رہنمائی کی ذمہ داری اور معاملا تمیں
سوال: اللہتعالیٰکے اس ارشاد گرامی﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ﴾(آل عمران:159)((اے محمد) اللہ کی مہربانی سے تمہاری افتاد مزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے اور اگر تم بد خو اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے) کی روشنی میں رہنمائی کی ذمہ داری اور معاملات میں نرمی کا آپس میںکیا تعلق ہے؟
جواب:یہآیتکریمہ غزوہ احد کی مناسبت سے نازل ہوئی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس معرکے میں مسلمانوں کو عارضی طورپر شکست ہوئی تھی مگر وہ جزوی ہزیمت آخر کار فتح میں بدل گئی(1)۔
آغاز میں ہم اس آیت کا مختصر خلاصہ بیان کرتے ہیں کیونکہ اس کی ابتداء﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللهِ﴾ سے ہورہی ہے اوراگر ’’فبما‘‘ میں حرف جر’’با‘‘ مصاحبت کے لیے ہو تو اس کا معنی ہو گا کہ: ’’آپ ان کے لیے نرم ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت، عنایت اور لطف و کرم کے فضل کی وجہ سے ان سے نرمی کا معاملہ کیا۔‘‘ اس طرح حق تعالیٰ شانہ نے پہلے یہ بیان فرمایا کہ نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور عنایت میں گھرے رہتے ہیں ۔ اس لیے شروع سے ہی ذہن سے اس احتمال کو نکال دیا کہ آپ علیہ السلام سے کبھی کوئی کوتاہی ہوئی ہو۔
اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہماالسلام سے دعوت کے بارے میں خطاب کا تذکرہ خالی از فائدہ نہ ہوگا تاکہ اس کے ذریعے اس بارے میں آنحضرت محمد ﷺ کی اعلیٰ خصوصیات کا ادراک کیا جاسکے۔ چنانچہ جس وقت اللہ تعالیٰ حضرت موسی و ہارون علیہمالسلام کو فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے یہ حکم فرماتے ہیں کہ:﴿فَقُولاَ لَهُ قَوْلاً لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى﴾(طہ:44)(اس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ غور کرے یا ڈر جائے) جبکہ یہاں ذکر فرمایا کہ ’’لنت لہم‘‘(آپ ان کے لیے نرم ہو گئے)یعنی آپ ﷺ پہلے سے ہی ایسے اعلیٰ اخلاق سے مزین ہیں۔
اللہ جل جلالہ نے سلطان الانبیاء ﷺ کے قرآنی اخلاق کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا:﴿وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ﴾(اور اگر تم بد خو اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے) ان الفاظ سے حسن و جمال کی ان اقسام کو بیان فرمایا جہاں تک آپ علیہ السلام کے اخلاق عالیہپہنچے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام کو ایک کے بعد دوسرا حکم فرمایا کہ آپ ان کو معاف کرنے سے باز نہ آئیں ، ان کے لیے استغفار کرتے رہیں اور ان سے مشورہ لیتے رہیں۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:﴿فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ﴾
شکست کو فتح میں بدلنے کا نسخہ اکسیر
نبی اکرمﷺ نے معرکہ احد کے لیے نکلنے سے قبل اپنے صحابہ کے ساتھ ایک مجلس مشاورت منعقد فرمائی اور سب کے دلوں میں مشورے کے نظریے کو پختہ کرنے کی غرض سے ان کی رائے لی لیکن وہ ایک عارضی شکست سے دوچار ہوئے جس سے بڑا نقصان ہوا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کے دل میں ممکنہ طورپر اپنے اصحاب کے بارے میں غم اور دل شکنی کے جذبات کو دور کرنے کے لیے عفو و درگزر اور معافی جیسے اخلاق کو اختیار کرنے اور اللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ ہو کر ان کے لیے معافی طلب کرنے اور دوبارہ ان سے مشاورت سے احتراز نہ کرنے کا حکم فرمایا۔
چنانچہ جس وقت مشرکین مکہ غرور اور تکبر کے ساتھ اتراتے ہوئے واپس جارہے تھے نبی اکرمﷺ نے صحابہ کرام کو جمع فرماکر ان کے سامنے مشرکین کا تعاقب کرنے کی تجویز پیش فرمائی تو انہوں نے بھی اس پر صاد کیا اور معرکہ احد میں شرکت کرنے والوں میں سے کوئی ایک نفس بھی پیچھے نہ رہا۔ اس منظر پر غور و فکر کرنے سے ہم اچھے نتیجے تک پہنچنے کے لیے مشورے کے اثر کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کیونکہ حضرات صحابہ کرام نے دیکھ لیا کہ معرکہ احد سے قبل نبی اکرمﷺ کے مشورے کے دوران ان کا اپنی رائے پر (معمولی سا) اصرار بھی کس طرح مصیبت کا سبب بنا۔ اس وجہ سے احد میں شریک تمام صحابہ کرام اکٹھے ہو گئے جن میں ایسے حضرات بھی شامل تھے جو زخموں کی وجہ سے چل بھی نہ سکتے تھے بلکہ کاندھوں پر اٹھا کر لائے گئے اور حمراء الاسد کے مقام تک مشرکین کا پیچھا کیا اور تھوڑے ہی وقت میں شکست کی حالت سے نکل کر فتح کی حالت میں داخل ہو گئے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم مخاطبین کی نظر میں کشش کا مرکز بننا چاہتے ہیں تو ہمیں حال اور قال دونوں صورتوں میں نرمی کا دامن ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے
کیونکہ لوگوں سے معاملات میں سختی اور ترش روئی ان کو ہم سے دور کردے گی اور جیسے کہ اس آیت شریفہ نے بیان فرمایا وہ ہم سے الگ ہو جائیں گے۔ اسی طرح سختی اور بد خوئی کی بھی کئی انواع و اقسام ہیں۔پس جس طرح کسی خطیب کا غلط اور فحش ا لفاظ بولنا لوگوں کو سختی اور شدت سے مخاطب کرنا اور آواز کو حد سے زیادہ بلند کرنا سختی ہے، اسی طرح لوگوں پر ایسی تنقید کرنا جس سے دلآزاری ہو یا کسی سے روگردانی کرنا اور منہ موڑنا بھی سختی اور ترش روئی کا ایک اور نمونہ ہے۔ یہ سب رویے اور برتاؤ لوگوں میں نفرت پیدا کرتے ہیں اور ان کو خطاب کرنے والوں سے دور کرتے ہیں۔
اس بارے میں اخلاق الٰہیہ بنیاد ہیں اور انبیائے کرام ان اخلاق کا نمونہ ہوتے ہیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو اس فرعون سے نرمی سے بات کرنے کا حکم فرمایا ہے جو خدائی کا دعویٰ کرتا ہے اور آنحضرت ﷺ کی نرمی اور خوش خلقی کی تعریف فرمائی ہے اور آپ کے نرم رویے اور بیان کی وجہ سے مدح کی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا وہ بنیادی اصول ہے جس کی اتباع ہر زمانے اور ہر جگہ ضروری ہے۔ اس وجہ سے مسلمانوں سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے ارد گرد رہنے والوں سے نرمی کا برتاؤ کریں اگرچہ وہ اان کو کتنی ہی تکلیف کیوں نہ دیں۔
نرمیکی حد یہ ہے کہ حقوق اللہ میں کوتاہی نہ کی جائے
اس کے باجود ان نافرمان باغیوں کے خلاف کوئی موقف اختیار کرنا جو نصیحت حاصل نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ بغیر کسی شرم و حیاء کے غلطی اورکوتاہی ہی دہرانے پر مصر رہتے ہیں، اللہ کے حق اور اس کی تعظیم کی پابندی اور اظہار ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ہم کہتے ہیں کہ:’’جو لوگ حلال حرام کا خیال رکھے بغیر مال کماتے ہیں اور ایسی آزاد زندگی گزراتے ہیں جو خود ان کے اور دوسروں کے لیے نقصان دہ ہے، ان کو نرم اور پرسکون انداز سے تنبیہ کریں۔ اگر اس پر بھی وہ نہ سمجھیں اور اپنے افعال سے باز نہ آئیں تو ان کے خلاف واضح موقف اختیار کرنا ضروری ہو جائے گا جیسے کہ یہ بات معروف ہے کہ حق تعالیٰ کا یہ ارشاد گرامی ﴿وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَنْ لاَ مَلْجَأَ مِنَ اللهِ إِلاَّ إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا إِنَّ اللهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ﴾(التوبہ:118)(اور ان تینوں پر جن کا معاملہ ملتوی کیا گیا تھا، یہاں تک کہ جب زمین باوجود فراخی کے ان پر تنگ ہو گئی اور ان کی جانیں بھی ان پر دوبھر ہو گئیں اور انھوں نے جان لیا کہ اللہ سے خود اس کے سوا کوئی پناہ نہیں۔ پھر اللہ نے ان پر مہربانی کی تاکہ توبہ کریں۔ بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔)ان تین حضرات کے بارے میں نازل ہوا تھا جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے کیونکہ اس میں ایک آزمائش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے غزوہ تبوک میں جنگ نہیں ہوئی ورنہ یہ تینوں حضرات جنگ میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے عظیم گناہ میں پڑ جاتے۔اس وجہ سے اس واقعہ کے پچاس دن بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کو معاف فرمانے کی خبر دی لیکن یہ پچاس دن انہوں نے عزلت میں گزارے، نبی کریم ﷺ نے ان سے قطع کلامی فرمائی اور صحابہ کو بھی بات کرنے سے منع فرمادیا کیونکہ وہ اس مہم میں شریک نہیں ہوئے تھے جو اللہ کے رستے میں تیار کی گئی تھی۔ اس زمانے میں منافقین بھی جنگ میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے جو مومن پیچھے رہ جاتا وہ عارضی طورپر انہی میں شامل ہو جاتا تھا۔اس وجہ سے ان کے خلاف یہ موقف اختیار کیا گیاکیونکہ انہوں نے اپنے مرتبے کو آلودہ کیا۔ سو یہ اجتماعی بائیکاٹ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی تعظیم کا اظہار تھا۔
اگر یہ بات نہ ہوتی تو نرمی اور شفقت تومسلمان کے اخلاق کی بنیاد ہے اور جو لوگ اپنے برتاؤ میں نرمی اور شفقت کو اپناتے ہیں وہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اس وجہ سے اگر معاشرتی لحاظ سے کوئی شخص خاص احترام کے لائق ہو تو وہ جس توجہ کا مستحق ہے اس میں کمی نہیں کرنی چاہیے جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دوسروں سے قائم ہونے والا تعلق ہر شخص کے ساتھ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود آپ کی جانب سے ہر شخص کو اس کے خصوصی مرتبے کے لحاظ سے احترام اور اہتمام ملنا چاہیے اور امت کی فکر میں گھلنے والے مومن سے لے کر عام مسلمان اور آخر میں آپ کے مخالف رستے پر چلنے والے سب لوگوں کے ساتھ بھی تعلقات قائم کرنا ضروری ہے۔
محبت تعلق قائم کرنے کا واحد رستہ
مختلف طریقوں اور اسالیب کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے میں تمام لوگوں تک رسائی اور ان کے لیے اپنے سینوں کو کھولنا ضروری ہے کیونکہ یہ ’’گفتگو‘‘ کا مقصد اصلی ہے جبکہ لوگوں کے ساتھ تعلق اپنے برتاؤمیں حال اور قال دونوں میں نرمی اور لطافت اختیار کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر آپ یہ ہدف نہ حاصل کرسکیں تو آپ کے لیے اپنے افکار کو مکمل طورپر بیان کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس لیے اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی باتوں سے مکمل یا جزوی طورپر مستفید ہوں اور آپ کی جانب مائل ہوں، آپ کے خلاف نہ ہوں اور کم از کم ان لوگوں کا مقابلہ کریں جو تمہارے خلاف ہیں ، تو تم پر لازم ہے کہ ان کے مقابلے میں نرمی اور شفقت کو اختیار کرکے ان کے ساتھ محبت اور نرمی کا تعلق قائم کرو اور اس طرح اس بات کو یقینی بناؤ کہ وہ درست انداز میں آپ کو پہچان لیں۔
اگر تم اللہ کے کلمے کو بلند کرنا اوررسالت محمد یہ جلیلہ کو سب تک پہنچانا اور اسلام کی خوبصورت تصویر اور اس کے پاکیزہ اور صاف ستھرے چہرے کو اس کو بدنام کرنے کی کوششوں کے مقابلے میں ظاہر کرنا چاہتے اور اپنی روحانی جڑوں سے نکلنے والے خوشبودار رس کو دوسروں کے دلوں میں انڈھیلنا چاہتے ہو تو پھر تمہارے لیے ضروری ہے کہ اپنے سینے سب کے لیے کھول دو اورکسی بھی قسم کی تمیز کے بغیر سب کو گلے لگاؤ بلکہ (اگر ضرورت ہو تو ) تم پر لازم ہے کہ فٹ پاتھ کے پتھروں کی طرح اپنے سر دوسر وں کے پاؤں تلے رکھ دو تاکہ اس کی طرح تم اپنے احساسات اور جذبات لوگوں کی روحوں میں اتارنے اور ان کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہو جاؤ۔
یہ مت سمجھو کہ یہ کوئی بڑی بات ہے بلکہ یہ کچھ بھی نہیں کیونکہ یہاں معاملہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کے حق اور فخر انسانیت کی رضا سے جڑا ہوا ہے۔ اس میں ان لوگوں کی دلجوئی ہے جو دین مبین اسلام پر زندگی گزارتے ہیں، اس کو منطبق کرتے ہیں اور دنیا کے ہر ہر گوشے تک اس کا پیغام پہنچاتے ہیں۔
واپس اپنے مضمون کی طرف آتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ نے اپنی ساری زندگی اپنے افعال، اقوال، تصرفات اور برتاؤ سے یہ ثابت فرمایا ہے کہ آپ زمین پر چلنے والی مجسم رحمت ہیں اور یہ حق بھی تھا جیسے کہ یہ آیت کریمہ بیان کرتی ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ﴾ (الانبیاء:107)(اور (اے محمد) ہم نے تم کو تمام جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے) چنانچہ اس رحمت کے مظاہر کا آپ علیہ السلام کی زندگی کے مختلف مناظر میں مشاہدہ اور مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب آپ علیہ السلام مکہ مکرمہ میں فاتح بن کر داخل ہوگئے تو ان لوگوں سے جنہوں نے ہر کانٹا آپ کی راہ میں بچھایا اور آپ کو تکلیف اور ایذاء دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی بلکہ آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی، وہی بات فرمائی جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی کہ:﴿لاَ تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ﴾ (یوسف:92)(ٓج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ اللہ تم کو معاف فرمائے) اور فرمایا کہ:’’جاؤ تم آزاد ہو۔‘‘ اس برتاؤ سے آپ علیہ السلام نے ہمیں نرمی، عفوودرگزر اور رحمت اور شفقت کا اعلیٰ تریندرجہدکھادیا(2)۔
زمین پر چلنے والی رحمت مجسم
سید الانبیاء ﷺ کی رحمت اور شفقت کا فائدہ بہت زبردست ہوا کیونکہ جیسا کہ سورۃ النصر میں مذکورہ ہے، لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے اور اگر ہم اس مسئلے پر تاریخی واقعات کے بار بار پیش آنے کے زاویے سے نظر ڈالیں تو کہہ سکتے ہیں کہ:جو عوامل گزشتہ کل لوگوں کو ا سلام میں داخل کرنے کے لیے موثر تھے وہ آج اور آئندہ کل بھی اسی طرح موثر رہیں گے جیسے کہ حضرت بدیع الزمان سعید نورسی فرماتے ہیں کہ’’اگر ہم اپنے افعال اور برتاؤ سے اسلام کے اعلیٰ اخلاق اورایمان کے حقائق کا کمال ظاہر کرسکیں تو دیگر مذاہب کے پیروکار گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہو جائیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ دنیا کے ممالک اور اس کے براعظم اسلام کے آگے سرنگوں ہو جائیں۔‘‘(3)
جی ہاں، زمین کے اوپر رحمت مجسم ہونے کی صفت ’’اصل‘‘ میں تو نبی اکرمﷺ کو حاصل ہے اور اس مرتبے پرکسی کو بھی آپ علیہ السلام کے مقابلے کی تاب نہیں لیکن اس کے باوجود آنکھوں کوسدا اس کے مرتبے کی جانب دیکھنا چاہیے اور ’’ظلیت‘‘ کی سطح پر اس کو حاصل کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیںرحیم اور شفیق بنا دے کیونکہ یہ بات اسی وقت ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول کا بھی سبب ہے۔ نبی اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’مَنْ لَا يَرْحَمِ النَّاسَ، لَا يَرْحَمْهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ‘‘ ’’جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اس پر رحم نہیںکرتا۔‘‘(4)جبکہایک اور حدیث میں فرمایا: ’’الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ، ارْحَمُوا مَنْ فِي الأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ“’’رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے۔ کرو مہربانی تم اہل زمین پر خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر۔‘‘(5)
اس رخ سے ہمارے زمانے میں محبت کے فداکاروں کو چاہیے کہ وہ رحمت مجسم کے مرتبے تک پہنچنے کا شوق رکھیں اور اس کو حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ کوشش کریں۔ اس کے بعد ان کی صلاحیتیں خواہ کسی بھی نقطے تک لے جائیں، عنقریب وہ اس رستے پر چلتے ہوئے اس انسان کے رفیق ہوں گے جو منزل ہے یعنی رسول اکرمﷺ چونکہ وہ ایسے عالی ہدف کے پیچھے چلتے ہیں، اس لیے آپ علیہ السلام کی معیتمیںہوںگے۔
(1)مشرکین جب احد سےلوٹکر’’روحاء‘‘ کے مقام پرپہنچے تو مسلمانوںکوملیامیٹکیےبغیرواپسیپر نادم ہوئے اور آپسمیںکہنےلگےکہ ’’تم نے محمد کو قتل کیااورنہ دو شیزاؤںکوساتھلاسکے۔ یہ تو تم نےبہت برا کیا۔ واپسچلو!‘‘یہ خبر نبی اکرمﷺ تک پہنچی تو آپ نے لوگوں کو بلایا اور حضرت بلال کو حکم فرمایا کہ آواز لگائیں کہ ’’نبی کریمﷺ تمہیں دشمن کا پیچھا کرنے کا حکم دیتے ہیں جبکہ ہمارے ساتھ ان لوگوں کے علاوہ کوئی نہ آئے جو کل معرکے میں شریک تھے!‘‘ چنانچہ صحابہ کرام نکلے جبکہ زخموں سے چور چور تھے۔ ان میں سے بعض گھسٹتے ہوئے آئے۔ کچھ کو دوسروں نے اٹھایا ہوا تھا۔ نبی کریم ﷺ خود بھی زخمی حالت میں نکلے۔ آپ کے چہرے پر دو کڑیوں کا زخم تھا، پیشانی پر بالوں کے اگنے کی جگہ زخم تھا ، ایک دندان مبارک ٹوٹا ہوا تھا، لب مبارک اندر سے زخمی تھا، دایاں کاندھا ابن قمیۂ کی ضرب سے دکھ رہا تھا، آپ کے دونوں گھٹنے چھلے ہوئے تھے یہاں تک کہ ’’حمراء الاسد‘‘ اور بیرابی عتبہ تک جا پہنچے جبکہ ابو سفیان اور اس کے ساتھی خوف اور ڈر کی وجہ سے پہلے ہی بھاگ گئے تھے۔ اس طرح رسول اکرم ﷺ نے اس عارضی شکست کو زبردست فتح میں بدل دیا۔(الواقدی، المغازی:1/336/334)
(2) البيهقي: السنن الكبرى، 199/9.
(3) بديع الزمان سعيد النورسي: صيقل الإسلام، الخطبة الشامية، ص 462.
(4) صحيح مسلم، الفضائل، 66؛ سنن الترمذي، البر، 16.
(5) سنن الترمذي، البر والصلة، 16؛ سنن أبي داود، الأدب، 66.
- Created on .