ہرچیز کی انتہا موت کیوں ہے؟
قادرمطلق خالق کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ کائنات کی خوبصورت ترین مخلوقات کوانتہائی سادہ اورمعمولی اشیاء سے پیداکرتے ہیں اورہرچیز میں مسلسل اور بلا اسراف تجدید نو کرتے ہوئے اسے تکمیل کی طرف لے جاتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ساری کائنات میں بالکل ایسے ہی غروب کے بعد طلوع ہوتاہے، جیسے رات دن ایک دوسرے کی جگہ لیتے ہیں۔ اس حیرت انگیز نظام کے تحت نئے ثمرات اورتروتازگی حاصل ہوتی ہے۔سورج اور ہماری زمین کا تعلق اورموت وحیات کے درمیان ربط بھی اسی نظام کاحصہ ہے۔
آئندہ سطورمیں ہم ان موضوعات پرگفتگوکریں گے،لیکن سب سے پہلے موت کے بارے میں چند معروضات پیش کرنامناسب معلوم ہوتاہے۔موت اشیاء کی طبیعی انتہااورخاتمہ ہے اور نہ ہی دائمی فنااورعدم۔یہ انتقال مکان،کیفیت کی تبدیلی،ابعادکے تغیر اور ذمہ داریوں کے بوجھ سے نجات پاکرراحت ورحمت کے حصول سے عبارت ہے،بلکہ بعض اعتبار سے یہ ہرچیز کے اپنی اصل حقیقت کی طرف لوٹنے کا نام ہے،یہی وجہ ہے کہ موت میں زندگی جیسی کشش ہے اوراس کاسامناکرکے دوست احباب کی ملاقات جیسی خوشی محسوس ہوتی ہے۔چونکہ یہ ابدی زندگی کے حصول کاذریعہ ہے،اس لیے یہ بہت بڑی نعمت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ موت کی اس حقیقت سے ناآشنا مادہ پرست لوگوں نے ہمیشہ موت کو خوفناک صورت میں پیش کیاہے اوراس کے بارے میں اندوہ ناک مرثیے پڑھے ہیں۔موت کی حقیقت سے ناواقف لوگوں کی ماضی میں بھی یہی کیفیت تھی اورآج بھی یہی حالت ہے۔
یہ درست ہے کہ جدائی کاسبب ہونے کی وجہ سے عقلی اورانسانی پہلو سے موت ایک المناک حادثہ سمجھی جاتی ہے، لہٰذا موت کے اثرات کاانکار ممکن ہے اور نہ ہی دل کی آواز کو دبایا جا سکتاہے،خصوصاًنرم دل اورحساس طبیعت کے مالک لوگوں کے جذبات کوموت بری طرح سے متاثرکرتی ہے،گو اکثر یہ کیفیت عارضی ہوتی ہے۔ایسے لوگوں کے حق میں بعث بعدالموت کاعقیدہ ایسے ہی ہے جیسے کسی فقیرکوبادشاہت یا پھانسی کے مرگم کوابدی زندگی مل جائے۔یہ عقیدہ ایسے لوگوں کے ہرغم کودورکرکے انہیں عظیم سعادت عطاکرسکتاہے۔
موت کی حقیقت کاادراک رکھنے والوں کے لیے موت جگہ کی تبدیلی، رخصت اور ایک ایسے جہاں کی سیاحت سے عبارت ہے، جہاں انسان کی اپنے ننانوے فیصددوست احباب سے ملاقات ہوگی،لیکن جولوگ موت کی حقیقت سے ناواقف ہیں اورانہوں نے اس کاصرف ظاہری خوفناک چہرہ دیکھاہے، ان کے لیے یہی موت جلاد،تختہ دار،اندھے کنویں اورتاریک رستے سے کم نہیں۔
جولوگ موت کودائمی زندگی کاآغازسمجھتے ہیں انہیں جب بھی موت کی بادنسیم کے جھونکے محسوس ہوتے ہیں ان کی آنکھوں کے سامنے جنت کے حسین مناظرگھوم جاتے ہیں،لیکن اس عقیدے کے حسن سے محروم کافرموت کاخیال آنے پرخوف سے کانپ اٹھتاہے۔اگریہ معاملہ صرف اس کی ذات تک محدودرہتاتوبھی اس کاغم کچھ ہلکا ہوجاتا،لیکن وہ اپنے غم میں ان لوگوں کے غموں کوبھی شامل کرلیتاہے، جن کی غمی خوشی میں وہ شریک ہوتاہے،جس کے نتیجے میں اس کا دل غموں کامرکزبن جاتاہے، لیکن مؤمن کے نزدیک کسی بھی چیزکی موت دنیاکی مشقتوں اورتکلیفوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے اورارفع و اعلیٰ ماہیت حاصل کرکے دوسرے جہاں میں مثالی انداز سے حیاتِ جاوید پانے کے مترادف ہے۔
چونکہ موت ابدی زندگی کی کلی کے چٹخنے اوردنیاکی زندگی کے مصائب سے خلاصی پانے کانام ہے،اس لیے یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اورگرانقدرتحفہ ہے۔ہرکمال، ترقی اورنعمت صفائی کرنے والے بعض ایسے آلات سے گزرنے پرموقوف ہے، جوانہیں ایک نئی صورت عطا کرتے ہیں،بلکہ تمام موجودات پگھلنے اورصفائی کے ان مراحل سے گزرکر پہلے سے بلندمقام حاصل کرتے ہیں، مثلاًسونے اورلوہے کی دھاتیں پگھلے بغیر اپنی حقیقی صورت نہیں اختیار کر سکتیں۔ جب تک وہ موت کے مشابہ اس عمل سے نہیں گزرتیں ان کی حیثیت مٹی اورپتھرکی سی رہتی ہے۔ جب ہم دوسری اشیاء کو سونے اورلوہے پرقیاس کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہرچیزکی زندگی میں غروب ہونے، پگھلنے، ختم ہونے اورمعدوم و فناہونے کامرحلہ آتاہے، لیکن درحقیقت یہ مرحلہ ارفع و اعلیٰ حالت کی طرف منتقل ہونے کاذریعہ ہوتاہے۔
ہواکے ذرات سے لے کرپانی،جڑی بوٹیوں،درختوں اورجانداروں کے خلیوں تک ہرچیزبے تابی سے موت کی طرف دوڑرہی ہے، کیونکہ اس میں ان کا کمال مضمرہے۔جب آکسیجن اورہائیڈروجن کااتحادہوتاہے تو وہ دو نوں اپنی سابقہ خصوصیات کھوکرموت کاشکارہوجاتی ہیں، لیکن اس کے نتیجے میں زندگی کا اہم ترین عنصر پانی وجودمیں آتاہے اوراس طرح ان دونوں کی بہتر صورت میں نئی بعثت ہوتی ہے۔
اسی لیے ہم نظروں سے اوجھل ہونے اورجگہ اورکیفیت کی تبدیلی پرموت کا اطلاق کرتے ہیں،لیکن ہم یہ نہیں کہتے کہ موت عدم یا فنا کا نام ہے۔ایساکہناممکن بھی نہیں،کیونکہ چھوٹے چھوٹے ذرات سے لے کربڑے بڑے اجرام فلکی تک کائنات میں ہونے والاہرواقعہ ہر تبدیلی اورہرٹوٹ پھوٹ پہلے سے بہتراورخوب ترصورت پرمنتج ہوتی ہے۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتاہے کہ تمام موجودات محوسفرہیں،لیکن یہ سفرعدم کی طرف نہیں ہے۔
مالک الملک کی نظرمیں موت ذمہ داری کی تبدیلی کانام ہے۔ہر چیز کواس کے خالق کی طرف سے مخصوص ذمہ داری سونپی گئی ہے۔جب اس کی ذمہ داری کے مقاصدپورے ہو جاتے ہیں تووہ کسی دوسری مخلوق کے لیے جگہ خالی کر دیتی ہے، تاکہ دنیاکے اس اسٹیج پرتمام امورایک ہی ڈگرپرنہ چلتے رہیں،بلکہ نئے اوربہتر لوگ آکراس میں نئی روح اورنشاط پیدا کریں۔ اس طرح موجودات دنیاکے اسٹیج پرجلوہ نما ہوکراپناکرداراداکرتی ہیں اور جو انہیں کہناہوتاہے کہہ کر پردے کے پیچھے غائب ہوجاتی ہیں، تاکہ دوسروں کوبھی سامنے آکراپناکرداراداکرنے اوراپنی آواز سنانے کاموقع مل سکے۔کسی نے درست کہاہے:‘‘من أتی سیذہب و من حلّ سیرحل’’ (جوآیاہے،اسےبالآخرجاناہےاورجوٹھہراہےاسےبالآخررخت سفر باندھنا ہے۔)اس آمدورفت اور طلوع وغروب کے ذریعے کائنات میں نئی زندگی اورنشاط پیداہوتاہے اورہرچیزکی تجدیدہوتی ہے۔
ایک اورپہلوسے موت میں نصیحت کابڑاسامان ہے۔وہ انسان کویاددلاتی رہتی ہے کہ کائنات کی کوئی بھی چیزخودسے قائم نہیں، بلکہ ہرچیزٹمٹماتے چراغوں کی مانندکبھی نہ گل ہونے والے ابدی آفتاب کی نشاندہی اورزوال و فناکے خوف سے لرزاں دلوں کی اطمینان و سکون کے رستے کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔اس کے نتیجے میں دل میں کبھی نہ زائل اورفناہونے والے حبیب کی جستجو کااحساس پیداہوتاہے۔اس احساس کاپیداہونا احساسات وجذبات کے عالم میں ابدیت کو پانے کی طرف پہلاقدم ہے، لہٰذا موت انسان کو اس پہلے مرحلے تک پہنچانے والے غیرمرئی زینے کی مانندہے۔
موت کو فنا کے گھاٹ اتارنے والی تلوارکی بجائے عمل جراحی کے ذریعے علاج کرنے والے دست شفقت کی حیثیت سے دیکھناچاہیے، بلکہ خود فنا اور زوال کو کوئی مستقل بالذات چیز سمجھنا بعض پہلوؤں سے درست نہیں، کیونکہ خالص عدم کاکوئی وجودنہیں،بلکہ ہمارے مشاہدے اورنگاہ کے تنگ دائرے سے غائب ہونے والی ہرچیز اپنی مثالی اورعلمی صورت میں ہماری یاداشت، لوح محفوظ، ہرچیزپرمحیط وسیع علم کے دائرے، مختلف ابعاد اوران ابعادسے ماورا جہانوں میں ہمیشہ برقراررہتی ہے۔ہرچیزاس بیج کی مانندہے جوپھٹ کرخوبصورت پھول بن جاتاہے اور بالآخر مرجھاجاتاہے،لیکن اس کے باوجوداپنے وجوداورماہیت کوہزاروں خوشوں اورکلیوں کے ضمن میں ہمیشہ برقرار رکھتا ہے۔ اب ہم اس کاایک اورپہلوسے جائزہ لیتے ہیں۔
اگرہرچیزکاانجام موت کی بجائے زندگی ہی ہوتا اور وہ فنا اور زوال کی بجائے اپنے وجود کو ہمیشہ برقراررکھتی توایسی صورت میں دنیاکی کیاحالت ہوتی؟اگرچہ اوپرذکرکردہ دلائل یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ موت رحمت اورحکمت کاتقاضاہے،لیکن ہم اس سے بڑھ کریہ بھی کہتے ہیں ہرپہلوسے زندگی کا دوام اورموت کاعدم وقوع ایک ایسی خوفناک صورت حال ہے کہ اگر اس کی صحیح منظرکشی اورتصورممکن ہو تو لوگ موت کی بجائے ایسے دوام سے تنگ آکرآہ وبکاکرنے لگیں۔
ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اگرکوئی بھی چیزنہ مرتی تو زندگی کے ابتدائی ادوارمیں بھی انسان تو درکنار ایک مکھی کوبھی رہنے کے لیے جگہ نصیب نہ ہوتی۔حیوانات میں سے چیونٹیاں اور نباتات میں سے بیلیں ہی تھوڑے سے عرصے میں سارے جہاں کو اپنے وجودسے بھردینے کے لیے کافی ہوتیں۔اگر وہ موت اورٹوٹ پھوٹ کاشکارنہ ہوتیں تو روئے زمین پرایک بالشت بھی خالی جگہ نہ رہتی، بلکہ چیونٹیوں اور بیلوں کی کثرت کی وجہ سے ان کے سطحِ زمین سے سینکڑوں میٹر بلند ڈھیرلگ جاتے۔اس قدرہولناک منظرکاتصورکرنے سے پتاچلتاہے کہ موت اوراشیاء کاتحلیل ہوناکس قدرباعث رحمت اورپرحکمت نظام ہے۔
کیا ہم ایسی صورت میں کائنات کے اس قدر حسین اور دلفریب مناظردیکھ سکتے؟ چیونٹیوں اور بیلوں کی اس قدربہتات میں اس حسن وجمال کاکتناحصہ دکھائی دیتا؟وہاں توصرف چیونٹیوں اور بیلوں کے ڈھیر نظرآتے۔کیاجس انسان کی خاطراس خوشنما کائنات کو مسخر کیاگیا ہے وہ ایسے بدنماماحول میں رہ سکتا؟اس کے لیے ایساکرناقطعاًممکن نہ ہوتا،بلکہ ایسی گندی جگہ سے تو ادنیٰ ترین مخلوق بھی بھاگنے پرمجبورہوجاتی۔
اس کائنات کے نظام میں ایسی حکمت کارفرماہے کہ اس کا ایک ذرہ بھی بے فائدہ یا زائدازضرورت نہیں۔ کامل ترین حکمت کے مالک گھٹیاترین اشیاء سے قیمتی اورخوبصورت ترین چیزوں کو وجودبخشتے ہیں،لہٰذاان کے بارے میں یہ تصورنہیں کیاجاسکتا کہ وہ کسی چیز کوبے فائدہ بنائیں گے، بلکہ وہ کسی بھی چیزکے باقی ماندہ بے وقعت اجزاء کو کسی دوسرے مقام پرنئے جہان بنانے کے لیے استعمال کریں گے اوراپنی طرف اٹھائی جانے والی روحوں،خصوصاً انسانی روحوں کوبہترین استعمال میں لاکر ان سے نئی اورعمدہ مخلوقات وجودمیں لائیں گے۔جس مخلوق کواللہ تعالیٰ نے عزت بخشی اور اسے اپنی تقدیر، انعامات اورتخلیق وایجادکامظہربنایا، اسے اس طرح نظراندازکرنااس کی لامتناہی حکمت کے شایاں نہیں۔اللہ تعالیٰ ایسے اقدام سے یقینابری ہیں۔
حاصل یہ کہ دلِ بینا رکھنے والے تمام سلیم العقل لوگ ہرچیزکو نظم ونسق اورترتیب کے لحاظ سے اپنے اپنے مقام پراس قدرٹھیک ٹھیک پاتے ہیں کہ ان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اوران کے دلوں پر کائنات کے حسن وجمال کو تعبیرکرنے کے لیے الہام ہوتاہے، دوسرے لفظوں میں ذرات کی حرکت اورٹوٹ پھوٹ سے لے کرنباتات اورجڑی بوٹیوں کی نشوونما، دریاؤں کے سمندروں میں گرنے اورپانی کے بادلوں میں تحلیل ہو کر بارش کی صورت میں دوبارہ زمین پر برسنے تک ہر چیز مسلسل ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف گامزن ہے۔کسی شاعرنے درست کہاہے:
ذہن وفکرکوجھنجھوڑنے والی یہ دنیابھی کس قدرعجیب ہے!
ہر لمحہ قدرت کی کرشمہ سازیاں میرے سامنے ظہور پذیر
ہیں۔حق تعالیٰ آسمان سے جو چیزبھی نازل فرماتے ہیں
وہ آسمانی نشانی ہے۔جڑی بوٹیاں، سمندر، پہاڑ اور بہار
کی آمدسب کے سب رنگوں کے پیچھے چھپے انورات ہیں۔
اس دنیامیں پیدا ہونے والا کوئی بھی شخص اس حقیقت کو
محسوس کیے بغیرنہیں رہ سکتا۔
- Created on .