عید سے ملنے والے سبق
سوال: اسلام کے احکام کے مطابق عید کی خوشیوں کو گہرائی سے س کرنے اوران سے مستفید ہونے کے لیے آپ کیا تجویز فرماتے ہیں؟
جواب: اسلام میں عبادت کی ہر قسم یا ہر مسئلے کا اپنا ایک خاص مفہوم ہوتا ہے اور اس مفہوم کو گہرائی سے سمجھنے کا دارومدار سب سے پہلے کسی شخص کے ایمان اور اس کے بعد انسانی خواہشات کے خلاف اپنی قوت ارادی کو استعمال کرتے ہوئے تجدیدی کوشش کرنے پر ہے۔ اس لیے جو لوگ تسلسل کے ساتھ اپنے ایمان اور افکار کی تجدید کرتے رہتے ہیں وہ ہر شے کو تازہ محسوس کرتے ہیں۔ بالفاظ دیگر کسی شے کو تازہ محسوس کرنے کا تعلق اخلاص کے ساتھ ہے جیسے کہ ارشاد خداوندی ہے: ﴿اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَ يَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ﴾(ابراہیم:19)(اگر وہ چاہے تو تم کو نابود کردے اور (تمہاری جگہ) نئی مخلوق پیدا کرے) اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر زور دے رہا ہے جن کا رنگ خراب نہیں ہوتا اور جو نہیں اکتاتے، جو اپنی واقفیت کی وجہ سے نعمتوں کی برکت حاصل کرتے ہیں اور جو اپنے ایمان کی تازگی کو پوری گہرائی کے ساتھ ا پنی روحوں کے اندر محسوس کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے دوسرے مسائل جیسے رمضان یا عید کو قیمتی سمجھنے اور اچھی طرح ان سے مستفید ہونے کی بنیاد سب سے پہلے پختہ ایمان اور تسلسل کے ساتھ ایاتن کی تجدید ہے۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے بہت مشکل ہے جنہوں نے اسلام کو چند رسوم و رواج تک محدود کررکھا ہے جو انہوں نے عید کو نہایت خلوص کے ساتھ محسوس کرنے کے لیے اپنے آباؤ اجداد سے سیکھے ہیں۔
رمضان اور عید کے درمیان تعلق
اگرچہ اس روایت کے بارے میں کلام ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لاالہ الا اللہ کے ذریعے اپنے ایمان کو تازہ کرو‘‘(1) مگر اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کی مسلسل تجدید کرنی چاہیے خواہ وہ اوامر تکوینیہ میں ہو یا اوامر تشریہی1 میں اور اپنی زندگی کو ا پنے نفس کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کے لیے خالص ایمان کے ساتھ گزارناچاہیے۔ یہ مفہوم اس حدیث کے معنی کو بیان کرتا ہے جس میں آیا ہے کہ :’’جس شخص کے دو دن برابر ہوں وہ نقصان میں ہے۔‘‘(2) اس وجہ سے آدمی کے لیے اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ وہ ہر دن اپنی روحانی ترقی اور ایمان کی جمالیات کو بہتر کرے اور جو لوگ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں وہ رمضان اور عید کی حقیقت کو اس کے صحیح معنوں میں محسوس کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب جیسے کہ عیدالفطر میں پورے رمضان کا جو ہر موجودہوتا ہے اس لیے عیدالفطر کو اس کی پوری خوبصورتی کے ساتھ محسوس کرنے کا دارومدار کسی بھی شخص کی رمضان کے ساتھ موافقت پر ہے اور جن لوگوں میں رمضان کی گونج موجود ہوتی ہے صرف وہی عید سے بھی مطابقت رکھتے ہیں۔ جو دل رمضان کے ساتھ مطابقت پیدا کرلیتے ہیں وہ صرف اللہ پر ایمان کی وجہ سے پورے مہینے کو لگن کے ساتھ گزارتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی فرمانبرادی کی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے عبادت کرتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں، تراویح پڑھتے ہیں اور دیگراعمال بجا لاتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ کہتے ہیں: ’’اے اللہ! ہم نے رمضان کے مہینے میں عبادت کرنے کی کوشش کی لیکن ہمیں ڈر ہے کہ ہم نے اسے ضائع کردیا ۔ ہمیں معلوم نہیں کہ ہم روزہ اس طرح رکھ سکے یا نہیں جس کو آپ کے محبوب ﷺ نے جہنم کی آگ سے ڈھال قرار دیا ہے اور یہ مہینہ اس ڈھال کے پیچھے کھڑا ہے یا نہیں۔‘‘
ایک طرف وہ اس بات پر غمگین ہوتے ہیں کہ وہ شاید رمضان کا حق ادا نہیں کرسکے جبکہ دوسری طرف وہ عید کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے مغفرت کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور امیدوں سے بھر جاتے ہیں۔
عید: ذکر اور شکر کا میدان
عیدکے دن وقت کا وہ جادوئی حصہ ہیں جب اللہ کے بندوں پر رحمتوں اورعنایتوں کی بارش ہوئی ہے اور اس کے مقابلے میں جو کام مطواب ہے وہ یہ کہ اللہ کی ان رحمتوں کا جواب حمداور شکر کے جذبات اور جوش سے دیا جائے۔ ورنہ یہ بات درست نہیں کہ عید کے دنوں کو صرف خوشی کا موقع بنا دیا جائے کیونکہ ان میں سے ہر ایک حق تعالیٰ کی جانب سے مغفرت کا ایک موقع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان بابرکت دنوں میں دل اور جذبات کی ان کے اخروی اور ماوراء الطبیعیاتی رخ سے نگرانی کی جائے۔ حضرت بدیع الزمان: ’’اٹھائیسویں شعاع‘‘ میں اس جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’۔۔۔۔۔۔اس وجہ سے آنحضرت ﷺ نے عیدین کے موقع پر اللہ تعالیٰ کا ذکر اور شکر کرنے کو بڑا پسند فرمایا ہے تاکہ غفلت انسان کو دین میں ممنوع کاموں کی طرف نہ لے جائے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور شکر ان دنوں کی خوشیوں کو ثواب اور اجر میں بدل دے جس سے نعمتوں میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ شکر نعمت کو بڑھاتا ہے اور غفلت اسے تباہ کردیتی ہے۔‘‘
جائز حدود کے اندر عید کی رسومات
حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ یا آپ علیہ السلام کے بدں کے زمانے میں (آج کی طرح) ایسی کوئی سرگرمیاں نہیں ہوتی تھیں جو عید کے لیے دین کی مقرر کردہ حدود سے متجاوز ہوں۔ مثلاً اسلام کے ابتدائی دور میں سیر سپاٹے کے لیے جانے ، تہوار منانے ، آتشبازی کرنے یا بڑوں سے عیدی لینے کی نیت سے تمام بڑوں اورچھوٹوں کے پاس جانے کا کوئی رواج نہ تھا۔ البتہ جب ترکوں نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے دین کی بیان کردہ حدود کے اندر اپنی رسوم کو جاری رکھا اور ایسی بہت سی رسموں کو باقی رکھا جو دین سے نہیں ٹکراتی تھیں ۔ اس لیے بعض رسومات جیسے (احترام کے اظہار کے لیے ) بڑوں کے ہاتھ چومنا، رشتہ داروں کے ہاں جانا اور خندہ پیشانی سے لوگوں کا استقبال کرنے جیسی رسمیں آج تک جاری و ساری ہیں کیونکہ وہ ضروریات دین یا دین کی بنیادی تعلیمات کے خلاف نہیں۔
ہم آہنگی کی ایسی فضا سب کو گلے لگاتی ہے
چونکہ عید کے دن زمانے کا رحمت اور برکت و الا حصہ ہیں جہاں اعمال پر اجر نہایت سخاوت سے ملتا ہے، اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ان کا ہر ہر لمحہ دوستی، محبت، برادرانہ اور خواہرانہ تعلقات اور نیک کاموں میں صرف کیا جائے۔ مثلاً عید کا وہ خوبصورت ماحول جو سب کو گلے لگاتا ہے اسے تلخ جذبات کو مٹانے اور لوگوں کو قریب لانے، بڑوں سے ملاقات کرکے ان کا دل جیتنے ،بچوں کوتحفوں اور اچھے الفاظ سے خوش کرنے اور غیر مسلموں سے بھی پرامن ماحول میں تعلقات بنانے اور جمود کو توڑنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دین و مذہب کے احترام اور وہ حقیقت جس کی نمائندگی آنحضرتﷺ فرما رہے ہیں اس کا اپنا ایک الگ مقام اوراہمیت ہے۔ دوسری جانب احسن تقوم کا نمونہ اور انسان ہونے کے لحاظ سے انسان کا جوہر بھی احترام کا مستحق ہے خصوصاً اس وقت جب ظلم بری طرح پھل رہا ہے، انسانوں کے خلاف بم استعمال ہورہے ہیں اور انسانوں کے بنائے ہوئے وائرس حیاتیاتی ہتھیار وں کی صورت میں استعمال ہورہے ہیں، ایسے میں انسانیت کو ایسے امن کی شدید ضرورت ہے جس کی بنیاد فہم پر ہو۔ انسانیت کو مہلک موجوں کے ٹکراؤ کی وجہ سے ہلاکت سے بچانے اور ٹکراؤ کو روکنے کے لیے بند باندھنا ضروری ہے۔
آنحضرت ﷺ اور آپ کے بعد کے زمانوں میں اس قسم کی سرگرمیوں کا وجود نہیں تھا۔ اس لیے مذہبی حوالہ جات میں ان کا ثبوت نہ ہونا اس بات میں مانع نہیں ہے کہ ہم ان بابرکت دنوں کو نیک نیتی کے اظہار کے لیے کچھ سرگرمیاں منعقد کرنے کے لیے کام میں لائیں۔ ان بابرکت راتوں کے لیے ’’شب قندیل‘‘ سے زیادہ مقدس کوئی اور سرگرمیاں نہیں ہوسکتیں۔ ان راتوں کے لیے کوئی مخصوص عبادت بھی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان راتوں کو لگن کے ساتھ نماز، تلاوت، تسبیحات اور اللہ تعالیٰ سے دعا میں گزارنا چاہیے ۔ چونکہ یہ قیمتی دن لفافوں کی طرح ہیں اس لیے وہ اپنے اندر کئے جانے والے اعمال کی قیمت میں اضافہ کردیتے ہیں۔ یہی بات (یعنی خاص وقت کی قیمت ) جگہ پر بھی صادق آتی ہے۔ مثلاً آپ اللہ کے حضور کہیں بھی نماز پڑھ سکتے ہیں مگر عرفات کی نماز انسان کو عملی طورپر اس طرح پاک کر دیتی ہے جس طرح وہ اپنی پیدائش کے دن معصوم تھا۔ اگر اس کے بعد کچھ دھبے باقی رہ جائیں تو مزدلفہ ان کو صاف کردیتا ہے۔ ایسے ہی طواف کعبہ کا مطلب ایک اور طرح کی پاکیزگی ہے۔ جیسے کہ یہ بات سامنے نظر آرہی ہے، اسی کو ’’مقام‘‘ کا لفافہ سمجھا جاتا ہے جو اعمال کی قیمت میں زبردست اضافہ کرتا ہے۔ اس بارے میں اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ کچھ بابرکت مقامات اور اسلامی کیلنڈر کے کچھ بابرکت اوقات میں اللہ تعالیٰ سے رجوع کیا جائے اور ان اوقات کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر محبت، بھائی چارہ اور انسانیت کے لیے استعمال کیا جائے۔
(1) الحکیم الترمذی، نوادرالاصول،204/2(لاالہ الااللہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں)
(2) علی المتقی، کنزالعمال،214/16،نمبر44266
- Created on .