مٹی اور گلاب
سوال: شیخ سعدی(1) اپنی کتاب ’’گلستان‘‘ میں فرماتے ہیں کہ :’’اے انسان مٹی ہو جا تاکہ تو گلاب اگا سکے کیونکہ گلاب مٹی میں ہی اگتا ہے۔‘‘ عبودیت سے متعلق خاص مفہوم کے لحاظ سے یہ الفاظ کیا معانی بیان کررہے ہیں؟
جواب: یہ خوبصورت عبارت اپنے حقیقی معنی میں کہہ رہی ہے:گلاب صرف مٹی میں اگتا ہے۔ اس لیے جس طرح وہ گرینائٹ،سنگ مرمر، لوہے میں نہیں اگ سکتا اسی طرح چاندی، سونے، زمرد اور یاقوت جیسی نفیس دھاتوں اور پتھروں میں بھی نہیں اگ سکتا جن کی لوگوں میں بڑی قیمت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ لوگوں کے مرنے کے بعد ان کومٹی میں دفن کرنے کو بھی اس معنی سے جوڑ سکتے ہیں کیونکہ جب انسان مرتا ہے تو اسے ایسے ہی کہیں نہیں پھینک دیا جاتا بلکہ اسے مٹی میں دفنایا جاتا ہے تاکہ آخرت کا ایک پھول اگ سکے۔ اس لیے اگر آپ اس مسئلے کو ’’ریڑھ کی ہڈی کے آخری حصے‘‘ یا کسی اور چیز سے جوڑیں، انسان کے اندر ایک ایسا جوہر موجود ہے جس سے اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ زندہ فرمائے گا لیکن وہ انسان آخرت میں پھول بن کر ظاہر نہیں ہوسکتا جس نے اپنے آپ کو آزاد رکھا اور روحانی طورپر گل سڑ گیا اگرچہ وہ زندہ اور ابھی تک مر کر مٹی میں دفن نہ ہوا ہو۔
سجدہ: عبادت کی معراج
بعض مشرقی تہذیبوں میں پرانے زمانے سے مٹی کو تواضع اور نہایت انکساری کی علامت کے طوپر بیان کیا جاتا ہے کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسان اور دیگر جانداروں کی زندگی کا منبع بنایا گیا ہے حالانکہ اسے پاؤں تلے روندا جاتا ہے۔ اس کےنتیجے میں انسان کا بلند ہونا اور پھل دینا اس کے تواضع، اپنے آپ کو مٹانے اور اللہ تعالیٰ کے حضور ذلت و انکساری کا مرہون منت ہے لیکن اگر وہ تکبر اور غرور پر آجائے گا تو ایک نہ ایک دن سر کے بل گرے گا اور ہلاک ہو جائے گا۔
اس لیے انسان پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں، اس کے احسان اور انعام کے بقدر اس کے حضور جھکے۔ آپ اس حقیقت کو نماز کے ارکان پر غور کرکے اپنے ذہنوں میں زندہ کرسکتے ہیں۔ مثال کے طورپر جو انسان تکبیر تحریمہ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر اللہ تعالیٰ کے حضور خشوع و خضوع سے کھڑا ہوتا ہے، وہ اللہ کے حضور اس کھڑے ہونے کے کم سمجھتا ہے تو حق سبحانہ و تعالیٰ کی مزید تعظیم کرتے ہوئے رکوع میں جھک جاتا ہے، اللہ کی تعظیم کرتا ہے اور ایک ٹیڑھی لاٹھی کی طرح ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے اللہ تعالیٰ کی مزید نعمتوں کا احساس ہوتاہے تو وہ سجدے میں گر پڑتا ہے جبکہ اس کے جذبات یہ ہوتے ہیں کہ:’’اے اللہ آپ نے مجھے اپنی عبادت کی جو توفیق بخشی ہے اس پر بڑا شکر ہے۔ تو کتنا عظیم ہے! تو کتنا جلال والا ہے! میں خسیس اور حقیر اور تو بڑا اور اونچا ہے لیکن میں کھڑا ہو کر اس احساس کا اظہارنہیں کرسکتا اس لیے میں تیرے حضور خشوع و خضوع سے جھکتا ہوں۔‘‘ اس کے بعد وہ اپنا مقصود تلاش کرنے کے لیے سجدے سے سر اٹھاتا ہے اور حق تعالیٰ کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔ تو گویا اسے دروازے کی ایک درز نظر آتی ہے تو وہ دوبارہ سجدے میں گڑ پڑتا ہے اور کہتا ہے:’’ہر گز نہیں۔ یہ کافی نہیں!‘‘۔
فخرانسانیت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ سجدے سے زیادہ کوئی ایسی حالت اور وضع نہیں ہے جس میں انسان اللہ تعالیٰ سے قریب ترین ہو۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:’’بندہ اپنے رب سے قریب ترین اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے۔‘‘(2) شعر میں سجدے کے مفہوم کو درج ذیل الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
سراور پاؤں برابر ہیں
جائے نماز خوبصورت پیشانی کا بوسہ لے رہی ہے
اے انسان یہ تیرا رستہ ہے
جس کے ذریعے تو بلند ا ور آسمانوں کے رب کے قریب پہنچ سکتا ہے
کامیابی کو نفس جانب منسوب کرنے کی مصیبت
اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان تواضع، انکساری اور اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کے بقدر اس کے قریب ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جس انسان کا دل حقیقی معنی میں اپنے اوپربرسات کی طرح چھم چھم برسنے والی نعمتوں کے مقابلے میں اپنے رب سے جڑا ہو، اس کی یہی نشانی ہے۔ وہ اپنے رب کریم کی لامتناہی نعمتوں کے سامنے تواضع کے ساتھ جھک جاتا ہے اور اپنی پیشانی اس جگہ رکھتا ہے جہاں اس کے قدم پڑتے ہیں اور اس طرح اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ وہ اپنے عظیم رب کے سامنے فنا ہونے والا صفر ہے۔
اس بنیاد پر اپنے دین، وطن، قوم اور پوری انسانیت کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والوں کو کوئی بھی کامیابی اپنی طرف منسوب نہیں کرنی چاہیے اور وہ جس بلندی اور مرتبے تک پہنچیں، ان کو ہمیشہ تواضع اختیار کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے علاوہ کوئی شے ان کی پیش نظر نہیں ہونی چاہیے۔ ان کے دل کسی بھی شے سے جڑے نہیں ہونے چاہئیں خواہ وہ شے دنیوی ہو یا اخروی۔ یہی بات ان کے لیے مناسب ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو حق تعالیٰ کے رستے میں خدمت کے لیے وقف کرچکے ہیں۔ ان کو اپنی خدمات کے مقابلے میں کسی شے کی امید نہیں رکھنی چاہیے، مثلاً کوئی یہ نہ کہے کہ’’میرے دنیا کے کاموں کو حل ہونا چاہی، میرا ایسا گھر ہونا چاہیے جس میں آرام سے زندگی گزار سکوں اور میرے بچے کو فلاں یا فلاں عہدے تک پہنچنا چاہیے۔‘‘ ان کو چاہیے کہ وہ ان خدمات کو جنت میں داخلے یا جہنم سے بچنے سے بھی نہ جوڑیں بلکہ ان کا فرض ہے کہ وہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے مانگیں۔
اس کے مقابلے میں جو لوگ اپنے خزانے بھرتے ہیں وہ اپنی نالیوں اورحوضوں میں پانی بھرتے ہیں حالانکہ جب وہ نکلے تھے تو دین اور قوم کی خدمت کرنا چاہتے تھے، ایسے لوگ جھوٹے ہیں۔ اسی طرح انسان کا شہرت ، احترام اور اپنے آپ کو مشہور کرنے کی خواہش اور اپنی خدمات کے مقابلے میں دنیوی عہدوں اور مناصب تک رسائی کی کوشش ایک طرف ریاکاری ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ سودا بازی ہے اور جو لوگ اپنی کامیابیوں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہونے والی نعمتوں کو اپنی جانب منسوب کرتے ہیں اور ان کو اپنی ذہانت، عقل اور سمجھ بوجھ سے جوڑ کر فرعون کے لہجے میں بات کرتے ہیں، اگر آج ان کو کوئی موقع مل بھی گیا تو کل ان سے چھین لیا جائے گا اور جو کچھ ان کے ہاتھ میں ہے وہ کھو دیں گے، منہ کے بل گر جائیں گئے اور انپے گھمنڈ اور تکبر کے بقدر رسوائی کا سامنا کریں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے طریقے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔
کھاد بن جاؤ، تمہاری وجہ سے پھول کھلیں گے!
حقیقی مسلمان سے اس بات کا تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنی کامیابیوں کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرے گا۔ اسی طرح اس سے فخر اورتکبر کا بھی تصور نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے سر کے اوپر بلبلیں چہچہاتی ہیں اور اسے ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے انعام و احسان کے مظاہر کے مقابلے میں اپنے پھولوں ، کلیوں اور پتوں کے ہمراہ دوبارہ زمین کی جانب واپسی کا رستہ تلاش کرے تاکہ وہ دوبارہ ایسی زمین اور ماحول تیار کرسکے جو پھولوں کے ایک اور مجموعے کے اگنے اور کھلنے کے لیے مناسب ہو۔
حضرت نجیب فاضل(3)(اللہ تعالیٰ ان کو جنت نصیب فرمائے) اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ’’مجھے کھاد سمجھو۔‘‘میں ان کی یہ بات کبھی نہیں بھولتا کیونکہ اپنی عظمت اور قدر و قیمت کو جاننے کے باوجود ان کی یہ سوچ نہایت اہمیت کی حامل ہے ۔ یہ ان کے تواضع اور خاکساری کو ظاہر کرتی ہے۔ اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس انداز سے دیکھے کیونکہ اگر وہ ایک گلستان میں بدل جائے جو دور دور تک پھیلا ہو، اس میں ہر طرف بلبلیں چہچہا رہی ہوں، وہ اس کے برگ و بار پر بیٹھ کر اس کے لیے نغمہ خواں ہو تو بھی اس کو چاہیے کہ وہ د وبارہ پھول اگانے کے لیے زمین پر گر پڑے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم پر بارش کی طرح چھم چھم برسنے والی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مقابلے میں ہمارا فرضیہ ہے کہ ہم اپنے تواضع، حیا اور خاکساری کو مزید گہرا کریں یہاں تک کہ ہم پر لازم ہے کہ جب لوگ ہمیں احترام اور تعریف سے یاد کریں تو ہم اس پر تعجب کریں اور یوں کہیں کہ:’’یا اللہ عجیب بات ہے! ہم نے کون سی غلطی کی ہے کہ لوگ ہمارے بارے میں بظاہر ایسے تعریفی کلمات کہہ رہے ہیں حالانکہ وہ ہمارے نزدیک سب وشتم کے علاوہ کچھ نہیں۔‘‘
اگر معروف اسباب کے دائرے میں ان خدمات کو کسی سبب کی جانب منسوب کرنا ضروری ہو تو یہ سب مسلمانوں کے درمیان موجود اتحاد و یگانگت ہے اور یہ یقین رکھنا ضروری ہے کہ اتحاد و اتفاق حق تعالیٰ کی جانب رجوع ہے کیونکہ یہ بات توفیق الہٰی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
اصل بنیاد اللہ تعالیٰ کا رحم و کرم اور اس کی حفاظت ہے جیسے کہ اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے: ﴿وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾(الانفال:63)(اور ان کے دلوں میں الفت پیدا کر دی۔ اگر تم دنیا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کرسکتے مگر اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی۔ بے شک وہ زبردست (اور) حکمت ولا ہے)۔ اس لیے ہم جس قدر اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کریں گے، اللہ تعالی ہماری تعداد میں اضافہ کرے گا کیونکہ وہ اپنی عظمت وجلال کے آثار کو اس طرح ظاہر کرتا ہے کہ پانی کا ایک قطرہ سمندر کا کام کرتا ہے، ایک ذرہ سورج کے فرائض انجام دیتا ہے اور چھوٹی سی چیونٹی سے ہاتھی جتنا کام لے لیتا ہے کیونکہ بہت بڑے بڑے کام انتہائی چھوٹے عناصر کے استعمال سے انجام دینا اس کی عظمت اور قدرت کا مظہر اور نشانی ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ اس دنیا سے کوچ فرما گئے تو حضرات صحابہ کرام نے اس زمانے کی دو عظیم طاقتوں روم اور فارس کو زیر کرلیا اور اس زمانے میں بین الاقوامی توازن میں ایک زبردست مقام حاصل کرلیا اور اس کے بعد دنیا کو نئے سرے سے ترتیب دیا۔ اسی طرح انہوں نے ارتداد کے گیارہ واقعات پر بھی فتح پائی حالانکہ ان میں سے ہر واقعے کا حجم ان دہشت گرد تنظیموں سے کئی گنا زیادہ تھا جن سے ہم دو چار ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان تمام فتنوں کو اپنی خلافت میں ہی ختم کردیا جس کی مدت اڑھائی سال سے زیادہ نہیں اور امن قائم کردیا۔ اس بنا پر ان لوگوں کو اپنے آپ سے شرم آنی چاہیے جو معمولی سی دہشت گرد تنظیموں پر بھی غلبہ نہیں پا سکتے حالانکہ وہ اپنے آپ کو عظیم طاقت سمجھتے ہیں اور دعوے کرتے ہیں کہ ان کے پاس جدید سازو سامان سے لیس خود کار یونٹ ہیں۔
اس درجے تک مٹی سے مل جانا کہ تمہاری قبر کا پتہ نہ چل سکے!
اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور باقی سب فضول اور خواہش ہے۔ ہمیں کسی کی تالیوں کی ضرورت ہے اور نہ احترام کی اور نہ ہی تعظیم کے الفاظ کی۔ ہمیں حق تعالیٰ کی خاطر تواضع اور حقیقی معنوں میں مٹ کر خدمت کرنی چاہیے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم کسی تعریف کی امید نہ رکھیں۔ صرف زندگی میں ہی نہیں بلکہ سپرد خاک ہو جانے کے بعد بھی اور ہمارے دل میں یہ خواہش بھی نہیں ہونی چاہیے کہ ’’میرے جنازے میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہو۔‘‘ ہمیں کبھی بھی یہ بات نہیں فراموش کرنی چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کریں۔
ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم سادہ اور متواضع انسانوں کی طرح زندگی گزاریں اور اس طرح اپنی روح کی بلندی کی جانب سفر کریں اور (اگر ممکن ہو تو) یہ خواہش ہونی چاہیے کہ ہماری قبر بھی اسی طرح مجہول اور غیر معروف ہو جائے جس طرح نابغہ روز گار شخصیت حضرت بدیع الزمان کی خواہش تھی کیونکہ انہوں نے فرمایا تھا کہ ’’یاد رکھئے میری قبر میرے دو یا تین شاگردوں کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ میں قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں کہ توحید کی قسم کی یہ کون سی قسم ہے!؟ اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ کیا خوبصورت تعلق ہے! جب سے وہ اپنی روح کے مقام تک پہنچے ہیں اس وقت سے لے کر اب تک چند اشخاص کے علاوہ ان کی قبر کسی کو معلوم نہیں کیونکہ تواضع، ملنساری اور غیر معمولی ندامت جیسی باتوں کو جو انہوں نے اپنی کتابوں میں ذکر کی ہیں اپنے لیے دستور حیات بنا لیا اور ساری زندگی اپنے آپ کو حقیر سمجھتے ہوئے گزار دی۔
اللہ تعالیٰ ہمارے ہاتھوں سے جو خدمات انجام دے رہا ہے، اگر ان کے بدلے ہمیں کسی چیز کی خواہش رکھنی ضروری ہو تو وہ یہ ہے کہ ہم یہ تمنا کریں کہ روح محمدی دنیا کے گوشے میں پرواز کرے لیکن یہاں بھی ہمیں اس نتیجے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کے ارادے کے حوالے کردیں کیونکہ اللہ کی مراد ہماری خواہشات پر مقدم ہے اور ہم اس بات پر راضی ہیں جس پر اللہ راضی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کوئی بات چاہتے اور اس کی خواش رکھتے ہیں مگر ہم اللہ تعالیٰ کی مراد کو نہیں جان سکتے اور ہمار ے چاہنے سے ان لوگوں کو ہدایت نہیں مل سکتی جن کے دلوں پر مہر لگی ہے۔ اسی وجہ سے ہم دلوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی خاطر محبت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس کا نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں اور اس کے حکم اور تقدیر پر راضی ہو جاتے ہیں۔
(1) سعدی شیرازی (1219-1294ء) مشہور فارسی شاعر ہیں۔ ان کی تحریریں ان کے زبردست اور واضح اسلوب اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتی ہیں جس کی وجہ سے وہ فارسی کے سب سے مشہور مصنف بن گئے اور ان کی شہرت فارسی بولنے والے علاقوں سے نکل کر اسلامی دنیا کے دیگر حصوں اور مغرب تک جا پہنچی۔ ’’گلستان ‘‘ اور ’’بوستان‘‘ ان کی مشہور کتابیں ہیں۔
(2) صحيح مسلم، الصلاة، 215؛ سنن أبي داود، الصلاة، 148؛ سنن النسائي، التطبيق،75.
(3) نجیب فاضل(1983-1904ء) ترکی شاعر، مفکر اور مصنف ہیں۔ ان کو ’’سلطان الشعراء‘‘ کا لقب دیا گیا۔ ان کی کتابوں کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔ اسلامی اور اخلاقی اقدار اور تاریخ اور فلسفہ ان کے شعروں اور نثر کے اہم موضوعات ہیں۔
- Created on .