چارب اتیں جاہلیت کی ہیں

چارب اتیں جاہلیت کی ہیں

سوال: نبیکریم ﷺ ایکحدیثشریفمیںفرماتےہیں:’’ إِنَّ فِي أُمَّتِي أَرْبَعًا مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لَيْسُوا بِتَارِكِيهِنَّ: الْفَخْرُ فِي الْأَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِي الْأَنْسَابِ، وَالِاسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُومِ، وَالنِّيَاحَةُ عَلَى الْمَيِّتِ”(1)(میریامتمیںجاہلیتکیچارباتیںہیں جن کووہنہیںچھوڑےگی، اپنے حسب پر فخر کرنا، دوسروںکے نسب کیعیبجوئی، ستاروںکےذریعے بارش کی طلب اور میتپربین۔) اس حدیثسےکیا سبق ملتا ہے؟

جواب:سب سےپہلے تو اس سوچ کی غلطی کو واضح کرنا ضروری ہے کہ جاہلیت کے ساتھ مخصوص وہ امور بعینہ امت محمدیہ میں موجود ہیں کیونکہ جاہلیت کے اس زمانے میں لوگوں کے عقائد درست نہیں تھے جبکہ امت محمدیہ کا عقیدہ درست اور حق ہے۔ اس لیے اگر جاہلیت سے تعلق رکھنے والے یہ امور بعد میں بعض مسلمانوں کے اندر پائے بھی جائیں تو اس بات کو پیش نظر رکھنا ہو گاکہ ان میں کیفیت کے اعتبار سے فرق ہوگا۔ بالفاظ دیگر یہ باتیں جو جاہلیت کے زمانے کے لوگوں کی رگ و پے میں خون کی طرح گردش کرتی تھیں وہ ان کے اندر حقیقی معنوں میں موجود تھیں جبکہ مسلمانوں کے اندر ان کا بقا مجازی اور ظلی ہے۔

اس بنیاد پر درست اور صحیح بات یہ ہو گی کہ ہم ’’لَيْسُوا بِتَارِكِيهِنَّ‘‘(وہ ان کو نہیں چھوڑیں گے) کا مطلب یہ لیں کہ یہ امور اس طرح باقی رہیں گے کہ ان میں کسی نہ کسی طریقے سے تبدیلی آجائے گی۔ ہم اس سے یہ بات نہ مراد لیں کہ وہ باتیں بالکل اسی طرح اپنی اس حالت میں باقی رہیں گی جس طرح زمانہ جاہلیت میں تھیں۔

حسب نسب پر فخر کا کوئی فائدہ نہیں

اس حدیث میں مذکور چار ممنوع امور میں سے پہلی بات ’’حسب نسب پر فخر ‘‘ کرنا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا منصب، مرتبہ، علم،مال ، جمال اور ذہانت جیسی کسب بھی بات پر فخر اللہ تعالیٰ کی بے ادبی ہے ۔جیسے کہ حضرت بدیع الزمان سعید نورسی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لطف و احسان سے اغماض، اچھائی کا انکار اور ان کو اپنی جانب منسوب کرنا فخر ہے۔ اس لیے اگر انسان ان دونوں باتوں سے بچنا چاہے تو اس پر لازم ہو گا کہ وہ سب سے پہلے اس بات کا یقین رکھے کہ وہ علم، معرفت، عقل، منطق، صحت ، مال جیسی جتنی بھی نعمتوں سے محظوظ ہو رہا ہے وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس بات کا اقرار کرے کہ ان تمام نعمتوں کا سرچشمہ حق تعالیٰ شانہ ہے۔اس کے بعد اگرضرورت ہو تو ان نعمتوں کا تذکرہ صرف ﴿وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾(الضحیٰ :11)(اور اپنےپروردگا کی نعموں کا بیان کرتے رہنا) کے تحت کرے فخر اور گھمنڈ کے طورپر نہیں۔

مزید وضاحت کے لیے ہم کہتے ہیں کہ خود پسندی اور غرور انتہائی بری چیز ہے جو اللہ کو پسند نہیں ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿إِنَّ اللهَ لاَ يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ﴾ (لقمان:18)(بیشک اللہ تعالی کسی اترانے والے شیخی خور کو پسند نہیں کرتا) اس حدیث شریف نے اس آفت یعنی فخر کی ایک خاص قسم یعنی حسب نسب، اپنی نسل اور خاندان کے شجرے پر فخر ہے جو انسان کو تباہ کردیتا ہے۔ اس لیے اگر کسی انسان کا تعلق نبی کریم ﷺ کے اعلیٰ اور پاکیزہ خاندان سے ہو تو بھی یہ کہے کہ:’’اے اللہ ایسے مبارک خاندان سے تعلق میں میرا کوئی ہاتھ نہیں اور میں یقین سے جانتا ہوں کہ میرے لیے یہ فیصلہ آ پ نے ہی فرمایا۔ یہ تیرا احسان اور فضل ہے اور ساتھ ہی میرے لیے بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ اے اللہ ساری حمد و ثناء تیرے لیے ہے کہ تو نے فضل فرمایا ۔ میں تجھ سے اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے تیری مدد اور توفیق کا طلبگار ہوں۔‘‘ انسان پر لازم ہے کہ وہ کسی خاص نسب کی طرف نسبت کو دوسروں پر تکبر اور فخر کے لیے استعمال نہ کرے۔

کسی انسان کا اپنے آباء و اجداد کے مال و دولت اور محلات پر فخر بھی حسب نسب پر فخر کی آفت کا حصہ ہے۔ یہی معاملہ کسی وزیر یا وزیر اعظم یا صدر کے بچوں کا بھی ہے حالانکہ ان چیزوں کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی قیمت نہیں بلکہ یہ چیزیں مردود اور مسترد ہیں۔ اس لیے اگر ایسے امور میں پڑنے والا شخص ایمان والا ہو گا تو اسے دنیا میں سزا مل جائے گی ورنہ اللہ تعالیٰ کی بڑی عدالت میں سزا دی جائے گی جبکہ یہ سزا زیادہ سخت اور تکلیف دہ ہے۔ اس لیے انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی طرح اس قسم کی پستی یعنی حسب نسب پر فخر کی پستیکے قریب بھی نہ جائے ۔ ان امور کو اپنے لیے باعث فخر نہ سمجھے کیونکہ اس کے باپ دادا کی صفات اسے کچھ فائدہ نہ دیں گی بلکہ انسان کے پاس وہ ذاتی قیمت ہونی چاہیے جس کی جانب اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے:﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ﴾ (الحجرات:13) (بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے(

جی ہاں ، اللہ تعالیٰ کے ہاں انسان کا مرتبہ اس کی عبادت اور اطاعت ’’احسان‘‘کے درجے میں زندگی گزارنے اور یہ ایمان رکھنے سے ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہر فعل کو دیکھ رہا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس بات سے جڑا ہوا ہے کہ وہ ہر پل اس طرح ہے کہ گویا وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور جو شخص اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کا خیال نہیں رکھتا اس کو اس کے باپ دادا اور ا ولاد کچھ فائدہ نہیں دے سکتی کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ہم وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے عزت بخشی ہے۔ اس لیے ہم اس کے علاوہ کسی چیز کے ذریعے عزت نہیں طلب کریں گے‘‘(2)بے شک اسلام کے علاوہ عزت، بلندی اور رفعت کے ذرائع تلاش کرنا فضول اور بےکارہے۔

طبقاتی نظام انسانیتکا لاعلاج مرض ہے

نبی کریمﷺ اس حدیث شریف میں جاہلیت کی دوسری بات کو ’’والطعن فی الانساب‘‘کے الفاظ سے ذکر فرمایا ہے۔ اس کا مطلب ہے دوسروں پر ان کے نسب کی وجہ سے طعن و تشنیع کرنا کیونکہ جس طرح ایک انسان کے کسی غریب خاندان میں کسی چرواہے باپ کے ہاں پرورش پانے سے اس میں کوئی کمی نہیں آجاتی یا اسی طرں فلاں بن فلاں کا بیٹا ہونے سے بھی اس میں کوئی خوبی پیدا نہیں ہوتی کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ انسان کے اندر کوئی ذاتی قیمت ہو جیسے کہ اوپر بیان کیا گیا۔ ابراہیم حقی نے اس بارے میں اپنے نفس کو مخاطب کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے:

اگر تم اس رستے میں ماہر ہونا چاہتے ہو

تو اپنا راز کبھی ظاہر نہ کرنا اے دوست

’’ذاکر‘‘ اہل خرابات کو ہر گزحقیر نہ سمجھنا

کیونکہ کتنے ہی خرابات خزانوں سے بھرے ہیں

جی ہاں کتنے ہی لوگوں کو تم کھنڈر سمجھتے ہو لیکن ان کے سینے خزانوں اور اسرار سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔اس رخ سے لوگوں کے معاشرتی ماحول اور ان کی مادی حالت اور ان کے ماحول اور خاندانی حالات اور ان جیسی دیگر چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں پر طعن و تشنیع کرنے کی کوئی گنجائش نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دوسروں سے برتر ہونے اوران کو کمتر سمجھنے کے احساس کی مصیبت آج کی پیداوار نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق نہایت قدیم زمانے سے ہے کیونکہ ’’طبقاتی نظام‘‘ کا وہ عقیدہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا سرچشمہ ہندومت ہے، بہت سے ان معاشروں میں پھیل گیا ہے جن کی انبیاء کرام کے ہاتھوں تربیت نہیں ہوئی۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح کی سوچ اس وقت بھی مختلف رخوں سے دنیا کے مختلف علاقوں میں موجود ہے جس میں ہمارا ملک بھی شامل ہے۔ پس اگر آج انسانیت کے اندر تمدن ، جمہوریت اور انسانی حقوق میں ترقی کے باوجود طبقاتی نظام مختلف شکلوں اور مظاہر کے ساتھ موجود ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنی حالت پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔

اس بارے میں ہمارے معاشرے سے متعلق بات یہ ہے کہ اناطولیہ ’’گزرگاہ‘‘ ہے۔ یہ ایسا مقام ہے جہاں سے بہت سی قومیں گرزی ہیں۔ یہاں تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ادیان اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والی قدیم ترین قومیں آباد ہوئیں۔ ان میں سے اکثریت نے اسلام قبول کرلیا۔ اس رخ سے اگر آپ لوگوں کی اصلیت اور نسب تلاش کرنا چاہیں گے تو معلوم ہوگا کہ چند نسلیں قبل وہ یہودی، ارمنی، عیسائی یا رومی تھا۔ اس بنیاد پر ہمیں لوگوں کو طعنے دینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا بلکہ صحابہ کرام سے اکثریت کے آباء و اجداد بھی اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے بغیر دنیا سے چلے گئے تھے ۔ اس لیے لوگوں کا اندازہ ان کی موجود حالت سے لگانا چاہیے ان کے ماضی اور نسب سے نہیں۔

ستارہ شناسی اور دل کا کھوکھلاپن

ایک اور بات جو جاہلیت کی خصلتوں میں سے ہونے کے باوجود امت محمدیہ میں موجود رہے گی وہ ہے ستاروں سے بارش طلب کرنا اور ستار وں کی طرف بارش کی نسبت کرنا۔ اس کو آنحضرت ﷺ نے ’’الاستسقاء بالنجوم‘‘(ستاروں کے ذریعے بارش طلب کرنا) کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے کیونکہ ستارے (خصوصی طورپر دجلہ و فرات کے علاقے میں )اہمیت اور تقدیش کے حامل مانے جاتے تھے ۔ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ ستاروں کا انسانوں پر براہ راست اثر ہوتا ہے۔ اگرچہ آج وہ عقائد ختم ہوچکے ہیں مگر ستارہ شناسی اور برجوں پر یقین آج تک باقی ہے جو اس عقیدے کا حصہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جاہلیت کی یہ عادت مختلف شکلوں میں اب بھی باقی ہے۔

اس موضوع سے متعلق ایک حدیث قدسی میں آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے:’’میرے بندوں میں سے کچھ میر انکار کرتے ہیں اور کچھ ایمان لاتے ہیں۔ پس جو شخص یہ کہے کہ ہم پر اللہ کے کرم اور فضل سے بارش ہوئی وہ مجھ پر ایمان لانے والا اور ستاروں کا انکار کرنے والا ہے اور جس نے کہا کہ فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی تو وہ ستاروں پر ایمان لانے والا اور میرا انکار کرنے والا ہے۔‘‘(3(

مطلب یہ ہے کہ آسمان سے اترنے والی اس بارش پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اس کی رحمت کے آثار میں سے ایک اثر ہے۔ اس لیے یہ ایمان کی علامت ہے کیونکہ بارش کی اسباب کی طرف نسبت شرک کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ دوسری جانب ستاروں کے بارے میں جدید علوم نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ اسباب کے درجے میں بھی ستاروں کا بارش سے کوئی تعلق نہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگ ان حقائق پر بھی ایمان نہیں لائے جن پرایمان لانا ضروری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایمان کے ارکان پر قوی اور درست یقین باقی نہیں رہتا تو ان کی فطرت میں موجود ایمان کی حس اس کو باطل پر یقین کر نے کی جانب لے جاتی ہیں ۔ چنانچہ بعض لوگ یوگا سے مدد چاہتے ہیں، بعض غور و فکر سے مدد طلب کرتے ہیں اور کچھ اپنے آپ کو ستارہ شناسی سے خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سب باتوں کا سبب صرف اور صرف واجب الایمان حقائق، روحانی صلاحیت اور ایمانی طاقت کی بندش ہے جبکہ انسان اپنی فطرت اور جبلت کے اعتبار سے حقیقت کی تلاش میں رہتا ہے مگر کبھی کبھی اس تلاش کے دوران باطل کے جال میں پھنس جاتا ہے اور ایمان کے محتاج اپنے دل کے اطمینان کی خاطر ان پتھروں، درختوں اور ستاروں کی پناہ لے لیتا ہے جن میں ادراک اور شعور کی حس بھی نہیں۔

تقدیر پر ایمان اور سوگ منانے کی عادت

حدیث میں مذکور آخری بات ’’النیاحہ علی ا لمیت‘‘(مردوں پر بین) ہے جس کا مطلب مردوں کے اوصاف بیان کرنے میں مبالغہ آرائی اور ان پر رونا ہے۔ آج بھی ہمارے ملک کے کچھ حصوں میں ایسی مرثیہ خوانی ہوتی ہے کہ اس کو قرآن و سنت کے اسلامی نظریات سے ملانا ناممکن ہے کیونکہ لوگ یکجا ہو کر اس کے محاسن اور فضائل شمار کرتے ہیں اور اس کی تعریف میں مبالغہ آرائی کرتے ہیں یہاں تک کہ اس کے پپوٹوں اور آنکھوں کے محاسن بیان کرتے ہیں۔۔۔ خصوصاً عورتیں پاؤں پر ہاتھ مارتی ہیں، منہ پر تھپڑ مارتی ہیں اور اداکاری کی طرح جھوٹ موٹ روتی ہیں۔

اس تعظیم و تبجیل ، اور مبالغہ آرائی کے ساتھ اس کی صفات کا شمار اور اس احترام کامیت کو قطعاً کوئی فائدہ نہیں اور ان باتوں کے میت کے لئے فائدہ مند نہ ہونے کو چھوڑدیں تو بھی جس وقت یہ لوگ اس سے میراث حاصل کرتے ہیں اور اس پر روتے ہیں، فرشتے اس کا محاسبہ کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں جیسے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ’’تم ایسے ہو ، تم ایسے ہو، !‘‘(4)اس طرح مردہ ان کی وجہ سے ایک طرح کے عذاب کا نشانہ بن جاتا ہے۔جی ہاں، جب تک انسان دنیا میں عبادت اور اطاعت سے اللہ کا قرب حاصل نہ کرے اور اچھی طرح اس کی عبادت نہ کرے، جنازے میں شریک ہونے والوں کی کثیر تعداد، اس کی متطوم مدح سرائی اور اسے الوداع کرنے والوں کا یہ کہنا ذرا بھر فائدہ نہیں دے سکتا کہ ’’یہ نیک تھا‘‘(5) علاوہ ازیں یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ جان بوجھ کر کسی فاسق انسان کے بارے میں ’’نیک تھا‘‘کہنا جھوٹی گواہی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اس جھوٹی گواہی پر اس انسان کا محاسبہ کرے گا ۔ ہاں یہ بات ان لوگوں کے بار ے میں حسن ظن رکھنے میں مانع نہیں جو مسجد جاتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور بااخلاق اور اچھے معلوم ہوتے ہیں کیونکہ ہم ظاہر پر حکم لگاتے ہیں جبکہ دلوں کے بھید صرف اللہ ہی جانتا ہے مگر جو لوگ کھلم کھلا دین اور عبادت سے دشمنی کرتے ہیں اور کھلم کھلا لوٹ مار کرتے ہیں (یہاں تک کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ ان باتوں کو مباح سمجھتے ہیں حالانکہ وہ دین اور دینداری کے بارے میں باتیں کرتے نہیں تھکتے) اور جعلسازی کرتے ہیں اور لوگوں پر بہتان تراشی کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ’’نیک تھا‘‘کہنا خوفناک جھوٹ اور اللہ تعالیٰ کی سخت بے ادبی ہے۔ علاوہ ازیں جب ہم اس مسئلے کو دینی رخ سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امام کے اس سوال کے جواب میں کہ :’’تم اس میت کو کیسا جانتے ہو؟‘‘ جماعت کا یہ کہنا کہ ہم اسے نیک جانتے ہیں۔‘‘ کا سنت میں کوئی ثبوت نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ایسا کبھی نہیں کہا۔ یہ معاشرے کی ایجاد کردہ ایک بدعت ہے بلکہ بعض لوگ اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے تین بار سوال دہراتے ہیں ۔ اس کے بعد پوچھتے ہیں کہ ’’کیا آپ نے اس کو معاف کردیا؟‘‘ لیکن ان باتوں کا کتاب و سنت بلکہ فقہ میں بھی کوئی ثبوت نہیں۔ اس لیے یہ بدعت ہیں اور ان کا کسی زندہ کو فائدہ ہے نہ مردے کو۔ یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ انسان کے جنازے میں لوگوں کی تعداد کم یا زیادہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگرچہ اس میں دو آدمی ہی کیوں شریک نہ ہوں بشرطیکہ وہ ایمان اور عمل صالح کے ہمراہ دار آخرت کی جانب منتقل ہو رہا ہو۔ حضرت احمد نعیم (6) (جن سے مجھے شدید محبت تھی) کا جنازہ پانچ یا دس آدمیوں نے پڑھا تھا۔ پھر جب یہ واقعہ میں نے حضرت بشار (7) کے سامنے ذکر کیا تو فرمانے لگے کہ ’’کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ ان گنہ گاروں کو احمد نعیم کا جنازہ پڑھنے کی توفیق دے گا؟‘‘اسی طرح قوم نے محمد عاکف کے بارے میں بھی اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کی کیونکہ ان کے جنازے میں شریک نہیں ہوئی لیکن مسجد میں جنازہ ہو جانے کے بعد یونیورسٹی کے طلبہ جھنڈے اٹھا کر ان کو الوداع کرنے آئے۔ تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جن کے ساتھ ان کے مرتبے کے مطابق سلوکنہیںکیاگیا۔

فرعونوں اور ظالموںکے جنازے

دوسری جانب جو شخص دنیا میں آخرت کے لیے ضروری تیاری نہ کرے اور اچھے اور نیک اعمال کے بغیر آخرت کا سفر کرے تو اللہ کی ملاقات کے لیے جاتے ہوئے اس کے جنازے میں جم غفیر بھی شریک ہو تو اسے کچھ فائدہ نہ ہوگاکیونکہ کتنے ہی فرعونوں ، نمرودوں اور شدادوں کو لاکھوں لوگوں نے رخصت کیا! لیکن یہ بڑے بڑے جنازے ان کو بڑے عذاب سے نہ بچا سکے۔ اس لیے ان جیسے لوگوں کے جنازہ میں لاکھوں لوگ شریک ہوں ، ان کی موت پر پوری دنیا ہل جائے اور ساری دنیا ان کی لاشوں کے گرد بیک آواز کہے کہ ’’ہم ان سے خوش ہیں‘‘ تو بھی ان کو کوئی فائدہ نہہوگا،﴿فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا﴾ (مریم:59)(سو عنقریب ان کو گمراہی کی سزا ملے گی(

حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ’’کوئی بھی مسلمان جب فوت ہو جاتا ہے اور اس کے جنازے پر چالیس ایسے لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ اس کے حق میں ان کی سفارش قبول فرمائے گا‘‘۔(8) لیکن اس حدیث شریف نے معاملے کو میت کے اسلام سے مقید کیا ہے جبکہ وہ جھوٹی گواہی جو جھوٹ کی صورت میں قصداً اور عمداً دی جاتی ہے، اسے کوئی نفع نہ دے گی۔ نبی کریمﷺ نے ایک بار موت اور اس کے بعد کے مراحل کی یاد دہانی کراتے ہوئے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا:

’’جہاز کی مرمت کرو کیونکہ سمندر گہرا ہے

اورزاد راہ پورا لو کیونکہ سفر دور کا ہے

اور بوجھ کم کرو کیونکہ گھاٹی مشکل ہے

اور عمل کو خالص کرو کیونکہ پرکھنے والا صاحب بصیرت ہے۔‘‘(9(

یہ وہ امور ہیں جن پر آپ علیہ السلام نے زور دیا اور ان کو اہمیت اور قیمت دی۔ اس لیے اگر آپ اللہ کی جانب اس طرح درمیانی اور نیک دائرے کی پابندی کرتے ہوئے جائیں گے تو اپنی روح کے پاکیزہ اور ستھرے مرتبے تک پہنچ جائیں گے اور﴿إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ﴾(البقرۃ:156)(ہم اللہ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں) کا شرف حاصل کرلیں گے ورنہ وہ تعریفیں اور مرثیے اور تمہارے حق میں پڑھے جانے والے قصیدے اور نظمیں تمہیں کچھ فائدہ دیں گی اور نہ تمہارے جنازے کے پیچھے چلنے والے لوگ کام آئیں گے اگرچہ ان کی تعداد کروڑوں کیوں نہ ہو۔

(1)صحيح مسلم، الكسوف، 29؛ مسند الإمام أحمد، 538/37؛ الحاكم: المستدرك، 539/1 (واللفظ له).
)2( ابن أبي شيبه: المصنف، 10/7؛ الحاكم: المستدرك، 130/1.
(3) صحيح البخاري، المغازي، 37؛ صحيح مسلم، الإيمان، 125.
(4) نبیکریمﷺنے ارشاد فرمایا: ’’مردےکوزندہکےرونےکیوجہسے عذاب دیاجاتاہے۔ جب وہکہتےہیں:افسوسمیرابازو،افسوسمجھے لباس پہنانے والا، افسوس میرے مدد گار، اےعظیمپہاڑ اور اس جیسے الفاظ جوزبردستیبولےجاتےہیں تو اس سےپوچھاجاتاہے:’’کیا تو ایساہے؟ کیا تو ایساہے؟‘‘
(5) ترکیمیںایک رواج ہےکہ امام جنازہپڑھانےکے بعد لوگوںکی جانب متوجہہوکرپوچھتاہے:’’اس میتکو تم کیساجانتےہو؟‘‘ تو لوگ جواب دیتےہیں:’’ہم اس کونیکجاتےہیں۔‘‘ اس کے بعد پوچھتاہے:’’کیا تم نے اس کو معاف کردیا ؟‘‘ تو وہکہتےہیں ’’ہمنے معاف کردیا۔‘‘
(6) الأستاذ أحمد نعيم (1872-1934م): من العلماء الأجلاء في العهد الأخير للدولة العثمانية.
(7)الأستاذ يشار طُوناكُور (1924-2006م): واعظ ومفتٍ سابق.
(8) صحيح مسلم، الكسوف، 59؛ سنن أبي داود، الجنائز، 45.
(9) الديلمي: الفردوس بمأثور الخطاب، 339/5.

 

 

Pin It
  • Created on .
حقِ اشاعت © 2024 فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
fgulen.com یہ فتح اللہ گولن. کی سرکاری ويب سائٹ ہے۔