غزوہ تبوک
موتہ میں مسلمانوں اوررومیوں کے مابین ہونے والے تصادم نے عرب سمیت پورے علاقوے کوحیرت زدہ کردیا، کیوں کہ ایک اورتیس کی نسبت کے باوجود رومی ان پر غالب نہیں آسکے تھے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ شام اورگردونواح کے نیم قبائلی لوگ ہزاروں کی تعداد میں دائرہ اسلا م میں داخل ہوتے چلے گئے ۔اس صورت حال کے پیش نظر موتہ کا بدلہ چکانے او رمسلمانں کی پیش قدمی روکنے اور مسلمانوں کو کچلنے کے لیے قیصر روم نے فوجی تیاریوں کا حکم دیا۔حضور صلى الله عليه و سلم ہر اس سرگرمی سے باخبر رہتے تھے ، جس کے اثرات ان کے مشن پر مرتب ہوسکتے تھے ،لہذا ان تیاریوں کی خبرملتے ہی آپ صلى الله عليه و سلم نے میدان جنگ میں رومیوں کاسامنا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔خدشہ تھا کہ حنین میں کاری ضرب لگنے کے بعدمسلمانوں کی جانب سے کسی مصلحت یاکم زوری کے اظہا رسے جاہلیت دوبارہ زور پکڑ سکتی تھی ،دوسری طرف منافقین کوبھی اندرونی طو رپر اسلام کو نقصان پہنچانے کاموقع مل سکتاتھا۔منافقین [شرجبیل کے بیٹے ]غسانی شہزاد ے اور خود قیصرہ روم سے رابطے میں تھے ۔مزید یہ کہ انھوں نے مدینہ کے نواح میں مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے لیے آماج گاہ کےطور پر ایک مسجد تعمیر کی ، جسے بعد میں ،'مسجد ضرار' کانام [دے کر مسمارلر]دیاگیا۔
- Created on .