہ کام ہے جو آج اپنی امت اور پوری انسانیت کے لیے کرنا ضروری ہے۔‘‘ اس لئے جب ہم ان تمام امور کو یکجا کرکے دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان سب کا بیک وقت اکٹھا ہونا اسباب کے دائرے میں نا ممکن ہے۔
علاوہ ازیں انسانیت کی خاطر انجام دی جانے والی ان خوبصورت سرگرمیوں کا دارومدار صرف ضروری اسباب پر منحصر نہیں بلکہ ایسے فدائی مالداروں کی بھی ضرورت ہے جو ان تعلیمی خدمات کے درست ہونے اوران کے ضروری ہونے کا یقین رکھتے ہیں جبکہ ایسے لوگوں کو تلاش کرنا اوران کواس پر راضی کرنابڑا مشکل کا م ہے کہ وہ ان رضاکارانہ خدمات کی مادی ضروریات پورا کرنے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھا لیں ۔ یہاں میں اس بات کی وضاحت کے لیے ایک حقیقی واقعے کا تذکرہ کرو ں گا جو خود میرے اپنے ساتھ پیش آیا۔ میں ’’ازمیر‘‘ میں دو مالدار اشخاص کے ہمراہ وہاں قائم کئے جانے والے ’’ادارہ اسلامی‘‘ کے لیے مالی وسائل کی تلاش میں کارخانوں کا دورہ کررہا تھا۔ ہم کارخانہ داروں سے تعاون کی درخواست کرتے تھے اور وہ دونوں حضرات مجھے لوگوں کے سامنے اس مسئلے کی اہمیت بیان کرنے اور آسانی سے ان کو راضی کرنے کے لیے ایک عالم کے طورپر ہمراہ لے جاتے تھے۔ چنانچہ اینٹوں کے ایک کارخانے میں اس غرض سے بات چیت کے بعد کارخانے کے مالک نے مجھے یاد پڑتا ہے شاید پچاس لیرے جیب سے نکال کرد ئے ۔
آپ خود سوچ سکتے ہیں اس معمولی سی رقم سے ’’ادارہ اسلامی‘‘ کی تعمیر ناممکن کے درجے کی بات تھی۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے میں نے اور ان متعلقہ احباب نے ایک مشاورتی اجلاس کے بعد فیصلہ کیا کہ ہم مادی وسائل والے جتنے حضرات کو بلا سکتے ہیں ان کو اکٹھا کریں اورجس قدر ہوسکتا ہو ان کی ہمت بندھائیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس اجلاس میں جن لوگوں کو ہم نے دعوت دی تھی ان میں سے بہت تھوڑے لوگ آئے شاید اتنے لوگ تھے کہ ایک میز پر بیٹھ سکتے تھے۔ میں نے ان کے سامنے تقریر کی۔ اس کے بعد حاضرین نے مختلف رقمیں دینے کا وعدہ کیا۔ مثلاً لاکھ لیرہ، ڈیرہ لاکھ لیرہ،چالیس ہزار لیرہ، تیس ہزار لیرہ وغیرہ وغیرہ ۔ البتہ حاضرین میں سے ایک شخص نے شاید معاملہ خراب کرنے کے لیے کہا کہ: ’’ہر شخص کسی مسئلے پر اپنے یقین کے مطابق دیتا ہے۔ میں تو صرف اڑھائی ہزار لیرے دوں گا‘‘ لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی کہ ایک دن آئے جب لوگ ملک کے مختلف گوشوں میں اس طرح کے نیک کام کرنے کے لیے ایک دوسرے کو ترغیب دینے لگیں۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ جب ان کو ایسے اجتماع کی خبر نہ دی جاتی جس میں ان سے تعاون طلب کیا جائے تووہ اس پر اپنے آپ کو ملامت کرتے تھے کہ : ’’مجھے اس اجلاس میں کیوں نہیں بلایا گیا!؟‘‘یہاں تک کہ ایک بار جب میں اس طرح کی ایک مجلس میں بات کرنے کے بعد ایک کمرے میں آگیا تو ایک ریٹائرڈ افسر ہاتھ میں کچھ چابیاں لے کر آیا اور بڑے جذبے اور کڑھن سے کہنے لگا: ’’کچھ دیر قبل سب لوگوں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا لیکن میرے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ۔ اس لیے میں آپ کے پاس اپنے گھر کی چابیاں لے آیا ہوں‘‘ لیکن میرے لیے ایسی پیشکش کو قبول کرنا ممکن نہ تھا۔ اس لیے اس کا شکریہ ادا کرکے مناسب انداز میں اس کی پیشکش کو واپس کردیا۔
جب پچھلی صدی کی نوے کی دہائی میں ملک سے باہر پہلی بار ہم نے قدم رکھا تو یہ روح خود ہمارے اپنے لوگوں سے مل کر بنی تھی۔ اس لیے مسئلہ صرف معلم اور مربی کا نہیں تھا اور عالمی سطح پر یہ تربیتی اور تعلیمی سرگرمیاں اس وقت تک پوری نہ ہو سکتی تھیں جبک ان میں کئی عوامل ایک ساتھ جمع نہ ہو جائیں مثلاً والدین کی رضا مندی، مطلوبہ ممالک اور مقامات پر حالات اور ماحول کا موافق ہونا اور انا طولیہ کے سخی لوگوں کی جانب سے ان لوگوں کی مالی مدد جو وہاں جانا چاہتے تھے جبکہ ان تمام عناصر کا بیک وقت جمع ہونے کا احتمال دس لاکھ میں ایک ہے۔ اس لیے یہ بات ناممکن ہے کہ کوئی انسان دس دلاکھ میں ایک احتمال والے مسئلے کو اپنی ذات، نفس ، ذہانت، فطانت اور عرقحیت ، اپنی سوچ اور عقل کی جانب منسوب کرے۔ اس لیے اگر وہ ایسا کرنا چاہے گا تو بہت بڑےظلم اور بے ادبی کا مرتکب ہوگا۔
فضل و کرم کا مالک صرف اللہ ہے
حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اسلامی عقیدہ اور اخلاق اس بات پر نہایت حساسیت کے ساتھ زور دیتے ہیں کہ اس بات پر ایمان ہو کہ تمام اچھے اعمال اورکامیابیاں اللہ کی جانب سے ملتی ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید کو اسی سوچ کی وجہ سے سبدکوش کیا حالانکہ اس وقت وہ ایک نہایت حساس لڑائی یعنی یرموک میں جنگ کی قیادت کررہے تھے کیونکہ اس جنگ میں دشمن کو عددی اور سازو سامان کی برتری حاصل تھی اور مسلمانوں کے مقابلے میں ان کی تعداد سات یا آٹھ گنا زیادہ تھی مگر اللہ کے فضل اور توفیق سے اس معرکے میں مسلمانوں کو زبردست فتح حاصل ہوئی اور تمام شام پربیزنوین ں کی حکومت ختم ہو گئی اور یہ علاقہ اسلامی حکومت میں شامل ہو گیا۔ اس زمانے میں حضرت خالد بن ولید اپنی عسکری ذہنیت کی وجہ سے مشہور تھے۔ آپ نے نہایت مضبوط اور اعلیٰ جنگی چالیں وضع کیں اورایسی بہادری، شہسواری اور دلیری کا مظاہرہ کیا جس پر سب عش عش کر اٹھے۔ پھر جب اس طرح کی نہایت سخت جنگ جاری تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو لشکر کی سپہ سالاری سے سبکدوش کردیا اور حضرت خالد پورے تواضع اور انکساری کے ساتھ حکم بجا لاتے ہوئے امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوگئے حالانکہ آپ وہی شخص ہیں جو ساسانیوں اور بیزنطینو ں پر ہتھوڑا بن کر گرے اوران کو نیست و نابود کردیا۔ آپ ہی کے بارے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ: ’’عورتیں خالد جیسا بیٹا جننے سے عاجز ہیں!‘‘(5)اور ایک مغربی مصنف کا قول ہے کہ: ’’ہمیں ’’ہانی بعل‘‘ جیسے سپہ سالار خالد کے دروازے پر گداگر نظر آتے ہیں۔‘‘ اس طرح اس اعلیٰ مقام اور احترام کے مالک یہ عظیم انسان سپہ سالارکے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد ایک عام سپاہی بن گئے ۔ جب حضر ت خالد حضرت عمر رضی اللہ عنہما (دونوں پر میری روح فدا ہو) کے پاس پہنچے تو حضرت عمر نے فرمایا: ’’خالد بخدا تم میرے لیے بڑے محترم ہو، تم مجھے بہت عزیز ہو۔‘‘ اس کے بعد یہ شعر پڑھا ؎
صَنَعْتَ فَلَمْ يَصْنَعْ كَصُنْعِكَ صَانِعٌ … وَمَا يَصْنَعُ الأَقْوَامُ فَاللَّهُ يَصْنَعُ
آپ نے وہ کام کردکھایا جیسا کوئی نہیں کرسکا
لوگ کوئی کام نہیں کرتے کیونکہ کرنے والا اللہ ہے
اس کے بعد حضرت عمر نے شہروں میں یہ فرمان لکھ کر بھی بھیجا کہ: ’’میں نے خالد کو غےي یا خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیا لیکن اس کی وجہ سے لوگ آزمائش میں پڑ گئے ہیں ۔ اس لیے مجھے خوف تھا کہ کہیں ان کو اس کے حوالے نہ کردیا جائے اور اس کے ذریعے ان کا امتحان لیا جائے۔سو میں نے یہ بات پسند کی کہ لوگ یہ جان لیں کہ سارے کام کرنے والا اللہ ہے تاکہ لوگ آزمائش میں نہ پڑ جائیں۔‘‘(6) اس موقف سے حضرت خالد کی اس عظمت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے جس نے عقلوں کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ اس کے بعد حضرت خالد حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہما کے تابع فرمان ہوگئے حالانکہ اس وقت تک حضرت ابو عبیدہ ان کے لشکر کے ایک سپاہی تھے ۔ آپ نے اپنی زندگی کے آخری دن تک ایک سپاہی اور اسلامی لشکر کی چمکتی تلواروں میں سے ایک تلوار بن کر جہاد جاری رکھا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ : حقیقت میں اس وقت تک کوئی کامیابی حاصل ہونے کا احتمال یا امکان نہیں ہو سکتا جب تک اس میں اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم شامل نہ ہو جائے۔ جی ہاں، جو بھی جمال حاصل ہوتا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی عنایت سے ہی ہوتا ہے۔ اس لیے اس بات پر یقین رکھنا ضروری ہے کہ آج تک جو بھی سرگرمیاں انجام پائی ہیں وہ اللہ کی عنایت کا ایک مظہر ہیں اوراس کے فضل و کرم کی تجلیات میں سے ایک تجلی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان مظاہر کی وجہ سے ہمارے دل میں اللہ کے شکر اور حمد کے جذبات پیدا ہونے چاہیںر تاکہ شکر کی وجہ سے آج تک ہونے والی نعمتوں میں اضافہ ہو اور وہ آگے بھی جاری رہیں ورنہ اگر (نعوذ باللہ ) ہم ان کامیابیوں کو اپنی طرف منسوب کریں گے تو اللہ ہمیں ہماری طاقت اور کمزور ارادے کے حوالے کردے گا کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے اس مبارک امانت میں خیانت کرڈالی ہے جو ہم تک حقیقی مخلص ہاتھوں کے ذریعے پہنچی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم حقیقت توحید سے ہمیشہ وابستہ رہیں اور یہ ایمان رکھیں کہ کسی درخت کا پتہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ہل سکتا اور ہمیشہ اس عقیدے پر رہیں تو اس کے ذریعے قرآنی حقائق پوری کائنات پر چھا سکتے ہیں۔
[1] البخاري، المناقب، 25، 104؛ فضائل الأعمال، 2، مناقب الآثار، 45؛ مسلم، الزهد، 75.
[2] ابن الأثير: الكامل في التاريخ، 206/3.
[3] بديع الزمان: السيرة الذاتية، ص 160-161.
[4] بديع الزمان: الكلمات، ص 755؛ الشعاعات، ص 739.
[5] الطبري: تاريخ الرسل والملوك، 359/3.
[6] الطبري: تاريخ الرسل والملوك، 68/4.
- Created on .