معمول کی زندگی اور معاشروں کی عمریں
سوال: کیا کسی چیز کے معمول بن جانے سے پیدا ہونے والا اندھا پن وقت گزرنے کے ساتھ ان عظیم کاموں کو بھی بعض لوگوں کی نظر میں معمول اور روزمرہ کے کاموں میں بدل دے گا جو ’خدمت‘ نے اللہ کے رستے میں انجام دئے ہیں؟ ایسا ہونے سے بچنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟
جواب: جو لوگ انسانیت کو خوش کرنے اور دنیا کے گوشے گوشے میں خوشی کی ہوائیں چلانے جیسے عظیم مقصد کے گرد جمع ہوئے اور اپنے خوابوں اور افکار کو پورا کرنے کے لئے مسلسل کوششیں کیں اور کر رہے ہیں اور یہ بات بھی واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں میں برکت ڈالی اور ان کا پھل آیا، پھر اللہ نے اپنے لطف اور انعام کی بارش سے ان کو دوگنا کر دیا اور ان کو اس راہ حق پر چلنے کی توفیق دی لیکن ان کامیابیوں کا تسلسل جو اللہ کی عنایت کا ایک نتیجہ ہے، اخلاص اور سچائی اور اس مثالی سوچ کے ساتھ چمٹے رہنے کا مرہون منت ہے جو اس کام کا محور ہے کیونکہ (خدا نخواستہ) اگر ہم سر سے پاؤں تک اپنے اوپر ہونے والی اللہ کی نعمتوں سے غافل ہو جائیں اور جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ان کو اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے وسائل کو مقصد کی جگہ رکھیں تو ہم بھی اس پستی کا شکار ہوں گے جو دیگر معاشروں کو پیش آئی۔ اگر ہم مختلف زمانوں میں اسلامی معاشروں کے نقصانات کے اسباب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان کا ان فکری لغزشوں سے گہرا تعلق ہے۔
کامیابیوں میں اللہ کی عنایت کا اعتراف ضروری ہے
مزید وضاحت کے لئے ہم کہتے ہیں کہ ’خدمت‘ کے فداکار لوگ جنھوں نے دنیا کے کونے کونے کی جانب ہجرت کی، ان کو اپنی کوشش سے زیادہ اللہ کی توفیق حاصل ہے کیونکہ ان میں سے کسی نے بھی اپنی جان کو اس طرح خطرے میں نہیں ڈالا جس طرح صحابہ کرام نے غزوہ تبوک میں ڈالا اور نہ ان میں سے کسی کو غزوہ یرموک کے ابطال جیسا کوئی معرکہ پیش آیا لیکن اس کے باوجود وہ جہاں گئے ان کو توجہ ملی اور ان کی خدمات کی وجہ سے ان کو احترام ملا حالانکہ ان کے دلوں میں انسانیت کا غم اس درجے تک نہیں پہنچا کہ وہ اپنے گھروں کا رستہ اور گھر کے افراد اور اپنے بچوں کے نام بھول جائیں۔۔۔۔۔۔ مگر یہ حقیقت ایسی ہے کہ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہجرت کے مقامات پر ’خدمت‘ کے فداکاروں کی کوششیں اللہ تعالیٰ کے لطف وکرم سے عالمی سطح پر بڑی بڑی کامیابیوں کا ذریعہ بن رہی ہیں لیکن ان خدمات کے پیچھے کارفرما اللہ کی رحمت وعنایت سے چشم پوشی کر کے ان تمام خوبصورت کاموں کو اپنی جانب منسوب کرنا اور پھر یہ سمجھنا کہ جو نظام اور ترتیب اللہ کی عنایت اور لطف سے قائم ہو چکی ہے، وہ مطلوبہ اسلوب کے بغیر بھی قائم رھے گی، اس کا مطلب خطرناک اور حقیقی اندھاپن اور اس کام کو روز مرہ کا معمول سمجھنا ہے۔
کامیابی کے وقت اللہ تعالی کی نعمت کو بیان اور اس کی جانب رجوع کرنے کی ضرورت
جی ہاں، روزمرہ کے معمولات کا اندھا پن انسان کے اندر مختلف میدانوں میں کوئی بھی کامیابی حاصل کرنے سے پیدا ہوتا ہے جیسے کسی خاص منصب یا عھدے تک پہنچنا، کسی ادارتی نظام کو مکمل کرنا اور کوئی درست اور مضبوط نظام قائم کرنا وغیرہ۔ علاوہ ازیں جو لوگ اس روزمرہ اور اندھے پن کا شکار ہوتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ کسی سازش یا اللہ کی جانب سے استدراج کا بھی شکار ہو جائیں کیونکہ وہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اپنی جانب منسوب کرتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ اپنے اوپر ہونے والی اللہ کی نعمتوں کے بیان اور ان کامیابیوں پر اللہ کی حمد وثنا کرنے کی بجائے غرور اور تکبر کی کھائی میں گر سکتے ہیں۔ یہ سارے امور انسان کو سر کے بل گرانے کے اسباب ہیں۔
جیسا کہ علماء اور سماجی مورخین کہتے ہیں کہ کچھ خاص کامیابیاں حاصل کرنے والی اکثر قومیں کچھ عرصے تک روزمرہ کے معمول اور اندھے پن کی کیفیت میں رہتی ہیں البتہ اس کے درجات فتح کے نشے کی نسبت سے مختلف ہوتے ہیں۔ ایسی صورت حال معاشروں کا شیرازہ بکھرنے کا باعث بنی اور وہ گہری کھائیوں میں گر گئے۔ اس لئے جب ہم رومی، بیزنطینی، سلجوقی اور عثمانی سلطنت کے سقوط کے اسباب تلاش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب کا انجام ایک جیسا ہوا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے ہمارے زمانے میں بھی عالمی سطح پر وزن رکھنے والی بعض طاقتیں بھی ایسے ہی مرحلے میں داخل ہونے لگی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم اس بات کا درست تجزیہ کرتے ہیں تو ایک مسلمہ نتیجے پر پہنچتے ہیں اور وہ یہ کہ جن ممالک نے دنیا میں خاص مقام پر قبضہ کیا اور کچھ کامیابیاں حاصل کر لیں تو اس کے بعد وہ روزمرہ کے اندھے پن کا شکار ہوئے اور پھر بکھر گئے۔
لوگوں کو اعلیٰ اہداف کی جانب متوجہ کرانے اور ایسے کاموں میں لگانے کی ضرورت جن سے وہ اہداف حاصل ہو سکیں
معاشرے کو اس قسم کے اندھے پن اور روزمرہ کا عادی ہونے سے بچانے کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کو اعلیٰ اہداف کی جانب متوجہ کیا جائے اور ایسے کاموں میں لگایا جائے جن میں وہ مسلسل مصروف رہیں تاکہ کام میں جتے رہیں اور سوچنے والے دماغوں اور ساری کائنات کو اپنے اندر سمو لینے والی روح اور ضمیر کے ساتھ حرکت کریں اور ان کو چاہئے کہ وہ روحانی طور پر بھی مضبوط رہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر لوگ اعلیٰ مقاصد اور ان کو حاصل کرنے کے لئے مفید کاموں میں مشغول نہیں ہوں گے تو شیطان ان کو باطل میں لگا دے گا۔
حالات اور ثقافتی ماحول کے مطابق خدمت کے اسلوب کو ترقی دینا
دوسری طرف تم پر لازم ہے کہ دنیا میں پھیلے ہوئے مختلف تہذیبی ماحولوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان میں مشترک امور سے اچھی طرح فائدہ اٹھائیں اور اتحاد کے نقاط کو خوب متعین کر لیں اور اس کے بعد ان خدمات میں لگ جائیں جو پیش کرنا چاہتے ہیں اور روزمرہ کی ترتیب کے اندھے پن سے بچنے کے لئے حالات کے مطابق نئے نئے طریقے اور اسلوب تلاش کریں ورنہ خطرہ ہے کہ آپ بھی کمزوری، زوال اور تباہی کا شکار ہو جائیں گے۔
نفس اور دنیا کی محبت کے دروازے بند کریں
مندرجہ بالا باتوں کے علاوہ، جو لوگ یہ کام کرنے پر کمر بستہ ہیں ان کو چاہئے کہ نفس اور دنیا کے دروازے بند کر دیں اور پیچھے سے درجنوں کونڈیاں لگا دیں اور جب بھی کوئی ان کو دنیا اور اس کی لذتوں کی جانب بلائے تو اس کو جواب دیں کہ: ’’اپنے آپ کو فضول مت تھکاؤ کیونکہ سارے دروازے بند ہیں!‘‘ بلکہ ان کو چاہئے کہ صرف دنیاوی ہی نہیں کسی اخروی چیز کی بھی تمنا نہ کریں اور صرف اللہ کی خوشنودی تلاش کریں اور زندگی حضرت بدیع الزمان کے فلسفے کے مطابق گزاریں کہ:’’اگر میں دیکھوں کہ ہماری قوم کا ایمان بھلائی اور سلامتی میں ہے، تو میں جہنم کے شعلوں میں جلنے پر راضی ہوں کیونکہ جس وقت میرا جسم جل رہا ہوگا، میرا دل فرحت وسرور سے جھوم رہا ہوگا‘‘۔ (۱)
قلب و روح کے مدار میں گردش
جو لوگ کاموں کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں وہ جلد یا بدیر اپنا جذبہ کھو کر روحانی طور پر مر جائیں گے جبکہ جن لوگوں نے اپنی ذات کو مٹا دیا انھوں نے معاملات کو اللہ تعالی کی قدرت اور طاقت کے حوالے کر دیا اور اسی کی قدرت اور طاقت کی پناہ میں آ گئے اور جو شخص اللہ تعالی کی قدرت اور طاقت کی پناہ میں آئے گا وہ ساری مشکلات سے پار ہو جائے گا اگرچہ وہ آسمان اور جوزا تک کیوں نہ پہنچی ہوں کیونکہ اس کا بھروسہ ابدی اور ہمیشہ رھنے والی قدرت اور طاقت پر ہے لیکن اس کے باوجود اللہ کی راہ میں کام کرتے ہوئے وہ تھکتا ہے اور نہ اس کی قوت اور طاقت میں کوئی کمی ہوتی ہے۔
اس وجہ سے جو لوگ معاشرے کی اگلی صفوں میں ہیں ان کو اپنی سرگرمی اور طاقت کو برقرار رکھنا چاہئے تاکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بھی چستی اور طاقت مہیا کر سکیں جبکہ جو لوگ قلب وروح کے مدار میں نہیں چلتے وہ دوسروں کے احیاء کا ذریعہ نہیں بن سکتے۔ اسی طرح جو لوگ چستی اور سرگرمی کھو کر روحانی زوال کا شکار ہوتے ہیں، ان کا اپنی ذات کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا تو دوسروں کے لئے ان کی ذات میں کیا بھلائی ہوگی کیونکہ قاعدہ ہے کہ:’’جو خود محروم ہو وہ دوسرے کو کیا دے گا ‘‘ اس لئے وہ دوسروں کو کیا زندگی، عشق اور جذبہ دے سکیں گے۔ خاص طور پر جو لوگ نفس، مال، اولاد کی محبت اور خوف اور عیش وعشرت میں مبتلا ہیں اور جو اپنے مناصب کو قوم کے کچھ وسائل کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں، ان کے لئے دوسروں میں زندگی کی روح پھونکنا ناممکن ہے۔
مسلسل کام اور ایک کے بعد ایک جد وجہد! ۔۔۔۔۔
اسلام کے آغاز سے لے کر خلفائے راشدین کے عہد میں بھی لوگ ہمیشہ جہاد میں مصروف رہتے تھے۔ کبھی جہاد اکبر سے جہاد اصغر کی جانب اور کبھی جہاد اصغر سے اکبر کی جانب۔ اس لئے انھوں نے اپنے اندر چستی اور نشاط کو برقرار رکھا اور بے مثال فتوحات حاصل کیں۔ ان کے پاس دنیائے فانی کے سامان میں سے سے کچے گھروں کے سوا کچھ نہ تھا لیکن اس کے باوجود وہ افق جیسے وسیع اور عظیم لوگ اللہ کی عنایت سے دنیا کے کئی علاقے آباد کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس لئے معمولات کے اندھے پن سے نکلنے اور اس پر قابو پانے کا واحد رستہ اس اسلوب کا ادراک ہے جو صحابہ کرام نے پیش کیا اور اس کے بعد ایسی نسلوں کی پرورش کرنا جو اعلیٰ مقصد کو اس اسلوب کے مطابق اپنائیں۔
معاشروں کی عمر بڑھانے کی قدرت
معاشروں کو موت سے بچانے کے لئے صرف ان نصائح اور تدابیر پر عمل کافی نہیں ھے کیونکہ معاشروں کی موت بھی اسی طرح یقینی ہے جس طرح انسانوں کی اور زمانہ قدیم میں کسی بڑے آدمی نے اطباء کو ان الفاظ سے مخاطب کیا جن میں تنبیہ اور توبیخ بھی تھی کہ: ’’کیا تم موت کا کوئی حل نہیں تلاش کر سکتے!؟‘‘ جبکہ حق یہ ہے کہ موت کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت کو پیدا فرمایا ہے اور دنیا میں موت کو ختم کرنا ناممکن ہے۔
نبی اکرم ^ نے موت کے انجام کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ يُؤْتَى بِالْمَوْتِ كَهَيْئَةِ كَبْشٍ أَمْلَحَ، فَيُنَادِي مُنَادٍ: يَا أَهْلَ الجَنَّةِ، فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ، فَيَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، هَذَا المَوْتُ، وَكُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ، ثُمَّ يُنَادِي: يَا أَهْلَ النَّارِ، فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ، فَيَقُولُ: وهَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، هَذَا المَوْتُ، وَكُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ، فَيُذْبَحُ ثُمَّ يَقُولُ: يَا أَهْلَ الجَنَّةِ خُلُودٌ فَلاَ مَوْتَ، وَيَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ فَلاَ مَوْتَ“[2] (موت کو ایک خوبصورت مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور ایک صدا دینے والا صدا دے گا: اے جنت والو، تو وہ سر اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگیں گے۔ پھر وہ ان سے پوچھے گا: کیا تم اس کو جانتے ہو؟ تو وہ جواب دیں گے: جی ہاں یہ موت ہے اور سب اس کو دیکھ چکے ہوں گے۔ اس کے بعد وہ آواز دے گا: اے دوزخ والو! تو وہ بھی سر اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے۔ پھر وہ ان سے پوچھے گا: کیا تم اس کو جانتے ہو؟ تو وہ جواب دیں گے: جی ہاں یہ موت ہے اور سب اس کو دیکھ چکے ہوں گے۔ اس کے بعد اس کو ذبح کیا جائے گا اور وہ آواز دینے والا آواز دے گا: اے جنت والو، ہمیشہ کی زندگی ہے اب موت نہیں، اے جہنم والو، ہمیشہ کی زندگی ہے، اب موت نہیں) جبکہ کتاب وسنت میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی ’’المحیی اور الممیت‘‘ کا ایک ساتھ ذکر اس حقیقت کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ یعنی جس طرح اللہ تعالی نے موت کو پیدا کیا ہے اسی طرح اس نے زندگی کو بھی پیدا فرمایا ہے اور قرآن کریم کے الفاظ میں اللہ وہ ذات ہے ﴿الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الملک:۲) (اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ کون تم میں اچھے کام کرتا ہے)۔
اس سے معلوم ہوا کی دنیا میں موت ایک حتمی اور عام حقیقت ہے لیکن معاشروں کے ٹوٹ پھوٹ، زوال اور بکھرنے کے لئے مقدر معلوم ہونے والے مظاہر کو مذکورہ بالا عوامل کی رعایت رکھتے ہوئے کچھ وقت کے لئے موخر کیا جا سکتا ہے جیسے کے عثمانیوں کے ساتھ ہوا۔ اگرچہ انھوں نے اپنے زمانے کا کچھ حصہ اوج کمال پر، کچھ مکمل انجماد کی حالت میں اور کچھ نہایت ناگفتہ بہ حالت میں گزارا لیکن اس کے باوجود اتنا عرصہ میدان میں رہے جو دوسروں کو بہت کم نصیب ہوا ہے۔ اسی لئے کمزوری اور انجماد کی حالت میں بھی عالمی توازن کے قیام میں ایک اہم عنصر کا کردار ادا کرتے رہے۔
[1] بديع الزمان سعيد النُّورسي: سيرة ذاتية، ص 492.
[2] انظر: صحيح البخاري، التفسير، 1/19؛ صحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، 40.
- Created on .