علم سیاست قرآن وسنت کے نقش قدم پر
سوال: بعض لوگ اپنے بعض ناجائز کاموں اور خلاف حقیقت بیانات کو ’’علم سیاست‘‘ کے عنوان سے جائز قرار دیتے ہیں۔ علم سیاست کیا ہے؟ اور مسلمان کو سیاست کس طرح کرنی چاہئے؟
جواب: سیاستکا مطلب ہے انتظام چلانا اور ’’انتظام‘‘ کا لفظ دو معنوں میں مستعمل ہوتا ہے:
اول: کسی نظام یا جماعت یا ادارے کو اس کے مخصوص قواعد کے تحت منطقی انداز میں چلانا۔
دوم: مدارات اور اس کا مطلب ہے سفارتکاری کے ذریعے اچھا برتاؤ اور دیگر جائز وسائل کو استعمال کرنا اور دشمنوں کی تکالیف پر بھی صبر کرنا اور ان کے شرور اور نقصانات سے بچنے کی کوشش کرنا۔ اس بارے میں حافظ شیرازی کہتے ہیں:
آسائش دو گیتی تفسیر این دو حرف است
با دوستان مروت با دشمناں مدارات
(دونوں جہانوں کی راحت اور سلامتی دو چیزوں میں ہے: دوستوں کے ساتھ مروت اور انصاف سے رہنا اور دوسرا دشمنوں سے معافی اور خلوص کا برتاؤ)
پس دوستوں کے ساتھ مروت کے سلوک کا مقصد ان کا احترام، ان کے ساتھ احسان، ان سے محبت اور حقیقی انسانی جذبات کے ساتھ ان کو سینے سے لگانا ھے۔ چونکہ انسان احسن تقویم میں پیدا ہونے والا دلکش اور حیران کن محل ہے، اس لئے اس کا احترام اور اس کے ساتھ انسانیت کا سلوک کرنا ضروری ہے اور جس طرح اسلام نے انسان کا احترام اور تکریم کی ہے، آج تک کوئی بھی تحریک اس طرح احترام کر سکی ہے اور نہ اس احترام کو روزمرہ زنگی میں نافذ۔
مدارات اور تقیہ میں فرق
دشمنوں سے مدارات کا مطلب ہے ان کے ساتھ چالاکی اور انہیں چلانا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ بلا ضرورت مختلف جھگڑوں اور فرضی امور کے ذریعے ان کے جذبات کو نہ بھڑکانا اور سفارتکاری کو اچھی طرح استعمال کرنا اور جس قدر ممکن ہو سکے جانب مخالف کے ظلم و ضرر سے اچھی ترکیبوں کے ذریعے بچنے کی کوشش کرنا۔ یعنی دشمن کے ساتھ تعلقات میں آپ ایسا طریقہ اپنائیں کہ ایک طرف تو اس سے بھڑنے سے بچ جائیں اور دوسری طرف اس کی جانب سے آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچنے پائے۔ جیسا کہ بالکل واضح ہے کہ یہ سوچ ’’تقیہ ‘‘ سے بہت مختلف ہے جس میں صراط مستقیم سے بھٹکا ہوا ایک مذہب مبتلا ہے اور بڑی گمراہی میں پڑا ہے کیونکہ وہ تقیہ کی خاطر دوسروں سے جھوٹ بولنے، ان کو دھوکہ دینے اور گمراہ کرنے کو جائز قرار دیتا ہے جبکہ مدارات کا مطلب صبر، استقامت، عقل اور سفارتکاری کے ذریعے دشمن کے ضرر سے بچنا ہے۔
جی ہاں، جب سفارتکاری کے ذریعے حل ہو سکنے والی مشکلات کو حل کرنے کے لئے ظالمانہ قوت استعمال کی جائے، دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے اچھی پالیسی نہ اپنائی جائے اور سلطنت عثمانیہ کے سادہ لوح اتحادیوں کی طرح مادی جنگ کا سہارا لیا جائے تو اس سے ملک ایسی بند گلی میں داخل ہو سکتا ہے جہاں سے واپسی کا کوئی رستہ نہ ہو اور ٹوٹ سکتا ہے کیونکہ اتحادیوں نے روسیوں کے ساتھ جنگ میں الجھ کر سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے۔ اس لئے جب ہم مدارات کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے ایک ایسا ادارتی اور سیاسی نظام اپنانا جو ملک کو ایسے خطرات سے دو چار ہونے سے بچانے کے لئے ضروری ہو۔
سیاست کو دہوکے کا فن سمجھنے والی سوچ
آج جب سیاست کا نام لیا جاتا ہے ذہن میں سب سے پہلے اس کا یہ مطلب آتا ہے کہ: سیاست سے مراد وہ کام ہے جو وہ لوگ انجام دیتے ہیں جو سیاسی جماعتیں بناتے اور معاشرے کو چلاتے ہیں ۔۔۔۔ لیکن علم سیاست کا تعلق صرف ریاست کو چلانے سے نہیں کیونکہ ہر انسان کا اپنا سیاسی اور ادارتی اسلوب ہوتا ہے جو اسے اپنی ذاتی، خاندانی اور معاشرتی زندگی میں اپنانا پڑتا ہے اور اگر اس میں وہ کوتاہی کرے تو اس کئ زندگی میں اضطراب پیدا ہو جائے گا اور بالکل الٹ جائے گی لیکن مسلمان آدمی جو سیاسی اسلوب اپنائے گا اسے شریعت کے اصولوں اور قوانین کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ اس لئے یہ بات بیان کرنا ضروری ہے کہ سب سے چھوٹے دائرے سے لے کر ریاست کو چلانے تک ایسا کوئی بھی کام، تصرف اور برتاؤ جو مسلمان کی شناخت کے لائق نہ ہو، اس کا علم سیاست ہونا نا ممکن ہے۔
بطور مثال کہہ سکتے ہیں کہ: ریاست کے کچھ اہداف ہوتے ہیں، مثلا بین الاقوامکی سطح پر ایک مقام بنانا اور پھر اس کو برقرار رکھنا اور دوسرے ممالک کو اس کی منظوری کے بغیر کوئی کام کرنے کی اجازت نہ دینا۔ اس لئے اگر وہ ریاستیں قانون کی مخالفت کرتی ہوں اور دوسری ریاستوں پر ان اھداف کو پورا کرنے کے لئے مختلف طریقوں سے فضول دلائل کی بنیاد پر دنیا کے مختلف علاقوں کے قدرتی وسائل کو اپنے کام میں لا کر ظلم واستبداد اور جبر کرتی ہوں، اپنے اوپر حملے کا بہانہ بنا کر ان پر حملہ آور ہوتی ہوں، ان کے خلاف حقیقی ظلم کرتی ہوں، وہاں کے لوگون کو ان کی فکری اور روحانی بنیادون سے دور کرتی ہوں اور ان کی شناخت کو مٹانے کے درپے ہوں تو اس کو سیاست نہیں کہا جاتا۔ اگر ایسی سیاست کو کوئی نام دینا ضروری ہو تو اسے ’’بے ضمیر اور غلط ریاست کی دہشتگردی‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ ہم اپنے ارد گرد بعض ایسی ریاستین دیکھ رہے ہیں جو اپنی حالت کو برقرار رکھنے کے لئے اس طرح کی ناجائز پالیسیاں اپناتی ہیں۔ اسی طرح ملک کے اندر حکومت کرنے والے بعض لوگ بھی اپنے مستقبل اور راحت کی حفاظت کے لئے اس طرح کی قانونی خلاف ورزیوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اس لئے وہ صرف اپنی نہیں بلکہ اپنے آل اولاد کے مستقبل کے لئے مال جمع کرتے ہیں اور ہمیشہ اپنے لوگوں کو سرکاری اداروں کا سربراہ بناتے ہیں، دوسری کے زندگی کے حق کو بھی نہیں مانتے اور حقائق اس لئے توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں کہ عوام کے کچھ گروہ ان سب برائیوں کو قبول کر لیں۔ اس لئے کبھی جھوٹ بولتے ہیں، کبھی نیک نیتی کی بات کرتے ہیں، کبھی وہ اپنے ان مظالم کو سیاسی ضرورت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی یہ ثابت کرنے کے لئے اپنے ظلم کا شکار ہونے والوں کی کردار کشی کرتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں لیکن یہ مظالم ڈھانے والے جتنا بھی دین اور ایمان کی باتیں کر لیں اور دیندار اور اسلام کے قافلے میں سر فہرست نظر آئیں، وہ سیاست کے اس رستے سے بالکل دور ہیں جس پر نبی اکرم ^ اور خلفائے راشدین چلتے رہے۔
ظلم کو جواز کا جامہ پہنانے کی کوشش
ان تمام امور کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے ناجائز کام بھی ہیں جو اس طرح کئے جا رہے ہیں جیسے بالکل جائز اور درست ہوں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کسی مسجد میں خطیب ہے لیکن وہ سبکدوش ہونے کے بعد وہاں اپنے کسی عزیز کو لگانا چاہتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس کا رشتے دار وعظ کرنے کا زیادہ مستحق ہے اور اس طرح اپنے بعد اس کی تعیناتی کے لئے وہ اس سلسلے میں ملازمت کے سارے قوانین بھول جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کے وہ غیر شعوری طور پر ایک ناجائز رستے پر چل پڑا ہے۔ بالفاظ دیگر اس کا مطلب جائز ہدف تک رسائی کے لئے ناجائز رستہ استعمال کرنا ہے۔
یہی مثال ان بعض لوگوں کی ہے جو سرکاری اداروں پر قابض ہوتے ہیں۔ پس جس وقت وہ عوام کا مال چراتے ہیں، اپنی تجوریان بھرتے ہیں اور ناجائز طریقوں سے کمایا جانے والا مال دوسرے ملکوں کے بنکوں میں ذخیرہ کرتے ہیں۔ شاید وہ یہ کام کرتے ہوئے یہ کہتے ہوں گے کہ ’’ہمیں طاقتور ہونا چاہئے اور ہمیں آج دستیاب وسائل کو کل کے لئے ذخیرہ کرنا چاہئے تاکہ جب یہ وسائل منقطع ہونے کی صورت میں کام چل سکے اور آج ہم اتنی بچت کر لیں کہ کل کو اگر ہماری جماعت کو کوئی مشکل پیش آ جائے تو دوبارہ اٹھ کھڑا ہونا ممکن ہو‘‘۔
بظاہر معصوم نظر آنے والے ان افکار پیچھے ان لوگوں کے تصرفات پوشیدہ ہیں جو اس ملک غداری کی حد تک نقصان پہنچا رہے ہیں۔ چونکہ یہ افکار معصوم نظر آتے ہیں اس لئے بعض دیندار لوگ بھی ایسے رستے استعمال کر سکتے ہیں لیکن یہ کھلی گمراہی اور امانت میں زبردست خیانت ہے اور جو لوگ ان رستوں پر چلتے ہیں انھوں نے بذات خود غیر شعوری طور پر ایسی بد عنوانیوں اور رذائل کو دعوت دے ڈالی ہے جو مستقبل میں ان کو درپیش ہوں گے۔
اگر یہ لوگ یا ان کے حامی گروہ ان تمام امور کو سیاسی طور پر ضروری سمجھتے ہیں اور ان کو علم سیاست کا نام دیتے ہیں تو وہ دھوکے اور شدید گمراہی کا شکار ہیں کیونکہ سیاست کو اخلاق کے چوکھٹے سے باہر نہیں نکلنا چاہئے بلکہ سب سے پہلے اسے دینی اصولوں کا تابع ہونا چاہئے جبکہ مسلمان سیاستدان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ رسول اکرم ﷺ اور آپ کے ورثا کے نقش قدم پر چلے کیونکہ فخر انسانیت ﷺ اور آپ کے حقیقی ورثا ہمیشہ حلال اور حرام کی فکر میں مگن رہے اور کبھی ایک قدم بھی ناجائز نہیں چلے۔ اس لئے انتہائی حساسیت کے ساتھ کام کرنا چاہئے کہ اگر مقصود جائز ہے تو اس کے ذرائع بھی جائز ہوں اور خاص طور سب سے اونچے سمجھے جانے والے لوگ اس بارے میں حساسیت سے کام لیں گے تو وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں میں بھی اعتماد پیدا کریں گے اور دوسروں لئے نمونہ بنیں گے۔
عوام کا اعتماد سب سے بڑا اثاثہ ہے
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے رستے میں رضاکارانہ خدمت کرنے والے لوگوں کو دنیا کے مختلف گوشوں میں حسن قبول ملنے کا راز یہی ہے۔ ان لوگوں کو اپنی مہم میں اس لئے توفیق ملی کہ وہ صراط مستقیم سے نہیں ہٹے اور اپنی خدمات کے صلے میں کسی دنیاوی یا اخروی اجر کی امید کے بغیر شرعی اصولوں کے مطابق کام کرتے رہے اور اگر وہ عزیمت، حساسیت اور صبر کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھیں گے تو اللہ تعالی ان کے سامنے لوگوں کے دلوں تک جانے والے رستے بھی کھول دے گا۔
میں روئے زمین پر کسی چیز کا مالک نہیں بلکہ میں نے کبھی اس کی خواہش بھی نہیں کی۔ میں نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ اس طرح کی کوئی چیز مجھے نہ دے بلکہ میرے بھائیوں کو بھی نہ دے۔ میں نے کبھی بھی اپنے عزیزوں کو کسی عہدے پر لگانے کے لئے سفارش نہیں کی۔ میں نے اپنے ساتھ کھڑے ہونے والون کو بھی وصیت کی ہے کہ وہ گھروں کے مالک نہ بنیں اور اپنی زندگی ایسے معیار کے مطابق گزاریں جس میں ان کی صرف بنیادی ضروریات پوری ہوں۔
دوسروں کے اندر اعتماد پیدا کرنے کا یہی طریقہ ہے کیونکہ اگر آپ اپنے بارے میں تھوڑا سا بھی سوچیں گے تو لوگوں کا آپ پر اعتماد کمزور ہوتا چلا جائے گا لیکن رضا کاروں یہ تحریک جو اپنے پھلوں اور چھاؤں سے دنیا کے ایک سو ستر ممالک پر سایہ فگن ہے ایک ایسی تحریک ہے جو در حقیقت قربانی اور رضاکاری پر کھڑی ہے۔ اس لئے جب امت اس سے دور ہو جائے گی تو اللہ کی عنایت بھی ختم ہو جائے گی اور مکمل شدہ کام بھی ختم ہو جائیں گے کیونکہ توفیق الہی حاصل کرنے کا ذریعہ امت کی ہمت کو برقرار رکھنا اور امت کی جانب سے آپ کو گلے لگانا ہے۔ اس لئے اگر آپ اس ذریعے کو ختم کر دیں گے تو (خدا نخواستہ) اللہ کی توفیق بھی ختم ہو جائے گی۔
بیشک جو لوگ تمہیں برداشت اور قبول نہیں کر سکتے وہ بعض اوقات مختلف بے بنیاد الزامات کے ذریعے تمہاری مضبوط خدمات کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب تک تم اپنی استقامت برقرار رکھو گے (اللہ کے حکم سے) کسی بھی جھوٹے کی جانب سے تمہیں کوئی نقصان اور تکلیف نہ پہنچے گی اور ہر باضمیر منصف انسان جانتا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں محبت اور رواداری پھیلانے والے تعلیمی ادارے اناطولیہ کے باوفا لوگوں کی ہمت کا نتیجہ ہیں کیونکہ کمزور ترین اوقات میں بھی آزادی کے لئے لڑنے والے ان لوگوں نے احیا کا ایک نیا مرحلہ دیکھا تو اپنے متوسط درجے کے مالی وسائل کے باوجود دنیا کے ہر ہر گوشے کے لئے اپنے سینے کھول دئے۔ علاوہ ازیں ہزاروں معلم، مرشد اور طلبہ اپنی روحانی جڑوں سے حاصل ہونے والے ان خالص اور صاف ستھرے اقدار کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچانے کے لئے پھیل گئے اور ایسے مقامات پر بھی پہنچے جہاں پھلے کوئی نہیں گیا تھا اور طلبہ کے وظائف جیسی معمولی تنخواہوں پر گزارہ کر کے ڈتے رہنے کی کوشش کی۔ مطلب یہ ہے کہ زمین حسن وجمال کی ایسے چہرے اس لئے ظاہر کر سکتی ہے کہ وہ زرخیز ہے جبکہ میں اللہ تعالی سے ان بھائیوں کے لئے دعاگو ہوں اور شاید دن مین دس بار دعا کرتا ہوں اور ان کے لئے دعا کو واجب الادا قرض تصور کرتا ہوں۔ چنانچہ کہتا ہوں: ’’یا اللہ دنیا میں پھیل جانے والے ان مربیوں، طلبہ اور سچے معلمین کا حشر انبیا کے ساتھ فرما، ان کو مضبوط فرما اور ان کے ایمان کو مضبوط فرما۔ اللہم آمین!‘‘
حاصل کلام یہ کہ ہماری قوم کا اعتماد ہی ہمارے دین اور انسانیت کی خدمت کی اس خوبصورت تصویر کے بننے کی بنیاد ہے۔ اس لئے بعد میں بھی ایسے تمام تصرفات اور برتاؤ سے دور رہنا ضروری ہے جو اس اعتماد کو ٹھیس پہنچائے اور اس سے اس طرح دور بھاگنا چاہئے جس طرح سانپوں اور بچھوؤں سے۔
- Created on .