اسلام کاتصورجہاد
اسلام دنیا و آخرت میں انسان کی انفرادی واجتماعی فلاح کا ضامن ہے ۔ شرک سے مکمل اجتناب ،اللہ پر کامل ایمان اوراس کی بندگی کے ساتھ ساتھ اللہ کی مخلوقات سے محبت اس کا بنیادی تقاضا ہے۔مخلوق سے گہری محبت ہی حب الہی کی علامت ہے ۔ تو حید پر ایمان لانے کا یہ مطلب نہیں کہ انسان دوسری مخلوقات کو اپنی خواہشات کے تابع کرنا شروع کردے ۔
لفظ 'اسلام ' کامادہ'س ل م'ہے ، جس کےمعنی امن اورتسلیم کے ہیں ۔ اسلام کائنات میں اللہ کےجاری وساری لطف وکرم کا اظہار ہے ۔سوائے انسان کےباقی تمام مخلوقات اسی آفاقی نظام حیات کی پابند ہے اور اس سے سرموانحراف نہیں کرسکتی۔ کائنات کا ہر ذرہ قانون الہی کا پابند او رمطیع ہے ،حتی کہ ایک منکر اور مشرک بھی جسمانی اعتبار سے پیدائشی مسلم ہے ۔آغاز حمل سے مٹی میں مل جانے تک انسان کا ایک ایک عضو ،ایک ایک خلیہ احکامات خداوندی کاتابع رہتاہے ۔
اسلام کا تصور توحید ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں انسانی مزاج سے مطابقت رکھتا ہے ۔ بےکنار کائنات کی ہر شے توحید کی پابند ہے اور انسان بھی اس کائنات کاایک جزو ہے ۔اگرچہ فطرت کے عمومی قوانین سے الگ بنی نوع انسان کے لیے کچھ خاص ضابطے ےشکیل دئیے گئے ہیں ، تاہم یہ بھی دیگر مظاہر پر لاگو قوانین سے ہم آہنگ ہیں ۔قوانین فطرت کی پابند دیگر مخلوقات کے برعکس انسان کو اپنے راستے کے تعین کی آزادی بخشی گئی ہے ۔اس نے یہ آزادی خود کو فطرت سے ہم آہنگ رکھنے کی ذمہ داری قبول کرکے حاصل کی ہے ۔انسان اسی آزادی سے سرفرازی اور برتری کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔یہی وہ راستہ ہے ، جس پر اللہ تعالی نے انسانی فطرت کو پید اکیاہے :
(روم۳۰:۳۰)
تو تم ایک طرف کے ہو کر دین (اللہ کے راستے )پر سیدھا منہ یے چلے جاؤ (اور )اللہ کی فطرت کو ،جس اس نے لوگوں کوپیداکیاہے ، (اختیار کےے رہو)۔ اللہ کی بنائی ہوئی (فطرت)میں تغیروتبدل نہیں ہوسکتا۔یہی سیدھا دین ہے،لیکن اکثرلوگ نہیں جانتے ۔
اسلام آفاقی نظام ،یگانگت کامظہر اور بے نظیر ضابطہ حیات ہے ، جو مادی اور مابعد الطبیعاتی ،عقلی ومثالی ،جسمانی وروحانی پہلوؤں میں توازن قائم رکھتاہے ۔اسلام کا نظام حیات انسانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔اس طرح انسان اپنی ذات ،انسانیت اور فطرت کے ساتھ امن وسلامتی کارشتہ قائم رکھتاہے ، جس سے دنیا وآخرت کی کامرانیاں اورکامیابیاں اس کا مقدر قرار پاتی ہیں ۔
اپنی زندگی کو فطرت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اسے اپنی معرفت حاصل کرنی چاہیے ۔ یہ تبھی ممکن ہے ، جب انسان اپنی توانائیوں کو اللہ کی قائم کی ہوئی حدود میں رہتے ہوئے آزادانہ استعمال کرے ۔ان حدود سے عدم واقفیت کی بناپر وہ دھوکا دہی اورجنسی بے راہ روی جیسے امراض کاشکار ہوجائے گا تو عقل کے بے محابا استعمال کے باعث دوسروں کا استحصال کرنے لگے گا، اس لیے انسانی صلاحیتوں کو بے مہار ہونے سے بچانا ہوگا، عقل کوحکمت کے ماتحت لاناہوگااوراس کی نفسیاتی وجسمانی خواہشات کو شریعت کے تابع کرنا ہوگا۔یہ بات یاد رکھنا چاہیےکہ انسان معاشرتی حیوان ہے ، اس لیے اگر وہ احکامات خداوندی کااحترام نہیں کرےگا تو ایسے سماج میں غلط کاری ، ناانصافی ،ناجائز منافع خوری ،نافرمانی اوربغاوت کاارتکاب ہونے لگے گا۔
اللہ غلط کاری اورنافرمانی کو پسند نہیں کرتا ۔وہ چاہتاہے کہ انسان امن و سلامتی سے زندگی گزارے ،تاکہ ان کے مابین عدل وانصاف کو فروغ حاصل ہو، لہذا مومنوں پر فرض ہے کہ وہ دنیا میں عدل کو غالب کریں ۔اسی ذمہ داری کو سلام نے جہاد کا نام دیاہے۔
- Created on .