جہاد حکم الہی
تاریخی تناظرمیں اگر ہم (جہاد حکم الہی )کا خلاصہ بیان کریں تو ہمیں ان اولین پاک طینت اصحاب کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنا ہو گا جنہیں صحابہ کرام بننے کا شرف حاصل ہے ۔
واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ مکرمہ کے سابقین اولین مسلمانوں کو اس قدر ستایا گیا کہ ان کی برداشت جواب دے گئی اسی لیے تو ان کو مکہ چھوڑنے یعنی ہجرت کرنے کا حکم دے دیا گیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان حالات میں ان کا جہاد ہجرت ہی تھا اور فی الحقیقت کچھ عرصہ بعد ایسے ہی ہوا اور ہر وہ شخص جو بیعت کرتا اس کے لیے پہلی شرط یہ ہوتی کہ ہجرت کرے گا ۔
چنانچہ ہجرت حبشہ کے بعد مکہ مکرمہ میں موجود تمام مسلمانوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی (۶)اور پھر مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد جہاد نے ایک اور رنگ اختیار کر لیا۔ جہاد کی ماہیت اور کیفیت میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ حالات و واقعات کے مطابق جہاد کے انداز بدلتے ہیں ۔ اصل کام یہ ہے کہ پورے اہتمام کے ساتھ انتہائی سنجیدگی سے اس پر عمل کیا جائے۔ یہ جہاد بعض حالات میں انتہائی سرعت طلب ہوتا ہے اور کبھی بہت سست رفتار۔ کبھی اس کو روکنا پڑتا ہے کبھی انتہائی سرعت سے اس پر عمل کرنا ہوتا ہے ۔یہ سب کچھ جہاد کی حکمت عملی میں تبدیلی کی جانب اشارہ کرتا ہے اس لیے حکمت یہی ہے کہ حالات حاضرہ کے مطابق اس کے عملی انداز میں تبدیلی لائی جائے ۔
جہاد کا حکم نازل ہونے سے پہلے مسلمان بالکل خاموش رہے ۔ کبھی انہوں نے ظلم و زیادتی کا جواب نہ دیا اپنے حقوق غصب ہونے پر کوئی آواز نہ اٹھائی۔ مقابلہ کرناتو درکنار ایذاءبرداشت کرتے رہے اور کبھی مقابلے کے بارے میں سوچا بھی نہیں ۔ کافر ہمیشہ برسرپیکار رہے اور ظلم ڈھاتے رہے جبکہ مسلمانوں نے جواب نہیں دیا۔یہاں تک کہ ہجرت کے بعد بھی ایک مدت تک یہی حال رہا۔ اب فریق مظلوم کو قرآن کی زبان میں جہاد کی اجازت مل گئی ارشاد باری تعالے ہے :
اُذِنَ لِلَّذِینَ یُقٰتَلُونَ بِاَنَّھُم ظُلِمُوا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصرِھِم لَقَدِیرُo الَّذِینَ اُخرِجُوا مِن دِیَارِھِم بِغَیرِ حَقٍّ اِلَّآ اَن یَّقُولُوا رَبُّنَا اللّٰہُ وَ لَو لَا دَفعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعضَھُم بِبَعضٍ لَّھُدِّمَت صَوَامِعُ وَ بِیَع وَّ صَلَوٰت وَّ مَسٰجِدُ یُذکَرُ فِیھَا اسمُ اللّٰہِ کَثِیرًا وَ لَیَنصُرَنَّ اللّٰہُ مَن یَّنصُرُہ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیّ عَزِیز (الحج:۳۹۔۴۰)
”اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے ۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے سب مسمار کر ڈالی جائیں ۔اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے ۔“
جن لوگوں کو اب تک تلوار استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی اب اسلحہ سے لیس تھے اور پورے جذبات سے اپنی حفاظت کے لیے حکم الہی پر عمل کر رہے تھے اور اس موقع کے انتظار میں تھے کہ کب اس اجازت کو عملی جامہ پہنادیں ۔
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جہاد کی نہ صرف یہ کہ اجازت باقی رہی بلکہ حکم الٰہی آگیا کہ جہاد کرو۔ اب ہر مسلمان کو بہر صورت اللہ کی راہ میں ہتھیار اٹھانا تھا ۔اب مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ جب بدر کے میدان کی طرف رواں دواں تھے تو اس قدر خوشی سے لبریز تھے گویا جنت کی طرف جارہے ہوں اور جنت ان کو پکار رہی ہو ،جان و مال قربان کرنا ان کے لیے معمولی بات تھی۔ ان کے اندر شوق شہادت جنون کی حد تک پہنچ چکا تھا اس لیے تو کوئی بھی مسلمان میدان جہاد سے پیچھے رہنا گوارا نہ کرتا تھا سوائے ایسے منافقین کے جو مجاہدین کی صفوں میں گڑبڑ پھیلاتے رہتے تھے۔ منافقین بعض اوقات مخلص مسلمانوں او ر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو لڑتا چھوڑ کر عین محاذ جنگ سے واپس آئے کیونکہ ان کے دلوں میں ایمان کا نور داخل نہیں ہوا تھا ۔ان کے ضمیروں کو ایمان نے فتح نہ کیا تھا، اپنی ایک ذات کو بچانے کے لیے مجاہدین کو بھڑکتی آگ میں چھوڑ کر بھاگ جاتے تھے صرف اس لیے کہ یہ لوگ گھٹیا ارواح اور نفسانی خواہشات کے غلام تھے ۔
سچے مومن جن کے قلب و روح میں اسلام راسخ ہو چکا تھا کبھی پیچھے نہیں ہٹے جب انہیں جہاد کی خبر ملی اللہ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے دوڑ پڑے تاکہ اللہ سے مل جائیں اور جو لوگ جہاد کی منادی ہونے کے بعد پیچھے ہٹے رہے مردود رہے ۔در حقیقت وہ حق کو نہ پہچان سکے اور ان کے ضمیر اور ارواح ایمان کا مزہ نہ چکھ سکیں ۔ یقینا مؤمن مجاہد بھی عام انسانوں کی طرح انسان ہیں وہ بھی موت سے ڈرتے ہیں جیسے کوئی بھی شخص ڈرتا ہے خود قرآ ن کریم نے اس طرف اشارہ کیا ہے ۔فرمایا :
کُتِبَ عَلَیکُمُ القِتَالُ وَ ھُوَ کُرہ لَّکُم وَ عَسٰی اَن تَکرَھُوا شَیئًا وَّ ھُوَ خَیر لَّکُم وَ عَسی اَن تُحِبُّوا شَیئًا وَّ ھُوَ شَرّ لَّکُم وَ اللّٰہُ یَعلَمُ وَ اَنتُم لَا تَعلَمُونَ ۔ (البقرة : ۲۱۶)
”تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو ۔ اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند ہو اور وہی تمھارے لیے بری ہو ۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔“
اس فطری کمزوری کے باوجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بلا حیل و حجت رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر لیتے اور دل میں ذرا برابر میل پیدا کئے بغیر اپنے آپ کو رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) کے سپرد کر دیتے۔ اسی لیے ان کے اخلاص اور تسلیم کی وجہ سے اللہ کی رحمتیں اور مہربانیاں پے در پے ان پر نازل ہوتیں ۔ ایک کے بعد دوسرے میدان میں انہیں فتوحات نصیب ہوئیں ۔ آئے روز مسلمانوں کی قوت میں مسلسل اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ مسلمانوں کی فتوحات کی خوشخبریاں جنگل کی آگ کی طرح قبائل میں پھیل گئیں ۔ان پر ایک طرف مسلمان خوش اور دوسری طرف یہ خبریں کفار کے لیے پریشانی کا باعث بنیں ۔
- Created on .