کیا‘‘عالم اَلَست’’کے وجودپرکوئی دلیل موجودہے؟
بعض مسائل کی عقلی توضیح مشکل ہوتی ہے،لیکن ان کے امکان اور محال نہ ہونے پر تحقیق ہو سکتی ہے۔جب اللہ تعالیٰ کوئی بات فرما دیں تو اس کے بارے میں کسی اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔اِس سوال کے دو پہلو ہیں:
اول: کیا یہ مکالمہ پیش آیاہے؟نیزاس کی دلیل کیاہے؟
دوم: کیااہل ایمان کویہ واقعہ یادہے؟
پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ اور انسانی روحوں کے درمیان ہونے والا یہ مکالمہ یقیناًپیش آیا ہے؟قرآنِ کریم میں اس موضوع سے متعلق دو آیات مبارکہ ہیں۔ان میں سے ایک حسبِ ذیل ہے:﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِن بَنِیْ آدَمَ مِن ظُہُورِھِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَأَشْہَدَھُمْ عَلَی أَنفُسِہِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُواْ بَلَی شَہِدْنَا أَن تَقُولُواْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِیْن﴾(الأعراف:۱۷۲)‘‘اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی تو ان سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرا لیا،یعنی ان سے پوچھا:‘‘کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟’’ وہ کہنے لگے: ‘‘کیوں نہیں۔ ہم گواہ ہیں کہ تو ہمارا پروردگار ہے۔’’یہ اقرار اس لئے کرایا تھا کہ قیامت کے دن کہیں یوں نہ کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں اس مکالمے کاذکرہے،لیکن یہ عہد کب لیا گیا،اس کے بارے میں مفسرین اور محدثین کی مختلف آراء ہیں۔
مفسرین کے ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ یہ عہد عالم ذرات میں لیا گیا ہے،جب ہرچیزذرات کی صورت میں تھی۔اس رائے کے مطابق یہ عہدوپیمان بعدمیں مرکب بننے والے ان ذرات اوران کی ارواح سے لیاگیا تھا۔بعض مفسرین کی رائے میں جب بچہ رحم مادر میں آتاہے،اس وقت اس سے یہ عہد لیا جاتا ہے،جبکہ بعض محتاط مفسرین کی احادیث نبویہ کی روشنی میں یہ رائے ہے کہ یہ عہدوپیمان انسان سے نفخِ روح کے وقت لیاجاتاہے۔
دراصل اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے مختلف صورتوں میں ہم کلام ہوتے ہیں،مثلاً ہم ایک متعین انداز اور اسلوب میں گفتگو کرتے ہیں،لیکن ہمارے نفسی اورلفظی کلام کے اور بھی اسالیب ہیں،کیونکہ ہمارے اندرونی اور بیرونی جذبات ہیں۔ہمارا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے،نیزجس طرح ہماری شخصیت کاحصہ عقل ہے،اسی طرح ایک پہلو روح بھی ہے،چنانچہ ہم اپنے دل کی بات کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے گاہے بگاہے مختلف اسالیب اختیارکرتے رہتے ہیں۔
دل کے بات کرنے کا اپنا انداز ہوتاہے۔وہ بولتاہے،لیکن اس کی بات کوئی اور نہیں سن سکتا۔جب ہم سے پوچھاجاتاہے کہ آپ دل میں کیاسوچ رہے تھے توہم دل کی باتوں کو مربوط الفاظ میں ڈھال کر دوسروں کو بتاتے ہیں۔اسے کلام نفسی کہتے ہیں۔
بعض اوقات ہم خواب میں گفتگوکرتے ہیں اوردوسروں کی گفتگوسنتے بھی ہیں، گو ہمارے پاس موجود لوگ انہیں نہیں سن سکتے،لیکن جب ہم بیدارہوتے ہیں توہم نے خواب میں جو گفتگو کی یا سنی ہوتی ہے اس سے دوسروں کو آگاہ کرتے ہیں۔یہ بھی گفتگو کاایک اندازہے۔ بعض لوگوں کو بیداری کی حالت میں عالم مثال کے مناظر اور شخصیات نظرآتی ہیں۔مادہ پرست لوگ اسے تسلیم نہیں کرتے اوراسے اوہام و خیالات قراردیتے ہیں،لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔وہ جوکہتے ہیں کہتے رہیں۔رسول اللہﷺکے اعزاز کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ آپﷺکو عالم مثال اورعالم برزخ کے مناظردکھائے جاتے تھے اورآپﷺجوکچھ سنتے یا دیکھتے اسے لوگوں کے سامنے بیان فرما دیتے۔گفتگو کاایک انداز یہ بھی ہے۔
گفتگو کا ایک اسلوب اور انداز وحی بھی ہے۔رسول اللہﷺکے پاس جب وحی آتی توآپﷺمکمل بیداری کی حالت میں اسے محسوس فرماتے،لیکن اس کے کچھ دوسرے پہلو بھی ہوتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ رسول اللہﷺکے سوا کوئی اور اسے سن یاسمجھ نہ سکتا تھا۔اگروحی کوئی مادی چیزہوتی تواسے دوسروں کے کان بھی سن سکتے، حالانکہ بسا اوقات رسول اللہﷺپرایسی حالت میں وحی اترتی کہ آپﷺکسی زوجہ محترمہ کی گود میں یا کسی صحابی کے سینے پر سرمبارک رکھے ہوتے تھے یا آپﷺکاگٹھناکسی صحابی کے گٹھنے پر ہوتا تھا۔آپ ﷺوحی سنتے اور اسے وصول کرتے،لیکن آپ کے پاس موجود لوگوں کو وہ سنائی دیتی اور نہ ہی محسوس ہوتی۔رسول اللہﷺوحی کو وصول کرکے زبانی یاد فرما لیتے اورپھر لوگوں کو اس سے آگاہ فرماتے۔یہ گفتگو اور صوتیات کی ایک مستقل قسم ہے۔
ولی کے دل پر ایسے الہام ہوتاہے،جیسے کوئی اس کے دل میں سرگوشی کر رہا ہو۔یہ گفتگو کاایک اوراندازہے،جو خفیہ اشارات (Code words) میں گفتگوکرنے سے مماثلت رکھتا ہے۔جیسے خفیہ اشارات (Code words) میں ‘‘دی ... دی ... دا ... دا ... دیت’’ کہا جاتا ہے تو ان اشارات کو سننے والاان کا مفہوم سمجھ جاتاہے،اسی طرح ولی کے دل پر کوئی بات القا ہوتی ہے تو وہ اس سے کوئی مفہوم اخذ کر لیتا ہے، مثلاً بسااوقات کوئی ولی کہتاہے:’’فلاں بن فلاں شخص اب دروازے پرموجود ہے۔‘‘اور جب لوگ دروازہ کھولتے ہیں تو اسے اپنے سامنے پاتے ہیں۔یہ بھی گفتگو کا ایک اندازہے۔
گفتگو کی ایک صورت ٹیلی پیتھی(Telepathy)ہے۔دورِحاضرکے سائنسدان مستقبل میں اس طریقے سے گفتگو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایک صورت قلبی توجہ کے ذریعے دل ہی دل میں لوگوں کی باہمی گفتگو بھی ہے۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے گفتگواورہم کلامی کے بے شمار انداز اور اسالیب پیداکیے ہیں۔
اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایاتھا:﴿أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ﴾ (الأعراف:۱۷۲)‘‘کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟’’ لیکن اس کی کیفیت ہم جانتے ہیں اور نہ ہی جان سکتے ہیں۔اگر یہ گفتگو اولیائے کرام کی طرف کئے جانے والے الہام کی صورت میں تھی تو بغیر آواز کے ہو گی۔اگریہ الہام تھا تو وحی نہ تھی اور اگر وحی تھی تو الہام نہ تھا۔اگریہ روح سے گفتگو تھی تو جسم سے نہ تھی اور اگرجسم سے ہم کلامی تھی توروح سے نہ تھی۔
یہ پہلوبہت اہم ہے،کیونکہ عالم مثال،عالم برزخ یا عالم ارواح میں دیکھی یا سنی ہوئی چیزوں کو اس عالم کے معیاروں پرپرکھنا بہت بڑی غلطی ہے۔صادق و امین حضرت محمدﷺنے ہمیں بتایا ہے کہ منکر اور نکیر قبر میں ہمارے پاس آکر ہم سے سوال وجواب کریں گے،لیکن یہ سوال و جواب کیسے ہوگا؟کیا وہ روح کو مخاطب کریں گے یا جسم کو؟کوئی بھی صورت ہو نتیجہ ایک ہی ہے کہ میت ان کی بات کوسنے گی،لیکن اس کے اردگرد اور پاس موجود لوگوں کوکچھ سنائی نہیں دیتا حتی کہ اگرٹیپ ریکارڈر اور مائیکروفون بھی قبرمیں رکھ دیاجائے تب بھی کوئی چیزریکارڈنہ ہوگی،کیونکہ قبر کی گفتگو کے ابعاد اس دنیاکے ابعادسے مختلف ہیں۔آئن سٹائن وغیرہ نے اشیاء کے چوتھے اور پانچویں بعد کا ذکرکیاہے۔ابعادکے اختلاف سے اشیاء کی حقیقت بھی بدل جاتی ہے۔
اس سے ثابت ہوتاہے کہ ارشادِخداوندی:﴿أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ﴾ روحوں سے خاص خطاب ہے، جسے سننے یا یاد رکھنے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے،گوبسااوقات ہمارے وجدان پر اس کا پرتو پڑ جاتاہے،دوسرے لفظوں میں ہم اپنے وجدان پرپڑنے والے پرتو کے ذریعے اس گفتگو کو محسوس کر سکتے ہیں۔
ایک مرتبہ میں اس موضوع پرگفتگو کر رہا تھا تو ایک شخص نے مجھ سے کہا: ‘‘مجھے تو اس گفتگو کا احساس یاشعور نہیں ہے۔’’میں نے اس سے کہا:‘‘لیکن مجھے اس کا شعور ہے۔اگر تمہیں اس کا شعور نہیں ہے تو یہ تمہارا مسئلہ ہے۔میں بخوبی جانتا ہوں کہ مجھے اس کا احساس و شعور ہے۔’’ اگرمجھ سے پوچھاجائے کہ میرے پاس اس کی کیا دلیل ہے؟ تو میں اس کا یہ جواب دوں گا کہ جب میں محدود اور فانی ہونے کے باوجود اپنے دل میں ہمیشہ رہنے کی خواہش محسوس کرتاہوں تو مجھے خداکی اس آواز کا احساس ہوتا ہے۔ محدود کے لیے لامحدود کا ادراک ممکن نہیں ہے۔میں بھی چونکہ محدود ہوں، اس لیے میں اللہ تعالیٰ کی پوری معرفت حاصل نہیں کرسکتا، لہٰذاجب میں اپنے دل میں لامحدود ذات اورہمیشگی کی طرف میلان پاتاہوں تو مجھے اس ہم کلامی کے پیش آنے کا احساس ہوتا ہے، ورنہ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ اس محدود دنیاکی ایک حقیر سی مخلوق ہونے کی حیثیت سے میں اپنی چندروزہ زندگی گزارنے کے بعد موت کی آغوش میں چلاجاتااورمیری عمر کی طرح میری سوچیں اورآرزوئیں بھی محدود ہوتیں،لیکن مجھے ہمیشہ رہنے کی فکررہتی ہے، میرے دل میں ہمیشہ جینے کی خواہش پروان چڑھتی ہے،جنت اور جمالِ خداوندی کے دیدارکاشوق مجھے بے چین کیے رکھتاہے اورساری دنیاکی بادشاہت بھی میری خواہشات کی تسکین نہیں کرپاتی۔اپنی یہ کیفیت دیکھ کرمیں کہتاہوں کہ میں نے اس مکالمے کو محسوس کیاتھا۔
وجدان کی حقیقت کچھ بھی ہو وہ ہر لحظہ خدا کا مشتاق رہتا اور اس کے گن گاتاہے۔ وجدان کبھی غلط بیانی نہیں کرتا۔جب تک اسے اس کا مطلوب حاصل اور اس کی خواہش پوری نہ ہو گی اس وقت تک اسے راحت ملے گی اور نہ ہی وہ خوشی اور اطمینان حاصل کرپائے گا۔ ارشادخداوندی ہے:﴿أَلاَ بِذِکْرِ اللّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ﴾ (الرعد:۲۸)‘‘سن رکھو! کہ اللہ کی یاد سے ہی دل آرام پاتے ہیں۔’’چونکہ دل لطائف ربانیہ میں سے ایک لطیفہ ہے،اس لیے اسے صرف اسی صورت میں سکون حاصل ہو گا جب وجدان مقام اطمینان کو پالے گا۔
یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ برگساں وغیرہ جیسے بہت سے فلاسفہ تمام عقلی اور نقلی دلائل کو چھوڑکرصرف وجدان کواللہ تعالیٰ کے وجودکی دلیل قراردیتے ہیں،حتیٰ کہ جرمن فلسفی کانٹ نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ اللہ تعالیٰ کو اس کی عظمت و جلال کے شایانِ شان طریقے سے جاننے کے لیے میں نے اپنی تمام معلومات کو ایک طرف رکھ دیا۔برگساں نے اس راستے میں ذکاوتِ حس کو اپنا راہنما بنایا۔وجدان اور ضمیر کا وجود اس کے نزدیک واحد دلیل ہے۔ خداکے انکارسے ضمیر اور وجدان کوایذا پہنچتی ہے اور ایمان باللہ سے انہیں مسرّت اوراطمینان حاصل ہوتاہے۔
جب انسان اپنے وجدان کی آوازپرکان لگاتاہے اوراس کی گہرائی میں جھانکتا ہے تو ایک ازلی اور ابدی معبودپر ایمان لانے کے خواہش شدت سے محسوس کرتا ہے۔ یہ کیفیت اللہ تعالیٰ کے ارشاد:﴿أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ﴾کے جواب(بَلٰی)کی دلیل ہے۔اگر انسان اپنے وجدان کی گہرائیوں سے آنے والی آواز پر کان لگائے تواس آواز کو سن سکتا ہے،لیکن اگراس نے اس آواز کو اپنی عقل یا جسم میں تلاش کیاتواسے ناکامی کاسامنا ہو گا،کیونکہ یہ آوازہرشخص کے ضمیرمیں پنہاں ہے اور اسے صرف ضمیر کی آوازکے ذریعے ہی ثابت کیاجاسکتاہے۔انبیاء،اولیاء اور اصفیاء یہ بات سمجھتے تھے اورانہوں نے اس کی اچھی طرح وضاحت کی ہے۔ ان کے لیے اس میں کوئی ابہام نہ تھا۔
اگراس حقیقت کوہم عقلی طورپرثابت کرناچاہیں تویہ ممکن نہیں،کیونکہ عقل صرف صنوبر یا اورئنٹل پلین(Oriental Plane)جیسی موصیص چیزوں کے وجود کو ثابت کر سکتی ہے،لیکن جو شخص اپنے وجدان کی آواز پر کان لگاکر اپنے باطن میں جھانکے گاوہ اس آوازکو سنے گا اور اس حقیقت کوپالے گا۔
- Created on .