پھر سے اتحاد و یکجہتی
سوال: نبی کریم ﷺ کاا رشاد ہے:’’میں نے اللہ تعالیٰ سے تین چیزوں کا سوال کیا تو اس نے مجھے دو چیزیں عطا فرما دیں اور ایک نہیں۔ میں نے دعا کہ میری امت کو قحط سے ہلاک نہ کرے تو یہ بات مجھے عطا کردی(دعا قبول فرمائی) اور میں نے دعا کی کہ ان پر باہر سے کوئی دشمن مسلط نہ کرے تو یہ بات بھی عطا کردی گئی اور میں نے دعا کہ کہ ان کو ایک دوسرے سے نہ لڑائے تو یہ بات عطا نہیں کی گئی۔‘‘(1) اس حدیث میں مذکور مسائل میں کیا مشترک بات ہے؟اور اس میں کیا کیا پیغام ہے؟
جواب: قرآن کریم نے مسلمانوں کی عبرت اور نصیحت کے لیے انبیائے کرام کے بہت سے واقعات ذکر فرمائے ہیں۔ اس میں اہم بات جھٹلانے والی قوموں کے انجام بد کا بیان اور کفر اور سرکشی پر ا صرار کرنے والے لوگوں کی دردناک سزا کی وضاحت ہے۔ مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کو زبردست طوفان کے ذریعے اللہ نے ہلاک فرمایا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلاَّ خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ﴾ [العنکبوت:14] (اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے۔ پھر ان کو طوفان نے آ پکڑا اور وہ ظالم تھے) اور حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کے بارے میں فرمایا: ﴿إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَ * مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلاَّ جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ﴾ [الذاریات:41-42] (جب ہم نے ان پر نامناسب ہوا چلائی۔ وہ جس چیز پر چلتی اسے ریزہ ریزہ کئے بغیر نہ چھوڑتی)اور قوم صالح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ﴿إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ صَيْحَةً وَاحِدَةً فَكَانُوا كَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ﴾ [القمر:21](ہم نے ان پر ایک چیخ بھیجی تو وہ ایسے ہو گئے جیسے باڑ والے کی ٹوٹی ہوئی باڑ ) اور حضرت لو ط علیہ السلام کی قوم کے بارے میں ارشاد فرمایا: ﴿فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ﴾ [الحجر:74](اور ہم نے اس (شہر) کو اوپر نیچے کر دیا اور اس پر کھنگر کی پتھریاں برسائیں)
البتہ ہمیں یہ بات معلوم نہیں کہ گزشتہ قوموں پر آنے والی آفات کسی خاص علاقے پر آتی تھیں یا ساری زمین پر لیکن اگر ہم اس بات کو مدنظر رکھیں کہ گزشتہ انبیائے کرام صرف اپنی قوموں کے لیے مبعوث ہوئے تھے تو کہا جاسکتا ہے کہ ہر قوم کی ہلاکت اس کے محدود علاقے کے ساتھ خاص تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہلاکت ان قوموں کے ساتھ خاص تھی جنہوں نے ان انبیائے کرام کا انکار کیا اور دوسرے لوگ اس میں شامل نہ ہوئے تھے لیکن چونکہ نبی کریم ﷺ کی بعثت تمام لوگوں کے لیے ہے اس لیے آپ علیہ السلام کی امت کی ہلاکت اللہ تعالیٰ کی سنت کے تقاضے کے مطابق سطح زمین پر موجود ان تمام کافروں اور ظالموں کو شامل ہوتی جنہوں نے آپ ﷺ کو قبول نہیں کیا۔
مقبول دعا
اس وجہ سے سے آنحضرت ﷺ نے ا پنے رب سے دعا کی کہ آپ کی امت کو قحط یعنی عمومی مصیبت سے ہلاک نہ کیا جائے ۔ چنانچہ قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ: ﴿وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾ [الانفال:33](اور نہ ایسا تھا کہ وہ مغفرت مانگیں اور اللہ ان کو عذاب دے) اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دعا کو قبول فرمایا ۔
جیسے کہ یہ بات معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی کریم ﷺ کو خاص صفات عطا فرمائی تھیں اور ان صفات محمدیہ میں سے ایک یہ ہے کہ جب تک آپ علیہ السلام امت کے درمیان موجود ہیں، امت محمدیہ سابقہ انبیائے کرام کی امتوں کی طرح کسی عمومی ہلاکت کا شکار نہ ہوگی۔ قرآن کریم کی اس آیت کے ظاہری معنی کے لحاظ سے یہ حقیقت مسلم ہے لیکن تفسیر اشاری کے مطابق اس آیت سے درج ذیل معنی بھی مستنبط ہوسکتا ہے کہ: جب تک نبی کریمﷺ موحد مومنوں کے دلوں میں موجود ہیں ، اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کو ایسا کوئی عمومی عذاب نہیں دے گا جیسے پہلی امتوں کو دیتا تھا۔اس لیے اگر روح محمدی مومنوں کے دلوں میں گھر کر جائے تو اللہ تعالیٰ نے جس طرح آنحضرت ﷺ کی زندگی میں اس امت کی حفاظت فرمائی ہے ، اسی طرح آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی اس پر اپنی مغفرت اور رحمت فرمائے گا اور قیامت تک اسے اپنی حفظ و امان میں رکھے گا۔
اسی طرح اس آیت نے یہ بھی بیان کردیا ہے کہ استغفار بھی مومنوں کو ہلاکت سے بچانے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس لیے اگر امت محمدیہ جب کوئی غلطی کرے یا جادہ حق سے ایک قدم بھی دور ہو جائے اور اس کے فوراً بعد درست ہو کر اپنے رب سے معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ بعد میں آنے والی مصیبتوں سے بھی اس کی دائیں بائیں اور اوپر نیچے سے حفاظت فرمائے گا اور اس کو اوپر نیچے نہیں کرے گا۔
خلاصہ کلام یہ کہ : اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی یہ دعا قبول فرمائی کہ وہ آپ کی امت کو کسی عمومی آفت کے ذریعے ہلاک نہیں کرے گا۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو بیان کیا ہے اور تاریخ نے بھی اس بات کو وضاحت کے ساتھ ظاہر کیا ہے۔
تاریخ کا تکرار قید کے عارضی ہونے کی گواہی ہے
اس کے بعد آ پ علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی کہ آپ کی امت پر باہر سے کوئی دشمن مسلط نہ کرے تو یہ دعا بھی قبول ہو گئی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے چشم غیب سے دیکھ لیا تھا کہ بعض اوقات مسلمان قبضے کا شکار ہوں گے مگر یہ صورت حال ہمیشہ برقرار نہیں رہے گی۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ کی وفات سے چار یا پانچ صدیوں کے بعد مسلمانوں کو مسلسل صلیبی حملوں کا سامنا رہا، ان کے بعد تاتاری آئے اور اسلامی خلافت کے دارالحکومت بغداد پر قبضہ کرلیا مگر یہ لوگ زیادہ دیر باقی نہ رہ سکے کیونکہ صلیبی ،تاتاری اور ان کے بعد آنے والے سب ظالم اور جابر لوگوں کا سقوط ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی عنایت سے وہ سب کچھ ختم ہوگیا۔
سچی بات یہ ہے کہ صلیبوں نے اسلامی دنیا کو زخموں سے چور چور کردیا تھا۔ ان کو تباہ کرنے پر اللہ تعالیٰ نے ’’الپ ارسلان‘‘ ،’’ملک شاہ‘‘ ،’’قلیج ارسلان‘‘ اور ’’صلاح الدین ایوبی‘‘ کو پیدا فرمایا۔ چنانچہ وہ جہاں سے آئے تھے وہاں واپس چلے گئے اور کچھ بھی ان کے ہاتھ نہ آسکا۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے سلجو قیول کو فتح نصیب فرمائی اور دو صدیوں تک اسلامی دنیا کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھانے کا موقع فراہم فرمایا۔
پھر جب سلجوقی کمزور پڑ گئے اور باطنیوں کی خفیہ بغاوت کی تحریکوں کی وجہ سے ان کی حرکت جمود کا شکار ہوگئی تو انا طولیہ کے وسط سے ایک نئی ریاست ظاہر ہوئی جس نے ساری دنیا کو اس طرح بھر دیا کہ جیسے وہ ایک لاروا تھی جس میں تبدیلی آئی اور وہ تتلی میں بدل گئی۔جی ہاں، سلطنت عثمانیہ نے اسلامی دنیا کی شمالی سرحدں کی حفاظت کی۔ جیسے کہ مالک بن نبی کا کہنا ہے کہ : ’’اگر سلطنت عثمانیہ اسلامی دنیا کی شمالی سرحدوں پر پہرہ نہ دیتی تو آج اسلامی دنیا کا نام نہ ہوتا۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے عثمانیوں کو انسانی تاریخ میں چار صدیوں تک مملکت کو چلانے اور اسے اوج کمال تک پہنچانے کی توفیق بخشی۔ یہ اللہ کا فضل ہے اپنے بندوں میں سے جس کو وہ چاہتا ہے عطا کردیتا ہے۔
آج اسلامی دنیا ایک طرح کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ گزشتہ زمانوں میں قبضہ جمانے کے لیے طاقت کا ظالمانہ استعمال ہوتا تھا لیکن آج قبضہ خود اسلامی نیا کی اپنی کٹھ پتلیوں کے ہاتھوں انجام پاتا ہے۔ انہی کے ذریعے دوسروں نے یہاں ا پنا قبضہ مضبوط کیا ہے جبکہ یہ کٹھ پتلیاں ایسے لوگ ہیں جن کے پاس دوسروں کے اغراض و مقاصد اور خواہشات کو پوری کرنے کی فطری صلاحیت موجود ہے ا ور انہی کی وجہ سے اسلامی دنیا دوسروں کی حکمرانی میں ہے
لیکن جس طرح تاریخ میں ہم اس طرح کے واقعات بار بار دیکھ چکے ہیں اسی طرح ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ ملت اسلامیہ اپنی آزادی سے محظوظ ہو گی اور کون جانتا ہے کہ کونسی چیونٹی دوبارہ فرعونوں کے محل کو کھوکھلا کرے گی؟ اور کون سا مچھر نمرودوں کو تباہ کرے گا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اس کی دعا فرمائی ہے اور آپ علیہ السلام کی یہ دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور خوشخبری سنائی کہ آپ کی امت پر باہر سے کوئی دشمن مسلط نہیں کرے گا۔
اختلاف کا سرچشمہ: انسانی کمزوری
آخر میں ہم کہتے ہیں کہ فخر انسانیت ﷺ نے چشم غیب اور اپنے وسیع افق اور عظیم فطانت کے ذریعے یہ بھانپ لیا تھا کہ لالچ، طمع، حسد، غیرت، حب جاہ، شہرت اور دکھلاوے کا شوق جیسے منفی جذبات دراصل ایسی کمزوریاں ہیں جو لوگوں میں تفرقہ ڈالتی ہیں، ان کو بکھیرتی ہیں، ان کے درمیان اختلاف پیدا کرتی ہیں اوران کو آپس میں لڑا دیتی ہیں۔ اس لیے آپ علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ آپ کی امت کو ایسے خطرات سے محفوظ فرمائے لیکن یہ دعا قبول نہیں ہوئی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر لوگوں کو اپنے ارادے سے قابو پانا چاہیے ۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺکی دعا کو مکمل طورپر رد نہیں فرمایا اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ: ’’ہر گز نہیں، میں ان کو ضرور آپس میں لڑاؤں گا‘‘کیونکہ ان کی آپس میں یکجہتی کے مسئلے کو ان کے ارادے کے ساتھ جوڑا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ (معاف کیجیے گا) اللہ تعالیٰ نے انسان کو چوپایہ یا درخت نہیں بنایا کہ اسے جہاں رکھ دیا جائے وہاں سے حرکت نہ کرے بلکہ اسے انسان بنایا ہے اور ارادے کی قوت سے نوازا۔ اس لیے انسان پر لازم ہے کہ اس کے نفس میں جو منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں، ان پر قابو پائے مثلاً حسد، غیرت ، بغض اور عداوت وغیرہ اور اپنے ارادے کا حق ادا کرے تاکہ وہ انسانی کمالات کے زینے پرچڑھتے ہوئے ان کے اعلیٰ مرتبے تک پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ میں اتحاد و یگانگت کو جزا کے طورپر قائم کرنے کا وعدہ نہیں فرمایا بلکہ اس مسئلے کے بارے میں توفیق کو ایک عام سی شرط یعنی انسان کی جانب سے اپنے ارادے کے استعمال سے جوڑ دیا ہے۔
اس وجہ سے اگرمسلمان آپس میں اتحاد و اتفاق اور صلح و آتشی قائم کرنا چاہیں تو ان کو حضرت عبدالقادر جیلانی، ابوالحسن شاذلی، یونس امرہ اور حضرت بدیع الزمان سعید نورسی کی طرح سب کو گلے سے لگانا پڑے گا اور ان کو (اپنے ذاتی حقوق کے بارے میں) ان کو مارنے والے کے مقابلے میں بے دست، گالی دینے والے کے مقابلے میں بے زبان اور ان کی دل شکنی کرنے والوں کے مقابلے میں بے دل ہوناپڑے گا ۔ ان کو اتحاد و اتفاق کا دروازہ سدا کھلا رکھنا پڑے گا ۔ اس لیے اگر وہ اپنے ارادے کا حق ادا کریں اور ان کو اس بات کی توفیق مل جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان میں اتحاد و یگانگت پیدا ہوجائے گی جبکہ آخرت میں ان پر اللہ تعالیٰ کا کرم اور احسان ہو گا اور اس دنیا میں ان کی کوشش اور تگ و دو بالکل ایک الگ شکل میں سامنے آئے گی۔
لانچنگ پیڈ پر رکھے میزائل کی طرح۔۔۔
جس طرح انسان اپنی شہوانی خواہشات کو کچل کر عفت کا ایک محل بن جاتا ہے اور اپنے رادے کا حق ادا کرتا ہے اور جس طرح انسان دوسروں کے پاس موجود اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو دیکھ کر ان سے حسد اور لالچ نہ کرکے استغناء کا ایک بطل جلیل بن جاتا ہے، اسی طرح اگر انسان اپنے آپ کو اتحاد اور یگانگت پر مجبور کرے اور اپنے ارادے کا حق ادا کرے تو اعلیٰ اخلاق کا ایک محل بن جاتا ہے۔
جی ہاں، ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ تمہارے ساتھ اتنی برائیاں کریں جن کا کوئی عقل تصور نہیں کرسکتی، ہو سکتا ہے کہ وہ رستے میں کانٹے اور روڑے بچھا کر تمہیں چلنے سے روکنے کی کوشش کریں، یا تمہارے سفر کو روکنے کے لیے تمہارے رستے کے پلوں کو تباہ کردیں اور تمہیں معاشرے میں بالکل الگ تھلگ کرنے کی کوشش کریں لیکن اگر آپ اعلیٰ اخلاق اور اتحاد و یگانگت تک پہنچنا چاہتے ہیں تو پھر تمہیں چاہیے کہ ان سب باتوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھیں کہ:’’ کوئی بھی چیز ہمیشہ نہیں رہتی!‘‘ اگر تمہارے رستے کے پل گر جائیں تو دوسرے مقامات پر ان کے متبادل پل بنائیں اور اختلاف سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنا سفر جاری رکھیں اگرچہ دوسرے اختلاف کو ہی اپنا شعار کیوں نہ بنالیں۔
ایک دن ایسا آئے گا جب تمہارے ساتھ برائی کرنے والے بعض لوگ تمہارے پاس آئیں گے اور اظہار ندامت کریں گے۔ اس وقت ضروری ہو گا کہ آپ اسی طرح ہوں جس طرح پہلے تھے۔ اگر وہ تم سے معذرت کریں تو ان سے مر وت اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا اور کہنا:’’ اللہ تعالیٰ کی پناہ، اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔ ہم ہمیشہ یہی محسوس کرتے ہیں کہ آپ ہمارے پہلو میں اسی مورچے میں ہیں۔‘‘
جی ہاں، آپ ایسا کریں اگرچہ حقیقت واقعہ گواہی دیتی ہے کہ وہ حسد اور غیرت کی وجہ سے کئی فرسخ دور ہو چکے تھے اور وہ ہمیشہ دوسروں کو بھی آپ کے خلاف بھڑکاتے تھے کہ ’’ان کا رستہ روکو، ان کو تکلیف دو اور ان کے جینے کا حق بھی تسلیم نہ کرو!‘‘ چونکہ جس وقت یہ لوگ اس ظلم کے مرتکب ہو رہے تھے ان کے پاس کوئی ایسی معقول دلیل نہ تھی جس پر وہ قائم رہ سکتے بلکہ ان کے اندر حسد اور غیرت کے سوا کوئی جذبہ نہ تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مقابلے کا احساس ان لوگوں کے اندر بھی چھپا ہوا ہے جو سب سے صاف اور پاکیزہ معلوم ہوتے ہیں کیونکہ بعض لوگ بعض میدان صرف اپنے لیے مخصوص کرنا چاہتے ہیں اوران میں کسی اور کو شریک ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس لیے اہل حق کہ یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ ان سب باتوں سے چشم پوشی کریں، ان کی کچھ پروا نہ کریں اور اپنے موقف پر ثابت قدم رہیں۔
انسانی فطرت کو درست انداز میں پڑھنا
دوسری جانب ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیشہ اتحاد و یگانگت کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہے کیونکہ بعض مسائل کے بارے میں اختلاف لوگوں میں ہمیشہ سےقائم ہے کیونکہ یہ انسان کی فطرت ہے۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ ہم اس بات کا اعتراف کریں کہ موجودہ حالات میں ہم ایسے تصرفات دیکھ سکتے ہیں جو غیر متوقع ہیں اور اگر ہم لوگوں کے درمیان اتحاد و یگانگت پیدا کرنے کی کوشش کرررہے ہیں تو ہمیں اس کا اعتراف کرنا پڑے گا تاکہ دل کو جلانے والے ان تلخ واقعات کے مقابلے میں ہم سے ناامید نہ ہوجائیں۔
اللہ تعالیٰ نے یہ اتحاد و اتفاق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان پیدا فرمایا تھا جو آنحضرت ﷺ کے گرد اکٹھے تھے اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کو بھی اپنے ارد گرد کے لوگوں کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کرنے اور صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک سیسہ پلائی دیوار بنانے کی توفیق بخشی(یہ توفیق ظلیت کے درجے میں تھی کیونکہ اصل اصحاب رسول کے ساتھ خاص تھی) ان صحابہ کرام میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم ہیں۔ یہی بات حضرت نورسی رحمہ اللہ کے اولین شاگردوں میں بھی تھی لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس پاکیزگی اور دل کی صفائی کو ہمیشہ برقرار رکھا گیا کیونکہ اس میں مختلف مفاہیم اور طرح طرح کی فلسفیانہ آراء شامل ہوگئیں۔
جی ہاں، کچھ کمزوریاں ہر انسان میں پائی جاسکتی ہیں اور ہو سکتا ہے بعض لوگ ایسے تصرفات کے مرتکب ہو جائیں جو اس ادارے کے توازن کے خلاف ہوں جس سے وہ تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ وحدت اور یگانگت کے احساس کو نہ سمجھ سکیں اور مسلمانوں کی روحانی شخصیت کے حوض میں اپنی انانیت کی برف کو نہ پگھلا سکیں اور اس اجتماعی روح سے محروم رہ جائیں۔ اس لیے ان سب باتوں کے بارے میں ہمارا فرض ہے کہ ہم تمام معاملات کو ضمیر کی وسعت سے جانچیں اور بعض لوگوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر غصہ نہ کریں۔ ہمیں ان کو اپنے سے دور نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کو جیتنے اور ان کی اصلاح کی کوشش کری چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ داری ہمارے کاندھوں پرڈالی ہے اس کو اپنی بساط کے مطابق ساحل سلامتی تک پہنچا سکیں۔
قرآن کریم نے بہت سی آیات میں مومنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ برائی کو بھلائی کے ذریعے دور کریں اور عفو و درگزر کا نمونہ بنیں ۔ اس بنیاد پر ہم پر لازم ہے کہ ہم قرآن کریم کے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق سلوک کریں اور جہاں تک ممکن ہو عیوب سے چشم پوشی کریں ورنہ ہم بہت سے لوگوں کو ڈرانے اور بھگانے کا سبب بنیں گے جبکہ یہ بات ان جمالیات کے لیے نقصاندہ ہے جن کو ہم اللہ کی خوشنودی کے لیے بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
جی ہاں، اگر ہم اتحاد و یگانگت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم کسی کو دھتکار یں ،نہ اسے الگ کریں اور نہ اس کے عیوب اور خطاؤں کی وجہ سے دور کریں بلکہ ہمیں ایسے رستے تلاش کرنے چاہئیں جن کے ذریعے ہم سب کے دلوں تک پہنچ سکیں، ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسا رستہ اپنائیں اور اس کے بعد ان کو گلے لگانے اور ان کی اصلاح کی کوشش کریں۔
(1) سنن الترمذي، الفتن، 14؛ سنن ابن ماجه، الفتن، 9.
- Created on .