فتنے کی آگ اور دعا
سوال: سورۃ الممتحنہ کی اس آیت کریمہ﴿رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ (الممتحنہ:5) (اے ہمارے پروردگار ہم کو کافروں کے لئے تختہ مشق نہ بنا اور اے ہمارے پروردگار ہم یں معاف فرما بیشک تو غالب ہے حکمت والا) سے کون کون سا سبق ملتا ہے؟
جواب: اس سے پچھلی آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اسم صراحت کے ساتھ مذکورہے جس سے اس طرف اشارہ ہوتا ہے یہ دعا حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے کی کیونکہ اس آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ﴾ (الممتحنہ:4) ( تمہارے لئے ابراہیم میں اور ان لوگوں میں جو ان کے شریک حال تھے ایک عمدہ نمونہ ہے)
قرآن کریم کی حقیقی گہرائی کو سطحی اور معمولی تاویلات کے ذریعے نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس لئے ہم اس مسئلے کی کچھ تفصیل بیان کریں گے اور اس کے مفہوم کو اپنے شعور کے آئینے میں منعکس کریں گے۔ گویا قرآن کریم یہ کہہ رہا ہے کہ : آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے ساتھ جو ایمان والے تھے، ان کی زندگی میں پورا پورا نمونہ مل سکتا ہے۔ یعنی ان کے اقوال میں ، ان کے اصول میں، ان کے افعال میں اور تصرفات میں کیونکہ ان میں سے ہر ایک ایک مجسم نمونہ ہے۔
حق تعالیٰ شانہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اعلیٰ فضیلت کو بیان کرنے کے بعد توجہ اس دعا کی جانب مبذول فرمائی ہے جس کے ذریعے حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کے حضور گڑگڑاتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ دعا ان امور میں سے ہے جو حضرت ا براہیم علیہ السلام اپنی اعلیٰ زندگی میں انجام دیتے تھے۔ اس پر ان کی پیروی کی جاسکتی ہے۔
لفظ فتنہ کے معانی وسیع ہیں
اس دعا کو سمجھنے کا دارومدار اس میں وارد لفظ ’’فتنہ ‘‘ کے سمجھنے پر ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اس کلمے پر تھوڑی دیر کے لیے غور کریں۔ لفظ ’’فتنہ‘‘ دراصل ’’فتنت الفضۃ والذہب ‘‘ سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ میں نے چاندی اور سونے کو آگ میں پگھلایا تاکہ کھرے کھوٹے کا پتہ چل جائے جبکہ عام طورپر اس سے آزمائش، امتحان اور پرکھنا مراد لیا جاتا ہے(1)لیکن اسلامی تصور کے مطابق اس لفظ کو وسیع طور پر حقیقی معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً اضطراب اور بے چینی پیدا کرنا، فساد پھیلانا اور ہر ج مرج پیدا کرنا، لوگوں میں اختلاف پیدا کرنا۔ اسی طرح یہ لفظ جسمانی خواہشات اور مال و سلطنت ، بیوی بچوں، صحت ، جوانی، مقام و منصب اور ان دیگر وسائل پر بھی بولا جاتا ہے جن کی وجہ سے انسان آخر ت کی زندگی کھو سکتا ہے۔
اسی طرح مومنوں کا اپنے عقائد کی وجہ سے ایذاء ، تکلیف اور ظلم کا شکار ہونا اور مختلف ذرائع سے ان کو دین کے مخالف امور پر مجبور کرنا، دینداری کی وجہ سے ان پر مقدمے بنانا، ان کو جیلوں میں ڈالنا اور ملک بدر کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ ہم نے یہاں جو کچھ بیان کیا وہ اس آیت میں وارد لفظ ’’فتنہ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے۔
اسی طرح لفظ ’’امتحان ‘‘ کے مفہوم کو جاننا بھی ’’فتنہ‘‘ کے معانی سمجھنے میں مدد دیتا ہے کیونکہ امتحان کو بھی فتنے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ ’’امتحان‘‘ کا اشتقاق ’’محن الفضۃ‘‘ سے ہے اور اس کا مطلب ہے چاندی کو آگ کے ذریعے صاف اور خالص کرنا۔(2) اس مسئلے کی رو سے ہم دیکھتے ہیں جو لوگ اعلیٰ مقصد کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں وہ طرح طرح کے امتحانوں اور فتنوں کا شکار ہوتے ہیں جبکہ دین، اخلاق اور اعلی اقدار سے لڑنے والے لوگ ان کو ایسی محترم زندگی نہیں گزارنے دیتے جو ان کے اقدار سے جڑی ہوئی ہو اوران کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ بھی انہی کی طرح اپنے رستے سے منہ موڑ کر زندگی بسر کریں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے ہمراہی مومن بھی کافروں اور فساق و فجار کے ظلم و ستم اور تکالیف کا شکار ہوئے، ان کو آگ میں ڈالا گیا ، اپنے گھروں سےدرد بدر کیا گیا جبکہ اس کی وجہ صرف ان کی اپنے سچے موقف پر ثابت قدمی، ان کا اخلاص اور سچائی تھی۔ اس صورت حال میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کے حضور ظالموں سے نجات اور سلامتی کے لیے دست دعا یہ کہتے ہوئے بلند کیا: ﴿رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ (الممتحنہ:5) (اے ہمارے پروردگار ہم کو کافروں کے لئے تختہ مشق نہ بنا اور اے ہمارے پروردگار ہم یں معاف فرما بیشک تو غالب ہے حکمت والا) مطلب یہ ہے کہ : اے اللہ ہمیں ان کے ہاتھ میں ایسی شے نہ بنانا جسے آگ میں ڈالا جائے یا جسے ہتھوڑے اور اہرن کے درمیان رکھا جائے جبکہ یہ دعا انسان کی فطرت میں پوشیدہ کمزوری کا اظہار کررہی ہے کیونکہ امتحان نہایت مشکل چیز ہے جبکہ انسان میں اتنی سکت نہیں کہ وہ ہتھوڑے اور اہرن میں بیچ میں کچلا جائے یا آگ کو برداشت کرسکے! اسی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اعلیٰ فراست کے ذر یعے ایسی مصیبتوں اور پریشانیوں سے پناہ مانگی۔
راہ حق کی تجلی
حقیقت یہ ہے کہ مصیبتیں اور مشکلات ہر اس شخص کا مقدر ہوتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے رستے میں کام کرتا ہے کیونکہ گمراہ لوگ کسی بھی انسان کو اس کے اپنے موقف پر سختی اور ثابت قدمی کے مطابق ستاتے ہیں۔ اس لیے اگر تم اپنے ایمان، دعوت اور مرتبے کے ذریعے جانب مقابل کے لیے پریشانی کا سبب بنتے ہو تو وہ تم سے چمٹ جائے گا اور کبھی نہ چھوڑے گا۔
جب آنحضرت ﷺ سے سوال کیا گیا کہ: ’’ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟، قال: اَلْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ“(3) ( لوگوں میں سب سے شدید آزمائش کس پر آئی ہے؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: انبیاء پر اور ان کے بعد اچھے لوگوں پر درجہ بدرجہ۔) اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرام سب سے شدید، سخت اور ناقابل برداشت مصیبتوں اور پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں اوران کے بعد دیگر مومنین اپنے اپنے مرتبے کے حساب سے ۔ اس لیے ہم ان مشکلات کو قطعاً برداشت نہیں کرسکتے جو انبیائے کرام علہیم السلام کو پیش آئیں۔
آزمائشوں کو درست طورپر سمجھن
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فتنہ سے سلامتی اور نجات کا سوال کیا اور اس کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ سے ’’واغفرلنا‘‘ (ہمیں معاف کردے) کے الفاظ سے مغفرت طلب کی۔ اس لیے مومن پر لازم ہے کہ اگر راہ حق پر چلتے ہوئے اسے نشانہ بنایا جائے ، اس پر آزمائش آجائے یا کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو اس بات پر غور کرے کہ یہ مشکلات اس کے گناہوں اور خطاؤں کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہیں ۔اس لیے اسے اللہ تعالیٰ سے ضروری معافی اور بخشش کی دعا کرنی چاہیے۔
جی ہاں، انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے اوپر آنے والی مصیبتوں اور تکالیف کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فلسفے اور دوربین سے دیکھے جبکہ یہ معلوم ہے کہ آپ نے ’’عام الرمادہ‘‘ کے قحط اور خشک سالی کو اپنی جانب منسوب کیا اور زمین پر سر بسجود ہو کر دعا مانگی کہ ’’اے اللہ امت محمدیہ کو میرے ہاتھ پر ہلاک نہ فرما!‘‘ یہ ہے مومن کامل کا برتاؤ کیونکہ انسان کو چاہیے کہ اگر کسی جگہ بجلی گر پڑے یا کہیں سیلاب آجائے تو یہ کہے کہ ’’ہوسکتا ہے یہ میرے گناہوں کی شامت ہو!‘‘ جی ہاں ، مومن کو چاہیے کہ اپنے اوپر آنے والی ہر آزمائش اور مصیبت کو اپنی ذات کی طرف منسوب کرے اورساتھ ساتھ ان آزمائشوں کو اپنے گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بھی سمجھے۔
دوسری جانب یہ بات بھی شرک میں شامل ہے کہ مسلمان اپنے اوپر ہونے والی اللہ کی نعمتوں کو اپنی طرف سے سمجھیں یا اپنے ہاتھ پر ظاہر ہونے والی بعض جمالیات کی نسبت اپنی طرف کریں کیونکہ اس سے ان پر مصیبتں آ سکتی ہیں۔ ا س کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی بھی اس بات سے خوش نہیں ہوتا کہ اس کے رستے میں انجام دی جانے والی خدمات میں شرک شامل ہوجائے۔ اگلی بات یہ ہے کہ توحید کے نام پر انجام دیے جانے والے کاموں میں شرک سے بڑا اور سخت کوئی گناہ ہے اور نہ اس سے قبیح کوئی عمل یا رویہ ۔
یاد رکھیں کہ جب ہم شرک کی بات کرتے ہیں تو اس سے ذہن میں بتوں اور لکڑی اور پتھر سے بنی چیزوں کواللہ کے ساتھ شریک کرنے کا تصور آنا چاہیے اور نہ لات ، منات اور عزّی کی عبادت کا خیال کیونکہ یہ کھلا اور واضح شرک ہے جبکہ شرک کی ایک قسم خفی بھی ہے جس کے بارے میں نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ” قَالُوا: وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ:الرِّيَاءُ“ (مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ خوف شرک اصغر کا ہے۔‘‘ پوچھا گیا کہ اللہ کے رسول شرک اصغر کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’ریا‘‘) (4) نبی کریم ﷺ نے اس حدیث شریف ’’ أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا هَذَا الشِّرْكَ؛ فَإِنَّهُ أَخْفَى مِنْ دَبِيبِ النَّمْلِ“ (اے لوگ شرک سے بچو کیونکہ وہ چیونٹی کے چلنے سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے۔) (5) میں خبردار فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ریاکاری اتنا پوشیدہ اور بری چیز ہے کہ انسان اکثر اوقات اس کا ادراک ہی نہیں کرسکتا۔ اس وجہ سے اس کی عبادت، نیکیاں اور راہ خدا میں انجام دی گئی خدمات سب کچھ بخارات بن کر ہوا میں اڑ جاتا ہے۔
پس جو لوگ اللہ جل جلالہ کی راہ میں کوشش اور کام کررہے ہیں، اگر ان کے اعمال میں شرک شامل ہوجائے تو ہو سکتا ہے کہ حق تعالیٰ شانہ گمراہ لوگوں کو ان کے کان مروڑنے کے لیے ان پر مسلط کردے۔ اس لیے جب ہم رسائل نور کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ حضرت بدیع الزمان سعید نورسی نے اس موضوع سے متعلق بہت سی مثالیں ذکر کی ہیں۔ خواہ وہ ’’ شفقت کے تھپیڑے‘‘ والے مضمون میں ہوں یا ’’ملاحق ‘‘ میں۔ علاوہ زیں یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ انسان کے اوپر آنے والی مصیبت اور آزمائش اس کے گناہ اور جرم کے حجم کے مطابق ہوتی ہے۔ پھر جس طرح گناہ اور خطا کے حجم کے مطابق غصے اورعذاب کے تھپڑ پڑتے ہیں اسی طرح لطف اور شفقت کے تھپڑ بھی ہوتے ہیں۔
تقدیر میں عدل ہے
اس وجہ سے کسی خدمت میں نفس کی خواہشات کو شامل کرنا جیسے کوئی مضمون لکھ کر اس پر اترانا یا کوئی عمارت تعمیر کرکے اس پر تعریف و توصیف کا انتظار کرنا بھی دوربارہ تھپیڑے لگنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح اس سے ساری محنت، مشقت اور تکلیف بالکل فضول ضائع ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کے ہاتھوں مسلمانوں کو آزمائش اور تکلیف میں ڈال دے مگر گمراہ لوگ جتنا بھی ظلم کرلیں تقدیر میں ضرور انصاف اور عدل ہے اور ان مشکلات کا سامنا کرنا گناہوں کا کفارہ ہے البتہ یہ بھی یقینی طورپر جان لینا چاہیے کہ مصیبتوں اور آزمائشوں کا گناہوں کا کفارہ ہونے کی بھی کچھ متعین شرائط ہیں۔
اس لیے اگر مسلمان مشکلات کو اپنے گناہوں کی طرف منسوب کریں ، اس بات کو محسوس کریں اور اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ تائب ہوتے ہوئے یوں دعا کریں کہ: ’’اے اللہ میں تجھ سے معافی مانگتا ہوں اور تیرے حضور سچی توبہ کرتا ہوں‘‘ اور اخلاص کے ساتھ حقیقی طور پر اس کے سامنے گڑگڑائیں تو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر آنے والی آزمائش کو ان کے حق میں مفید اور ان کے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ بنا دے۔
حضرت بدیع الزمان سعید نورسی نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے گمراہ اور دنیا دار لوگوں کے اپنے اوپر ظلم ا ور ایذرسانی کا حقیقی سبب معلوم کرلیا تھا اور وہ یہ کہ انہوں نے قرآن اور ایمان کی خدمت کو اپنی مادی اور روحانی ترقی کے لیے استعمال کیا(6)جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مجھے کوئی ایسی معمولی سی بات بھی معلوم نہیں جو اس بات کی دلیل ہو کہ انہوں نے قرآن اور ایمان کی خدمت کو اپنی روحانی یا مادی ترقی کے لیے استعمال کیا ہو لیکن وہ محاسبے میں اپنے خاص مرتبے کے رخ سے اس مسئلے کا تجزیہ اس طرح کررہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں انجام دی جانے والی خدمات کے مقابلے میں انسان کو دل میں بھی کسی دنیوی یا اخروی چیز کا خیال نہیں لانا چاہیے۔ جی ہاں، اس کے دل میں تعریف و توصیف جیسی کسی دنیوی چیزکا خیال نہیں ہونا چاہیے اور اسی طرح کسی اخروی چیز کی بھی تمنا نہیں ہونی چاہیے کہ ’’ میں یہ کام پورے کر لوں گا ، میں سیر وسلوک کی روحانی منزلیں طے کروں گا، میں جنت میں داخل ہوں گا، مجھے جنت الفردوس ملے گی۔‘‘
اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو شاید تکالیف، مصیبتیں اور آزمائشیں گناہوں کا کفارہ نہیں ہوں گی۔ مثلاً کوئی آدمی جب کسی آزمائش کا شکار ہو تو یوں کہنے لگے کہ ’’میں تو اللہ کی راہ میں کوشش اور سعی کررہا ہوں ۔ میں نے ایسا کیا گناہ کرلیا ہے کہ مجھ پر یہ آزمائشیں اور مصیبتیں آرہی ہیں؟‘‘ اور اسے اپنی ذات میں ایک طرف تو کوئی عیب اور نقص نظر نہیں آتا اور دوسری طرف اپنے حال کی شکایت کرتا ہے تو اس صورت میں وہ ان مشکلات کا شکار رہے گا مگر اس کو ان سے کوئی فائدہ بھی نہ ہوگا۔ علاوہ ازیں (اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے) ایسا شخص تقدیر کی مذمت اور اللہ کے فیصلوں پر ناراض ہونے کے گناہ کا مرتکب ہوجائے گا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی زندگی کے آخری لمحے اور سانس تک اپنے رستے میں خدمت کی توفیق نصیب فرمائے۔ ہماری زندگی کو توبہ و استغفار کے احساس سے روشن فرمائے اور گناہوں سے پاک صاف ہو کر آخرت کی جانب جانا نصیب فرمائے۔
[1]ابن منظور:لسان العرب، 317/13.
[2]الزبيدي:تاج العروس، 153/36.
[3]سنن الترمذي، الزهد، 57؛ سنن ابن ماجه، الفتن، 23.
[4]مسند الإمام أحمد، 39/39؛ الطبراني:المعجم الكبير، 253/4.
[5]مسند الإمام أحمد، 384/32؛ ابن أبي شيبة:المصنف، 70/6.
[6]بديع الزمان سعيد النورسي: لاحقة أميرداغ-2، ص 336.
- Created on .