ہر کام بصیرت کے ساتھ کیجئے
سوال: آپ ہمیشہ اپنی تحریروں اور ایمانی مجالس میں بصیرت کے مسئلے پر بات کرتے ہیں۔ اس مسئلے کو ہم کس طرح سمجھ سکتے ہیں؟ اور اس کو اپنی زندگی میں کس طرح منطبق کر سکتے ہیں؟
جواب: بصیرت کا مطلب ہے مسائل کو دل کے باریک معیار کے علاوہ علم اور تجربے کے معیار کے مطابق مرتب کرنا اور ان کی تحلیل اور تجزیہ کرنے کے بعد ایسے وسیع ادراک تک رسائی جو معاملات کو ان کے پیش منظر، پس منظر اور آغاز و انتہاء کے ساتھ دیکھنے کا موقع فراہم کرے۔ اس لئے اگر بصارت کا مطلب اشیا ء اور واقعات کو مادی نظر سے دیکھنا ہے تو بصیرت کا مطلب اشیاء اور واقعات دل کی آنکھ سے سمجھنے کا نام ہے۔ اسی وجہ سے بصیرت ایسے نورانی رہنماکی طرح ہے جو انسان کو حق اور حقیقت تک پہنچنے اوران کو دوسروں تک پہنچانے کا رستہ دکھاتا ہے۔ سو جس شخص کے پاس بصیرت نہ ہو اس کے لیے اشیاء اور واقعات کا درست انداز سے تجزیہ کرنا مشکل ہے وہ ٹھیک طریقے سے تجزیہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی درست انداز میں کسی فیصلے تک پہنچ سکتا ہے۔ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کریم کہتاہے: ﴿لَهُمْ قُلُوبٌ لاَ يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لاَ يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لاَ يَسْمَعُونَ بِهَا﴾ (الاعراف:179) (ان کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں۔ ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں۔ اور ان کے کان ہیں پر ان سے سنتے نہیں) حالانکہ انسان کے ہر عضو کو اس کام میں استعمال کرنا ضروری ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ دل اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ ان چیزوں کو سمجھے جن کو سمجھنا چاہیے، آنکھ دیکھنے کے لیے بنائی گئی ہے اور کان سےنو اور عقل ادراک کے لیے۔۔۔ لیکن جو لوگ بصیرت سے محروم ہوئے انہوں نے اپنے آپ کو وحی کی روشنی اور نبی اکرمﷺ کی دعوت سے دور رکھا اور زندہ ہونے کے باوجود مردوں جیسی زندگی بسر کی۔ جی ہاں ان کے پاس آنکھیں، کان ،منہ، عقل، ہاتھ اور پاؤں سب کچھ ہے لیکن وہ ان کو ان کاموں میں استعمال نہیں کرسکتے جن کے لیے ان کو پیدا کیا گیا ہے۔ بے شک قرآن و سنت وہ خفیہ کلید ہیں جن سے کائنات کے رموز کو کھولا جاسکتا ہے لیکن بصیرت سے محروم لوگوں نے ان کو استعمال نہ کیا جس کی وجہ سے وہ کائنات کے خفیہ دروازوں کو کھولنے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کی مشکلات کو حل کرنے میں ناکام رہے۔
متبادل حل
نبی اکرمﷺارشاد فرماتے ہیں: ’’ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ‘‘ (تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا) اس حدیث شریف کے ذریعے آپ علیہ السلام نے اس ذمہ داری کی جانب اشارہ فرمایا ہے جو انسان کے کاندھوں پر آتی ہے کیونکہ انفرادی، گھریلو اور معاشرتی زندگی میں ہر شخص کا ایک خاص وظیفہ ہے۔ مثلاً ایک شخص ایسا ہوسکتا ہے جس پر اس کے گھر ، محلے،علاقے یا شہر کی ذمہ داری ہوگی جبکہ دوسرے کے اوپر ایک بڑے ملک جتنی ذمہ داریاں ہوں گی۔ اس لیے ہر شخص اپنے اپنے درجے کے مطابق ان لوگوں کا ذمہ دار ہے جو اس کے زیر سایہ ہیں۔ ان کی رہنمائی اس کے ذمے ہے جبکہ اس ذمہ داری کا حق ادا کرنا اس بصیرت کے مرہون منت ہے جس کا کچھ حصہ ہم ابھی ابھی ذکر کرچکے ہیں۔
مزید وضاحت کے لیے ہم کہتے ہیں: اگر منصب اور مرتبے والے لوگ اپنے مناصب کا حق ادا کرنا اور اپنے کاموں میں اللہ تعالیٰ کی توفیق چاہتے ہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے فیصلوں کو عقل و منطق اور عقلی دلائل کے ساتھ ساتھ دل اور وجدان کے کارخانے بھی گزاریں۔ پھر جب وہ اس کام کو اعلیٰ طریقے سے انجام دیں تو اپنے ارد گرد کے لوگوں پر رحمت اور شفقت کی نگاہ ڈالیں، زندہ لوگوں کو ان کی اپنی شفقت سے محروم نہ کریں، کسی کا حق نہ کھائیں اور عدل و انصاف سے کبھی منہ نہ موڑیں۔
اگر ہم نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بھی ایسا فعل اور تصرف نہیں ملے گا جو بصارت اور بصیرت کے منافی ہو جبکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺکو حکم فرمایا ہے کہ آپ کہیں: ﴿قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي﴾ (یوسف :108) (کہدو میرا رستہ تو یہ ہے۔ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں سمجھ بوجھ کر۔ میں بھی اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور میرے پیرو بھی) یہ آیت ہمیں اس حقیقت کی یاددہانی کراتی ہے جس کا تذکرہ ا بھی ابھی ہوا اور ہمیں مرشد اکمل ﷺ کی پیروی کرنے کا حکم دیتی ہے۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے پیروکار اپنی دعوت میں بصیرت کی راہ پرچلتے تھے یا یہ کہ ان پر لاز م ہے کہ وہ اس طرح چلیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دعوت کی بنیاد علم، مشاہدہ، شعور اور امکانی مشکلات کو سامنے رکھنے اوران میں سے ہر ایک کے لئے ایک متبادل حل تیار کرنے پر ہے کیونکہ مشکل کے صرف ایک حل پر اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ متعدد اور متنوع حلول کا وجود ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حلول کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی، مشکل کا حل اتنا ہی درست اور آسان ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی حرکت عقل سلیم، روح سلیم اور حس سلیم کے تقاضوں کے مطابق ہوتی تھی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بصیرت کا مرتبہ
یہ آیت کریمہ اس بات کی وضاحت کررہی ہے کہ جو لوگ اپنی دعوت میں آنحضرتﷺ کی پیروی کرتے ہیں وہ بھی اپنے نبی کی طرح بصیرت کے اوپر تھے۔ ان پیروکاروں میں خلفائے راشدین سرفہرست ہیں۔آپ علیہ السلام خلفائے راشدین کے اس منفرد اور اعلیٰ مقام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ، تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ“ (تم پر لازم ہے کہ میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کی پیروی کرو،اسے لازم جانو اور اسے دانتوں سے مضبوطی سے پکڑلو)۔
لیکن ہم اس مقام پریہ بھی بتا دیں کہ خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام کی زندگی میں ایک حقیقی مشابہت پائی جاتی تھی کیونکہ اگر یہ مشابہت نہ ہوتی تو اس زمانے کی معاشرتی عمارت ان خلفائے راشدین کو قبول نہیں کرسکتی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ خلفائے راشدین اور عشرہ مبشرہ، ان حضرت اور صحابہ کرام کی پہلی نسل اور ان حضرات اور دیگر صحابہ کرام میں بڑی حد تک جینیاتی موافقت پائی جاتی تھی۔ اس موافقت کی بنیاد اللہ تعالیٰ سے تعلق، اس کے نبی ﷺ کی تصدیق اور قرآن کریم اور سنت مطہرہ پر عمل تھا۔
اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺاور آپ علیہ السلام کے پیروکار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اپنی زندگی سچی بصیرت کے ساتھ گزارتے تھے کیونکہ اس کے بغیر ان بہت سی مشکلات پر قابو پانا مشکل تھا جو اسلام کے اولین عہد اور خلفائے راشدین کے زمانے میں پیش آئیں۔
ردت کے گیا رہ واقعات پر بصیرت سے غلبہ
ان مشکلات کے حجم اوران پر قابو پانے کی کیفیت کوسمجھنے کے لیے ان کا ہمارے اپنے زمانے کی مشکلات سے موازنہ کرناچاہیے کیونکہ ہم لوگ تو ابھی صرف دہشت گردی کی ایک مشکل پر بھی قابو نہیں پاسکے جو چند سال کی غفلت اور کاہلی سے پیدا ہوئی ہے جبکہ اس زمانے میں ارتداد کے گیارہ واقعات کا مجموعہ پیش آیا۔ ان میں سے تین واقعات رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں اور آٹھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں پیش آئے اور ان سب پرقابو پا لیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب آپ علیہ السلام کا وصال ہوا تو صحابہ کرام کی تعداد ایک لاکھ تھی جن میں بچے، بوڑھے،بیمار اور نئے نئے اسلام لانے والے حضرات بھی شامل تھے۔ ’’الاصابہ فی تمیزا الصحابہ‘‘ ابن حجر عسقلانی کی صحابہ کرام کے بارے میں مشہور کتاب ہے۔ اس میں دس ہزار صحابہ کے نام مذکور ہیں۔ اس زمانے کے لوگ گیارہ ایسی عظیم مشکلات کو حل کرنے میں کامیاب ہوگئے جو ہمارے زمانے کی دہشتگردی جیسی تھیں۔ اس لیے ان لوگوں کو اپنی بے وقوفی اور حماقت پر افسوس اور ندامت ہونی چاہیے جن کی اندھی آنکھیں اس حقیقت کو دیکھنے اور جن کے بہرے کان اس کو سننے سے عاجز ہیں اور جن کے سخت دل اس مسئلے کا تجزیہ کرسکتے ہیں اور نہ اس کے اجزاء کو آپس میں ملانے کی قدرت رکھتے ہیں۔
آہ اے بصیرت! تو کہاں ہے؟
چونکہ رسول اکرمﷺ کے پیروکار صرف صحابہ کرام نہیں، اس لیے ان کے بعد آنے والے امت کے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ بھی اللہ کے رستے میں دعوت دیں اور اپنے سارے کام بصیرت کے ساتھ ا نجام دیں کیونکہ جب تک مشکلات کو عقل سلیم، قلب سلمن، حس سلیم کے ساتھ نہ دیکھاجائے، ان پر قابو پانا ناممکن ہے جبکہ ہمارے اس زمانے میں حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ نور بصیرت سے محروم ہیں جس کی وجہ سے اکثر اوقات اپنے آپ کو درپیش مشکلات پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں ۔ بہت سی دفعہ ہم حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس کوشش میں ان معاملات کو مزید مشکل کردیتے ہیں اور عام طورپر ہم ان کو ایک پہیلی میں بدل دیتے ہیں۔ مثلاً کسی ایسے علاقے میں جہاں فتنے اورانارکی کی آگ بھڑک رہی ہو بے رحم ہتھوڑے کی طرح برسنا شروع کردیں اور یہ سمجھیں کہ ہم لوگوں کو سیدھا کردیں گے، تو ہم خود دھوکا کھا جائیں گے کیونکہ ہم جوں جوں بہرہ ہتھوڑا چلاتے جائیں گے وہ مزید سخت ہوتے جائیں گے۔ اسی طرح آج معاملات ایک دوسرے کے اندر داخل ہوکر مزید مشکل ہوگئے ہیں اور اس حد تک پہنچ گئے ہیں جہاں ان پر غلبہ پانا مشکل ہوگیا ہے۔
جی ہاں ، نبی اکرم ﷺ کی پیروی کرنے والے ہراول دستے نے اتباع کو اس کی حقیقی شکل میں اپنایا تھا۔ چونکہ اتباع کا یہ ہدف ہمارے لیے بھی واضح ہے اس لیے اگر ہم انفرادی، گھریلو اور معاشرتی مشکلات پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی مطلق بصیرت سے کام لینا ہوگا۔ پس اگر ہم دائمی بصیرت، دائمی حساسیت اور دائمی ہوشیاری کے زیور سے آراستہ ہوجائیں تو ہم بھی اپنے آپ کو درپیش مشکلات کا بازومروڑ کر اسے نرم کردیں گے اگرچہ وہ گرانیٹ جتنا سخت ہی کیوں نہ ہو اور ان شاء اللہ ان مشکلات کو حل کرکے ا پنا سفر جاری رکھیں گے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کریم ہر واقعے اور حادثے کے دوران ہمیں بصیرت سے کام لینے کی دعوت دیتا ہے ۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم لوگوں کے مزاج پڑھیں، ان کی شخصیات کاتجزیہ کریں، ان کے معاشرتی اور سیاسی حالات ایک حد تک متعین کریں اور ابھی سے ان واقعات کو دیکھنے کی کوشش کریں جو تیس سال بعد پیش آئیں گے(اگر ضرورت ہو تو) ہم پر لازم ہے کہ مشکلات کا تزویراتی مراکز اور فکری اداروں میں تجزیہ کریں اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج کا موازنہ کریں۔ اگر ہم اپنی فکر کو روشن کریں اور اس بارے میں اپنی عقل کوتھکائیں تو اللہ تعالیٰ ہماری ان کوششوں کا بدلہ اور اجر ضرور دے گا اور اپنے حکم اورکرم سے ہمیں درست ترین اور صحیح ترین رستے تک پہنچائے گا۔
- Created on .