غزوہ حنین
عرب کے دیگر قبائل مسلمانوں اور قریش کے مابین کسی فیصلے کے منتظر تھے ۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کا خیال تھا کہ اگر محمد صلى الله عليه و سلم اپنے لوگوں پر غالب آگئے توان کی رسالت میںکوئی شبہ نہیں ۔اسی لیے جب مکہ فتح ہوگیا تووہ لوگ جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے ۔اس صورت حال کو دیکھ کر مشرکین کو سخت صدمہ پہنچااورانھوں نے حضور صلى الله عليه و سلمپر حملہ کرنے کے لیے طائف کے قریب ایک بڑالشکر جمع کرلیا۔جرات وشجاعت اورتیراندازی میں مشہوربنو ہوازن اوربنو ثقیف نے مکہ پر چڑھائی کے منصوبے میں بڑھ چڑھ کرحصہ لہا۔عبد اللہ بن [ابی]حدرد کے ذریعے موصول ہونے والی اطلاعات کے بعد آپ صلى الله عليه و سلمدوہزار پر جوش نومسلموں سمیت بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ روانہ ہوگئے ۔مکہ کی حفاظت ، نومسلموں کاحوصلہ بڑھانے اوران کے جذبہ ایمان کی مضبوطی کی غرض سے حضور صلى الله عليه و سلممکہ کی حدود میں دشمن کا مقابلہ نہیں کرنا چاہیے تھے ۔
یہ جنگ مکہ اور طائف کے درمیا ن واقع حنین کی وادی میں لڑی گئی ۔نئے مسلمان ہوش سے زیادہ جوش سے کام لے رہے تھے اورمقاصد کی صداقت پر ایمان واعتماد سے زیادہ اپنی برتری پر فخر محسوس کررہے تھے ۔دشمن کو یہ برتری حاصل تھی کہ وہ اس علاقے سے اچھی طرح باخبر تھا۔چناں چہ وہ گھات لگاکر بیٹھ گئے اورجوں ہی مسلمانوں کااگلا دستہ وادی میں اترا،دشمن کے نرغے میں آگیا۔یہ بھی ممکن ہےکہ حضور صلى الله عليه و سلم نے خود انھیں حکم دیاہ ویادشمن کی پسپائی کافریب دیاہو، تاہم دشمن کی سخت ترین تیراندازی نے اس پسپائی کوخطرناک بنادیا۔ اس سنگین صورت حال میں بھی حضور صلى الله عليه و سلمکے اعتماد اورثابت قدمی میں ذرہ بھر فر ق نہ آیا ہواورآپ صلى الله عليه و سلم اپنے گھوڑے پر آگے بڑھتے رہے ۔اس موقع پر آپصلى الله عليه و سلمکے چچا عباس آپ صلى الله عليه و سلمکے دائیں طرف تھے اوران کے بیٹے فضل بائیں جانب ،جب ابوسفیان بن حارث خچر کی لگام تھامے اسے روکنے کی کوشش کررہے تھے ۔آپ صلى الله عليه و سلم فرمارہے تھے ۔ 'اب جنگ کاچولھا گرم ہواہے ۔میں اللہ کا رسول ہوں ، یہ جھوٹ نہیں ہے ۔میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۔' ۱۳
عباس بلند آوازمیں پکار اٹھے ۔ 'اے اصحاب انصار !ا ے حدیبیہ میں زیر سایہ درخت بیعت کرنے والو!' ۱۴ چناں چہ جس جس نے یہ آواز سنی ،'لبیک 'کہتے ہوئے نبی اکرم صلى الله عليه و سلم کی طرف پلٹا ۔دشمن جوخود ہی میدان کے وسط میں آچکاتھا، چاروں طرف سے مسلمانوں کے گھیرے میں آگیا۔اس نازک موقع پر حضور صلى الله عليه و سلم کی جرات ، فراست اور استقامت نے یقینی شکست کو قطعی فتح میں تبدیل کردیا۔یہ اللہ کی نصرت ہی سے ممکن ہوسکاتھا۔مسلمانوں نے فتح کو یقینی بنانے کے لیے دشمن کا تعاقب جاری رکھا، ان کے خیموں ، ان کے مال مویشیوں اوران کی عورتوں کوقبضے میں لے لیا، جنھیں وہ ا س خوش فہمی میں اپنے ساتھ لے آئے تھے کہ وہ بہ آسانی یہ جنگ جیت جائیں گے۔
میدان جنگ سے بھاگے ہوئے مشرکین طائف میں جاکر قلعہ بندہوگئے ۔ مسلمانوں کی کامیابیوں کے پیش نظر صحرائی قبائل اسلام کی طرف راغب ہونے لگے ، جس کے کچھ ہی عرصہ بعد باغی قبائل اوراہل طائف نے ہتھیار ڈال دیے اورمسلمان ہوگئے ۔
- Created on .