اِلفت کیاہے؟اور اس کے کیامنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
اِلفت کاعمومی معنی عادت، دوستی اورمحبت ہے۔اگرچہ یہاں مقصودمعنی کاکسی حد تک ان معانی کے ساتھ بھی تعلق ہے،لیکن اس میں ان کی بہ نسبت زیادہ وسعت ہے۔اِلفت انسان کے اشیاء اورواقعات کے ساتھ تعلق اوراس تعلق سے پیداہونے والے حقائق کا نام ہے۔ان حقائق کا پرتو انسانی دل کی گہرائیوں پرپڑتا ہے اور وہاں حقائق کی بادِنسیم چلتی ہے،جس کے نتیجے میں انسانی طرز عمل میں تبدیلیاں رونماہوتی ہیں۔یکے بعد دیگرے وقوع پذیرہونے والے واقعات اوران کے اثرات روح کوزندہ،حساس اورفعال رکھتے ہیں۔
انسان کےاحساسات کائنات کے حسن وجمال اورجاذبیت کومحسوس کرکے اس سے متاثر ہونے، اس کے انتہائی پیچیدہ نظام کوپسندکرنے ،اسے دیکھ کراس میں حیرت کے جذبات پیدا ہونے،ہرنئی دریافت سے اس کے علم وتجربے میں اضافہ ہونے اوراپنی معلومات کے مختلف اجزاء کا آپس میں ربط قائم کرکے سوچنے کے منظم اندازتک رسائی حاصل کرنے سے بیدارہوتے ہیں، اس کے ذہن اورروح کی کارکردگی بہترہوتی ہے اوروہ روحانی اعتبارسے بیدارہوجاتاہے۔
لیکن اگرحسن وجمال اورنظام کائنات کے ہزاروں مناظر دیکھنے کے باوجودانسان کے احساسات بیدارنہ ہوں اوروہ ان کے اسباب اورحکمتوں کی تلاش میں نہ پڑے،بلکہ غفلت و بے پروائی سے ان کے پاس سے گزرجائے تویہ روح اوراحساسات کی پژمردگی اور بصیرت سے محرومی کی علامت ہے۔اسرارسے بھری کائنات ایسے لوگوں کے لیے کوئی معنی رکھتی ہے اورنہ ہی انسانی نفس کی دنیا ان کی آنکھوں کے سامنے ورق ورق کرکے کھلتی ہے:﴿وَکَأَیِّن مِّن آیَۃٍ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْہَا وَھُمْ عَنْہَا مُعْرِضُونَ﴾ (یوسف: ۱۰۵) ‘‘اور آسمان و زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں، جن پر سے یہ گزرتے ہیں اور ان کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔’’وہ ماضی کے واقعات سے استفادہ کرتے ہیں اورنہ ہی آنے والے اورگزشتہ واقعات سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔
جوشخص اپنے گردوپیش میں ظہورپذیرہونے والے واقعات کوسمجھتا اورمحسوس کرتا ہے اورکائنات اوراس میں پوشیدہ رازوں کودیکھ کرحیرت کااظہارکرتاہے وہ بحربے کراں میں کشتی رانی کرنے والے شخص کی مانندہے۔وہ اپنی سیاحت کے دوران گنجینہ ہائے اسرارکاسراغ پاتا ہے۔ جب بھی اس کی روح وقلب،پاکیزہ جذبات اورتیزذہن ان اسرار کے چشمہ صافی سے سیراب ہوتے ہیں اسے ہر طرف معلق باغات دکھائی دیتے ہیں،جس کے نتیجے میں اس کے افکارکی دنیا فردوس بریں کانمونہ پیش کرنے لگتی ہے،لیکن جس شخص کی اس فہم اورحقیقت تک رسائی نہیں ہوتی وہ ہمیشہ گھٹن، بیزاری اور زندگی کی یکسانیت کاشکوہ کرتادکھائی دیتاہے، کیونکہ وہ جن چیزوں کو دیکھنے کا عادی بن چکاہے ان کی قیدسے رہائی نہیں پاسکا۔ایسے لوگوں کے لیے ہرچیز بدنظمی، تاریکی اوربے معنی ہوتی ہے: ﴿وَإِن یَرَوْاْ کُلَّ آیَۃٍ لاَّ یُؤْمِنُواْ بِہَا﴾ (الأعراف: ۱۴۶) ‘‘اور اگر یہ سب نشانیاں بھی دیکھ لیں تب بھی ان پر ایمان نہ لائیں۔’’ ان کی عقلوں پرتالے اور دلوں پر پردے پڑجاتے ہیں:﴿وَعَلَی سَمْعِہِمْ وَعَلَی أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ ﴾ (البقرۃ: ۷) ‘‘اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔’’ایسے لوگوں سے کسی خیریابھلائی کی توقع رکھنافضول ہے۔
بعض اوقات معرفت ومشاہدہ یاکم ازکم جسے لوگ معرفت ومشاہدہ سمجھتے ہیں،کے بعد بھی لوگ اِلفت کاشکارہوجاتے ہیں۔میرے خیال میں سوال اسی نےتا پرپیداہوتاہے،یعنی بعض لوگ تھوڑی سی معلومات اورمعرفت حاصل ہونے پریہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہ سب کچھ جان چکے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اِلفت وعادت کے زیراثر دنیا میں رونماہونے والے واقعات اور تبدیلیوں کو محسوس کرپاتے ہیں اورنہ ہی لمحہ بہ لمحہ تغیرپذیراورغوروفکر،عبرت اورقلب وروح کی گہرائی وگیرائی میں زیادتی کی طرف دعوت دینے والے عالم حسن وجمال پرتوجہ دے سکتے ہیں،دوسرے لفظوں میں وہ بے حس ہوجاتے ہیں اورانہیں کسی بھی چیزسے عبرت حاصل نہیں ہوتی۔یہ درحقیقت انسان کے انحطاط اوراس کے احساسات وجذبات کی موت کی علامت ہے۔(خدااپنی پناہ میں رکھے!)
اگرایساشخص جلداپنی آنکھوں سے پردہ نہ ہٹائے،اپنے گردوپیش میں موجوداشیاء کے اسراروحکم پرغوروفکر کرناشروع نہ کرے اوردھیان سے ملائے اعلیٰ اورخدائی پیغامات واشارات کی طرف کان لگاکرانہیں سمجھنے کی کوشش نہ کرے تواس کا لازمی نتیجہ روحانی موت اورباطنی فسادکی صورت میں نکلتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس کائنات کے خالق خدائے تعالیٰ وقتاًفوقتاًانبیائے کرام کو واضح معجزات دے کر بھیجتے رہے ہیں،جنہوں نے غفلت میں پڑے لوگوں کوجھنجھوڑا، ان کی آنکھوں کو بینائی اوردلوں کو معرفت واطمینان کی دولت عطاکی اور اِلفت وعادت کے ہاتھوں گرفتار لوگوں کی عقلوں اورضمیروں کوبیدارکرکے انہیں زمین وآسمان کی نشانیوں پرغوروفکر کرنے کی دعوت دی،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں متعدد مقامات پرمختلف اسالیب میں بتایاہے کہ انہوں نے کیسے حضرت انسان کوپیداکرکے زمین پرخلیفہ بنایا اور اس کے سکون کی خاطر اس کی بیوی کوپیداکرکے ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے رحمت ومحبت کے جذبات رکھ دیئے۔اللہ تعالیٰ نے اہل نظرکوزمین وآسمان کی نشانیوں،اپنی مخلوقات کی عظمت،اقوام عالم کے رنگوں اورزبانوں کے اختلاف ،دن رات کے آنے جانے اوربرق وباراں کی صورت میں اپنے انعامات پرغوروفکرکی دعوت دی ہے۔غوروفکر اورنصیحت حاصل کرنے کی اس قدر دعوت وترغیب کے بعد کسی قسم کی اِلفت و عادت کی گنجائش باقی نہیں رہتی: ﴿وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَکُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنتُم بَشَرٌ تَنتَشِرُونَ o وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوا إِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُم مَّوَدَّۃً وَرَحْمَۃً إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ o وَمِنْ آیَاتِہِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِکُمْ وَأَلْوَانِکُمْ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّلْعَالِمِیْنَ o وَمِنْ آیَاتِہِ مَنَامُکُم بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَابْتِغَاؤُکُم مِّن فَضْلِہِ إِنَّ
فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَسْمَعُونَ o وَمِنْ آیَاتِہِ یُرِیْکُمُ الْبَرْقَ خَوْفاً وَطَمَعاً وَیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیُحْیِیْ بِہِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ﴾ (الروم: ۲۰۔۲۴)‘‘اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر اب تم انسان ہو کر جابجا پھیل رہے ہو اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس کی عورتیں پیدا کیں تاکہ ان کی طرف مائل ہوکر آرام حاصل کرو اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی۔جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لئے ان باتوں میں بہت سی نشانیاں ہیں اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنااور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا۔ اہل دانش کے لئے ان باتوں میں بہت سی نشانیاں ہیں اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے تمہارا دن اور رات میں سونا اور اس کے فضل کوتلاش کرنا۔ جو لوگ سنتے ہیں ان کے لئے ان باتوں میں بہت سی نشانیاں ہیں اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ تم کو خوف اور امید دلانے کے لئے بجلی دکھاتا ہے اور آسمان سے بارش برساتا ہے پھر زمین کو اس کے مرجانے کے بعد دوبارہ زندہ و شاداب کر دیتا ہے۔عقل والوں کے لئے ان باتوں میں بہت سی نشانیاں ہیں۔‘‘یہ آسمانی وضاحت کائنات میں وقوع پذیر ہزاروںمعجزات اورخارق العادت واقعات پر غوروفکرکرنے کی سینکڑوں بار ترغیب اوردعوت دے کر اِلفت کے جواز کوختم کررہی ہے،لیکن اس کے باوجودایسے لوگ پائے جاتے ہیں، جو اپنے گردوپیش میں رونماہونے والے واقعات اور نشانیوں کو سمجھ سکتے ہیں اورنہ ہی ان پرغوروفکر کرسکتے ہیں۔ان کی حالت اس مچھلی جیسی ہے، جو سمندر میں رہنے کے باوجود اس سے ناآشنا رہتی ہے۔
اِلفت کی ایک صورت اوربھی ہے اور وہ ہے فکر،سوچ اورتصورمیں اِلفت۔اس کے انسان کے طرزعمل اورعبادت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس قسم کی اِلفت اورعادت سے انسان کے وجدوعشق کے جذبات مردہ ہوجاتے ہیں اوروہ احساس ذمہ داری ،گناہ سے نفرت اورمعاصی پرآنسوبہانے کی دولت سے محروم ہوجاتاہے۔ایسے انسان کی پہلی کیفیت کوبحال کرنا سخت دشوار ہوتاہے۔اسے پاکیزہ اوراچھے اندازمیں نصیحت ہی کی جاسکتی ہے تاکہ وہ اپنی خودی کی طرف لوٹ کر اسے ازسرنودریافت کرے اوراپنے گردوپیش کومتلاشی آنکھوں اوردلِ بینا سے دیکھے۔
اگرہم انسان کی شخصیت اورروح کی تعمیرنوکرناچاہتے ہیں تواس کے لیے اس میں مذکورہ بالااوصاف پیداکرناناگزیرہے۔یہ درست ہے کہ انسان میں جمودکی طرف میلان پایا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجوداس کے دل کااحیائے نو ناممکن نہیں۔اس کے لیے اتناکافی ہے کہ کوئی نشتر سے اس کے جمودکوروک دے تاکہ اس کاخون پھرسے گردش کرنے لگے: ﴿أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللَّہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا یَکُونُوا کَالَّذِیْنَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُہُمْ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فَاسِقُونَ﴾ (الحدید: ۱۶) ‘‘کیا ابھی تک مؤمنوں کے لئے اس کا وقت نہیں آیا کہ اللہ کی یاد کرنے کے وقت اور قرآن جو حق کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کے سننے کے وقت ان کے دل نرم ہو جائیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جن کو ان سے پہلے کتابیں دی گئی تھیں پھر ان پر طویل عرصہ گزر گیا تو ان کے دل سخت ہو گئے اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔ ‘‘
حاصل یہ کہ الفت انسان کے لیے ایک بہت بڑی مصیبت ہے،جس میں بہت سے لوگ گرفتارہوجاتے ہیں۔اس میں مبتلاشخص اپنے گردوپیش کے واقعات سے بے خبررہتاہے،وہ کتاب فطرت کے حسن وجمال کودیکھتا ہے اورنہ ہی واقعات کی زبانی حق کی آواز سن پاتا ہے۔ اس کانتیجہ یہ نکلتاہے کہ اس کا ایمان سطحی اورناکافی اوراس کی عبادت وجد وکیف سے خالی ہوجاتی ہے اورانسانوں کے ساتھ معاملات میں اسے کسی نگران و محاسب کاخوف نہیں رہتا۔ایسے شخص کی الفت سے چھٹکارے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ اسے نئی سماعت اوربصارت عطا کرنے کے لیے خصوصی توجہ دی جائے۔
جوشخص اِلفت کے چنگل میں پھنس جائے اسے انفس وآفاق میں غوروفکرکرنے،موت کو یاد کرنے،آخرت کامشاہدہ کرنے، دینی خدمات سرانجام دینے والے اداروں میں جانے، ایمانی خدمات اور وظائف سرانجام دینے،مسلمانوں کے درخشاں ماضی سے واقفیت حاصل کرنے اور اپنی روحانی کیفیات کی تجدید کے لیے فکر و ثقافت کے حامل صاحب وجد و حال لوگوں کی صحبت اختیارکرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ان تجاویز کے علاوہ اوربھی مفید تجاویزپیش کی جاسکتی ہیں، لیکن چونکہ اوپرذکرکردہ معروضات اس موضوع کے مختصرتعارف کے لیے کافی ہیں، اس لیے ہم اسی پراکتفاکرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ ہمارے دلوں سے اِلفت کے مضراثرات کوزائل فرما دے۔ بلاشبہ تمام دل اسی کے ہاتھ میں ہیں۔
- Created on .