کیا دعوت و ارشادکے وسائل سے ذاتی فائدہ اٹھانا جائز ہے،جبکہ آیت مبارکہ ﴿إِنْ أَجْرِیَ إِلاَّ عَلَی اللّہِ﴾(یونس:۷۲) ’’میرا معاوضہ تو اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘استغناء کادرس دیتی ہے؟
پانچ انبیائے کرام حضرت نوح،حضرت ہود،حضرت صالح،حضرت شعیب اور حضرت لوط علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم سے فرمایاتھا: ﴿إِنْ أَجْرِیَ إِلاَّ عَلَی اللّہِ﴾ ‘‘میرا معاوضہ تو اللہ کے ذمہ ہے۔’’قرآنِ کریم کے بعض مواقع پرحضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام سے بھی اسی طرح کا مفہوم منقول ہے،لیکن ﴿إِنْ أَجْرِیَ إِلاَّ عَلَی اللّہِ﴾ کی تعبیر صرف اوپر ذکرکردہ پانچ انبیائے کرام کے حق میں استعمال ہوئی ہے،نیز اللہ تعالیٰ کے نیک بندے حبیب نجار نے بھی سورت یس میں اس کی ہم معنی گفتگو کی ہے: ﴿یَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِیْنَo اتَّبِعُوا مَن لاَّ یَسْأَلُکُمْ أَجْراً وَھُم مُّہْتَدُونَ﴾ (یس:۱۲) ‘‘اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو۔ایسوں کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں۔’’ ایک دوسرے مقام پر حضرت نوح علیہ السلام اسی مفہوم کو دوسرے الفاظ میں بیان فرماتے ہیں۔حاصل یہ کہ انبیائے کرام دعوت الی اللہ کی ذمہ داری کی ادائیگی کے عوض لوگوں سے کسی قسم کا معاوضہ اور بدلہ نہیں مانگتے: ﴿وَمَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾(الشعراء: ۱۰۸) ‘‘اور میں اس کام کا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا میرا صلہ تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔’’ اور یہ عہد و پیمان دیتے ہیں کہ وہ وظیفۂ نبوت کی ادائیگی کے عوض لوگوں سے کسی قسم کے بدلے یا فائدے کا سوال نہ کریں گے۔
دعوت و ارشاد کی ذمہ داری اٹھانے والے ہر دور کے مرشد کے لیے ضروری ہے کہ وہ انبیائے کرام کی پیروی کرے۔جو لوگ وعظ و ارشاد کی غرض سے دیہاتوں اور قصبوں میں جاتے ہیں انہیں حق کی نشرواشاعت کی خدمات سرانجام دینے کے عوض کسی قسم کا بدلہ قبول کرنے یا مفاد اٹھانے سے گریز کرنا چاہیے،کیونکہ لوگوں پر ان کی گفتگو کے اثرات مرتب کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان کی گفتگو کی تاثیر کو ان کے صدق و اخلاص،قربانی اور وظیفہ دعوت و ارشاد کے عوض کسی بھی قسم کے بدلے کی امید نہ رکنے کے ساتھ مشروط کیا ہے،یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام اور برگزیدہ بندوں کی گفتگو بہت پُرتاثیر ہوتی تھی،لیکن بعض ضروری شرائط کے نہ پائے جانے کی وجہ سے آج ہماری گفتگو کی تاثیر کم ہو گئی ہے۔
جو لوگ دنیا میں ہی صلے کے خواہاں ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی گفتگو میں کسی قسم کی تاثیر پیدا نہیں فرماتے۔یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ایک دوسری اہم بات یہ ہے کہ دعوت و ارشاد کی ذمہ داری سرانجام دینے والے حضرات کو انبیائے کرام کی پیروی کرتے ہوئے اپنی خدمت کے صلے میں کوئی معاوضہ نہیں لینا چاہیے، تاکہ دنیا والوں کے اعتراضات کا نشانہ بننے سے بچے رہیں،کیونکہ معاوضہ لینے کی صورت میں وہ کہیں گے: ‘‘اگرچہ یہ لوگ حق کی نشرواشاعت کرتے ہیں،لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی خدمات کے ثمرات سے لطف اندوزبھی ہوتے ہیں اور اس طریقے سے اپنی روزی کا بندوبست کرتے ہیں۔’’کیا آپ دیکھتے نہیں کہ میلاد نامے پڑھنے والے کو تنقیدکا نشانہ بنایا جاتا ہے،کیونکہ وہ حمدونعت پڑھنے کا معاوضہ لیتا ہے،گویا وہ یوں کہہ رہا ہوتا ہے: ‘‘چونکہ میں نے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی ہے،اس لیے مجھے اس کا معاوضہ دو۔’’اسی لیے اس کی گفتگو اور ثناخوانی کا عوام کے دلوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جب تک مال کا حصول مطلوب ہو اس وقت تک گفتگو میں تاثیر پیدا نہیں ہو سکتی،لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ نحیف آواز والے مگر رضائے الٰہی کے طالب سچے اور مخلص واعظ کی گفتگو کا سامعین پر گہرا اثر پڑتا ہے۔اس کی تاثیر کا راز حق کی اشاعت کے وقت لوگوں سے استغناء برتنے میں مضمر ہے۔
نہ جانے کتنی بار دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ دعوت الی اللہ اور اسلام اور قرآن کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والے داعی حضرات دنیوی نعمتوں کی طرف قطعاً مائل نہ ہوں،اپنے آپ کو ہر قسم کی آمیزش اور میل کچیل سے محفوظ رکھیں،استغناء کو اپنا شعار بنائیں، بقدرضرورت روزی پر اکتفا کریں اور دنیا سے کوچ کے وقت اپنے پیچھے کوئی گھر یا مال و اسباب نہ چھوڑ کر جائیں۔داعی حضرات کو چاہیے کہ وہ اپنے بعد اپنی اولاد کی تونگری کی فکر کریں اور نہ ہی گھربنانے اور مال و دولت جمع کرنے کی حرص اپنے اندر پیدا ہونے دیں،بلکہ لوگوں سے مستغنی ہو کر رہیں۔ دورِحاضر کے جن داعیوں نے ترکی میں دعوت کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے ان میں سے ایک داعی کے انتقال کے وقت ان کی ملکیت میں صرف پچیس قرش کی بقدر نقدی تھی۔یہ کتنی عمدہ مثال ہے،جس سے دوست اور دشمن سب کو معلوم ہو گیا ہے کہ ان کے ہاں اسلام کی خدمت کے پس پردہ کسی قسم کی دنیوی غرض کار فرما نہیں۔
دعوت کا کام کرنے والوں کو اپنے اہل و عیال کی روزی کا بندوبست کرنا چاہیے اور انہیں اتنی تعلیم دینی چاہیے کہ وہ کوئی پیشہ یا ملازمت اختیار کر سکیں،لیکن اسے ضرورت کی حد تک محدود رکھنا چاہیے۔انہیں اشاعتِ حق کے مقدس فریضے کو سرانجام دیتے ہوئے کسی دنیوی غرض کو پیش نظر نہیں رکھنا چاہیے،بلکہ اپنے اوپر اعتماد کو بحال رکھنے کے لیے انہیں ہر قسم کی مادی و روحانی قربانی پیش کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔انہیں اپنی ذاتی زندگی پر توجہ دینے کی بجائے مردہ دلوں کے احیائے نو کی فکر کرنی چاہیے۔اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو دنیا اور اس کی زیب و زینت ان کی زندگی اور دل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو سکے گی اور نہ ہی ان کی امیدوں کا محور بن سکے گی،لیکن اگر انہیں اس میں ناکامی ہوئی تو وہ اپنی حقیقی متاع سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور ہمیشہ کی ناکامی ان کا مقدر بن جائے گی۔جو لوگ دینی خدمات سرانجام دیتے ہوئے دنیا کے پیچھے دوڑتے ہیں ان کا انجام بہت برا ہو گا اور اس کے برے اثرات ان کے اہل و عیال پر بھی پڑیں گے۔
اللہ کی طرف بلانے والوں کی زندگی اخلاص اور استغناء کا ایسا مظہر ہونی چاہیے کہ سب لوگ حتیٰ کہ ملأ اعلیٰ کے باسی بھی ان کے اخلاص کی گواہی دیتے ہوئے پکار اٹھیں: ’’یہ مخلص لوگ ہیں۔‘‘جو لوگ دنیا پر سبقت لے جا سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے بلند ہو کر سوچ سکتے ہیں وہ آخرت میں بلند مقام حاصل نہیں کر سکتے۔دنیا کے بوجھ تلے زندگی گزارنے والے راستے کی مشکل گھاٹیوں کو عبور نہیں کر سکتے۔ دنیا پر ہمیشہ صرف انہی لوگوں نے اپنے اثرات ڈالے ہیں،جنہوں نے اپنی ذات اور دنیا کو پامال کیا ہے۔کتنے ہی ہیرو ایسے گزرے ہیں جن کے ترکے میں گھوڑے، تلوار اور نیزے کے سواکچھ نہ تھا۔اپنے دور کی دوعظیم سلطنتوں کو تاخت وتاراج کرنے والے حضرت خالد بن ولید نے وفات کے وقت فرمایا تھا: ‘‘میں اپنے پیچھے اپنے گھوڑے اور تلوار کے سوا کوئی چیز چھوڑ کر نہیں جا رہا۔’’یہ حقیقت ہے کہ ان شخصیات کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔اسی لیے انسان ان سے یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا: ‘‘خدا کے لیے مجھے بتایئے! آپ بادشاہ ہیں،صوفی ہیں یا درویش ہیں؟ مجھے بتائیے! آخر آپ کون ہیں؟‘‘
بازنطینی اور ایرانی سلطنتوں کو شکست دینے والے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ترکے میں گھوڑے اور تلوار کے سوا کوئی چیز نہیں چھوڑی،لیکن اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ آج تک ہمارے دلوں میں بس رہے ہیں۔
خلاصے کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ دعوت الی اللہ کا استغناء کے ساتھ اٹوٹ انگ رشتہ ہے۔اس لیے تین صدیوں سے بے یار و مددگار ہو جانے والے قرآنِ کریم کی مدد و نصرت پر کمربستہ ہونے والے مخلص اور اپنی دنیوی اغراض اور خواہشات کو پامال کرنے والے داعی حضرات کو صرف رسول اللہﷺکی ذات گرامی کو پیش نظر رکھنا چاہیے،جو پیامِ صبح لانے والی نسلِ نو کی منتظر ہے۔یہ سوچ ان کے دلوں پر اس قدر حاوی ہونی چاہیے کہ کسی اور خیال کے لیے ان کے دلوں میں جگہ ہی نہ رہے۔دنیا ایک نئے دور کی منتظر ہے۔اسلام اور قرآن کے علمبردار احیائے نو کا گیت گا رہے ہیں۔اب تک ہم نے ان حضرات کے صرف ایک وصف کا تذکرہ کیا ہے۔ اس مسئلے کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ دعوت اور دینی خدمات سرانجام دینے والوں کو اپنی روزی کو اس خدمت کے ساتھ مربوط نہیں کرنا چاہیے۔یہ امت بہت خوددار ہے۔وہ اخلاص کے ساتھ کام کرنے والوں کو تنہا نہیں چھوڑے گی،بلکہ ان کی مددونصرت کرے گی،لیکن دینی خدمات سرانجام دینے والوں کو استغناء کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور کوئی چیز مانگنی نہیں چاہیے، تاہم اپنے اہل وعیال کے لیے بقدرضرورت خرچہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے،جس کی دلیل آیت مبارکہ: ﴿وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا﴾ (التوبۃ:۶۰)‘‘اور (زکوۃ) کارکنانِ صدقات کا حق ہے۔’’ہے۔
چونکہ مسلمانوں کی رفاہ کے لیے کام کرنے اور زکوٰۃ اور ٹیکس وصول کرنے والے شخص کو مالدار ہونے کے باوجود ان اموال سے استفادہ کرنا جائز ہے،اس لیے میں داعی حضرات کے بقدرضرورت تنخواہ لینے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا،لیکن میں یہ بات دوبارہ تاکید کے ساتھ کہتا ہوں کہ دینی خدمت سرانجام دینے والوں کے ہاں اصل استغناء،لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے گریز کرنا اور ان سے کسی بھی قسم کی امید وابستہ کرنے سے احتراز کرنا ہے۔یہ مستقبل کو سنوارنے کا عزم رکھنے والوں کا اہم ترین وصف ہے۔
- Created on .