نفسیاتی جنون اور خفیہ ایجنڈے کا جھوٹ
سوال: ہم جتنی بھی شفافیت اور وضاحت کے ساتھ کام کریں مگر پیشگی اور انتہا پسندی کے ساتھ حکم لگانے والے لوگ تحریک خدمت کے بارے میں ایسے الزامات لگاتے ہیں کہ:’’اس کا ایک خفیہ ایجنڈا ہے۔‘‘کیا آپ اس بارے میں اپنی رائے اور وہ ذمہ داریاں بیان فرمائیں گے جو اپنے آپ کو قربان کرنے والی روحوں پر عائد ہوتی ہیں؟
جواب: حقیقت یہ ہے کہ پورا عالم عام طورپر انتہائی خطرناک درجے تک عظمت کے جنون میں مبتلا ہے۔ ہر چیز کے بارے میں شک اور ہر انسان سے خوف لاحق ہے مگر ترکی میں عظمت کا جنون اس درجے تک جا پہنچا ہے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ اگر ہم اپنے ملک کا حال بیان کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ امکان ا ور احتمال کو واقعات کی جگہ رکھا جارہا ہے اور اسی بنیاد پر لوگوں کے خلاف سخت ترین احکامات صادر کیے جارہے ہیں۔ حضرت بدیع الزمان نے عدالت میں اپنے خلاف اس طرح کے باطل خیالات اور الزامات کا مقابلہ کرتے ہوئے اس جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’امکان ہے کہ قاضی اور وکیل سرکار بھی کسی جرم کا ارتکاب کریں اور کسی انسان کوقتل کردیں ۔ پس اگر یہ بات معقول ہو کہ کسی امکان کی بنیاد پر لوگوں کو گرفتار کرکے ان سے پوچھ گچھ کی جائے تو پھر ان دونوں (قاضی اور وکیل سرکار) کو بھی عدالت کے روبرو پیش کیا جانا چاہیے‘‘۔
بے شک احتمالات اور فرضیات پر احکام کی بنیاد رکھنا اور لوگوں کے مستقبل کے بارے میں تخیلات اور وہمی قصے گھڑنا اور لوگوں کے موجودہ حالات کے اعتبار سے ان پر خفیہ مجرم کا لیبل لگانا جنون اور حسد کے سوا کچھ نہیں لیکن آپ کیا کرسکتے ہیں جبکہ ساری دنیا اور خصوصاً ہمارے ملک میں جنون کی ایک حالت چھائی ہے۔ اس وجہ سے یہ آپ کے لیے یہ بات بھی نہایت مشکل ہے کہ تم لوگوں کے سامنے اپنا تعارف کراؤ اور اپنے ساتھ دینے والوں کے سامنے اس جنونی حالت کا تذکرہ کرو۔ اس لیے سب سے پہلے تو اس حالت کو قبول کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد تم پر لازم ہے کہ مایوسی کے بغیر اپنے اقوال، افعال اور احوال سے اپنی نیک نیتی کا اظہار کرو بلکہ ہر موقع پر اس پر زور دو کیونکہ تمہیں کسی شے کا شوق ہے، نہ کوئی خفیہ ایجنڈہ اور مستقبل کی لالچ۔
جی ہاں، ہمارے لائحہ عمل میں کوئی خفیہ چیز ہے اور نہ مستقبل کی کوئی لالچ اور نہ ایسا ہو سکتا ہے۔ ہمیں مختلف امور میں مداخلت کا شوق ہے اور نہ رغبت کیونکہ ہم ان چیزوں سے بالکل دور ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ خدمت کے اس ماحول میں رہتے ہیں اور اپنی زندگی کو اس کے لیے وقف کردیا ہے ان کے خواب میں بھی ایسی باتوں کا کوئی ذکر نہیں بلکہ یہ باتیں ان لوگوں کے ذہن میں بھی نہیں آسکتیں جن کا تحریک خدمت سے دور کا بھی کوئی تعلق ہے۔ اسی وجہ سے جب خدمت کے لیے اپنی روحوں کو وقف کرنے والے لوگوں کا اچانک ان جھوٹے الزامات اور بہتانوں سے سامنا ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں:’’یا اللہ عجیب بات ہے! آپ کس کے بارے میں بات کررہے ہیں؟‘‘ اور حیران پریشان ہو کر دیکھتے ہیں۔ جی ہاں اس طرح کے خیالات اور اوہام ان کے خوابوں میں بھی نہیں آتے۔
منصب کی خواہش بڑی خیانت ہے
جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو اپنا سب سے اعلیٰ ہدف بنایا تو شروع میں انہوں نے اس کے ذریعے سب سے قیمتی اور اعلیٰ چیز تلاش کی بلکہ وہ اس اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے اپنی عمر کو فنا کرنے کوبھی کم سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں نے اس بات کا ادراک کرلیا کہ اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے تگ و دو اور دنیا کے گوشے گوشے میں اللہ تعالیٰ کا نام پھیلانا اس اعلیٰ ہدف تک رسائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ خاص طورپر اس لیے بھی کہ اس زمانے میں دین کی فہم میں اپنا حصہ ڈالنا اور غلط تفسیرات ، تجلیات اور غلط افکار کو درست کرنا بہت اہم ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کے تصرفات اور رویوں کی غلطی کو بیان کو کرنا ضروری ہے جو سختی پر اتر آتے ہیں اور اس خیال سے خون بہاتے ہیں کہ وہ دین کے ساتھ اچھائی کررہے ہیں۔ ایسے ہی اسلام کی حقیقی شناخت کی وضاحت کرنا جو لفظ ’’سلم‘‘ اور ’’سلام‘‘ (سلامتی، امن) سے مشتق ہے۔ یہ باتیں بھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا سب سے اچھا اور مختصر رستہ ہیں۔ ہم آج(مومن دل ہونے کی حیثیت سے ) بقدر امکان اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لیے اس رستے اور منہج پر چلنے کا عزم صمیم کئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہم اس کوشش اور سعی میں لگے ہیں کہ اسلام کو درست انداز میں سمجھا جائے جو حق تعالیٰ کے حکم سے حق کا حکم لے کر آیا ہے اور اس کی عالمگیریت اور شمولیت کو تمام دلوں تک پہنچائیں جو ساری انسانیت کو گلے لگاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف آراء اور مختلف فلسفوں سے وابستہ لوگوں کے درمیان یگانگت کا ماحول پیدا کریں اور دوسری ثقافتوں اور افکار سے وابستہ لوگوں کے درمیان ممکنہ مشترکہ امور کو واضح کرنے کی کوشش کریں۔
اگر آپ لوگوں کے دل ان اعلیٰ حقائق کے شوق میں جلتے ہیں جن کو ہم نے بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور تم نے اپنی زندگیاں ان کی خاطر وقف کردی ہیں اور تم قربانی دے کر ان باتوں کو نافذ کررہے ہو تو پھر تمہیں ان تہمتوں اورالزامات سے حیرت اور تعجب ہو گا جو یہ لوگ تم پر چسپاں کرنا چاہتے ہیں کہ:’’یہ لوگ فلاں فلاں چیز کے طلبگار ہیں‘‘ جبکہ تم ان چیزوں کی طلب کو ذلت اور رسوائی خیال کرتے ہو۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ ان انتہائی مخلص روحوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور مخلصانہ کوششوں کے ذریعے جو قیمتی خدمت انجام دی ہے ، اس کا براہ رست ہدف ایمان کی خدمت اور دلوں کو اس سے آباد کرنا ہے۔ اس وجہ سے یہ مہم ملکوں کو فتح کرنے سے بھی کئی گنا اونچی ہے۔اگر یہ لوگ مجھ سے کہیں کہ ’’خدمت کے اس مفہوم اور ان دوستوں کے درمیان اپنے موجودہ احساسات اور جذبات سے دور ہو جائیں تو ہم آپ کو زمین کی کنجیاں دے دیں گے‘‘۔ تو میں ان سے کہتا’’تمہیں خدا کی قسم ہے، مجھے بتاؤکہ تم نے میرے اندر کونسی خیانت دیکھی ہے کہ تمہیں اتنی جرأت ہوئی کہ مجھے ایسی ذلت اور پستی کی دعوت دو؟!‘‘ جی ہاں، ہم نے اللہ کی خوشنودی طلب کی ہے، اس لیے ہم اللہ کی طرف سے ایک بار عطا کردہ اس زندگی سے فائدہ اٹھانے اور اس کو اچھی طرح استعمال کرنے کے لیے اپنی عقل، سوچ، رائے، جذبات، احساسات اور عقل و منطق کو بروئے کار لائیں گے کیونکہ ان میں سے ہر چیز ہمارے لیے ایک اہم سرمائے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس وجہ سے صرف ایک بار ملنے والے اس قیمتی سرمائے کو ضائع کرنے کو جس کا ہم سے حساب کتاب لیا جائے گا اور الزامات کا شکار ہونے پر فضول اور بیکار باتیں کرنے کو اللہ تعالیٰ کی بے ادبی سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ (میری ناقص رائے کے مطابق) اس طرح کی سوچ ہر اس انسان کا روزانہ کا ورد ہونی چاہیے جس کا دل اس رستے سے لگا ہوا ہے اور اس بارے میں ہمارے کاندھوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ہر جگہ اس بات کو بیان کریں کہ ہم کوئی چیز نہیں چھپاتے اوراپنے تصرفات اور رویوں سے اس کو ثابت کریں اور جس قدر ممکن ہو سکے ان لوگوں کے سامنے وضاحت کریں جو پوچھنا اور حقیقت کو جاننا چاہتے ہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ ہی دلوں کا مالک ہے اس لیے وہ اس حقیقت کو دلوں میں اتاردے گا۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے فرائض پورے کرکے نتائج پرودگار عالم کے حوالے کردیں۔
حسد اور غیرت کا شکار ہونا اس رستے کا امتحان ہے
یہاں ایک اور ضروری بات بھی ہے۔ وہ یہ کہ انسانی فطرت کا خیال رکھتے ہوئے بعض لوگوں کے دلوں میں پوشیدہ حسد اور غیرت کے جذبات کو قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ضروری ہے ک ہم اس بات کو فراموش نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ نے رضا کاروں کی اس تحریک پر ایسے ایسے انعامات اور فضل فرمایا ہے کہ تاریخ میں اس کی مثال کم ملتی ہے۔ اگرچہ ہمارے ملک کے وسائل اور اقتصادی حالات واضح اور معروف ہیں لیکن (اللہ کا شکرہے) یہ خدمات دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ چکی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم اور مدد سے دنیا کے ایک سو ستر ملکوں کے مختلف شہروں میں تعلیمی اور تربیتی سرگرمیاں جاری و ساری ہیں۔ ان سب امور کو اللہ تعالیٰ کا خاص لطف و کرم سمجھنا چاہیے اور اس بات کی بھی توقع رکھنی چاہیے کہ ان کی وجہ سے بعض لوگوں کے اندر غیرت اور حسد کے جذبات کا پیدا ہونا ایک فطری اور معمول کی بات ہے۔
شیطان اس لیے ہلاک اور تباہ ہوا کہ اس نے حضرت آدم علیہ السلام سے حسد کیا اور حسن و جمال کے ان مظاہر کو محسوس ہی نہ کرسکا جو اس کو نظر آرہے تھے اور نہ ہی ان کی حقیقی معنوں میں قدر کرسکا کیونکہ اس کی طبیعت پر حسد اور غیرت کی وجہ سے عداوت کے جذبات چھا گئے تھے۔ شیطان کی یہ حالت بالکل ان بعض لوگوں کی نفسیاتی حالت کی طرح ہے جن پر عداوت، حسد اور بغض کے جذبات کا اس قدر غلبہ ہو گیا ہے کہ وہ چھریاں نکال کر ایک دوسرے پر پل پڑے۔ اس لیے اگر آ پ ان کے قریب جائیں جو اپنا نقصان کرچکے ہیں اور ان کو تنبیہ کریں کہ ’’لوگو تم اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی ہو۔ کیا بھائی بھائی کے ساتھ وہ کرسکتا ہے جو تم کررہے ہو؟‘‘ تو ہوسکتا ہے کہ وہ تمہاری طرف پھر جائیں اور اپنے تیر تمہاری طرف سیدھے کریں اور تم ان کی چھریوں کا نشانہ بن جاؤ ۔ اس لیے ان لوگوں سے آپ ان کی اس حالت میں بات نہیں کرسکتے۔
بالکل یہی نفسیاتی حالت ان بعض ادار وں کی بھی ہے جو ہر چیز پر اعتراض کرتے ہیں۔ اس وجہ سے آپ پر لازم ہے کہ آپ اس بات کو قبول کریں کہ جو لوگ منفی جذبات سے اس حد تک متاثر ہوچکے ہیں اور ان کی فطرت ا ور توازن بگڑ گیا ہے، وہ آپ کو برداشت نہیں کرسکتے۔ آپ کے لیے ضروری ہے کہ انتہائی درجے کی شفافیت سے کام کرتے ہوئے بھی (ممکنہ حد تک) ایسے تصرفات اور برتاؤ سے دور رہیں جو حسد اور غیرت کو ہوا دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کام ہم سے ہو سکے ہیں وہ ہمارے جزوی ارادے سے متعلق معمولی امور ہیں لیکن ہم پر لازم ہے کہ ان چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی ہم دوسروں کی طرف منسوب کریں۔ مثلاً اگر حق تعالیٰ آپ کو کسی خدمت کی توفیق عنایت فرما دے تو آپ اس کو ماحول اور حالات کی جانب منسوب کریں اور یوں کہیں کہ:’’ یہ سب کچھ جمہوری ماحول کا نتیجہ ہے۔‘‘ کسی دوسری کامیابی اور توفیق کے بارے میں کہیں کہ:’’اللہ تعالیٰ ان سرگرمیوں کا پھل دیتا ہے جس میں سب شریک ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر عمومی ماحول اس طرح برقرار نہ رہتا ہے اور یگانگت نہ ہوتی تو ہم یہ سرگرمیاں انجام نہیں دے سکتے تھے۔‘‘علاوہ ازیں یہ امر جاننا ضروری ہے کہ یہ اسلوب اور طریقہ اللہ کی راہ میں کوشش کرنے والے لوگوں کو شرک اور تکبر کے کھڈے میں گرنے سے بچانے کے لیے سب سے مناسب اور محفوظ رستہ ہے۔
کیا اللہ تعالیٰ نہیں جانتا اور امت حقائق کو نہیں دیکھتی!۔۔۔
ہم انسان ہیں اور فطری بات ہے کہ ہم ان جھوٹے الزامات اور توہین پر غمگین اور دکھی ہوتے ہیں جو بے حیاء اور بے شرم لوگ صبح شام لگاتے ہیں لیکن غمگین ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ موجود ہے اور وہ ہر شے کو جانتا ہے! اور یہ بھی جان لو کہ اس دنیا کے بعد آخر ت آئے گی، حشر ہوگا اور حساب کتاب اور ترازو سب کا منتظر ہے!
حقیقت یہ ہے کہ میں شروع سے ہی اس طریقے کو اپنانے کی کوشش رہا ہوں جس کی جانب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایک واقعےمیں اشارہ کیا گیا ہے۔ میں ایک مومن کی شخصیت کے تقاضے کے مطابق بقدر امکان اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ شاید آپ کو یاد ہو گا کہ ایک شخص نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو گالی دی جبکہ نبی کریم ﷺ بھی اس مجلس میں تشریف فرما تھے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر نے خاموشی اختیار کی اور صبر کیا مگر جب بات حد سے بڑھ گئی تو اس کو جواب دینے اور اپنا دفاع کرنے لگے تو اس وقت آپ ﷺ مجلس سے اٹھ گئے۔ حضرت ابو بکر نے اس بات کو محسوس کرلیا اور کہنے لگے کہ اللہ کے رسول وہ مجھے گالیاں دے رہا تھا تو آپ تشریف فرما تھے اور جب میں نے اس کی کچھ باتوں کا جواب دیا تو آپ ناراض ہو کر اٹھ گئے تو فرمایا: ’’ آپ کے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو اس کو جواب دے رہا تھا مگر جب آپ نے اس کی کچھ باتوں کا جواب دے دیا تو شیطان آگیا جبکہ میں شیطان کے ساتھ بیٹھنے والا نہیں۔‘‘ اس کے بعد ارشاد فرمایا: ’’ابو بکر تین باتیں سب کی سب حق ہیں کہ کسی بھی انسان پر کوئی ظلم کیا جائے اور وہ اس پر اللہ کی خاطر خاموش رہے اور صبر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس وجہ سے غالب کرے گا اور اس کی مدد کرے گا۔۔۔۔‘‘۔(1) اس لیے سکوت کی چیخیں میری آواز سے زیادہ بلند ہیں۔ میں گہری خاموشی سے مراقبے میں غرق ہو کر اپنے جذبات اور احساسات سے دور بھاگتا ہوں۔ ۔۔۔ اور اپنی چیخوں کو اپنے دل میں دفن کرکے سکوت کے نوحے کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہوں۔۔۔۔۔
کیا اللہ تعالیٰ ہر شے کی اصل اور حقیقت کو نہیں جانتا؟ لوگ بھی واقعات کو دیکھ رہے ہیں! اگر بات یہی ہے تو پھر منصف لوگ اس کا فیصلہ کریں گے اور بالفعل کریں گے اس لیے تمام دھمکیوں اور دباؤ کے باوجود ہمارے لوگ اس صحیح راستے پر چل رہے ہیں جس کو انہوں نے جانا ہے اور اللہ کی خاطر اپنا سفر اور جدوجہد بغیر کسی وقفے کے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ہمارے جرأت مند اور موقع پانے والے تعلیم یافتہ لوگ بھی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود حق اور حقیقت کے اظہار کے لیے آگے بڑھنے کی سعی کررہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جھوٹے الزام لگانے والے، حق اور سچ کہنے والے اور اس خدمت اور منہج اور موقف کا دفاع کرنے والے کو تباہ کرنے کے لیے کئی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی منصف شخص اس فقیر کے بارے میں کوئی مضمون تحریر کرتا ہے تو اس پر غصے اور حسد سے حملہ آور ہوجاتے ہیں اور ایک نیا جھوٹ گھڑ کر اس پر تحریک خدمت سے وابستگی کا الزام لگا دیتے ہیں اور اس کو مجرم گردانتے ہیں، اس سے پوچھ گچھ کرتے ہیں اور گرفتار کرتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جب وہ کسی سچے اور محب قوم و طن شخص کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو اس پر ہم سے وابستگی کا الزام تھوپ دیتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے ایک شور و غوغا برپا کردتے ہیں کہ گویا اعلیٰ اخلاق پر کا ربند ہونا اور چوری اور گھپلے نہ کرنا جرم اور گناہ ہے۔ یہاں تک کہ نمازوں اور جمعے کی پابندی کرنے والے اور اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے اور زکاۃ دینے والے اور غریب طلبہ کو تعلیمی وظائف دینے والے کو بھی ہم سے منسوب کرتے ہیں اور اس بات کے اندر بھی کوئی خفیہ تنظیم تلاش کرتے ہیں۔
میں بار دگر کہتا ہوں کہ اس تمام ظلم و جبر، استبدادا اور دباؤ کے باوجود ہم سے وابستہ شخص اچھے اور خوبصورت کاموں میں تعاون کرتا ہے اور حق اور حقیقت کے رستے میں قربان ہونے والی روحوں کا قافلہ قواعد و ضوابط کی روشنی میں اپنے اعلیٰ ہدف کی خاطر سفر جاری رکھنے کے لیے اس رستے پر قائم ہے جس کو وہ جانتا ہے اور وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس پر جو مصیبتیں آرہی ہیں وہ راہ حق پر چلنے کی نشانی ہیں اور ان میں سے ہر ایک ایک امتحان ہے۔ اس لیے یہ روحیں ایمان اور امید سے بھر کر اس امتحان کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتی ہیں جس سے اچھے اور مبارک پھل ملنے کی امید ہے۔
(1) مسند الإمام أحمد، 390/15؛ الطبراني: المعجم الأوسط، 189/7.
- Created on .