جہاد کی اقسام

ا۔جہاد اکبر اور جہاد اصغر

جہاد اصغر محض اسی جہاد کو نہیں کہتے جو محاذجنگ پر رو بہ عمل آ تا ہے۔یہ مفہوم تو جہاد کے وسیع افق کو تنگ کر دیتا ہے۔جہاد اصغر کا مےدان بہت وسیع ہے۔مشرق و مغرب تک پھیلا ہوا ہے۔اس قدر وسیع معنی رکھتا ہے کہ شاید ایک لفظ بولنا یاد مسکرانایاد خاموش رہنا یا نفرت کا اظہار کرنایا کسی مجلس کو چھوڑنا یا کسی مجلس میں شامل ہوناالغرض ہر ایسا کام یاد ہر ایسی حرکت جو اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے ہو اللہ کی محبت میں یاد اللہ کی خاطر نفرت کرنے کے لیے ہو یہ سارا جہاد اصغر ہے۔ چنانچہ ہر ایسی کوشش جو معاشرے کی اصلاح کے لیے ہو، زندگی کے کسی بھی شعبہ سے اس کا تعلق ہو،معاشرے کی کسی بھی اکائی کی بہتری کے لیے ہو،یہ سب کچھ جہاد میں شامل ہے۔ یعنی اہل خانہ، قریبی اور دور کے رشتہ داروں ، برادری والوں کی بہتری کے لیے جوجدوجہد کی جائے گی جہاد اصغر کے زمرے میں آئے گی۔جس قدر سر زمین کی وسعت ہے اسی قدر جہاد اصغر کے میدانوں اور شعبوں میں بھی وسعت ہے۔

ہاں ، کسی نہ کسی لحاظ سے جہاد اصغر کو مادی منفعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اسے مادی جہاد کہا جاسکتا ہے۔لیکن جہاد اکبر روحانی اور معنوی جہاد ہے۔اس میں انسان اپنے نفس اور اپنے جسم کے اندر جہاد کرتا ہے۔اگر یہ دونوں جہاد بیک وقت عمل میں آئیں تو گویا جہاد کا حق ادا ہو گیا اور ایک مناسب و مطلوب توازن پیدا ہو گیا۔اور کسی ایک میں غیر مناسب کمی بیشی ہو گئی تو گویا روح جہاد کا توازن برقرار نہ رہا۔پس مومن تو ایسا انسان ہے جو اس جہا د کو متوازن انداز میں ادا کرنے کے لیے اپنی زندگی کے اہداف متعین کرتا ہے۔اور وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے یہ جہادچھوڑ دیاتو اسکی زندگی، زندگی نہیں رہے گی۔مومن کی مثال تو ایک پھل دار درخت کی ہے جو اس وقت تک اپنے آپ کو زندہ اور تروتازو رکھتا ہے جب تک اس پر پھل لگا رہتا ہے۔جب پھل ختم ہوتے ہیں تو وہ خزاں آلود ہو جاتا ہے۔

اگر آ پ ملاحظہ کرنا چاہتے ہیں تو ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے والوں کو پائیں گے کہ جہادچھوڑ چکے ہیں اسی لیے تو مولائے کریم نے بھی ان پر اپنا فیضان کم کر دیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے حق کی تبلیغ بند کر دی ہے۔ایسے لوگوں کا اندر اندھیر نگری بن چکا ہے۔پتھر دل اور خشک مزاج ہو چکے ہیں ۔انکے مقابلے میں مجاہدین کو دیکھیں تو وہ ہشاش بشاش ہیں ۔خدمات کا جذبہ لیے ہوئے ہیں ۔ وہ اندر سے نور سے بھرے ہوئے ہیں ۔انکے جذبات میں زندگی اور خداترسی ہے۔وہ ہمیشہ فرد کی اصلاح کرتے ہیں ۔اور تعداد ہزاروں تک جاپہنچتی ہے۔جی ہاں ہر جہاد سے ان کے ہاں اور جہاد پیدا ہوتا ہے۔ ہر بھلائی ایک اور بھلائی کا ذریعہ بنتی ہے۔چنانچہ وہ خیر و بھلائی کے میدانوں میں بسیر اکرتے ہیں ۔درج ذیل آیت کریمہ ہمارے جذبات کو اس حقیقت کی طرف مو ڑتی ہے۔

وَ الَّذِینَ جَاھَدُوا فِینَا لَنَھدِیَنَّھُم سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ المُحسِنِینَ

(العنکبوت:۶۹)

”جو لوگ ہماری خاطر جہاد کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے او ر یقینااللہ نیکوکاروں ہی کے ساتھ ہے۔“

ب ۔ اللہ کی طرف لے جانے والے راستے

اللہ کی جانب لے کر جانے والے راستے اللہ کی مخلوقات کی تعداد سے بھی زیادہ ہیں ۔اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سیدنا و مولانا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان ہی راستوں میں سے کسی ایک یا متعدد راستوں کے ذریعے ان لوگوں کو اللہ کی معرفت بیان کرتے ہیں لیکن وہی لوگ اس راستے پر کامیابی سے چلتے ہیں جو خود اس کی کوشش کرتے ہیں ۔آپ خیر کے تمام راستے سمجھا دیتے ہیں اور شر کے راستوں سے خبردار کرتے ہیں ۔

اللہ کا راستہ تو سیدھا راستہ ہے جس نے اس راستے کو پا لیا اس نے صراط مستقیم پالیا۔ یہی درست راستہ ہے۔ یہ راستہ میانہ روی پر مبنی ہے۔ یہ قوت غضب، قوت عقل اور شہواتِ نفس کو افراط و تفریط سے نکال کر میانہ روی پر لاتا ہے۔ اسی لیے یہ راستہ جہاد وعبادت میں بھی میانہ روی سکھاتا ہے ، مومن کا جہاد اور عبادت بھی میانہ روی پر مبنی ہوتی ہے یعنی اللہ تعالی نے انسان کو اپنا سیدھا اور درمیانہ راستہ الطریق الوسط دکھایاہے ۔

بیرونی جہاد بہر حال جہاد اصغر ہی کہلائے گا اگرچہ اس میں ہر نوع کی قربانی اور ایثار ہے ۔ اس کو جہاد اکبر کی نسبت سے تو جہاد اصغر کہا جاتاہے لیکن یہ کوئی معمولی اور چھوٹا جہاد نہیں ہے بلکہ اصل میں تو جہاد اصغر اور اکبر کا ہدف اور مقصد تو اعلیٰ ہوتاہے۔ جہاد اصغر نام سے تو چھوٹا ہے لیکن ہر ایک مجاہد اس لپے جہاد کرتاہے تاکہ جنت میں چلا جائے اگر وہ شہید ہو جائے تو ابدی جنتوں میں جائے گا اور پھر جہاد اصغر ہو یا اکبر دونوں کا مقصد تو اللہ کی رضا کا حصول ہے اس قدر عظیم نتائج کا حامل جہاد کبھی بھی چھوٹا نہیں ہو سکتا ۔

جہاد اصغر سے مراد ہر وہ ذمہ داری ادا کرنا ہے جس کا انسان کو مکلف بنایا گیا ہے البتہ جہاد اکبر اس لیے بڑا ہے کہ اس میں ہر اس خواہش ، او رانسانی کمزوری کے خلاف اعلان جنگ ہوتا ہے جو انسان کے نفس کو کمال تک نہیں پہنچنے دیتی جیسے حسد، بغض ،کینہ، تکبر،غروراور انانیت وغیرہ ۔ یہ ایسی رکاوٹیں ہیں جو انسان کے نفس امارہ میں جبلی طور پر موجود ہیں اور یہ پیہم و مسلسل جہاد ہے جو درحقیقت بہت مشکل ہے۔ اسی لیے اسے جہاد اکبر کہا گیا ہے ۔

جس شخص کو اس قسم کے مسائل کا سامنا ہو اور چاروں طرف سے غلط افکار و خیالات نے اسے گھیرا ہو اور اس کی اخلاقی زندگی مفلوج ہو چکی ہو تو نفس کے خلاف واقعی جہاد کے بغیر انسان اپنی عملی زندگی کی حفاظت نہیں کر سکتا۔ اسی لیے تو اس سب سے بڑی مشکل کی طرف اللہ کے رسول نے ایک غزوہ سے واپسی پر اشارہ فرمایا کہ ” ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف لوٹ کر آئے ہیں “

اس حدیث شریف سے مراد ہے کہ ہم ایمان لائے اور جہاد اور غزوات میں شریک ہوکر ہمیں عزت و شرف حاصل ہوا اور مال غنیمت بھی ہاتھ آیا اس کامیابی اورافتخار کے بعد ممکن ہے ہمارے نفس امارہ میں شہرت، آرام طلبی اور خودپسندی آجائے اپنے آپ پر غرور بھی آسکتاہے ، نفس امارہ سے ہوتے ہوئے مختلف بیماریاں ہماری روحوں میں سرایت کر سکتی ہیں اور انھیں گمراہ کرسکتی ہیں ۔ المختصر یہ کہ ہلاکت سامانیاں بہت زیادہ ہیں جن کا سامنا جہاد اصغر کے بعد کرنا ہو گا اسی لیے حسّی اور جسمانی جہاد اور جنگ کے بعد جس جنگ کا سامنا ہے وہ زیادہ خطرناک ہے۔ اس اندرونی دشمن کے خلاف دفاع کو مضبوط کرنا ہو گا اور ہمیشہ اس سے متنبہ رہنا ہو گا یہی جہاد اکبر ہے ۔

اس حدیث شریف کے اولین مخاطب بلاشہ صحابہ کرام ہی تھے لیکن وہ بھی اس میں شریک ہیں جو صحابہ کے بعد آئے اور انہی میں ہم سب شامل ہیں ۔ اس لیے ہمیں بڑی احتیاط برتنی چاہیے محض خارجی جہاد ہی کے لیے سرگرم رہنا اور اپنے نفس امارہ کا محاسبہ نہ کرنا در حقیقت بہت بڑے خطرے کا پیش خیمہ ہے ۔

ج۔ نبی (صلى الله عليه و سلم) کے خاص معاملات

عہد رسالت یعنی خیر القرون کے لوگ دن کی روشنی میں شیر کی طرح بہادری کی داستانیں رقم کرتے لیکن جیسے ہی رات سایہ فگن ہوتی ایسے ہو جاتے جیسے یہ بالکل دنیا سے کٹے ہوئے عابد زاہد ہیں ۔ پوری پوری رات عبادت، ذکر، تسبیح اور نمازوں میں گزرجاتی جیسے وہ سارا دن فارغ آرام کر رہے تھے اور رات کو جاگتے ہیں اور انہوں نے مقتل کا منہ ہی نہیں دیکھا یہ تو کوئی راہب زاہد ہیں جن کا دنیا سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔ یہ انداز انہوں نے خود نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) سے سیکھا تھا یہاں ہم سیرت طیبہ سے چند مثالیں نقل کرتے ہیں ۔

رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) شجاعت و بہادری میں اپنی مثال آپ تھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ (اور وہ خود بھی شیر خدا اور بہادر تھے)جب جنگ خوب گرم ہوتی اور دشمن سے مکمل مڈ بھیڑ ہوتی تو ہم رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) کا سہارا تلاش کرتے آپ سے زیادہ ہم میں سے کوئی بھی دشمن کے قریب تر نہ ہوتا ۔

غزوہ حنین میں رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) اپنی خچر کو دشمن کی طرف مسلسل بھگا رہے تھے حضرت عباس کہتے ہیں کہ میں نے اس کی لگام پکڑی ہوئی تھی تو میں اسے روکتا تھا تاکہ زیادہ تیز نہ دوڑے اور ابو سفیان بن حارث اس کے آگے تھے آپ اس خچر سے نیچے اترے اور مدد کی دعا کی اور فرمایا ” انا النبی لا کذب انا ابن عبد المطلب“ میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ،میں عبد المطلب کا پوتا ہوں ۔ آپ(صلى الله عليه و سلم)کی زندگی شجاعت بھرے واقعات سے بھری پڑی ہے اور شجاعت و بہادری میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا، لیکن یہ تو دن بھر کا کام تھارات کی تاریکیوں میں عبادت کے لیے کھڑے ہوتے تو بندگی کا حق ادا کردیتے اس قدر رقت طاری ہوتی کہ

”وَفِی صَدرِہِ اَزِیر المِرجَلِ مِنَ البُکَائِ“

آپ کے سینے کے اندر سے گڑگڑانے کی آوازیں نکلتیں پاس کھڑا ہونے والا آپ کی آہیں سنتا ۔

آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے آپ روزے رکھتے تو لوگ سمجھتے کہ شاید آپ ہمیشہ روزہ ہی رکھتے ہیں کبھی تو ساری رات آپ عبادت میں کھڑے رہتے اور پاﺅں مبارک پر ورم آجاتا۔ حضر ت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ راتوں کو قیام کرتے یہاں تک کہ آپ کے قدم مبارک سوج جاتے۔

یَا رَسُولَ اللّٰہِ اَتَصَنَعُ ھَذَا، وَقَد غُفِرَلَکَ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ؟

ایک مرتبہ حضرت عائشہ نے پوچھا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں یا رسول اللہ ، اللہ تعالی نے آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ بخشش دیے ہیں ؟

آپ نے فرمایا :

” اَفَلاَ احبُ ان اَکُوُنُ عَبداً شَکوراً“

کیا میں پسند نہیں کرتا کہ شکر گزار بندہ بن جاﺅں ۔

غار ثور میں آپ اس حالت میں تھے کہ زندگی اور موت بالکل آمنے سامنے تھیں ، مشرکین غار کے دھانے پر کھڑے تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ انتہائی خوف زدہ تھے۔ خوف اپنی جان کا نہ تھا بلکہ رسول اللہ کی زندگی کا تھا۔ ڈر تھا کہ ابھی ہمیں دشمن دیکھ لے گا ، تو رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کمال سکون و اطمینان سے فرمایا :

” یَاابابکرٍ ما ظنُّک بِاثنَین اللّٰہُ ثالثُھما ۔۔۔۔لاتَحزَن انّ اللّٰہ معنا“

اے ابو بکر ! ان دو کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا خدا ہو ۔ ۔۔؟ فرمایا غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔

یہ وہ محسن انسانیت ہیں کہ خوف ان کے قریب سے بھی نہیں پھٹکا لیکن قرآن سنتے ہیں تو ان کا دل کانپ جاتا ہے ،آنسو پھوٹ کر نکل پڑتے ہیں ،ایسے لگتا ہے کہ سانس اکھڑ جائے گی ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) نے مجھ سے فرمایا تلاوت کرو میں سنوں گا ۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول میں آپ کو سناوں حالانکہ آپ کے اوپر تو نازل ہوا ہے ؟ فرمایا ہا ں پڑھو ۔ تو میں نے سورہ نساءشروع کردی جب اس آیت پر پہنچ

” فَکَیفَ اِذَاجِئنَا مِن کُلِّ اُمّۃٍَ بِشَھِیدٍ وَّ جِئنَا بِکَ عَلٰی ھٰوُٓلَآئِ شَھِیدًا“ (النساء: ۱۴)

” اس وقت کیا حال ہو گاجب ہم ہر امت میں سے گواہ لائیں گے اور آپ کو ان پر گواہ بنائیں گے ۔ “

آپ نے فرمایا :

” حسبُک الاَنَ۔ فالتفَتُّ الیہ فاذَا عَیناہُ تَذرِفان “

”رک جاؤ اب ، میں نے آپ کے چہرہ انور کو دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اورآپ ہچکیاں لے لے کر رورہے تھے۔“

آپ زندہ دل اور بیدار ضمیر کے مالک تھے ہر نوع کے جسمانی و روحانی مجاہدے میں سب سے آگے تھے۔ جب آپ اپنی امت کو توبہ استغفار پر ابھارتے تو خود پہل کرتے فرمایا :

”وَاللّٰہِ اِنِّ¸ لَاَستَغفِرُ اللّٰہَ وَاَتُوبُ اِلَیِفِ الیَومِ اَکثَرَ مِن سَبعِینَ مَرََّةً“

خداکی قسم میں دن میں ستر مرتبہ استغفار کرتا ہو ں ۔

امت کو استغفار پر ابھارنے کا کس قدر شاندار انداز ہے ۔ بلا شبہ جو جہاد اکبر کے میدان میں کامیاب رہا ،اکثر دیکھنے میں آیاہے کہ وہ جہاد اصغر میں بھی بہادری کی تاریخ رقم کرتا ہے ۔ لیکن جو آدمی جہاد اکبر میں ناکام رہا وہ بالعموم جہاد اصغر میں بھی نمایاں مقام حاصل نہیں کرسکتا ۔ اس طرح کے لوگ وہ ہدف حاصل نہیں کر سکتے اگرچہ کسی حدتک قریب پہنچ بھی جائیں ۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا : ہمیں آپ کی کوئی ایسی بات بتائیں جو سب سے زیادہ پسندیدہ ہو۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آبدیدہ ہو گئیں اور فرمایا آپ کا ہر کام ہی پسندیدہ تھا۔ایک رات میرے پاس آئے اور ابھی میرے پاس بیٹھے ہی تھے کہ فرمایا میں اپنے رب کی عبادت کر لوں ؟(کیا انداز ِمحبت کہ بیوی سے پوچھ کر عبا دت کر تے ہیں )حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ مجھے اللہ کی قسم ہے کہ میں یہ چاہتی ہوں کہ آپ میر ے پاس رہیں اور یہ بھی چاہتی ہوں کہ عبادت کریں ۔آپ اٹھے مشکیزہ لیا بہت کم پانی سے وضوکیاپھر نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔آپ نے رونا شروع کر دیا یہاں تک کے داڑھی مبارک تر ہو گئی۔پھر سجدہ میں گئے اور سجدہ کی جگہ تر ہو گئی۔نماز کے بعد پھر ایک پہلو پرہو کر لیٹ گئے اور روتے رہے۔صبح ہو گئی بلال صبح کی نماز کا بتانے آئے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ کو کس چیز نے رلایاد آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ

اللہ نے بخش دیے ہیں آپ نے فرمایا :تیرا برا ہو اے بلال ،مجھے کس چیز نے روکاہے کہ میں نہ آنسو بہاﺅں آج رات تو میرے اوپر یہ نازل ہوئی ہے۔

اِنَّ فِی خَلقِ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضِ وَ اختِلَافِ الَّیلِ وَ النَّھَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُولِی الاَلبَابِ(آل عمران:۱۹۰)

”زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کی باری باری آنے میں ہوشمندوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔“

پھر فرمایا:

”وَیل لِمَن قَراھَا وَلَم یَتَفَکَّر فِیھَا“

اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جس نے اس کو پڑھا اور غورفکر نہ کیا۔

کبھی کبھار آپ(صلى الله عليه و سلم) اہل خانہ کو جگائے بغیر ہی اٹھ جاتے اور وضو کر کے عبادت کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کہتی ہیں ایک رات آپ کو میں نے یہ دعاکرتے سنا:

”اَللَّھُمَّ! اَعُوذُ بِرِضَاکَ مِن سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِن عُقُوبَتِکَ وَاَعُوذُبِکَ مِنکَ لاَ اُحصِی ثَنَائً عَلَیکَ ۔ اَنتَ کَمَا اَثنَیتَ عَلَی نَفسِکَ۔“

اے اللہ میں تیری سختی سے تیری رضا کی پنا ہ لیتا ہوں تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ لیتا ہوں اور تجھ سے تیری پناہ لیتا ہوں (یعنی تیرے قہر سے تیری مہربانیوں کی تیرے جلال سے تیرے جمال کی تیرے جبر سے تیری رحمت اور رحیمی کی پناہ لیتا ہوں )میں تیری ثنا ءتیری بیان کردہ ثناءجیسی نہیں کرسکتا۔جیسی تو نے اپنے لیے کی ہے۔

یہ رسول کریم(صلى الله عليه و سلم) ہیں اور یہ ان کاجہاد اکبر ہے اور یہ ان کی عظمت شان ہے۔

د۔صحابہ کرام

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نبی اکرم(صلى الله عليه و سلم)کے نقش پا پر چلنے کی حتی الوسع کوشش کرتے ۔ ہمیشہ اسی انداز میں زندگی بسر کرتے جیسے وہ نبی اکرم (صلى الله عليه و سلم)کو دیکھتے۔انہیں معلوم تھا کہ اگر اس دنیا میں ان کی رفاقت اور اتباع کی تو آخرت میں بھی ان کی رفاقت نصیب ہو گی۔حضرت ثوبان ؓ کے دل میں ایک روزیہ خیال آیاکہ نبی کریمؓکی رفاقت ختم ہو جائے گی تو پھر کیا حال ہو گا۔ان کے دل پر اس شعور فراق نے اس قدر گہرا اثر کیا کہ دنیا کی رغبت ہی ختم ہو گئی۔دنیا ان پر تنگ ہو کر رہ گئی ہر وقت غمگین رہتے۔ایک غزوہ میں نبی کریم علیہ الصلاةوالسلام کے ساتھ نہ پائے گئے تو واپسی پر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ ان میں ثوبان ؓ بھی تھے ان کا رنگ زرد تھا جسم لکڑی بنا ہوا تھا سوائے چمڑے اور ہڈی کے کچھ باقی نہ تھا۔نبی رحیم و کریم نے پوچھا ثوبان یہ کیا حال بنایا ہوا ہے؟ثوبان ؓ نے عرض کیا میں نے ایک معاملہ کے بارے میں سوچا تو میرا یہ حال ہو گیا۔یعنی میں نے سوچا میں نبی اکرم(صلى الله عليه و سلم) کے بغیر تین دن تک نہیں رہ سکتا تو ہمیشہ کا فراق کیسے برداشت کر سکوں گا۔اگر میں جنت میں بھی چلا گیا تو بھی میں عام لوگو ں کی جنت میں ہوں گا۔اور نبی اکرم(صلى الله عليه و سلم) تو جنت الفردوس کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پرہوں گے۔تو اس صورت میں بھی میں نبی (صلى الله عليه و سلم) کے پاس نہیں ہوں گا۔جب میں نے اس بارے میں سوچنا شروع کر دیاتومیرا رفتہ رفتہ یہ حال ہو گیا۔اس پر نبی اکرم (صلى الله عليه و سلم) نے کافی شافی جواب دیا۔فرمایا:

”اَلمَرئُ مَعَ مَن اَحَبَّ“

”انسان اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہو۔“

کسی کی محبت کا اظہار اس کے نقش قدم پر چلنے ہی سے ہوتا ہے۔صحابہ کرامؓ یہ بات سمجھ چکے تھے اور آپ(صلى الله عليه و سلم) کے اسوہ حسنہ پر مکمل عمل کرتے تھے۔

جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی یگانگت یہ ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں ہم غزوہ ذات الرقاع میں تھے کہ مشرکین کی ایک عورت زخمی ہو گئی۔اس وقت اس کا شوہر موجود نہ تھا۔جب نبی اکرم (صلى الله عليه و سلم) واپس ہوئے تو اس کا شوہر بھی آگیا اور اس نے اپنی بیوی کو دیکھ کر کہا کہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گاجب تک محمد کے ساتھیوں میں سے کسی نہ کسی کا خون نہ بہا دوں ۔وہ مجاہدین کے قافلے کے پیچھے پیچھے چل دیا۔نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) نے قافلے کے ساتھ ایک جگہ پڑاﺅ کیا تو فرمایا آج رات کون پہرہ کے فرائض سر انجام دے گا۔یہ سنتے ہی ایک شخص مہاجرین میں سے اور ایک انصار میں سے رضاکارانہ طور پر تیار ہو گیا۔اور کہنے لگے یادرسول اللہ ہم تیار ہیں ۔آپ نے فرمایا گھاٹی کے دہانے پر رہنا۔کہتے ہیں لوگ گھاٹی سے نیچے وادی میں چلے گئے۔جب یہ دونوں دہانے پر پہنچے تو انصاری نے مہاجرسے کہاتم رات کے پہلے حصے میں پہرہ دو گے یا آخری حصے میں ۔مہاجر نے کہا میں آدھی رات کے بعد پہرا دوں گاچنانچہ مہاجر لیٹا اور سو گیا۔انصاری نے نماز پڑھنا شروع کر دی۔ادھر سے وہ آدمی پہنچ گیاجس نے بیوی کا بدلہ لینے کی قسم کھائی تھی۔انصاری کو دیکھ کر سمجھ گیاکہ یہ پہرے کے لیے کھڑا ہے۔اس نے ٹھیک نشانے پر تیر لگایا۔تیر انصاری کو لگا اور انہوں نے جسم سے تیر کھینچ کر نکالااور نیچے پھینک دیااور اسی طرح کھڑے رہے۔پھر اس نے دوسرا تیر مارا وہ بھی نشانے پر لگاانصاری نے وہ بھی جسم سے کھینچ کر نکال دیا اور اپنی تلاوت جاری رکھی اس شخص نے تیسرا تیر مارااور انصاری نے پھرایسے ہی کیااور رکوع میں چلے گئے پھر سجدے میں گئے ۔نماز کے بعد مہاجر ساتھی کو جگایاجبکہ انکا خون بہہ رہا تھا۔ادھر اس آدمی نے ان دونوں کو دیکھ لیا۔اور سمجھ گیا کہ ان پہرا داروں نے اسے دیکھ لیا ہے تو فرار ہو گیا۔ادھر مہاجر نے انصاری کو خون میں لت پت دیکھ کر کہا سبحان اللہ آپ نے مجھے کیوں نہ بتایا۔انصاری نے کہا میں ایک سورة الکہف کی تلاوت میں مشغول تھا۔میں اسے ختم کرنے سے پہلے بس نہیں کرنا چاہتا تھا۔جب پے درپے تین تیر لگے تو میں نے رکوع کر لیااور اللہ کی قسم اگر مجھے اس فریضہ کا ڈر نہ ہوتا جو اللہ کے رسول نے میرے سپرد کیا ہے تو میں سورة ختم کیے بغیر رکوع میں نہ جاتاچاہے اس میں میری جان ہی چلی جاتی۔

اس واقعہ سے اندا زہ ہوتا ہے کہ صحابی قرآن کی تلاوت میں دنیا سے کٹ گئے تھے گویاد قرآن نے ان پر قبضہ کر لیا ہے یاد ان ہی پر نا زل ہو رہا ہے جیسے جبریل ان کے دل پر کلمات الٰہی پھونک رہے ہوں ۔اور وہ وجد میں انہیں قبول کر رہے ہوں ۔اس قدر محو تھے کہ جسم میں پیوست ہونے والے تیر کا دردمحسوس ہی نہیں ہو رہا تھا۔یہی جہاد اکبر اور جہاد اصغر کا عملی اظہارہے۔بلکہ یہی تو حقیقی جہاد ہے۔

حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا نے اپنے والد سے کہا ابا جان اللہ نے فراخی کا سامان کیا ہے۔آپ کے ہاتھ پر ملک پہ ملک فتح ہو رہے ہیں اور مال و اسباب کی فراوانی ہے کیوں نہ آپ پہلے سے اچھا کھانا کھائیں اور پہلے سے بہتر کپڑے پہنیں ؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا !ذرا تم خود بتاﺅ حضور اکرم (صلى الله عليه و سلم) کی زندگی کس قدر کٹھن تھی۔یہی بات بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ حضرت حفصہ رو پڑےں ۔پھر فرمایا اے حفصہ میں تمہیں کہتا ہوں کہ اگر یہ ممکن ہو تو میں ان دونوں یعنی رسول اکرم (صلى الله عليه و سلم) اور ابوبکرؓ جیسی سخت اور کٹھن زندگی گزاروں تاکہ شاید آخری زندگی میں انہی دونوں کے ساتھ مل جاﺅں ۔

رسول (صلى الله عليه و سلم) اور آپ کے صحابہ کا حال تویہ تھاکہ ہمیشہ تعلق باللہ کو نمایاں رکھتے۔اسی کو ترجیح دیتے ۔ ان کا حال یہ تھا کہ ہر وقت عبادت اور ذکر میں مشغول رہتے کہ دیکھنے والا یہ سمجھتا کہ شاید یہ دنیا سے کٹے ہوئے ہر وقت ذکر و اذکار اور عبادت میں لگے رہتے ہیں جبکہ درحقیقت وہ ساری عبادات کے ساتھ ساتھ تمام دنیاوی معاملات اور کاروبارِزندگی بطریق احسن انجام دیتے تھے۔

ان پر اخلاص و خلوص کے مبالغے ختم تھے۔کو ئی بھی کام کرتے تو اس میں اللہ کی رضا اور خوشنودی مقدم ہوتی۔ہر کام سے پہلے یہ دیکھتے کہ اللہ کیا چاہتا ہے۔سیدنا عمر ؓ کو دیکھیے ایک روز منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ آنا ًفاناًخطبہ بند کر دیا اور منبر سے اتر آئے اپنے آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا عمر تم وہی ہو جو اپنے باپ خطاب کے اونٹ چرایاد کرتے تھے۔پوچھا گیا اے خلیفةالمومنین آپ نے یہ بات کیوں کہی؟فرمایاد: میرے ذہن میں یہ بات آگئی تھی کہ میں خلیفہ ہوں ۔حضرت عروہ بن زبیر ؓ کہتے ہیں کہ ایک روز میں نے دیکھا کہ سیدنا عمر ؓ اپنے کندھے پر پانی کا مشکیزہ اٹھائے جا رہے ہیں

میں نے کہا امیر المومنین آپ کیوں پانی اٹھائے جا رہے ہیں ۔فرمایا میرے پاس وفود آئے جو انتہائی با ادب سر جھکائے آئے اور بیٹھے رہے تو میرے دل میں بڑائی کا جذبہ ابھر آیا میں نے اسکو ختم کرنے کے لیے یہ کام کیا ہے۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمةاللہ علیہ نے بھی ایک دن خطبہ اس لیے بند کر دیا کہ ان کے دل میں آیا کہ میں کتنا اچھا خطبہ دے سکتا ہوں اور ایک مرتبہ ایک خط لکھا جو خود انہیں بہت پسند آیا۔آپ نے اسے بھی پھاڑ دیا اور کہا اے اللہ میں اپنے نفس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔

یہی وہ پاک طینت حضرات ہیں جو روحانی بلندیوں پر پہنچے اور کامل انسان ثابت ہوئے۔اسی لیے ان کا جہاد بے ثمر نہ رہا۔

بلکہ دنیا نے ان سے ہدایت حاصل کی کیونکہ وہ سارے کام محض اللہ کے لیے کرتے تھے۔اس لیے جو لوگ ہر قسم کی نیکی و جہاد دکھاوے لیے کرتے ہیں اپنے باطن کی اصلاح نہیں کرتے۔ریاکاری، خود پسندی،غرور و تکبر وغیرہ سے باز نہیں آتے ۔انکے کام تعمیری سے زیادہ تخریبی ہوتے ہیں اگرچہ بظاہر ان کے کارناموں کے اشتہار لگ جائیں مگر اللہ کے ہاں انہیں کچھ بھی نہیں مل سکتاکچھ بھی نہیں ۔

و۔اللہ کی عنایت کابلاو

قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر دونوں جہادوں کو اکٹھا ذکرکیا گیا ہے۔اور سورة النصرمیں تو کھول کر بیان کر دیا گیا ہے ۔فرمای

اِِذَا جَآئَ نَصرُ اللّٰہِ وَالفَتحُ o وَرَاَیتَ النَّاسَ یَدخُلُونَ فِی دِینِ اللّٰہِ اَفوَاجًا o فَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّکَ وَاستَغفِرہُ اِِنَّہ کَانَ تَوَّابًا o۔(سورة النصر:۱تا۳)

”جب اللہ کی مدد آپہنچی اور فتح نصیب ہوگئی اور(اے نبی)نے دیکھ لیا کہ تم دیکھ لو کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرواور اس سے مغفرت کی دعامانگو بے شک وہ بڑاتو بہ قبول کرنے والا ہے ۔“

اس میں واضح خوشخبری ہے کہ جب لوگ جوق در جوق دین اسلام قبول کریں گے اللہ کی نصرت اور فتح نصیب ہوگی۔اور جب جہاد اصغر کی وجہ سے دشمن کی رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکراور دعوت و تبلیغ کے امور میں رکاوٹ نہ ہو گی۔لوگ کثیر تعداد میں آپ کے ساتھ آجائیں گے، تو پھر حکم الٰہی یہ ہے کہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔اور اس سے مغفرت کی دعا مانگوکیوں اللہ تعالیٰ نے آپ کے اوپر انعامات کی بارش کی ہے،یہ اسی کا احسان ہے۔سب کچھ اسی کی عطا ہے۔جو انسان بیرونی دشمن پر غلبہ پا لے اسے چاہیے کہ اندرونی دشمن پر بھی غلبہ حاصل کرے اور اسکو بھی زیر کر لے تا کہ حقیقی طور پر جہاد مکمل ہو سکے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں رسول اللہ(صلى الله عليه و سلم)اس سورت کے نازل ہونے کے بعد اکثر ان کلمات کا ورد کرتے رہتے :

سُبحَانَ اللَّٰہ وَبِحَمدِہ اَستَغفِرُاللّٰہَ وَ اتُوبُ الَیہِ سُبحَانکَ اللّٰھُم اَستَغفِرُکَ وَ اتُوبُ الَیکَ۔

ایک حدیث میں رسول اللہ علیہ الصلاة والسلام نے جہاد اکبراور اصغر کو ان الفاظ میں جمع کر دیا فرمایاد :

عَینَانِ لاَتَمَسُّھَمَا النَّارُ عَینبَکَت مِن خَشیَةِ اللّٰہِ وَعَینبَاتَت تَحرُسُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ۔

دو آنکھیں ایسی ہیں جنہیں دوزخ کی آگ نہیں چھو سکتی ایک وہ آنکھ جو خوف خدا کی وجہ سے آنسو بہاتی ہے اور دوسری وہ آنکھ جو اللہ کے راستے میں پہرہ دیتی ہے۔

بلاشبہ جو آدمی محاذ جنگ پر بارڈر کے علاقے میں دشمن کے دو بدو انتہائی خطرناک حالات میں پہرہ دینے کے لیے جاگتا رہتا ہے۔وہ خارجی جہاد کرتا ہے۔ اس کی آنکھ کو دوزخ کی آگ نہیں چھو سکتی۔اور دوسری وہ آنکھ یعنی وہ شخص ہے جو معنوی وبا طنی اورداخلی جہاد کرتا ہے۔اس کی آنکھ تنہائی میں اللہ کے خوف سے ٹپکتی ہے۔نبوی بشارت کی روشنی میں ان دونوں آنکھوں کو آتش دوزخ نہیں چھو سکتی۔ان دونوں آنکھوں کو دوزخ کی آگ بالکل اس طرح نہیں لگ سکتی جیسا دوہا ہوا دودھ تھنوں میں واپس نہیں جا سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں جہادکرتا ہے اس پر گردوغبار پڑتا ہے۔اسے دوزخ کی آگ نہیں چھو سکتی۔کئی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ دوزخ کی آگ اور یہ گردوغبار اور مٹی جو اللہ کی راہ میں مجاہد پر پڑتی ہے کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ان آنکھوں کو دوزخ کی آگ نہیں چھو سکتی جو اللہ کی خشیت سے بہہ پڑ تی ہیں اور وہ جو محاذ جنگ پر انتہائی خطرہ کے وقت دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے مستعد رہتی ہیں ۔

جو شخص اپنے آپ کو ان مشکلات کے لیے تیار رکھتا ہے جو ملکوں کے ملکوں کو تباہ کر دیتی ہیں اور بڑے بڑے ادارے بنانے کی کوشش کرتا ہے،جہاں امت کے فرزندوں کی تربیت کی جائے ایسی تربیت جو انسانیت کے لائق ہے اور اپنے آپ کودوسروں کے آرام کے لیے بیدار رکھے اور دوسروں کا بھلا سوچے۔ایسے لوگوں کی آنکھوں کو آگ نہیں چھو سکتی۔جو صرف زبانی کلامی جہاد کرتے ہیں اور جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ، وہ لوگ محض وقت ضائع کرتے ہیں اور اپنے ساتھ دھوکہ کرتے ہیں ۔جو لوگ اپنے نفسوں کی تربیت نہیں کرتے اپنے آپ کا ہر دم جائزہ نہیں لیتے، دکھاوے کو ختم نہیں کر تے، فخر و تکبر کو ختم نہیں کرتے ان کے دلوں سے غرور نہیں نکلتا۔ ان کے اعمال بالکل بے فائد ہ ہیں ۔ وہ محض اپنے آپ کو تھکاتے اورمشکل میں ڈالتے ہیں ۔

دوسری جانب لوگ صرف جہاد اکبر کے قائل ہیں میدان جنگ میں نہیں جاتے خانقاہوں میں ہی بیٹھنے کو تر جیح دیتے ہیں ۔معنوی او ر باطنی صفائی پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں جہاد بالنفس مکمل ہونے تک جہاد بالغیر نہیں کریں گے ۔ایسے لوگ غلط فہمی میں ہیں ۔ دراصل وہ خود جہاد اکبر کانقصان کر رہے ہیں کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جس سے جہادا کبر کی بلندیوں تک پہنچا جاسکتا ہے وہ لوگوں کی دعوت و تبلیغ سے کوئی رغبت نہیں رکھتے۔ایسے لوگ جوخانقاہوں اور بیٹھکوں میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرتے ہیں اپنا بھی نقصان کرتے ہیں اور دوسروں کا بھی۔انہوں نے اسلام کو میٹزم(جعلی تصوف)سے ملا دیاہے۔

جو لوگ اس تصور کے قائل ہیں دوسروں کی اصلاح سے پہلے ان کی اپنی اصلاح لازمی ہے۔اس لیے صرف ذاتی اصلاح کے لیے کوشاں رہتے ہیں انکا نظریہ یہ ہے کہ ہر انسان روز قیامت اپنا علیحدہ حساب دے گا۔جیسے مثل مشہور ہے کہ ہر بکری اپنی رسی سے بندھی ہوتی ہے۔یاد ہر بھیڑ اپنے ہی ریوڑ سے متعلق ہوتی ہے اور پھر کہا جاتا ہے۔جو اپنی اصلاح نہیں کر سکتا دوسروں کہ اصلاح کیا کرے گا۔اس لیے ان لوگوں کی رائے ہے کہ سب سے پہلے اپنی اصلاح کرو۔

جو یہ تصور رکھتا ہے ہم اسے کہتے ہیں جان لو کہ انسان جب یہ گمان کرنے لگے کہ اس نے اپنے نفس کی اصلاح مکمل کر لی ہے تو وہ انتہائی گمراہی کے دھانے پر پہنچ جاتا ہے۔کون یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے اپنے نفس کو بالکل مکمل پاک کر لیاہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے

” وَاعبُد رَبَّکَ حَتّٰی یَاتِیَکَ الیَقِینُ “

ترجمہ:”اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہو جب تک کہ تمہیں موت نہ آجائے۔ “ انسان تو زندگی کی آخری سانسوں تک مکلف ہے۔اس لیے یہ دعویٰ کرنا محا ل ہے کہ میں نے عبادت کی ساری منازل طے کر لی ہیں ۔اب پردے ہٹا دیے جائیں گے اور عالم بالا سے کامیابی کا بلاوا آجائے گا۔جب تک سا نس ختم نہ ہو جائے وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں نے تزکیہ نفس مکمل کر لیا ہے۔اس لیے نفس کی پاکیزگی اور برے اخلاق سے دور ہونے کے لئے انسان کی کوشش اور جہاد پوری زندگی جاری رہتا ہے۔جب تک دم میں دم ہے جہاد اکبر جاری رہے گا۔اس لیے ہم اپنی پوری زندگی میں خوف و امید کے درمیان عمل کرتے ہیں ۔ مومن اپنے اعمال پر بالکل مطمئن نہیں ہوتااور بالکل نا امید بھی نہیں ہوتا۔ البتہ دنیا کی زندگی میں خوف اور خشیت الٰہی کو ضرور خاطر میں لانا چاہیے۔ ذرا غور کریں سیدناعمر رضی اللہ عنہ اپنے آخری سانسوں میں اس قدر مضطرب اور پریشان ہیں ، حساب و کتاب کا خوف ہے، خوف پریشانی اور بے چینی ہے کہ حساب کتاب کیسا ہو گا۔چنانچہ حضرت ابن عباس انہیں خوشخبری دیتے ہیں کہ میں قیامت کے روز گواہی دوں گا کہ آپ نیک اور صالح تھے اورکیا قرآن کریم میں یہ نہیں فرمایا گیا ہے۔

وَلِمَن خَافَ مَقَامَ رَبِّہ جَنَّتٰنِ ۔الرحمان۔۴۶

”اور ہر اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کا خوف رکھتا ہو اس کے لئے دو جنتیں ہیں ۔“

ز۔سلف صالحین اور جہاد

اسلام کے حقیقی وارث علماءکرام اور اولیاءعظام جہاد کی کسی ایک شاخ پر عمل پیرا نہیں رہے۔بلکہ بیک وقت جہاد اکبر اور جہاد اصغر میں مشغول رہے۔انہوں نے کلمہ حق ادا کرنے اور دعوت وتبلیغ کا فریضہ سرانجام دینے میں کبھی کوتاہی نہیں برتی۔یہاں تک کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی حق کی بات کہتے رہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے روحانی اور قلبی رابطہ بھی کبھی منقطع نہ ہواچاہے جس قدر بھی مصروفیت ہو۔بلکہ جو کچھ بھی ان پر دین حق کی خدمت کرنے کا فیضان ہو ا ہے اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور حب الٰہی اور اس کا احسان کارفرما تھا ۔انہوں نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے اس لیے ہمیشہ نیک اعمال سے اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ان پر اس قدر للہیت چھا گئی کہ رب تعالیٰ ہی ان کی آنکھیں بن گیا جن سے وہ دیکھتے اور اللہ تعالیٰ ان کا ہاتھ بن گیا جس سے وہ کام لیتے ہیں ۔اللہ نے ان مصلحین کی زندگیوں میں اس قدر طاقت اور برکت دی کہ ایک، ایک ہزارکے برابر تھا۔

س۔ آج کے انسان کی ذمہ داری

آج کے دور کا انسان اگر اللہ کے راستے میں ایسا جہاد کرنا چاہتا ہے جیسے جہاد کرنے کا حق ہے۔(اور یہ اس پر واجب بھی ہے)تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اپنے نفس کی کڑی نگرانی کرے اور اپنی خواہشات نفس کا سخت محاسبہ مسلسل جاری رکھے۔ اس کے ساتھ ساتھ دعو ت و تبلیغ کا فریضہ بھی بھرپور انداز سے سرانجام دے۔اگر ایسا نہیں کرے گا تو اس بات کا قوی احتمال ہے کہ وہ اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے گا۔ اس کے اعمال سے اس کو فائدہ پہنچے گا نہ دوسروں کو۔

دراصل مجاہد اخلاص کا پیکر ہوتا ہے۔ اللہ کی خاطر ہر کا م کرتا ہے۔ ایسا ہی انسان خالص اور مخلص ہوتا ہے اس کا دل زندہ ہوتا ہے اور ایسا جہاد ہی پھل لاتا ہے اور ہمیشہ باقی رہتا ہے۔یعنی ایسی قسم کا جہاد جو دوسروں کے ذہنوں میں ہر قسم کارطب و یادبس نہ بھرے بلکہ ان کے دلوں میں اخلاص، پاکبازی،باطنی شعور اور محاسبہ نفس کی تڑپ پیدا کرے تاکہ لوگو ں کے اندرعمل کی ادائیگی میں حضور قلبی پیدا ہو۔

متوازن جہاد وہ ہے جو ظاہر و باطن دونوں میدانوں میں فتح کے جھنڈے گاڑے۔ مجاہد خود بھی درجہ کمال تک پہنچے اور دوسروں کو بھی اسی طرف لے کرچلے۔یعنی انسان کا خود کو اسلام کے مطابق ڈھالنا جہاد اکبر ہے اور دوسروں کو اس کام پر لگانا جہاد اصغر ہے۔اگر ان دونوں جہادوں میں سے کوئی ایک بھی کام نہ کرے تو نتیجہ مثبت نہیں نکلے گا اور معاشرتی توازن بگڑ جائے گا۔یاد تو ذلت اور رسوائی ہو گی یاد سختی اور انتہا پسندی اور ہم تو روح محمدی کی نشاة ثانیہ کے منتظر ہیں ۔اور یہ روح بجز اتباع رسول کے ممکن ہی نہیں ۔بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کی اصلاح کی فکر بھی کرتے ہیں اور ساتھ سا تھ اپنی اصلاح کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں ۔اور کیا ہی خوش بخت ہیں وہ لوگ جو دوسروں کوغلطی سے بچانے کی فکر کرتے ہوئے خود اپنے معاملات کا بھی محاسبہ کرتے رہتے ہیں ۔

جہاد قیامت تک جاری رہے گا کیونکہ ہم جس قدر بھی انسانیت کو ہد ایت کی طرف لانے کی کوشش کریں بعض کفار ایسے ہوں گے جو اپنے کفر پر ڈٹے رہیں گے۔اس کا مطلب ہے کہ جہاد جاری رہے گا۔ہمیں یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ ہم لوگو ں کواللہ کی پہچان بتائیں اورحق کی دعوت دیں اور جوہمیں اس خالص دعوت کے کام سے روکے اورراستے میں حائل ہو تو پھر بزور بازو اس کام کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔ہمیں جسمانی اور روحانی دونوں قسم کا جہاد کرنے کا حکم ہے کیونکہ اسلام غلبہ، قوت اور کامیابی کے لیے آیا ہے۔اگر ہم جہاد نہیں کریں گے تو بطور انسان اپنا حق زندگی اور اس کے تقاضے پورے نہ کر سکیں گے۔اسی مقصد کے لیے ہمارے آباءو اجدادنے اپنی جانیں قربان کیں ۔جب عیسائیوں نے اس مفہوم کو بدلنے کی کوشش کی تو اس رکاوٹ کو ختم کر نے کے لیے قوت و طاقت کے سوا کوئی راستہ نہ ملا۔ہمارے آبا ﺅ اجداد نے جو جنگیں لڑی ہیں ان کا بھی یہی مقصد اور ہد ف تھاکہ دعوت دین کے راستے میں موجود رکاوٹوں کو ختم کیا جائے۔

ان کے نزدیک اشاعت دین کے علاوہ کوئی اور مقصدنہ تھا۔یہ کبھی نہیں ہوا کہ انہوں نے صرف غلبہ یاد علاقوں پر قبضے کے لیے جنگیں کیں ہوں بلکہ وہ تو صرف اور صرف دین حق کی سر بلندی چاہتے تھے۔ان کی زندگی کا مقصد ایک ہی حقیقت کی تبلیغ تھی اور وہ لا الہ الا اللہ ہے۔ اسی کلمہ کو وہ دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کا عزم لیے ہوئے تھے۔تاکہ کوئی علاقہ ایسا نہ بچے جہاں کلمہ طیبہ کا نور کفر کے اندھیروں میں چھید نہ کر دے۔گویاد وہ لوگ کلمہ حق کی صدا تھے جو اپنی آوازیں صرف اور صرف یہ کلمہ سنانے کے لیے بلند کر رہے تھے۔تا کہ سارے جہاں میں اس حقیقت کا کھلم کھلا اعلان کر دیں ۔امت محمدی کے لشکروں میں اسی کی گونج تھی اسلحہ کی گھن گرج میں بھی یہی صدا بلند ہو رہی تھی کہ لا الہ الااللہ ۔اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔

دولت عثمانیہ کے حکمران سلطان محمدفاتح اور دیگر حکمرانوں نے یہی صدا بلند کی اور ان کی آواز مشرق اور مغرب میں باطل کے اندھیروں کو چیرتی ہوئی نور حق پھیلاتی رہی وہ صدا لاالہ الااللہ تھی۔مملکت عثمانیہ کے میناروں سے بلندہونے والی اس صدا پر مشرق و مغرب میں لوگوں نے لبیک کہا اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس کلمہ حق کی باز گشت کے اثرات بلغراد کے جنگلوں سے لیکر ہمالیہ کی چوٹیوں تک موجودہیں ۔بلکہ یہ بازگشت تو سمندروں کے اس پار تک سنی گئی۔

بلا شبہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا اس جہاد کامقصد ہر اندھیرنگری میں اسلام کی روشنی پھیلا کردنیا کے کونے کونے میں اسم محمد(صلى الله عليه و سلم)سے اجالا کرنا،ہر جگہ قرآن مبین کا نور پھیلانا ہے۔اور مومنوں کی ذمہ داری ہے اس مقصد عظیم کے لیے حسی اور عملی جہاد یعنی جہاد اصغر بھی جاری رکھیں ۔تاکہ دنیا میں توازن قائم کرنے اور امت وسط کا فریضہ انجام دینے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں ۔ہمیں بحیثیت امت اس منصب کی حفاظت کر نا ہے جو اللہ نے ہمیں دیا ہے۔اور ہمارا محض یہی مقصد ہونا چاہیے۔فرمای

وَ کَذٰلِکَ جَعَلنٰکُم اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُونُوا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ

(البقرہ: ۱۴۳)

”اوراسی طرح ہم نے تم کو امت وسط بنا یا ہے تا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو۔ “

امت وسط سے مراد ہے کہ ہم نے تم کوعدل وانصاف اورمیانہ روی کی روش پر قائم رہنے کے لیے بنایا تا کہ تم دنیا کی قوموں کے درمیان توازن قائم کرو۔ تمہارا تعلق سب کے ساتھ یکساں ہو، تم استقامت پر قائم رہو کسی سے نا حق حرکت نہ کرو۔اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں ہمالیہ سے بلند تر مقام اور حر ا جیسی چوٹی پر فائز کرنا چاہتا ہے تاکہ ہم شعوری طور پر اس دعوت کا حصہ بن سکیں ۔ دین اسلام ہمیں اپنی ذات اور فطرت اصلیہ میں درجہ کمال تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اب یہ ہماری اہلیت تک ہے کہ ہم عزم صمیم کریں اور بلندیوں کی طر ف جانے کے لیے تجدید عہد کریں یا اسی حالت میں پڑے رہیں جس میں بحیثیت امت ہم ہیں اور ذلت اور خواری میں اس حد سے بھی گزر جائیں جس میں اب ہم ہیں اور دشمنوں کے پا ﺅں تلے روندے جائیں ۔

Pin It
  • Created on .
حقِ اشاعت © 2024 فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
fgulen.com یہ فتح اللہ گولن. کی سرکاری ويب سائٹ ہے۔