عشق ، شجاعت اور تزویراتی ع
جن کا حل بظاہر مشکل نظر آتا ہے، ان کو حل کرتے وقت کون سے اصولوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے؟
جواب: جس انسان کا دل مرچکا ہو، جذبات ٹھنڈے ہوچکے ہوں اور اس کا اپنے رب سے تعلق صرف ظاہری شکل میں باقی ہے، اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ان بڑی مشکلات پر غالب آجائے گا کیونکہ مشکلات کا حل انسان سے تقاضا کرتا ہے کہ اس کے پاس ایک اعلیٰ ہدف تک پہنچنے کے لیے عشق اور جذبہ ہو اور اس تک ان تھک شوق اور جذبے سے پہنچنے کی کوشش کرے اور اس کے پاس ایسا پختہ عزم ہو جو بغیر کسی مایوسی اور قنوطیت کے ظلم کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھ سکے اور جتنی بار بھی شکست کھائے اس کے دل میں کمزوری کا گزر نہ ہو بلکہ ہر بار دوبارہ اٹھ کھڑا ہو اور اس طرح ثابت قدمی کے ساتھ ا پنا سفر جاری رکھے کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ اسی طرح وہ ان پہاڑوں سے گزر سکتا ہے جن سے گزرنا مشکل ہوتا ہے اور اپنی شکست کو عظیم کامیابیوں میں بدل دے گا۔
عشق و وفا کاسنگم
اس بارے میں حضرت آدم علیہ السلام ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے جین کے اندر خطا کی ایسی صلاحیت رکھی جو مقربین کے درجے کے مناسب تھی چنانچہ آپ سے ایک ایسی لغزش صادر ہوئی جو حضرت آدم صفی اللہ کے اپنے رب سے تعلق کے درجے اور مرتبے کے مطابق خطا تھی۔ ارشاد خدا وندی ہے: ﴿وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى﴾ (طَهَ: 121) (اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو وہ اپنے مقصد سے بے راہ ہو گئے) دوسری جگہ ارشاد ہے:﴿وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا﴾ (طہ:115) (اور ہم نے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں ارادے کی پختگی نہ پائی) لیکن اہم بات یہ ہے کہ غلطی کے بعدانسان کے دل میں مایوسی پیدا نہیں ہونی چاہیے بلکہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہو کر یہ دعا کرے کہ وہ اسے دوبارہ اس قسم کی غلطی کا مرتکب ہونے سے محفوظ فرمائے۔
جی ہاں، حضرت آدم علیہ السلام نے یہی کیا بلکہ ایک روایات میں ہے کہ اس لغزش کے بعد حضرت آدم علیہ السلام چالیس سال تک آسمان کی طرف سر اٹھائے بغیر روئے اور گڑگڑائے۔ (1) گنہگار کا حل یہی ہونا چاہیے ، اس کی کمر لاٹھی کی طرح ٹوٹ جانی چاہیے اور یہ کہتے ہوئے اپنی خطاؤں کا اعتراف کرے کہ : ’’میں اس کی نافرمانی کیسے کروں گا حالانکہ میں اسے جانتا ہوں اور یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ میرا سب کچھ اسی کا ہے۔ میں نے اپنے سارے معاملات اس کے حوالے کیوں نہ کر دئے؟ ‘‘ اس کے بعد اپنے محبوب حقیقی کے دروازے کی جانب متوجہ ہو اور اس کے سوا دوسروں کی طرف رخ کرنے پر اس سے مغفرت اور معافی مانگے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرانسان کے دل میں عشق کی آگ بھڑک اٹھے اور عشق اس کی ہستی پر چھا جائے تووہ مشقتوں اور مصائب کا شکار ہونے کے باوجود کبھی بھی اپنے محبوب کے دروازے سے نہیں ہٹے گا کیونکہ عشق انسان اور اس کے رب کے درمیان تعلق ہمیشہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطے اور اس سے وصال کے رستے میں جلنے اور کڑھنے کاعنوان ہے۔
علاوہ ازیں جس شخص کا دل و صال اور با وفا عشق کی آگ سے جلے گا، وہ تمام مشکلات کے باوجود حکم کو بجا لانے کی باریک بینی کا ادراک کر لے گا اور ایک قدم پیچھے ہٹ کر یوں کہے گا: ’’اے اللہ میں نے آپ کی جانب آنے کی دعا نہیں کی کیونکہ تو نے مجھے اپنی روح قبض کرکے اپنے آگے پھینک دینے کا حکم نہیں فرمایا بلکہ اس وقت تک میں تیرے رستے میں خدمت کے ذریعے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا رہوں گا۔‘‘ یہ ہے عشق و وفا کا سنگم۔
شکست کو فتح میں بدلنے کا طریقہ
مشکل معلوم ہونے والی مشکلات پر غلبہ پانے کے لیے شجاعت بھی ایک اہم عامل ہے۔کیونکہ اس میں عشق کا ایک رخ جھلکتا ہے۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ عشق کی ایک ایسی مثال تھے جس پر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ غزوہ احد کے دن جھنڈا ان کے پاس تھا۔ جب مسلمان پیچھے ہٹ گئے تو وہ اپنی جگہ قائم رہے۔ چنانچہ (ایک شہسوار) ابن قمیۂ آیا اور اس نے تلوار کا وار کرکے آ پ کا دایاں ہاتھ تن سے جدا کردیا۔ اس وقت حضرت مصعب ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ﴾ ( آل عمران:144) (اور محمد ایک پیغمبر ہی تو ہیں ۔ ان سے پہلے بھی بھت پیغمبر ہو گزرے ہیں) پڑھ رہے تھے۔ پھر انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں لے لیا، قمیۂ نے دوسرا وار کرکے اسے بھی کاٹ ڈالا تو حضرت مصعب نے جھک کر جھنڈے کو دونوں بازؤوں سے سینے سے لگا کر پکڑ لیا اور ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ﴾ پڑھی۔ اس کے بعد قمیۂ نے ان پر نیزے سے حملہ کیا اور اسے ان کے جسم سے پار کر دیا، چنانچہ نیزہ ٹوٹ گیا، حضرت مصعب گر پڑے اورجھنڈا بھی نیچے آگرا۔(2)اس طرح حضرت مصعب نے شکست کو شکست دے دی اور موت کے چہرے کو مسکرانے پر مجبور کردیا ۔ یوں اس بہادر انسان کے سامنے کوئی بھی مشکل ناقابل حل نہیں تھی جن کی شجاعت بہادری کی ایک نادر مثال بن گئی ہے۔
جی ہاں، اس میں کوئی شک نہیں کہ موت کا چہرہ بدصورت ہوتا ہے لیکن اگر آپ اس کے سامنے مسکرائیں تو وہ بھی مسکرا اٹھے گا۔ اس سے اگلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امانت کو کسی واسطے کے بغیر خود واپس لیتا ہے۔ اسی وجہ سے شیخ عبدالقادر جیلانی اور ابوالحسن شاذلی جیسے بڑے بڑے علماء کرام ہمیشہ اس بات کی امید رکھتے اوردعا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی روح خود قبض فرمائے۔ جرأت اور شجاعت نبی کریم ﷺ کی نہایت اہم خصوصیات میں سے تھی۔ مثال کے طورپر آپ احد میں مسلمانوں کی عارضی شکست کو دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں سپہ سالار یعنی آنحضرت ﷺ نے جو جنگی تدابیر اختیار کیں وہ بالکل درست تھیں۔ شروع میں آپ علیہ السلام مدینہ سے نکلنے کی بجائے اس کے دفاع کے لیے شہر کے اندر ہی رہنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام نے اپنے پر جوش ساتھیوں کی رائے کو قبول فرماتے ہوئے ان کو احد کی جانب نکلنے کی اجازت دی ۔ اس طرح آپ علیہ السلام نے تیر اندازوں کو پہاڑ کے اوپر ان کے متعین مقامات پر رہنے کا حکم فرمایا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے جنگی اقدامات فرمائے جس سے دشمن سٹپٹا گیا اور اس میں پھوٹ پڑ گئی لیکن جب تیر انداز پہاڑے سے اتر گئے اور مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو قرآن کریم نے ارشاد فرمایا: ﴿إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا﴾ (آل عمران:155) (ان کے بعض افعال کے سبب شیطان نے ان کو پھسلا دیا تھا) اس آیت سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے بعض برگزیدہ صحابہ کرام سے اجتہادی غلطی ہوگئی ۔
جی ہاں، بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس دن تک فرمانبرداری کی باریکی کو نہیں سمجھا تھا جس کی وجہ سے ان کے لشکر کو عارضی شکست سے دوچار ہونا پڑا لیکن آپ علیہ السلام نے اس وقتی شکست کو زبردست فتح میں تبدیل فرما دیا کیونکہ مشرکین ابوسفیان کی قیادت میں جب ’’روحاء‘‘ کے مقام پر پہنچے تو کہنے لگے: ’تم نے محمد کو قتل کیا، نہ نوجوان لڑکیوں کو ساتھ لائے۔ تم نے بہت برا کیا۔ چلو دوبارہ ان پر حملہ کریں اور ان کے باقی لوگوں کی جڑوں کو بھی ختم کردیں‘(اور مسلمانوں کو نسیت و نابود کرنے کا ارادہ کیا) چنانچہ یہ خبر آنحضرت ﷺ تک پہنچی تو آپ علیہ السلام نے منادی کرا دی اور لوگ آ گئے یہاں تک کہ حمراء الاسد اور بیرابی عتبہ تک پہنچ گئے۔ چنانچہ جب ابو سفیان نے زخمی اور تندرست سب مسلمانوں کو اپنے پیچھے آتے دیکھا تو اپنی سوچ بدل لی ا ور مسلمانوں کے لشکر سے مڈبھیڑ اور شکست کے خوف سے مکہ واپسی کو ترجیح دی اور وہ اور اس کے ساتھی کہنے لگے کہ ’’ہم نے جو فتح حاصل کی ہے اسی کو لے کر اپنے گھر والوں کے پاس جاتے ہیں تاکہ ان کا کلیجہ ٹھنڈا ہو ‘‘۔ اس طرح ان کو مسلمانوں کا دوسری مرتبہ مقابلہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
اس طرح آپ علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کرام نے اس شکست کو دوبارہ فتح میں بدل ڈالا اور یہ سب کچھ ان کی بہادری ، آگے بڑھنے اورزخموں سے چور چور ہونے کے باوجود دشمن کا تعاقب کرنے سے ہوا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ﴾ (آل عمران:172)(جنہوں نے باوجود زخم کھانے کے اللہ اور رسول کے حکم کو قبول کیا۔ جو لوگ ان میں نیکوکار اور پرہیزگار ہیں ، ان کے لئے بڑا ثواب ہے)۔
’’حنین‘‘ میں جو کچھ پیش آیا وہ ’’احد‘‘ سے کس قدر مشابہ تھا۔ ہوازن اور ثقفا عرب قبائل میں تیر اندازی میں سب سے ماہر تھے۔ چنانچہ جب مسلمان وادی حنین میں داخل ہوئے تو انہوں نے تیروں کی بوچھاڑ کردی جس سے مسلمانوں کی صفیں تتر بتر ہوگئیں لیکن آپ علیہ السلام اپنا خچر کفار کی طرف دوڑاتے جاتے اور فرماتے: ’’انا النبی لاکذب انا ابن عبدالمطلب‘‘( میں نبی ہوں اور اس میں کوئی جھوٹ نہیں ، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں)۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :’’ میں نبی کریمﷺ کے خچر کی لگام پکڑ کر اس کو روکنے کی کوشش کررہا تھاکہ وہ جلدی آگے نہ جائے۔‘‘ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ عباس اصحاب سمرہ کو آواز دو۔‘‘ حضرت عباس فرماتے ہیں کہ بخدا جب میں نے آواز دی تو ایسا لگا کہ گویا میں نے ان کو اس طرح موڑ دیا جس طرح گائے اپنے بچوں کی طرف آتی ہے، تو وہ کہنے لگے: ’’حاضر ہیں، حاضر ہیں!‘‘ چنانچہ کافروں اور مسلمانوں میں جنگ شروع ہوئی جبکہ انصار میں آواز لگ رہی تھی کہ: ’’اے انصار کی جماعت، اے انصار کی جماعت، اس کے بعد انصار میں سے بنو حارث بن خزرج کی آواز لگائی جا نے لگی اور کہنے لگے: ’’اے نبی حارث بن خزرج‘‘۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے اپنے خچر کے اوپر سے گردن اونچی کرکے ان کی لڑائی کو د یکھا اور ارشاد فرمایا: ’’یہ جنگ کے گرم ہونے کا وقت ہے۔‘‘ اس کے بعد آ پ علیہ السلام نے کچھ کنکریاں اٹھا کر کفار کے منہ پر ماریں اور فرمایا ’’ رب محمد کی قسم، شکست کھاگئے۔‘‘ حضرت عباس فرماتے ہیں کہ میں دیکھنے لگا کہ جنگ اسی طرح جاری ہے، پھر فرماتے ہیں کہ بخدا جیسے ہی آپ علیہ ا لسلام نے کنکریاں ماریں، تو میں دیکھنے لگا کہ ان کا زور ٹوٹنے لگا اور حالت خراب ہونے لگی۔‘‘(3)
اس سے اس بات کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے کہ مشکلات اور چیلنجوں کے مقابلے میں ایک مومن کوکبھی بھی مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اسے کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ان پر شجاعت اور جرأت سے غالب آجائے اور اسے کبھی بھی اس روحانی قوت سے خالی نہیں ہونا چاہیے جو اس سے یہ کہلواتی ہے کہ: ’’اگر اللہ کی مشیت میرے سامنے ظاہر ہوجائے تو اس کے فضل و کرم سے میں زمین کے مدار کو بدل سکتا ہوں۔‘‘
جی ہاں ، اگر مسلمان اللہ تعالیٰ کی توفیق اور قوت کی پناہ لے اور اس کا دل شجاعت اور جرأت سے بھرا ہو تو کوئی بھی ایسی مشکل نہیں جس پر وہ غلبہ نہ پاسکے۔
عشق اورشجاعت کو اجتماعی عقل کی پناہ میں ہونا چاہیے
عشق، شوق اور شجاعت جیسے اعلیٰ جذبات اگرچہ بڑی مشکلات کے حل میں اہمیت کے حامل ہیں لیکن ان کی اساس تزویراتی بنیاد پر حقیقی اور نہایت سنجیدہ فہم پر ہونی چاہیے اور ان کو اپنے مقام پر استعمال کرنا چاہیے اور ان کو مضبوط ا ور درست منصوبے سے جوڑا جانا چاہیے ۔ پس تم اپنے دل سے اٹھنے والی گرم اور مخلص سانسوں کے ذریعے ایسی روحانی کشش کے مالک بن سکتے ہو کہ اگر تمہارے رستے میں برف کے پہاڑ بھی آجائیں تو وہ ان کو پگھلا سکتی ہے لیکن صرف اتنی بات مشکلات کے حل کے لیے کافی نہیں کیونکہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دوسری جانب کو بھی اچھی طرح جان کر اس کی طاقت اور وسائل کا اندازہ کرکے اپنے منصوبوں کو اس کے مطابق تشکیل دینا ہوگا ورنہ آپ کی ساری فکری اور ذہنی کاوش فضول ضائع ہو جائے گی۔
اس بات کی اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب آپ کے گرد ایسے لوگ ہوں جو ایک دائرہ در دائرہ دشمنی اور عداوت کا اظہار کرتے ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک بہت بڑے مخالف محاذ سے دو بدو ہیں۔ اگرچہ ہر مخالف محاذ کے اپنے کام اور آپ کے خلاف تباہ کن اور خطرناک منصوبے ہوں گے، ان میں سے کچھ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں گے اور بعض ایک دوسرے سے جڑے ہوں گے ، ان باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ مزید احتیاط کرو اور زیادہ بیدار مغزی سے کام کرو کیونکہ دشمنی کے وہ تمام دائرے جو یک جان ہو کر تمہارخلاف صف آراء ہیں کسی بھی وقت اچانک اور غیر متوقع طورپر ہتھوڑے کی طرح تمہارے سر پر گرسکتے ہیں۔
اس رخ سے عشق، جذبہ، روحانی کشش، بہادری اور جسارت کو مکمل طورپر عقل و منطق کے تابع ہونا چاہیے۔ آپ اس کو ایسا توازن کہہ سکتے ہیں جو عمارت کا تقاضا ہے۔ فرض کریں اگر آپ ایک نرم اور کچی زمین پر کوئی عمارت کھڑی کریں تو معمولی سے جھٹکے سے ہر شے ڈھہہ جائے گی اور ختم ہو جائے گی اور آ پ کو خود بھی اپنے فعل کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اسی طرح آپ کو چاہیے کہ اپنی ان ساری کوششوں کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے اپنے جذبے اور کام کو
عقل و منطق کی چھتری تلے محفوظ کریں۔اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اجتماعی عقل سے اس کی حفاظت کریں کیونکہ ایسے لوگوں کاوجود جو مشکلات اور معاملات کو چند لوگوں کے ساتھ زیر بحث لاتے اور ان کے بارے میں مشورہ کرتے ہیں، ایسے چند نابغہ روزگار لوگوں کے وجود سے کئی درجے بہتر ہے جو اپنی عقل و منطق کے ذریعے دنیا کا جغرافیہ بدل سکتے ہیں۔
جب حق سبحانہ و تعالیٰ نے لوگوں پر اپنے فضل و کرم اور عنایت کو مشورے کے ساتھ جوڑ دیا ہے تو آپ لوگ اس اصول کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ : ’’ مَا خَابَ مَنْ اسْتَخَارَ، وَمَا نَدِمَ مَنْ اسْتَشَارَ“ (استخارہ کرنے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا اور مشورہ کرنے والا کبھی نادم نہیں ہوتا۔)(4)علاوہ ازیں فخر موجودات ﷺ نے کوئی بھی ایسا کام نہیں چھوڑا جس کے بارے میں مشورہ نہیں فرمایا یہاں تک کہ جب ایک منہ پھٹ اور بدطینت گروہ نے فرشتوں جیسی پاکیزہ ہماری ماں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف جھوٹی بہتان تراشی کی تو بھی آپ علیہ السلام نے (جو اپنی حیات طیبہ میں خواب میں کبھی خوفزدہ نہیں ہوئے) اس بارے میں اپنے کچھ اصحاب کرام سے مشورہ فرمایا۔ جی ہاں، آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی اور بعض دیگر صحابہ کے ساتھ اس خفیہ موضوع پر بات کی جو آپ کی زوجہ مطہرہ سے متعلق تھا تو ان تمام حضرات نے ایسی اچھی اور پاکیزہ رائے دی جس سے آپ علیہ السلام کی اپنی زوجہ مطہرہ عفیفہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں اس رائے کی تائید ہوتی تھی کہ وہ پاکیزہ اورعفت و عصمت کا نمونہ ہیں۔
حقیقت واقعہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کی تائید وحی سے ہوتی تھی اس لیے آ پ کو کسی بھی چھوٹے یا بڑے مسئلے کے بارے میں کسی سے مشورے کی ضرورت نہیں تھی ۔ اگر آپ اس کے خلاف سوچیں تو یہ بے ادبی ہوگی اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ وحی کے معنی اور مفہوم کو نہیں سمجھے کیونکہ اللہ جل جلالہ نے آپ علیہ السلام کو ساری زندگی کبھی اکیلا نہیں چھوڑا اورکبھی بھی آپ علیہ السلام کو ایسی حالت میں نہیں چھوڑا جس کو ناکامی یا مایوسی کا نام دیا جائے سکے۔ حاشا و کلّا بلکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ علیہ السلام کے ساتھ تھا جیسا کہ اس آیت کریمہ: ﴿إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا﴾ (التوبہ:40)(اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے)سے معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح آپ علیہ السلام نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ حفاظت اور معیت میں بسر فرمائی لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ معمولی ترین مسائل کو بھی مشورے سے حل فرماتے تھے اور آپ علیہ السلام نے اپنی امت کو بھی تعلیم دی کہ اسے کس طرح کا برتاؤ کرنا چاہیے اور اس کی رہنمائی فرمائی۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ عام لوگوں سے متعلق مشکلات اور معاملات کو خصوصی طورپر اجتماعی عقل اور اجتماعی سوچ کے ذریعے حل کرنا عبقری لوگوں کے فیصلوں سے کئی درجے بہتر اور اعلیٰ ہے۔
آپ جب اپنی ذمہ داریاں اور فرائض ادا کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ ایک مشکل کے مقابلے میں بھی’’ الف‘‘ سے لے کر ’’ے‘‘ تک متبادل منصوبے ترتیب دے سکیں گے لیکن اس سب کے باوجود ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ کو ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ جائے جو آپ کے حاشیہ خیال میں بھی نہ ہوں اور آپ نے کبھی ان کے بارے میں سوچا بھی نہ ہو۔ اس کے نتیجے میں آپ کے اندر جزوی ٹوٹ پھوٹ پیدا ہوسکتی ہے مگر ایسے وقت بھی ہمیں کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں یاس اور کمزوری کو اپنے دل کے اندر آنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے کیونکہ اس وقت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کے تمام ممالک میں بعض بنیادی اختلافات موجود ہیں جن کا منبع ظلم، حسد اور بغض ہے اور یہ اختلافات کسی بھی وقت ظاہر ہوسکتے ہیں۔ اس لحاظ سے بعض حالات میں آپ کی فکر جتنی بھی درست اور سوچی سمجھی ہو، آ پ کو غیر متوقع طورپر کئی منفی باتوں کے مجموعے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس لئے ایسے مواقع پر کبھی بھی مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور کبھی بھی ارادے کو شل کرنے والے منفی افایل اور آراء کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہیں مثلاً یہ کہنا کہ ’’ اس کے بعد کچھ نہیں ہوسکتا،ہم مغلوب ہوگئے ہیں۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ بقول حضرت بدیع الزمان: ’’مایوسی ہر کمال کو روک دیتی ہے۔‘‘
شاعر محمد عاکف بھی کہتے ہیں:
مایوسی ایک گہری دلدل ہے، اگر اس میں گر گئے تو ڈوب جاؤ گے
امید کو مضبوطی سے گلے لگاؤ پھر دیکھو دوست تمہاری حالت کیا ہوتی ہے
جو بھی شخص جیتا ہے وہ اپنے پختہ ارادے اور امید سے جیتا ہے
مایوسی اس روح اور ضمیر کو لوہے کی زنجیروں سے جکڑ دیتی ہے
مایوسی ذہن میں ایک ایسا ملعون عقدہ ہے جو کبھی حل نہیں ہوتا
اورمایوسی ایک خوفناک اور شریرسانپ کی طرح ہے
اس طرح وہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والی نظم کے آغاز میں مایوس ہونے والے کو مخاطب کرکے کہتے ہیں:
اے زندہ مردے! ہر سر کے دو ہاتھ ہوتے ہیں
چل اٹھ کھڑا ہو۔۔۔ کیونکہ تیرے پاس بھی ایک سر اور دو ہاتھ ہیں
نجات کے رستے سفر جاری رکھنے سے تمہارا ارادہ کیوں قاصر ہے؟
کیا تم بزدل ہو یا موت نے تمہاری امید کو ختم کرڈالا ہے؟
حاصل کلام یہ ہے کہ جن لوگوں کی عقل اور فکر میں کدورت آگئی ہے، ہو سکتا ہے وہ تمہاری زیادہ صاف اور پاکیزہ خدمات کو روکنے کی کوشش کریں اورترقی اور بہتری کے پہیے کو روکیں لیکن بہت سی سازشوں کے بعد بھی ناامیدی اور قنوطیت سے بچنا چاہیے۔ ہمیں کبھی بھی ڈگمگانا نہیں چاہیے بلکہ ہمیشہ الف کی طرح سیدھا اور ثابت قدم رہنا چاہیے اور ضروری ہے کہ ہمیشہ ایسے اسالیب اور رستے تلاش کیے جائیں جن سے احد ا ور حنین کو دوبارہ فتح میں تبدیل کیا جاسکے اور ایمان کے کعبہ و قبلہ کی طرف سفر جاری رہ سکے۔ اس سے لوگوں میں اس رستے پر اعتماد پیدا ہوگا اور ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے سامنے پیش آنے والی سازشوں سے گھبرائیں اور نہ مایوس ہو ں اور تمام رکاوٹوں اور بند رستوں کا مقابلہ اللہ پر توکل کے ذریعے کریں اور مختلف متبادل تلاش کریں کیونکہ انسان کو اس کی خواہش کے مطاق ہر چیز فوراً نہیں مل سکتی اگرچہ وہ راہ راست پر چلتا ہو اور اخلاص کے ساتھ اس کی طلب میں لگا ہو۔ اسی طرح ہم موجودہ آزمائشوں میں چھپی حکمتوں کو بھی نہیں جان سکتے البتہ ان آزمائشوں کے بعد حق تعالیٰ سابقہ احسانات سے کئی گناہ زیادہ احسانات کرسکتا ہے۔ اس لیے ہمیں صبر کے ساتھ انتظار کرنا چاہیے کیونکہ کتنی ہی صبحیں راتوں کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔
[1] السيوطي: الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 141/1.
[2] الواقدي: المغازي، 239/1.
[3] صحيح البخاري، الجهاد، 52؛ صحيح مسلم، الجهاد، 76.
[4] الطبراني: المعجم الأوسط، 365/6.
- Created on .