قرآن کریم کے نبی کریمﷺکی تصنیف نہ ہونے پرکیادلائل ہیں؟
اس موضوع پربہت کچھ کہااورلکھاجاچکاہے اورہرقسم کے شبہات کاازالہ کردینے والے بہت سے دلائل پیش کیے جاچکے ہیں۔سوالات وجوابات کے لیے مختص اس حصے میں ہم اختصارکے ساتھ اس موضوع کے صرف چندبنیادی نابت پرگفتگوکریں گے ۔
قرآن کریم کے رسولﷺیاکسی اورانسان کی تالیف ہونے کادعوی زمانۂ جاہلیت کے بعض افراداورقرآنِ کریم سے عداوت رکھنے والے مستشرقین کے سواکسی نے نہیں کیا۔
مستشرقین یہ دعویٰ کرکے ذہنوں کو پراگندہ کرناچاہتے ہیں۔یہ بات واضح ہے کہ ماضی وحال کے مشرکین کی سوچ غیرجانبدارانہ نہیں،بلکہ بغض وعداوت پرمبنی ہے،کیونکہ قرآن کریم کے ہرلحاظ سے انسانی استطاعت سے بہت بلند ترمقام پرفائز ہونے کی وجہ سے جو شخص بھی انصاف پسندی اور غیرجانبداری سے اس کا بغورمطالعہ کرتاہے وہ اس نتیجے پرپہنچتاہے کہ اس کا سرچشمہ خداکے سواکوئی اورنہیں ہوسکتا۔
ہم اس موضوع کے تفصیلی مطالعے میں دلچسپی رکھنے والے حضرات کو اس موضوع پرعظیم مفکرین کی تحریروں کی طرف مراجعت کرنے کامشورہ دیں گے اورآئندہ سطورمیں اس موضوع سے متعلق چندبنیادی باتوں کا تذکرہ کرنے پراکتفاکریں گے۔
۱۔ قرآنِ کریم اوراحادیث نبویہ کے اسلوب میں واضح فرق موجودہے،یہی وجہ تھی کہ جب اہل عرب رسول اللہﷺکی احادیث مبارکہ کو اپنے عام اندازگفتگو کے مطابق پاتے توقرآن کریم کے معجزانہ اسلوب پرحیرت واستعجاب کا اظہارکیے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔
۲۔ احادیث نبویہ کامطالعہ کرنے والے کوواضح طورپرمحسوس ہوتاہے کہ یہ کسی ایسے شخص کی گفتگو اورنتیجۂ فکرہے، جس کا دل خوفِ خداسے لبریزہے،لیکن اس کے برعکس قرآن کریم کے اسلوب میں جاہ و جلال، دبدبہ اورعظمت جھلکتی ہے۔ایک ہی شخص کے اندازِ گفتگو میں اس قدر تفاوت ناممکن اورناقابل فہم ہے۔
۳۔ ایک ایسے اُمّی شخص(میری ماں باپ اس پرقربان ہوں)جس نے کبھی مدرسے کامنہ دیکھااورنہ کوئی کتاب پڑھی، کی جانب سے ہرعیب ونقص سے پاک ایسے جامع نظام کا پیش کیاجانا، جس کی ہمہ گیری میں فرد، خاندان، معاشرہ، معاشیات اورقانون سب داخل ہوں نہ صرف ناممکن ہے، بلکہ عقل و فکر اور کامن سینس کے بھی خلاف ہے، خصوصاً جبکہ وہ نظام نہ صرف زمانہ درازتک مختلف اقوام کے ہاں قابل عمل رہاہو،بلکہ آج بھی قابل عمل ہو اور اس کی ترو و تازگی برقرارہو۔
۴۔ قرآنِ کریم میں زندگی،کائنات اوران سے متعلقہ موضوعات، عبادات، قوانین اورمعاشیات وغیرہ میں اس قدرحیرت انگیزتوازن پایاجاتاہے کہ اگراس کی نسبت کسی انسان کی طرف کی جائے تواسے مافوق الفطرت ہستی تسلیم کرناپڑے گا،کیونکہ اوپرذکر کردہ مسائل میں سے ہرایک مسئلہ زمانے کی حدودسے ماورا اور اعلیٰ ترین عبقری صلاحیتوں کے حامل انسان کی استطاعت سے بھی خارج ہے، لہٰذا ایسے سینکڑوں مسائل جن میں سے ایک مسئلہ بھی بڑے بڑے عبقری انسانوں کے لیے پیش کرناممکن نہیں، پرمشتمل کتاب کو ایسے امی شخص کی طرف منسوب کرنا جس نے کسی مدرسے کامنہ دیکھاہو اور نہ کوئی کتاب پڑھی ہو،بے بنیادخام خیالی کے سواکچھ نہیں۔
۵۔ قرآنِ کریم کی ایک خارق العادت خصوصیت یہ ہے کہ یہ ماضی اورمستقبل کے بارے میں غیب کی خبروں پرمشتمل ہے، لہٰذااسے انسانی کلام قرارنہیں دیاجاسکتا۔قرآن کریم نے صدیوں پیشترماضی کی قوموں کی طرز زندگی، معیشت اوراچھے یا برے انجام کے بارے میں جو معلومات فراہم کی تھیں، دورِحاضرکی تازہ ترین تحقیقات سے ان کی صداقت ثابت ہوچکی ہے۔ حضرت صالح، حضرت لوط اورحضرت موسی علیہم السلام کی قوموں کے حالاتِ زندگی اوران کی نشان عبرت بننے والی رہائش گاہیں سب کے سامنے موجودہیں۔
قرآنِ کریم نے ماضی کی اقوام کے حالات کی طرح مستقبل کے واقعات کے بارے میں بھی معجزانہ اندازمیں پیش گوئیاں کی ہیں، مثلاًقرآنِ کریم نے فتح مکہ کے بارے میں پہلے ہی بتا دیا تھا، نیز یہ بھی بتادیاتھاکہ مسلمان فتح مکہ سے کچھ مدت پہلے اطمینان کے ساتھ مکہ میں داخل ہوں گے:﴿لَقَدْ صَدَقَ اللَّہُ رَسُولَہُ الرُّؤْیَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاء اللَّہُ آمِنِیْنَ مُحَلِّقِیْنَ رُؤُوسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَلِکَ فَتْحاً قَرِیْباً﴾ (الفتح: ۲۷)‘‘بے شک اللہ نے اپنے پیغمبر کو سچا اور صحیح خواب دکھایا تھا کہ تم ان شاء اللہ مسجد حرام میں اپنے سر مڈوا کر یا اپنے بال ترشوا کر امن و امان سے داخل ہو گے اور کسی طرح کا خوف نہ کرو گے۔ جو بات تم نہیں جانتے تھے اللہ کو معلوم تھی، سو اس نے اس سے پہلے ہی جلد ایک فتح عطا فرمائی۔ ’’قرآنِ کریم نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ دین اسلام تمام غلط نظاموں پر غالب آکر رہے گا: ﴿ھُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَکَفَی بِاللَّہِ شَہِیْداً﴾ (الفتح: ۲۸) ‘‘وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت کی کتاب اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے اور حق ثابت کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے۔ ‘‘
قرآنِ کریم کی ایک پیش گوئی یہ بھی تھی کہ رومیوں پرغالب آنے والے ساسانیوں کو کچھ سالوں کے بعدشکست ہوجائے گی اورمسلمان ایک آنے والی فتح پرخوش ہوں گے۔اس فتح کا مصداق غزوہ بدر کی فتح ہے،جوایک رائے کے مطابق رومیوں کی فتح کے زمانے میں ہی مسلمانوں کوحاصل ہوئی: ﴿الم o غُلِبَتِ الرُّومُ o فِیْ أَدْنَی الْأَرْضِ وَہُم مِّن بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُونَ o فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ لِلَّہِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ وَیَوْمَءِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ﴾ (الروم: ۱۔۴) ‘‘الم۔ اہل روم مغلوب ہو گئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہو نے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے چند ہی سال میں۔ پہلے بھی اور بعد میں بھی اللہ ہی کا حکم ہے اور اس روز مؤمن خوش ہوجائیں گے۔ ‘‘
چنانچہ وقت مقررہ پرقرآنِ کریم کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔اسی سے ملتی جلتی آیت حسبِ ذیل ہے: ﴿یَا أَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّہَ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْکَافِرِیْن﴾ (المائدۃ: ۶۷) ‘‘اے پیغمبر! جو ارشادات اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو اور اگر ایسا نہ کیا تو تم اللہ کا پیغام پہنچانے میں قاصر رہے اور اللہ تعالیٰ تم کو لوگوں سے بچائے رکھے گا۔ بے شک اللہ منکروں کو ہدایت نہیں کرتا۔’’اگرچہ آپﷺدشمنوں میں گھرے ہوئے تھے اور چچا، قوم اور اردگردکی حکومتیں آپ کی جان کے درپے تھیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے لوگوں سے آپ ﷺکی حفاظت کا وعدہ فرمایااوراس وعدے کو پوراکرکے دکھایا۔
آیت مبارکہ ﴿سَنُرِیْہِمْ آیَاتِنَا فِیْ الْآفَاقِ وَفِیْ أَنفُسِہِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّہُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدٌ﴾ (فصلت: ۵۳) ‘‘ہم عنقریب ان کو اطرافِ عالم میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ قرآن حق ہے۔ کیا تم کو یہ کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے۔’’ سے ثابت ہوتاہے کہ مستقبل میں روایتی اورنفسیاتی علوم میں کافی ترقی ہوگی اوریہ ترقی انسان کو ایمان کے قریب ترلے آئے گی۔ دورِحاضر میں سائنسی علوم اس مقصدکوتیزی سے حاصل کررہے ہیں اوراس کے کافی قریب پہنچ چکے ہیں۔
مزیدبرآں قرآنِ کریم نے سارے جن وانس کوچیلنج کیاہے:﴿قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی أَن یَأْتُواْ بِمِثْلِ ہَذَا الْقُرْآنِ لاَ یَأْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْراً﴾ (الاسراء: ۸۸) ‘‘کہہ دو کہ اگر انسان اور جن اس بات پر مجتمع ہوں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہ لا سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں۔’’یہ چیلنج مکہ معظمہ میں اس آیت کے نزول سے لے کر آج تک قائم ہے۔سوائے دوایک بے معنی کوششوں کے کسی نے اس چیلنج کوقبول کرنے یا قرآن کریم کے مشابہ کلام پیش کرنے کی جرأت نہیں کی۔یہ قرآن کریم کی صداقت اوراعجاز کی روشن ترین دلیل ہے۔
نزولِ قرآن کے ابتدائی سالوں میں مسلمان بہت کمزوراور ناتواں تھے۔وہ کسی قسم کی طاقت اورقوت کے مالک تھے اورنہ ہی ان کے ذہن میں مستقبل کے بارے میں کوئی واضح خاکہ تھا،لہٰذا ان کے ذہنوں میں دنیاپرحکمرانی کرانے کاخیال تھااورنہ ہی مستقبل میں سارے عالمی نظاموں پرغالب آنے والے اپنے دین کی طاقت کے سرچشموں کے بارے میں کوئی منصوبہ تھا، لیکن قرآنِ کریم کہتاہے: ﴿وَعَدَ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ
الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً یَعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُونَ بِیْ شَیْئاً وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ (النور: ۵۵) ‘‘جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنا دے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے، مستحکم و پائیدار کرے گااور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا۔وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے اور جو اس کے بعد کفر کرے گا تو ایسے ہی لوگ بدکار ہیں۔ ‘‘قرآنِ کریم اس اندازسے انہیں خطاب کرکے انہیں ان کے اعلیٰ اہداف سے آگاہ کرتا اور انہیں دنیاپرحکمرانی کی خوشخبری سناتا۔دیگر بہت سی آیات مبارکہ جنہیں یہاں ذکرکرنا ممکن نہیں،اسلام اورمسلمانوں کی فتوحات اورہزیمتوں اور عروج و زوال کاتذکرہ کرتی ہیں۔
مستقبل کے بارے میں قرآنِ کریم کی بیان کردہ اکثرو بیشترپیش گوئیاں مختلف علوم میں ہونے والی تحقیقات وانکشاف کامنتہاہوں گی۔قرآنِ کریم نے بعض سائنسی حقائق کے بارے میں جومعلومات فراہم کی ہیں، وہ اس قدرحیران کن ہیں کہ انہیں نظراندازکیاجاسکتاہے اور نہ ہی کسی انسان کی طرف منسوب کیاجاسکتاہے۔چونکہ بہت سی کتابوں میں اس موضوع پر سینکڑوں آیات کے ضمن میں سیرحاصل بحث کی جاچکی ہے، اس لیے ہم اس موضوع کی تفصیلات جاننے میں دلچسپی رکھنے والے حضرات کو ان کتابوں کی طرف مراجعت کامشورہ دے کرآئندہ سطورمیں صرف چند ایک مثالوں کی طرف اشارہ کرنے پراکتفاکریں گے۔
۱۔ تخلیق کائنات
ارشادباری تعالیٰ ہے: ﴿أَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقاً فَفَتَقْنَاھُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ﴾ (الأنبیاء: ۳۰) ‘‘کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے ان کو جدا جدا کردیا اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔ ’’اس آیت مبارکہ کاتعلق تخلیقِ کائنات سے ہے۔اگرچہ اس آیت مبارکہ کی بعض تفصیلات کی تفسیر میں اختلاف ہے، لیکن اس کاعمومی مفہوم تخلیقِ کائنات سے متعلق ایک غیرمتغیراصول کی طرف مشیرہے۔ خواہ‘‘الرتق’’اور‘‘الفتق’’سے کہکشاؤں اور ستاروں کا گیسوں اور بادلوں سے مرکب ہونا مراد ہو، نظام شمسی کی طرح کے نظاموں کا وجود میں آنا مرادہو یا بادلوں اور دھند کا تقسیم ہوکر مخصوص ہم آہنگ اور باہم مربوط صورتیں اختیارکرنامراد ہو اس سے اس آیت کے عمومی مفہوم پرکوئی اثر نہیں پڑتا،لہٰذا یہ آیت مبارکہ اپنے الفاظ اوراسلوب کے ساتھ اپنی جدت اورتروتازگی کو آج بھی برقرارکھے ہوئے ہے اور دیگر تمام نظریات کے ناکام اور نامقبول ہوجانے کے باوجوداپنی ترو و تازگی کو آئندہ بھی برقرار رکھے گی۔
۲۔ علم فلکیات
قرآنِ کریم میں علم فلکیات سے متعلق بہت سی آیات ہیں۔اگران سب کو یکجا کر کے ان کا تفصیلی تجزیہ کیاجاتاتو بہت خوب ہوتا، لیکن اس مقصدکے لیے کئی جلدوں پرمشتمل کتاب درکار ہوگی۔ذیل میں میں صرف ایک دوآیات مبارکہ کی طرف اشارہ کرنے پراکتفاکروں گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اللّہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِیْ لأَجَلٍ مُّسَمًّی یُدَبِّرُ الأَمْرَ یُفَصِّلُ الآیَاتِ لَعَلَّکُم بِلِقَاء رَبِّکُمْ تُوقِنُونَ﴾ (الرعد: ۲) ‘‘اللہ وہی تو ہے، جس نے ستونوں کے بغیر آسمان جیسا کہ تم دیکھتے ہو اتنے اونچے بنائے پھر عرش پر جلوہ افروز ہوا اور سورج اور چاند کو کام میں لگایا۔ہر ایک ایک میعادِ معین تک گردش کررہا ۔وہی دنیا کے کاموں کا انتظام کرتا ہے ۔ اس طرح وہ اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے کہ تم اپنے پروردگار کے روبرو جانے کا یقین کرو۔ ‘‘
یہ آیت مبارکہ آسمانوں کی رفعت و وسعت کاتذکرہ کرنے کے بعد کائنات میں کارفرما انتہائی منظم نظام کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک قابل مشاہدہ مثال بھی پیش کرتی ہے۔ اگرچہ بظاہر ایسے ستون دکھائی نہیں دیتے، جنہوں نے نیلی چھت کو گرنے سے بچا رکھا ہو، لیکن کسی بھی قسم کے ستونوں کی موجودگی کی نفی کرنادرست نہیں، کیونکہ کائنات میں کارفرما قوانینِ فطرت کی صورت میں دراصل ایسے ستون موجودہیں، جوکائنات کو بکھرکر فنا ہونے سے محفوظ رکھنے کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فی نفسہ ستونوں کاوجودناگزیرہے۔
اس قرآنی تعبیر کو پڑھتے ہوئے ذہن مرکزی قوت اور مرکزسے دوردھکیلنے والی قوت کی طرف منتقل ہوجاتاہے۔یہ بات نیوٹن کے’’قانونِ جاذبیت‘‘یا آئن اسٹائن کی کوئنٹم تھیوری سے مطابقت رکھتی ہے یانہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
درحقیقت قرآنِ کریم کا آفتاب ومہتاب کی حرکت کی طرف اشارہ بڑی اہمیت کاحامل ہے۔سورت رحمن میں بتایاگیاہے کہ سورج اورچاند بڑے منظم اندازمیں حرکت کرتے ہیں: ﴿الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ﴾ (الرحمن: ۵) ‘‘سورج اور چاند ایک حسابِ مقرر سے چل رہے ہیں۔’’ سورت انبیاء میں ہے: ﴿وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُونَ﴾ (الأنبیاء: ۳۳)‘‘اور وہی تو ہے، جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو بنایا ۔ یہ سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔’’اورسورت یٰسین میں سورج کی گردش کے ذکر کے بعد ہے: ﴿لَا الشَّمْسُ یَنبَغِیْ لَہَا أَن تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُونَ﴾(یس: ۴۰) ‘‘نہ تو سورج ہی سے یہ ہو سکتا ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آسکتی ہے اور سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔’’ جس سے ثابت ہوتاہے کہ سورج،چاند اورستاروں کی تخلیق مخصوص نظام کے تحت کی گئی ہے اوروہ سب کے سب ریاضی کے اصولوں کے مطابق منظم اندازمیں حرکت کر رہے ہیں۔
سورت زمرکی آیت مبارکہ: ﴿خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ یُکَوِّرُ اللَّیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی اللَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِیْ لِأَجَلٍ مُسَمًّی أَلَا ھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ ﴾ (الزمر: ۵)‘‘اسی نے آسمانوں اور زمین کو تدبیر کے ساتھ پیدا کیاہے اور وہی رات کو دن پر لپیٹتا اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے۔سب ایک وقت مقرر تک چلتے رہیں گے۔ دیکھو وہی غالب ہے، بخشنے والا ہے۔’’میں رات دن کے آنے جانے کو رات کودن کے گرد اور دن کورات کے گردلپیٹنے سے تعبیرکیاگیا ہے، دوسرے لفظوں میں دنیامیں روشنی اور تاریکی کے یکے بعددیگرے آنے جانے کو کرۂ ارض کے سرپر پگڑی باندھنے سے تشبیہ دی گئی ہے اورایک آیت مبارکہ ﴿وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِکَ دَحَاہَا﴾ (النازعات: ۳۰) ‘‘اور اس کے بعد زمین کو پھیلا دیا۔’’سے ثابت ہوتاہے کہ زمین کی شکل بیضوی ہے۔یہ تمام آیات رسول اللہﷺکی نبوت کی مضبوط ترین دلیلیں ہیں۔ کائنات کی وسعت پذیری کے بارے میں ایک آیت مبارکہ میں ہے: ﴿وَالسَّمَاء بَنَیْنَاہَا بِأَیْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ﴾ (الذاریات: ۴۷) ‘‘اور آسمان کو ہم نے اپنی قدرت سے بنایا اور ہم کو ہر طرح کی قدرت ہے۔’’خواہ اس وسعت پذیری کاتعلق آئن سٹائن کے نظریےإ سے ہو یا ‘‘ایڈوِن ہبل’’ کے کہکشاؤں کے ایک دوسرے سے دورہونے کے نظریےں سے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اہم بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے سائنسی علوم سے بہت پہلے اس نظریےک کے بنیادی حصے کی طرف اشارہ کردیاتھا۔
۳۔ میٹرولوجی(Meteorology)
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اوران سے نصیحت حاصل کرنے کے لیے کہنے، نیزعذابِ خداوندی سے ڈرائے جانے کے مواقع پر بکثرت ایسی آیات ملتی ہیں، جن میں ہواؤں اور آندھیوں کے چلنے، بادلوں کے آپس میں ملنے اوربرق وچمک کے پیداہونے کا ذکرہے، مثلاً ایک آیت مبارکہ میں ہے:﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ یُزْجِیْ سَحَاباً ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَہُ ثُمَّ یَجْعَلُہُ رُکَاماً فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلَالِہِ وَیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِیْہَا مِن بَرَدٍ فَیُصِیْبُ بِہِ مَن یَشَاءُ وَیَصْرِفُہُ عَن مَّن یَشَاءُ یَکَادُ سَنَا بَرْقِہِ یَذْہَبُ بِالْأَبْصَارِ﴾ (النور: ۴۳) ‘‘کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی بادلوں کو چلاتاہے پھر ان کو آپس میں ملا دیتا ہے پھر ان کو تہ بہ تہ کر دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ بادل سے مینہ نکل کر برس رہا ہے اور آسمان میں جو اولوں کے پہاڑ ہیں ان سے اولے نازل کرتا ہے تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسا دیتا ہے اور جس سے چاہتاہے ہٹا رکھتا ہے اور بادل میں جو بجلی ہوتی ہے اس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کر کے بینائی کو اچکے لے جاتی ہے۔ ‘‘
اس آیت مبارکہ میں قرآنِ کریم بارش کے نظام کی وضاحت کرتاہے اوربادلوں کی خوفناک گرج اورآنکھوں کو خیرہ کردینے والی بجلی کی چمک میں مخفی خدائی نعمتوں کا ذکر کر کے دلِ بینا رکھنے والوں کو ہر وقت متوجہ رہنے کی دعوت دیتاہے۔اس کے بعد قرآنِ کریم بارش اوربرف باری کے نظام کی معروف سائنسی حقائق کے مطابق ایسی عمدگی سے وضاحت کرتاہے کہ انسان داد دیئے بغیرنہیں رہ سکتا، تاہم قرآنِ کریم بارش کے نظام کی جزئی تفصیلات میں نہیں جاتا، مثلاًوہ یہ نہیں بتاتاکہ دوقسم کے برقی بار ہوتے ہیں۔ایک ہی قسم کے دو برقی باروں میں تنافر جبکہ دومختلف قسم کی برقی باروں میں کشش پائی جاتی ہے۔ اس نظام میں ہوائیں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں اور دو مختلف قسم کے برقی باروں کے حامل بادلوں کوآپس میں ملاتی ہیں۔سطحِ زمین سے بلند ہونے والے مثبت برقی باروں کے فضا میں موجودمنفی برقی باروں کے ساتھ ٹکراؤکے نتیجے میں بجلی چمکتی ہے اور پھرقطروں کی صورت میں بارش برسنے لگتی ہے ... قرآن کریم ان تفصیلات میں نہیں جاتا، بلکہ صلبِ موضوع کی طرف اشارہ کرکے تفصیلات کو آنے والے دور میں سائنسی ترقی پر چھوڑ دیتا ہے۔
سورت حجرکی آیت مبارکہ: ﴿وَأَرْسَلْنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَیْنَاکُمُوہُ وَمَا أَنتُمْ لَہُ بِخَازِنِیْن﴾(الحجر: ۲۲) ‘‘اور ہم ہوائیں چلاتے ہیں جو پانی سے بھری ہوئی ہوتی ہیں، سو ہم آسمان سے مینہ برساتے ہیں پھر ہم تم کو اس کا پانی پلاتے ہیں اور تم تو اس کا خزانہ نہیں رکھتے۔’’ ایک اورحقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انسان کی توجہ درختوں، پھولوں اوربادلوں کی بارآوری کے سلسلے میں ہواؤں کے کردارکی طرف مبذول کرا رہی ہے، حالانکہ نزولِ قرآن کے وقت درختوں، نباتات، پھولوں اور بادلوں کا بارآوری کے عمل کا محتاج ہونامعروف تھااورنہ ہی کسی کواس سلسلے میں ہواؤں کے کردارکا علم تھا۔
۴۔ علم طبیعیات
قرآنی موضوعات میں سے ایک موضوع یہ بھی ہے کہ جس مادے سے ساری کائنات وجودمیں آئی ہے، اس کی تخلیق دوئی پرمشتمل ہے۔سورت ذاریات میں ہے:﴿وَمِن کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ﴾ (الذاریات: ۴۹) ‘‘اور ہر چیز کے ہم نے دودو جوڑے بنائے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔’’ اس آیت مبارکہ سے پتاچلتاہے کہ ہرچیزکاجوڑے جوڑے کی صورت میں پیداہوناایک بنیادی قانونِ فطرت ہے۔سورت شعراء میں ہے: ﴿أَوَلَمْ یَرَوْا إِلَی الْأَرْضِ کَمْ أَنبَتْنَا فِیْہَا مِن کُلِّ زَوْجٍ کَرِیْمٍ﴾ (الشعراء: ۷)‘‘کیا انہوں نے زمین کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اس میں ہر قسم کی کتنی نفیس چیزیں اگائی ہیں۔’’اس آیت مبارکہ میں روئے زمین پر موجود نباتات اورحیوانات کے ہزاروں جوڑوں کی طرف توجہ مبذول کراکے اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کی یاد دھانی کرائی گئی ہے، تاہم سورت یسین کی ایک آیت میں یہ بات زیادہ جامعیت اور تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے:﴿سُبْحَانَ الَّذِیْ خَلَقَ الْأَزْوَاجَ کُلَّہَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِہِمْ وَمِمَّا لَا یَعْلَمُونَ﴾ (یس: ۳۶) ‘‘وہ ذات پاک ہے جس نے زمین کی نباتات کے اور خود ان کے اور جن چیزوں کی ان کو خبر نہیں سب کے جوڑے بنائے۔’’یہ آیت مبارکہ جہاں ہمارے علم میں موجود جوڑوں کی طرف مشیر ہے، وہیں یہ بھی بتاتی ہے کہ بہت سی اشیاء کے جوڑوں کاہمیں علم نہیں۔اس میں ہمارے لیے غوروفکر کی دعوت بھی ہے۔
اوپربطورمثال ذکرکردہ آیات کے علاوہ اس موضوع سے متعلق اوربھی بہت سی مثالیں ہیں، جن میں سے ہرایک قرآنی معجزہ ہے اورقرآن کریم کے کلام اللہ اورحضرت محمدﷺکے رسول خدا ہونے کی واضح ترین دلیل ہے۔
قرآن کریم نے روئے زمین پرزندگی کے آغاز سے لے کرنباتات میں عمل بارآوری، ان کی بہتات، حیوانات کی مختلف اقسام کی تخلیق، ان کے پراسرار نظامہائے زندگی، شہدکی مکھیوں اور چیونٹیوں کی عجیب وغریب دنیاؤں، پرندوں کی اُڑان، حیوانات میں دودھ کی تیاری اوررحم مادر میں جنین کے مختلف مراحل جیسے بہت سے سائنسی موضوعات پر اپنے مخصوص انداز میں گفتگو کی ہے۔قرآن کا اسلوب مختصر، ٹھوس،بلیغ اورمضبوط ہے۔اگرانسانی تشریحات کو علیحدہ کر دیا جائے تو ان آیات کی تروتازگی اورشباب ہمیشہ برقرار رہے گااور وہ ہمیشہ سائنس کے لیے آخری ہدف سمجھی جاتی رہیں گی۔
قرآنِ کریم ایک ایساہدف مقرر کر کے موضوع کو ٹھوس اندازمیں پیش کرتاہے کہ جس تک ہزاروں انسان صدیوں کی جدوجہدکے باوجود بھی نہیں پہنچ سکے۔ایسی کتاب چودہ صدیاں پہلے کے کسی انسان کی تصنیف نہیں ہوسکتی،کیونکہ آج سینکڑوں ماہرین اورہزاروں عبقری انسان مل کربھی قرآن جیسے مضامین، فصاحت وبلاغت اورمعجزانہ اور دلکش الہامی اسلوب کی حامل کتاب لکھنا چاہیں تونہیں لکھ سکتے۔
یہاں سوال پیداہوتاہے کہ اس اُمّی نے کہ جس کااُمّی ہونامعجزے سے کم نہیں،اس دور میں کس سے جانوروں میں دودھ کی تیاری کی کیفیات سیکھیں کہ جب مدارس کے قیام اور لکھنے پڑھنے کارواج ہی نہیں تھا؟اسے ہواؤں کے ذریعے بادلوں اورنباتات کے بارآورہونے کاکیسے علم ہوا؟وہ بارش اوربرف باری کی کیفیت کاکیسے آشنا ہوا؟اس نے کون سی رصدگاہ اور دوربین کے ذریعے کون ومکان کی وسعت پذیری کامشاہدہ کیا؟اسے کرۂ ارض کی شکل کے بیضوی ہونے کے بارے میں کس نے بتایا؟کون سی تجربہ گاہ میں اسے فضاکے عناصرکاعلم ہوا؟اسے کیسے معلوم ہواکہ کرۂ فضائی کے اوپروالے حصے میں آکسیجن کم ہوتی ہے؟اس نے کیسے اورکون سی ایکس ریزمشین کے ذریعے رحم مادر میں جنین کے مراحل کامشاہدہ کیا؟اورکیسے اس نے ان تمام معلومات کو ان علوم کے ماہر کی حیثیت سے پورے اعتماداوراطمینان کے ساتھ بغیرکسی تذبذب کے اپنے مخاطبین تک پہنچایا؟
۵۔ جس طرح قرآنِ کریم نے رسول اللہﷺکو آپ کے وظائف، ذمہ داریوں، فرائض اور صلاحیتوں کے بارے میں تعلیم دی، اسی طرح بعض اوقات آپ کوتنبیہہ کی اورآپ پراظہار ناراضگی بھی کیا،مثلاًجب آپﷺنے بعض منافقین کوجہادمیں نہ جانے کی اجازت دی، جبکہ انہیں اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی تودرج ذیل آیت مبارکہ نازل ہوئی: ﴿عَفَا اللّہُ عَنکَ لِمَ أَذِنتَ لَہُمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُواْ وَتَعْلَمَ الْکَاذِبِیْن﴾ (التوبۃ: ۴۳)‘‘اللہ تمہیں معاف کرے تم نے پیشتر اس کے کہ تم پر وہ لوگ بھی ظاہر ہو جاتے جو سچے ہیں اور وہ بھی تمہیں معلوم ہو جاتے جو جھو ٹے ہیں ان کو اجازت کیوں دی۔’’ اسی طرح قرآن کریم نے بدرکے قیدیوں کے بارے میں بھی آپﷺکے موقف کی حمایت نہیں کی اورکہا: ﴿مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِیْ الأَرْضِ تُرِیْدُونَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّہُ یُرِیْدُ الآخِرَۃَ وَاللّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o لَّوْلاَ کِتَابٌ مِّنَ اللّہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ (الأنفال: ۶۷۔۶۸)‘‘پیغمبر کو شایاں نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں جب تک کافروں کو قتل کر کے زمین میں کثرت سے خون نہ بہا دے۔تم لوگ دنیا کے مال کے طالب ہو اور اللہ آخرت کی بھلائی چاہتا ہے اور اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔اگر اللہ کا حکم پہلے نہ ہو چکا ہو تا تو جو فدیہ تم نے لیا اس کے بدلے تم پر بڑا عذاب نازل ہوتا۔‘‘
جب قریش نے رسول اللہ ﷺسے روح،اصحاب کہف اورذولقرنین کے بارے میں پوچھاتوآپﷺنے ان سے فرمایا:‘‘کل میرے پاس آنامیں تمہیں ان کے بارے میں بتا دوں گا۔’’لیکن آپﷺنے‘‘ان شاء اللہ تعالیٰ’’نہ کہا،اس پرآپﷺکی تنبیہہ کے لیے درج ذیل آیت مبارکہ کانزول ہوا: ﴿وَلَا تَقُولَنَّ لِشَیْءٍ إِنِّیْ فَاعِلٌ ذَلِکَ غَداً o إِلَّا أَن یَشَاءَ اللَّہُ﴾ (الکھف: ۲۳۔۲۴)‘‘اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کردوں گا، مگر انشاء اللہ کہہ کر یعنی اگر اللہ چاہے تو کردوں گا۔’’ ایک اورموقع پرلطیف پیرائے میں آپﷺ پر اس بارے میں عتاب کیاگیاکہ صرف اللہ سے ڈرناچاہیے: ﴿وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا اللَّہُ مُبْدِیْہِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَاللَّہُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاہُ ﴾ (الأحزاب: ۳۷) ‘‘اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جسے اللہ جانتا تھا اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے ، حالانکہ اللہ ہی اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو۔’’اسی طرح جب آپﷺنے اپنی بعض ازواجِ مطہرات کی خوشنودی کی خاطر شہد کا پانی نہ پینے کی قسم اٹھائی توقرآن نے اس بات کی مخالفت کرتے ہوئے ناراضگی کااظہارکیا: ﴿یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّہُ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ أَزْوَاجِکَ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ﴾ (التحریم: ۱)‘‘اے پیغمبر جو چیز اللہ نے تمہارے لیے جائز کی ہے اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو؟ کیا اس سے بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو ؟ اوراللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
لہٰذاجہاں بہت سی آیات رسول اللہﷺکی ذمہ داریوں،فرائض اورآپ کی صلاحیتوں کی حدودکی وضاحت کرتی ہیں، وہیں جب آپﷺمقربین کی حدودسے سرِمو باہر نکلتے ہیں توبعض آیات آپ کی راہنمائی اورتنبیہہ کے لیے نازل ہوجاتی ہیں۔کیاکوئی شخص اپنی تالیف کردہ کتاب میں اپنے ہی بارے میں تنبیہات اور عتاب آمیز کلام شامل کرسکتاہے؟اس کا جواب یقینانفی میں ہے، لہٰذاقرآن اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اورآپﷺاللہ تعالیٰ کے بلندپایہ رسول اورمبلغ ہیں۔
۶۔ قرآنِ کریم بلاغت کے ایسے بلندترین مقام پرفائزہے کہ اس بارے میں کوئی اس کا شریک ہے اورنہ اس جیساہے ، لہٰذا اسے کسی انسان کی طرف منسوب کرناممکن نہیں۔جس وقت رسول اللہﷺنے نبوت کااعلان فرمایااس وقت وہاں بہت سے قابل فخراورمتاثرکن شعراء اور بلاغت و بیان کے ماہرین موجودتھے اور ان میں سے اکثرآپﷺکے مخالفین میں شامل تھے۔ انہوں نے قرآن کریم کامقابلہ کرنے کے لیے کئی بارمشورہ کیا حتی کہ بسااوقات اس بارے میں یہود و نصاریٰ کانقطۂ نظرجاننے کے لیے ان سے بھی رابطہ کیا،کیونکہ انہوں نے قرآن کریم کے سیلِ رواں کوروکنے اوراس کے چشمۂ حیواں کو خشک کرنے کاعزم کررکھاتھااوراس مقصدکے لیے وہ کچھ بھی کر گزرنے کے لیے تیارتھے،لیکن ان تمام رکاوٹوں کے باوجود آپ کافروں اور بے دینوں کے خلاف ڈٹے رہے اوراس جدوجہدکے دوران آپﷺکاواحدہتھیار قرآنِ پاک تھا، یہاں تک کہ آپﷺکو دشمنوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی فتح حاصل ہوئی۔
جب فصحائے عرب نے علمائے یہود و نصاریٰ کے ساتھ مل کراسلام کے خلاف آسمان سر پر اٹھا رکھاتھا،اس وقت قرآن کریم کافصیح وبلیغ اسلوب، سحرانگیز گفتگو اور دلکش روحانیت دلوں کو فتح کررہی تھی۔قرآن کریم نے اپنے مخالفین کوبرسرمیدان اپنے جیسا کلام پیش کرنے کاچیلنج کیا: ﴿قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی أَن یَأْتُواْ بِمِثْلِ ہَذَا الْقُرْآنِ لاَ یَأْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْراً﴾ (الاسراء: ۸۸)‘‘کہہ دو کہ اگر انسان اور جن اس بات پرمجتمع ہوں کہ اس قرآن جیسا بنالائیں تواس جیسانہ لا سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مدد گار ہوں۔’’ پھرمزیدکہاکہ اگران سے یہ نہیں ہوسکتا تواس جیسی دس سورتیں لے آئیں:﴿أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاہُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہِ مُفْتَرَیَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّہِ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ﴾ (ھود: ۱۳)‘‘کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نے قرآن ازخود بنا لیا ہے کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم بھی ایسی دس سورتیں بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جس جس کو بلا سکتے ہو بلا بھی لو۔’’ اور اگراس پربھی انہیں قدرت نہیں ہے تو صرف ایک سورت ہی پیش کردیں: ﴿وَإِن کُنتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَۃٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُواْ شُہَدَاء کُم مِّن دُونِ اللّہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ﴾ (البقرۃ:۲۳)’’اور اگر تم کو اس کتاب میں جو ہم نے اپنے بندے پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو۔‘‘ بصورت دیگراپنی شکست تسلیم کرلیں۔
اس طرح ایک کے بعد دوسرا چیلنج کیاجاتارہا،لیکن دو ایک لغو قسم کی کوششوں کے سوا کسی نے ان چیلنجوں کوقبول کیااورنہ کسی کی ایساکرنے کی ہمت ہوئی۔(22)یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآنِ کریم کاسرچشمہ انسانی نہیں ہے،کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ رسول اللہﷺکے مخالفین اور دشمنوں نے آپﷺسے دشمنی اور جنگ کرنے اورآپ کوایذائیں پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا،لیکن اس کے باوجود انہوں نے قرآن کے مشابہ کلام پیش کرنے کاکبھی سوچابھی نہیں۔اگریہ ان کے بس کی بات ہوتی تو ایساکرنے میں ذرا دریغ نہ کرتے اوراس کے ذریعے قرآن کریم کی آوازدبادیتے۔ایسی صورت میں انہیں جنگ کی ضرورت ہی پیش نہ آتی،لہٰذا فصاحت وبلاغت کے شہسواروں کاجنگ کاراستہ اختیارکرناکہ جس میں جان اورعزت وآبرو داؤ پر لگ جاتی ہے، ان کے قرآنِ کریم کے چیلنج کا جواب نہ دے سکنے کی کھلی دلیل ہے۔
فصحائے عرب کے قرآن کریم جیساکلام پیش نہ کرسکنے کے بعد قرآن کریم کے ماخذ کو علمائے یہودونصاری کے ہاں تلاش کرناایک لاحاصل جستجواورناکامی کی علامت ہے۔اگرقرآن کریم جیسے پرحکمت مضامین پر مشتمل کتاب تیارکرنایہودونصاری کے بس میں ہوتاتووہ اسے کسی دوسرے شخص کی طرف منسوب کرنے کی بجائے خوداس پرفخرکرتے۔
نیزاگرہم گنتی کے چندمستشرقین اورکفار سے قطع نظرکرلیں توہزاروں ایسے مفکرین، اہل تحقیق اوراہل علم ہیں، جنہوں نے قرآن کے مضامین کی عظمت اوراس کے اسلوب کی بلاغت پرحیرت واستعجاب کااظہارکیاہے،چنانچہ چارلس ملرلکھتاہے:‘‘قرآن کریم کے اسلوب کی بلاغت اوراس کے مضامین کی عظمت کی وجہ سے اس کا ترجمہ کرنامشکل کام ہے۔’’وکٹر امبروس لکھتاہے کہ قرآن کے مضامین میں اس قدروسعت پائی جاتی ہے کہ وہ تمام قوانین کے لیے ماخذ بن سکتا ہے۔ارنسٹ رینان لکھتاہے کہ قرآن نے دینی انقلاب کے ساتھ ساتھ ادبی انقلاب بھی برپا کیا ہے۔گستاو لے بون اعتراف کرتاہے کہ قرآن کالایاہوادین اسلام سب سے زیادہ خالص اور صاف ستھراعقیدۂ توحیدپیش کرتاہے۔کے اے ہیورٹ کہتاہے کہ اسے یقین ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول محمدﷺپر نازل ہونے والی وحی ہے۔ایچ ہولمین لکھتا ہے: ‘‘محمدﷺ خدا کی طرف سے انسانیت کی طرف آخری رسول ﷺہیں اوردین اسلام آخری آسمانی مذہب ہے۔’’امیل درمنھیم(کذا) کو اعتراف ہے کہ قرآن رسول اللہﷺکاسب سے پہلامعجزہ ہے، جو اپنے لازوال حسن وجمال کی وجہ سے ہمیشہ ایک ناقابل حل معمہ بنارہے گا۔’’
آرتھربلغزی کہتاہے:‘‘محمدﷺنے جس قرآن کوپہنچایاہے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔’’ جین پال روکس لکھتاہے:‘‘پیغمبر اسلام کاسب سے بڑامعجزہ ان پر نازل ہونے والاقرآن ہے۔’’ رائمنڈچارلس کی رائے میں قرآن بندوں تک پہنچنے والی پہلی الہامی کتابوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ حیات بخش کتاب ہے۔ڈاکٹرموریس لکھتے ہیں:‘‘قرآن معجزہ اور ناقابل تدقن ہے۔ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ادبی ماخذہے، ماہرین لغت کے لیے اس میں زبان کابہت بڑا ذخیرہ ہے اورشعراء کے تخیلات کاسرچشمہ ہے۔’’مانویل کنگ لکھتے ہیں:‘‘نبوت کے طویل عرصے میں رسول اللہﷺکووصول ہونے والی وحی کے کامل ترین مجموعے کانام قرآن ہے۔’’ روڈویل کہتے ہیں:‘‘جب بھی انسان قرآن کی تلاوت کے دوران غوروفکرکرتاہے وہ حیرت واستعجاب کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتاہے۔‘‘
یہ اقتباسات بعض اہل علم اورمفکرین کی گفتگوکے چندایک جملے ہیں،ورنہ ان کے علاوہ سینکڑوں اور لوگ بھی اسی نتیجے پرپہنچے ہیں اور قرآنِ حکیم کے اسلوب پرحیرت و استعجاب کااظہارکئے بغیرنہ رہ سکے۔بہت سے اساتذہ کرام اورپروفیسرحضرات نیزاس موضوع پر لکھی گئی گرانقدر کتابوں کی موجودگی میں ہمارے لیے مزید کوئی بات کہناشاید مناسب نہیں، تاہم ہم نے اس سلسلے میں تھوڑی سے جرأت سے کام لیاہے۔ امیدہے کہ صاحب قرآنﷺ اس جرأت سے درگزر فرمائیں گے۔
- Created on .