جہاد کیا ہے
جہاد عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ (جہد) ہے اس کا مطلب ہے جدو جہد کرنا اور کوشش کرنا ۔ اسکا دوسرا معنی ہے کسی معلوم ہدف کے حصول کے لیے ہر قسم کی مشکلات برداشت کرتے ہوئے حتی الوسع کوشش کرتے رہنا اور یہی مفہوم جہاد کے شرعی مفہوم سے قریب تر ہے ۔
ظہور اسلام کے بعد جہاد کا مفہوم ایک اور خصوصیت اختیار کر گیا ۔ یعنی انسان کی اپنے رب کی راہ میں جنگ کرنے کے لیے ایک اصطلاح اور شعار کی صورت اختیار کر گیا ۔دور حاضر میں جب بھی جہاد کا نام لیا جاتا ہے تو ذہنوں میں اس لفط کا یہی مفہوم ابھرتا ہے ۔
”جہاد “فی سبیل اللہ در حقیقت دو محاذوں پر روبہ عمل آتا ہے ایک داخلی جہاد اور دوسرا خارجی جہاد : داخلی جہاد سے مراد انسان کا خود اپنے آپ کو پہچاننا اور رب سے ملانا ہے ، جبکہ خارجی جہاد سے مراد ہے دوسرے لوگوں کو ان کی ذات اور رب سے ملانا، پہلی قسم کو جہاد اکبر اور دوسری قسم کو جہاد اصغر کہا جاتا ہے۔ یعنی سب سے پہلے انسان خود کو سمجھے اپنے آپ اور اپنے نفس کے درمیان موجود رکاوٹوں کو عبور کرے یہاں تک کہ معرفت الہی، محبت الٰہی اور روحانی مٹھاس کو پالے ۔ جبکہ دوسری قسم میں ایسی تمام رکاوٹوں کو دور کرنا ہوتا ہے جو انسانیت اور ایمان باللہ کے درمیان حائل ہوں چاہے یہ رکاوٹیں پیہم جد وجہد سے دور ہوں یا قتال سے ، تاکہ انسا ن کو اللہ سے ملا دیا جائے ،اللہ کی پہچان اور معرفت کے اعلی درجات تک پہنچایا جائے ۔اور پھر جہاد تو انسان کی پیدائش کا اصل مقصد ہے ، زمین پر جہاد سے زیادہ افضل کوئی کام نہیں ، اگر ایسا نہ ہوتا تو اللہ تعالی اپنے انبیاءکو یہ ذمہ داری دے کر نہ مبعوث کرتا کیونکہ آدم علیہ السلام سے لے کر آخر تک تمام انبیاءو اصفیاءبالعموم اس عظیم مرتبہ پر جہاد ہی کی وجہ سے فائز ہوئے ۔بعض نے تلواروں کے سائے میں رہ کر او ر بعض نے محاسبہ نفس کے ذریعہ یہ مرتبہ پایا ۔بلا عذر جہاد میں شریک نہ ہونے والوں اور اپنے مال و جان سے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں میں بڑا واضح فرق ہے جن کو جہاد کے علاوہ کوئی اور عمل نہیں روکتا ۔اسی بات کی وضاحت درج ذیل آیت کرتی ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے : ” لَا یَسۡتَوِی الۡقٰعِدُوۡنَ مِنَ المُوۡمِنِیۡنَ غَیۡرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالۡمُجٰھِدُوۡنَ فِی سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَموَۡالِھِمۡ وَ اَنفُسِھِم ۡفَضَّلَ اللّٰہُ المُجٰھِدِیۡنَ بِاَمۡوَالِھِمۡ وَ اَنفُسِھِمۡ عَلَی الۡقٰعِدِیۡنَ دَرَجَةً وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الحُسۡنٰی فَضَّلَ اللّٰہُ المُجٰھِدِیۡنَ عَلَی القٰۡعِدِیۡنَ اَجۡرًا عَظِیۡمًا۔(النسا: ۹۵)
مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں ، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے ۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے اگر چہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے ۔
نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) جہاد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں پسند کرتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں قتل کیا جاﺅں پھر زندہ کیا جاﺅں پھر قتل کیا جاﺅں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤ ں ۔
اللہ ہی جانتا ہے کہ اگر نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) کو طوالت کلام کا اندیشہ نہ ہوتاتو کتنی مرتبہ یہ الفاظ دہراتے رہتے ۔ اس حدیث کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اللہ کے راستے میں شہادت کی تمنا ان گنت مرتبہ آپ نے کی۔ یہ بھی قابل غور بات ہے کہ یہ آرزو اور تمنا کرنے والی ذات سید المرسلین اور امام الانبیاءہے ، ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا :
”رِبَاطُ یَومٍ فِی سَبَیل اللّٰہ خَیر مِنَ الدُّنیَا وَمَا عَلَیھَا وَمَوضِع سَوطِ اَحَدکُم مِنَ الجَنَّةِ خَیر مِنَ الدُّنیَا وَمَا وَالرَّوحَةُ یَروحُھَا العَبدُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ خَیر مِنَ الدُّنیَا وَمَاعَلَیھَا “
محاذ جنگ پر ایک دن پہرہ دینا دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر ہے ، جنت میں ایک کوڑے کی جگہ بھی پوری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر ہے ۔ شام کے وقت یا صبح کے وقت اللہ کے راستے میں جو بندہ جہاد کرتاہے اس کا یہ عمل پوری دنیا اور جو کچھ اس دنیا میں ہے اس سے بہتر ہے ۔
- Created on .