ہر طرح کیرکاوٹوںکےباوجود خدمت کا تسلسل
سوال: آج ہم انارکی کی ایک خطرناک حالت سے دوچار ہیں کیونکہ بدنامی کی مہم، جھوٹ اور مختلف اوہام کے ذریعے کچھ لوگوں کی حقیقی صورت کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارا فلسفہ کیا ہونا چاہئے؟ اور ان حالات میں کام اور سرگرمی کا مفہوم کیا ہے ؟
جواب: سب سےپہلے راہ حق کی خاطر خدمت کرنے والوں کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہئے جو ہمارے زمانے بھی اسی طرح ظاہر ہے جس طرح ماضی قریب اور ماضی بعید میں تھی اور وہ یہ کہ جن لوگوں میں حسد، بغض اور عناد جیسی بری خصلتیں ہوتی ہیں وہ معاشرے میں اپنے فکری مخالفین کو دشمن سمجھتے ہیں۔ اس لئے ہر جگہ ان پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کی حفاظت کے لئے مختلف قسم کی اوچھی اور خسیس حرکتیں کرتے ہیں۔ اس کی وجہ ان کے اندر عظمت کا جنون ہوتا ہے لیکن اللہ کی خاطر اپنے آپ کو وقف کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ تسلیم ورضا اور توکل کے ساتھ حق تعالیٰ کی جانب رجوع کریں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور ’’نور سرمدی‘‘ﷺ کو نصب العین بنا کر تمام رکاوٹوں اور شرور کے باوجود تمام انسانیت کو گلے لگانے والے کشادہ ضمیر اور وجدان کے ساتھ اس رستے پر سفر جاری رکھیں جس کو وہ حق سمجھتے ہیں۔
حقیقت یہ کہ ہو سکتا ہے اس رستے میں تمہیں ان لوگوں کی جفا کا سامنا کرنا پڑ جائے جن سے تمہیں وفا کی امید ہے اور ہو سکتا ہے وہ شخص تم سے الگ ہو جائے جس کے ساتھ تم نے سفر کیا اور آج تک تمہارے درمیان کئی چیزیں مشترک تھیں بلکہ ہو سکتا ہے ایسے لوگ تمہاری پیٹھ پر وار کریں جن سے تمہیں کبھی اس کی توقع نہ تھی لیکن تمہیں چاہئے کہ اپنے وجدان میں نئے در اور نئے مرتبے وا کرو اور اپنے جادہ حق پر کسی تھکاوٹ اور اکتاہٹ اور ان منفی باتوں کی پروا کئے بغیر اپنا سفر جاری رکھو۔ تم پر لازم ہے کہ نئے نئے طریقوں کو رو بکار لا کر اپنی روح اور وجدان کے افق میں وسعت پیدا کرو۔
دھوکہ نہ دینے والے رہنما
خصوصی طور پر انارکی کے اس زمانے میں ایسے رہبروں اور رہنماؤں کی ضرورت ہے جو اپنے ارد گرد کے لوگوں میں خود اعتمادی پیدا کریں، ان کو دھوکہ نہ دیں اور ان کو گمراہ بھی نہ کریں کیونکہ اس زمانے میں بڑے بڑے خوفناک اور خطرناک فتنے پھیل چکے ہیں جن کی جانب احادیث کی کتابوں میں ’’ابواب الفتن‘‘ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اس زمانے میں قتل وقتال کے واقعات مسلسل پیش آ رہے ہیں اور دھوکے کو مہارت سمجھا جا رہا ہے۔ اس لئے تمھارا فرض ہے کہ انسانیت کو امن اور بھروسے کا مطلب سمجھاؤ اور یہ بات اس وقت ہوگی جب تم کسی قول، فعل یا ظاھری شکل وصورت سے دھوکہ نہ دو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اگر لوگ پچاس سال تک بھی تمھاری نگرانی کریں تو تمھارے دل کی دھڑکنوں میں کوئی ایسی بات نہ ملے جو دھوکے اور گمراہی کی جانب اشارہ کرتی ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ کو اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے اور درست انداز میں اپنا تعارف کرانے میں بھی مشکل پیش آ سکتی ہے کیونکہ آج اکثر لوگ دنیا کی نعمتوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور ہر شخص اپنے اپنے مرتبے اور منصب کے مطابق اس کی چیزوں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کی فکر میں ہے۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کو بھی اپنے جیسا ہی سمجھیں کیونکہ مقولہ ہے کہ ’’ہر شخص دوسروں کو اپنے جیسا سمجھتا ہے‘‘ بلکہ ہو سکتا ہے وہ تمھارے دنیا میں پھیل جانے، ساری انسانیت کو محبت اور مودت سے گلے لگانے اور مختلف ثقافتوں میں پرورش پانے والے لوگوں کے درمیان تمہاری جانب سے الفت پیدا کرنے کی کوشش کے ایسے مقاصد تلاش کرنے کی کوشش کریں جو تم تلاش نہیں کر رہے۔ چونکہ یہ لوگ ہر کام کسی معلوم مفاد کے لئے کرتے ہیں اس لئے وہ تمھارے بارے میں بھی یہی سوچ سکتے ہیں کہ تم بھی ان سرگرمیوں کے ذریعے انہی دنیوی مفادات کے پیچھے بھاگ رہے ہو جن کے پیچھے وہ لگے ہوئے ہیں بلکہ ایسا ہو بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کے ارد گرد موجود ایسے لوگ جن کا آپ زبردست احترام کرتے ہیں وہ بھی ایسے اوہامسے دھوکہ کھا جائیں کیونکہ وہ لوگ تمھارے کاموں اور برتاؤ کی شرح اپنے جذبات اور افکار کے مطابق کرتے ہیں اور ان سے خلاف واقع مطلب نکالتے ہیں اور تمہیں اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں لیکن تمہارے لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ اور ہر موقع پر یہ بیان کرو کہ تمہیں اللہ کی رضا کے سوا کچھ نہیں چاہئے اور ان جھوٹے الزامات کی پروا کئے بغیر اپنے افعال اور تصرفات سے ان باتوں کو ثابت بھی کرو۔
خلوص نیت
جن لوگوں کو اپنے کاموں سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مطلوب ہے اور جو سارے عالم میں پھیل کر لوگوں کے درمیان محبت، اخوت اور یکانگت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور یہ سب کچھ اللہ کی رضا کے لئے کرتے ہیں، ان کے لئے دنیا کی کسی منفعت کی تمنا ناممکن ہے کیونکہ یہ لوگ جو اپنا رخ اللہ کی رضا کی جانب کر کے دنیا کے چہرے کو بدل ڈالنے کا عزم لے کر آگے بڑھے ہیں، وہ اپنی اپنی نیت کے مطابق ابطال بن جائیں گے اور ان کو اپنے کاموں کا اجر ملے گا اگرچہ محبت اور امن کے نقشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ان کی توانائیاں ناکافی کیوں نہ ہو جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اکرم ^ نے ارشاد فرمایا: ”الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى‘‘[1]۔ (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور یقینا ہر شخص کو وہ ملے گا جس کی اس نے نیت کی)۔ اس لئے صرف اللہ کے لئے نیت کو خالص کرنا انسان کو فائدہ پہنچانے والا بنیادی عنصر ہے اور اللہ کی رحمت اور عنایت انسان کی نیت اور اس کے وجدان کی وسعت کے حساب سے ہوگی۔
مثال کے طور پر اللہ کے حکم اور عنایت سے آپ دنیا کے کونے کونے میں امن پھیلانے کی نیت سے سفر کرسکتے ہیں اور جب تک وسائل اجازت دیں، حالات مناسب ہوں اور میزبان ملکوں میں مناسب ماحول پیدا ہو جائے آپ بغیر کسی سستی اور اکتاہٹ کے اس رستے پر سفر جاری رکھ سکتے ہیں جس پر آپ چل رہے ہیں بلکہ آپ کام میں اپنی رفتار کو بڑھا بھی سکتے ہیں لیکن ایسا زمانہ آ سکتا ہے جب تمھارے راستے میں مشکلات اور رکاوٹیں سر اٹھانے لگیں اور پھر تم اپنے ارادے کے بر عکس سفر کا دسواں حصہ بھی طے نہ کر سکو مگر اس مقام پر بھی اللہ تعالی تمہیں دسویں حصے کے برابر نہیں بلکہ پورے سفر کا ثواب عنایت فرمائے گا کیونکہ تمہاری نیت صاف اور خالص تھی۔ اور ایسے اچھے انجام کا مستحق ہونے اور راہ حق کے لئے مقررہ اہداف کو حاصل کرنے لئے نیت کا خلوص اور سلامتی ضروری ہے۔ تمہارے دلوں میں اونچے مناصب کے ایسے خیالات کبھی نہیں آنے چاہئیں کہ ’’کیا وہ دن کبھی آئے گا جب اپنے کاموں کے بدلے ہمیں کوئی انتظامی عہدہ مل جائے خواہ وہ معمولی سا ہی کیوں نہ ہو؟!‘‘ بلکہ تم پر لازم ہے کہ اگر ایسے خیالات آ جائیں تو ان کو شیطان کا وسوسہ سمجھ کر اللہ کی پناہ مانگو اور فورا ان سے دور ہو جاؤ۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ بعض لوگ وہ مناصب اور کام حاصل نہ کریں جن کے وہ مستحق ہیں کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے ایسے لوگ نکلیں گے جو ڈائریکٹر، کمانڈر، اٹارنی، رکن پارلیمان اور وزیر جیسے عہدوں کے مستحق ہوں گے لیکن جن لوگوں نے اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں خدمت کے لئے وقف کر دیا ہے اور اللہ کی خوشنودی کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں تاکہ انسانیت خوشی اور سکھ کا سانس لے سکے، ان لوگوں کو چاہئے کہ وہ دنیا کی محبت میں کسی منصب کی تمنا نہ کریں بلکہ ان پر لازم ہے کہ اگر کچھ مناصب دوڑ کر ان کے پاس آ جائیں تو بھی ان کو قبول کر نے میں جلدی نہ کریں۔ ان کو چاہئے کہ کہ وہ یہ سوچیں کہ یہ منصب ان کے اعلی مقصد کو پورا کرتا ہے یا نہیں؟ اس کے بعد وہ اسے قبول یا مسترد کریں ورنہ وہ رضائے الٰہی کی اس سوچ کو آلودہ کر دیں گے جس کے لئے وہ نکلے تھے اور ان مثبت اثرات کو اپنے ہاتھوں سے برباد کریں گے جو ان کے مخاطبین کے دلوں میں پیدا ہو سکتے تھے اور دوسروں کے ہاں اپنی ساکھ اور ان کا اپنے اوپر اعتماد کھو دیں گے۔
علاوہ ازیں اس قسم کے مناصب اور عہدوں کی طلب کا مطلب یہ ہوگا کہ جن لوگوں کو اعلیٰ اور مثالی ہدف یعنی پوری دنیا کو فتح کرنے سے عشق تھا، وہ اپنے اس مرتبے سے کچھ قدم پیچھے ہٹ گئے ہیں کیونکہ اس اعلیٰ ہدف کے مقابلے میں جس کا مقصد لوگوں کی ابدی زندگے کو بچانا ہے، پوری دنیا کو فتح کرنا سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ ہے۔
اس بنیاد پر ہمارے زمانے میں اس اعلیٰ ہدف تک پہنچنے کے لئے ہجرت کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ دلوں میں حق اور حقیقت کی محبت کے پیدا ہونے اور پرورش پانے، روحوں میں اعلیٰ اخلاق اور خصائل کے پیدا ہونے اور لوگوں کی آپس میں محبت پیدا ہونے کو اپنی زندگی کا سب سے اونچا مقصد بنا لیں اور اپنی زندگی کو ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اس مقصد کے مطابق مرتب کریں۔
[1] صحيح البخاري، بدء الوحي، 1؛ صحيح مسلم، الإمارة، 155.
- Created on .