غیرمسلم ممالک میں پیداہونے والے لوگوں کے ساتھ قیامت کے دن کیابرتاؤ ہوگا؟
یہ سوال ماضی میں بھی اٹھایاگیاہے اور اب بھی مسلسل کیاجارہاہے ۔میں سمجھتاہوں کہ یہ سوال محض بحث مباحثے کے لیے اٹھایاجاتاہے۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو اس لیے جنت میں جائیں گے کہ ہم اللہ اوراس کے رسول پرایمان رکھتے ہیں،لیکن عالم اسلام سے دور واقع علاقوں مثلاًپیرس،لندن اورماسکووغیرہ میں پیداہونے والے لوگ جنہیں وہ مواقع میسرنہیں جو ہمیں میسر ہیں اوران تک وہ نورنہیں پہنچاجوہم تک پہنچا،کیاجہنم میں جائیں گے؟ایسے سوال کے دو پہلو ہیں:
اول: رحمت الٰہیہ سے زیادہ رحمت کااظہار
دوم: اسلام پرمبہم اندازمیں تنقید
سب سے پہلی بات تویہ ہے کہ معروف عقیدے کے برخلاف کوئی ایسا کلی قاعدہ یا اصول نہیں ہے ،جس کے مطابق ایسے تمام لوگ جہنم میں جائیں گے،بلکہ اصل قاعدہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے رسول اللہﷺکے لائے ہوئے نورِہدایت کی پیروی کرنے کی بجائے اس سے منہ پھیرا اور اس کی مخالفت کی ان کاٹھکانہ جہنم اوران کا انجام خسرانِ مبین ہے۔ہم ہرچیزپرحاوی رحمت خداوندی سے امیدوارہیں کہ وہ ہمیں کفروالحاد کے اس دورمیں آپﷺکے نقش قدم پر چلنے والوں میں شامل رکھے۔
قرآن کریم اورسنت نبویہ کے مضامین کی عقلی،منطقی اورفلسفیانہ اندازسے تشریح کرنے اور انہیں فکری اعتبارسے تقویت پہنچانے کے لیے اپنی کوشش صرف کرنے والے متکلمین نے اس موضوع پرسیرحاصل گفتگوکی ہے، تاہم سوال پیداہوتاہے کہ رسول اللہﷺکی دعوت کوقبول کرنے کی فرصت نہ پانے والوں اوراسے سننے کے بعد عناد کی بنا پر رد کرنے والوں کاانجام ایک جیسا ہو گا یاان دوگروہوں کے درمیان امتیاز برتا جائے گا؟
ذہن میں کچھ اورسوالات بھی پیداہوتے ہیں:کیاجن اہم مسائل و مشکلات کاہمیں سامناہے ان کے ہوتے ہوئے اس قسم کے سوالات لائقِ توجہ ہیں؟کیااس قسم کے سوالات کے جوابات دینے میں ہمارادنیوی و اخروی اعتبارسے کوئی حقیقی فائدہ ہے؟بڑے بڑے ائمہ کرام نے اس قسم کے سوالات اورمسائل کے حل پیش کرنے کے لیے انتھک محنت کی۔ آئندہ سطورمیں ہم سب سے پہلے اس متنازع موضوع سے متعلق علمائے عقائد کے نقطہ ہائے نظرپیش کریں گے۔
اہل سنت کے دومعتبرعقائدی مسالک میں سے ایک مسلک اشعری ہے، جس کے مطابق جس شخص نے دنیامیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں کوئی حقیقت سنی اورنہ ہی اس تک اس کی دعوت پہنچی اسے ’’اہل فترت‘‘میں شمارکیاجائے گا،جس کامطلب یہ ہے کہ وہ جہاں جب اورجیسے رہے وہ نجات پائے گا۔ اگرآپ رسول اللہ ﷺکی دعوت کو دنیا کے کونے کونے تک نہیں پہنچائیں گے تواشاعرہ کے نقطۂ نظرسے جن علاقوں تک رسول اللہﷺکی دعوت نہیں پہنچے گی ان کے باشندے اہل نجات میں سے ہوں اوراللہ تعالیٰ انہیں کسی نہ کسی طرح بدلہ عطافرما کر جنت میں داخل فرمائیں گے۔
دوسری طرف ماتریدیہ کانقطہ نظرمعتزلہ کے نقطۂ نظرسے قریب ترہے۔وہ کہتے ہیں کہ اگر انسان اپنی فکراورعقل کے ذریعے خداتعالیٰ تک پہنچ گیا،قطع نظراس کے کہ وہ اسے کس نام سے پکارتاہے توقیامت کے دن نجات پائے گا،لیکن اگروہ اپنی عقل کے ذریعے خدا تک نہ پہنچاتواس کی ہرگز نجات نہ ہوگی۔
اگرچہ یہ دونوں نقطہ ہائے نظربالکل ایک جیسے نہیں ہیں،لیکن ان کے درمیان معمولی فرق پایاجاتاہے،کیونکہ ماتریدیہ کہتے ہیں کہ انسان کوہ و دمن میں ہو یا صحراء ودشت میں غرض کہیں بھی ہو اسے اپنے اردگرد خالقِ کائنات کی طرف اشارہ کرتی بہت سی نشانیاں اوردلیلیں ملیں گی، مثلاًشمس و قمر کا طلوع وغروب ہونا، ستاروں کا آسمان پرجگمگانا، اشیائے زینت سے مزین زمین، پہاڑوں اور ان کی ہیبت ، میدان اور وادیاں اوران میں بہتی نہریں، درختوں اورجڑی بوٹیوں کے مناظر اورپھولوں کی رعنائیاں...غرض یہ سب چیزیں انسان کو اپنی فصیح وبلیغ زبان میں خالقِ کائنات کاپتابتاتی ہیں۔جس انسان میں تھوڑاسابھی شعور ہو وہ اس جمال کے تمام مظاہر کے پیچھے کسی خفیہ ہاتھ کو کام کرتے پائے گا، جس سے وہ اس نتیجے پرپہنچے گا کہ خالق کا وجود ناگزیرہے۔ایساشخص نجات پائے گا، گو وہ اللہ تعالیٰ کی صفات اوراس کے انبیاء ورسل سے واقف نہ ہو۔
لہٰذا غیرمسلم ممالک میں رہنے والے لوگوں کے بارے میں ہمیں بلاتحقیق یہ نہیں کہنا چاہیے کہ کیونکہ وہ ایمان نہیں لائے، اس لیے وہ جہنم میں جائیں گے۔یہ نہ صرف درست نہیں، بلکہ سرے سے جائز ہی نہیں ہے،کیونکہ بڑے بڑے ائمہ کرام کی آراء ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتیں۔ اس کاتقاضاکم ازکم یہ ہے کہ ہم اس سلسلے میں خاموشی اورسکوت اختیارکریں۔ امام اشعری رحمہ اللہ اپنے نقطہ نظرکی تائیدمیں آیت مبارکہ ﴿وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتَّی نَبْعَثَ رَسُولاً﴾ (الاسراء: ۱۵)‘‘اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے۔’’ اور اس جیسی دیگرآیات پیش کرتے ہیں۔قرآن کریم کی روسے اللہ تعالیٰ کسی ایسی قوم کوعذاب نہیں دیتے جنہوں نے کسی نبی کو نہ دیکھاہو، لہٰذا جن لوگوں نے کسی نبی کو دیکھااورنہ ہی اس کے بارے میں سنا انہیں عذاب نہیں دیاجائے گا۔
دوسری طرف امام ماتریدی کانقطہ نظریہ ہے کہ عقل ایک اہم معیارہے جو اچھائی اور برائی میں تمیز کر سکتا ہے ، لہٰذا انسان اپنی عقل پراعتماد کرتے ہوئے یہ کہہ سکتاہے کہ یہ چیزبری ہے اور یہ اچھی ہے ... اگرچہ یہ گمان بھی غلط ہے کہ عقل ہرچیزکاادراک کرسکتی ہے،یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی اچھائیوں کا حکم دیاہے اوربرائیوں سے روکاہے اوراس معاملے کو سہو و خطا کا احتمال رکھنے والی عقل پرنہیں چھوڑا، بلکہ اس معاملے کووحی سے وابستہ کرکے اپنے انبیاء ورسل کے ذریعے اس کی خوب وضاحت فرمائی اورکسی بھی معاملے میں ابہام اور پیچیدگی نہیں رہنے دی۔
ماتریدیہ کے نقطہ نظرسے عقل زناکی قباحت کاادراک کرسکتی ہے،کیونکہ اس سے انساب غیر محفوظ اور خلط ملط ہوجاتے ہیں، نیزاگر عورت اپنی عفت کی حفاظت نہ کرے اور اس کے بچوں کانسب معلوم نہ ہو تو یہ نہیں پتاچلے گا کہ کون کس کاوارث ہے ۔اس سے ثابت ہواکہ عقل کے ذریعے زناکی قباحت معلوم ہوسکتی ہے، اسی طرح عقل کے ذریعے چوری کی برائی بھی جانی جاسکتی ہے،کیونکہ جس مال کو کسی شخص نے محنت ومشقت سے کمایاہو، اسے اس کی اجازت کے بغیر لیناعقلاًبراہے۔عقل شراب اورنشہ آوراشیاء کی برائی کاادراک بھی کرسکتی ہے،کیونکہ ان کے انسانی نسل پرنقصان دہ اورمنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، نیزیہ مختلف قسم کی بیماریوں کاسبب بھی بنتی ہیں۔ اس سلسلے میں اوربھی بہت سے اشیاء کاتذکرہ کیاجاسکتاہے۔
یہی بات اچھی باتوں کے بارے میں بھی درست ہے، چنانچہ عقل کے ذریعے عدل و انصاف قائم کرنے، دوسرے کے ساتھ احسان کرنے اوران کی مدد کرنے کی اچھائی کا ادراک کیا جاسکتاہے۔قرآن کریم اورسنت نبویہ نے بھی ان کا حکم دیاہے اوران کی وضاحت کرکے ہمیں لغزشوں سے بچایاہے۔
یہی بات اللہ پرایمان لانے پربھی صادق آتی ہے کہ وہ اچھی چیزہے،کیونکہ اس کے ذریعے انسان کوقلبی سکون نصیب ہوتاہے،جس کے نتیجے میں وہ پرسعادت زندگی گزارتاہے اور دنیا میں ہی آخرت کے مزوں کاکچھ نہ کچھ لطف اٹھاتاہے،اسی طرح عقل ودانش کے ذریعے ایمان تک بھی پہنچاجاسکتاہے،یہی وجہ ہے کہ صحراء میں رہنے والے ایک بدونے بھی اس بات کومحسوس کرلیاتھا،جب وہ نبی اکرمﷺکی خدمت میں حاضرہوااوراس سے پوچھاگیاکہ اس نے اپنے رب کوکیسے پہنچاناتواس نے جواب دیا:‘‘جب مینگنی اونٹ پر اور نشاناتِ قدم چلنے والے پردلالت کرتے ہیں تو گھاٹیوں والی زمین اور برجوں والا آسمان لطیف و خبیرذات پرکیسے دلالت نہیں کرسکتا۔‘‘
اس سے ثابت ہوتاہے کہ ایک سادہ لوح بدواوراونٹوں کوچرانے والاشخص بھی اپنی عقل کے ذریعے اس نتیجے پرپہنچاکہ تمام اشیاء کی مالک اورہر چیز کا علم رکھنے والی کوئی ذات موجود ہے، لہٰذا ایمان کے بارے میں عقل کی اہمیت کوبالکلیہ نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔
اسی بنیادپرماتریدیہ کہتے ہیں کہ انسان اپنی عقل کے ذریعے اپنے رب کو پا سکتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت اورزمانۂ فترت میں بہت سے لوگوں نے خداکے وجود کو محسوس کیا تھا، انہی لوگوں میں سے ایک ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہاکے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل بھی تھے۔جب رسول اللہﷺنے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپنی اصلی صورت میں مشرق ومغرب میں پرپھیلائے دیکھا تو آپﷺخوف زدہ ہوگئے اوراس بارے میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کوبتانے کے لیے دوڑے ۔ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاآپﷺ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں،جنہوں نے بتوں کی پوجا ترک کردی تھی، کیونکہ انہیں احساس ہو گیاتھا کہ یہ نفع و نقصان نہیں پہنچاسکتے، اس طرح انہوں نے اپنی عقل کے ذریعے خداکوپالیاتھا۔
انہی لوگوں میں حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے چچا‘‘زید’’بھی تھے،جنہوں نے بتوں سے منہ پھیرلیاتھا۔وہ کہاکرتے تھے:‘‘یہ سب باطل ہیں اور عبادت کے مستحق نہیں۔ایک خالق موجودہے، لیکن میں اس کی معرفت حاصل نہیں کرسکتا۔’’جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے اعزہ واقارب کو جن میں حضرت عمربن خطاب اوران کے بیٹے سعیدبن زیدبھی شامل تھے، جمع کرکے کہا:‘‘میں جانتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کا ایک دین ہے اور اس دین کے ظہور کا وقت قریب آچکاہے۔’’نبی اکرمﷺنے ابھی تک نبوت کااعلان نہیں فرمایاتھا یا یہ آپﷺکی نبوت کے ابتدائی ایام تھے،لیکن زیدنے نئے نبی اورنئے دین کے ظہور کو پہلے ہی محسوس کرلیاتھا، اسی لیے وہ کہاکرتے تھے:‘‘مجھے معلوم ہے کہ یہ دین ظاہرہوناہی چاہتاہے،لہٰذاجب اس دین کاظہور ہو اسے فوراًقبول کرلینا۔’’وہ بتوں کے بارے میں کہاکرتے تھے:‘‘جن بتوں کوانسانی ہاتھوں نے بنایاہے وہ انسان کی ضروریات کوپورانہیں کرسکتے،بلکہ وہ خود ان کے محتاج ہیں، لہٰذا وہ کیسے دوسروں کی مددکرسکتے ہیں؟‘‘
جب اس قدرسادہ فکرکے لیے یہ ممکن ہے توکہاجاسکتاہے کہ تقریباًتمام انسانوں کے لیے زمین وآسمان کے خالق ومالک تک رسائی پاناممکن ہے۔زید اور ورقہ نے اپنے اعزہ واقارب کے دلوں میں ہدایت کاچھوٹاسا دریچہ کھول دیاتھا،یہی وجہ تھی کہ جب سیدالانبیاء حضرت محمدﷺ نے دعوت کاآغازفرمایا توآپﷺکو انہی میں سے بہترین حمایتی اورایمان لانے والے میسر آئے اورعقل ودانش نے مزیدکام وحی کے سپردکردیاتاکہ وہ اسے لامحدودآفاق تک لے جائے۔ اب ہم اس سوال کی طرف دوبارہ آتے ہیں کہ کیاعالم اسلام سے باہرپیداہونے والا ہرشخص سیدھا جہنم میں جائے گا؟اس کاجواب یہ ہے کہ جس شخص نے قرآن کریم کوسنااوررسول اللہﷺ کی نبوت کودیکھا،لیکن آپﷺکی نبوت کی صحت کو پرکھنے کے لیے کسی قسم کی کوشش نہ کی تو وہ جہنم میں جائے گا، لیکن جس شخص کویہ موقع میسرنہ آیااورکفرکی تاریکی میں پروان چڑھا اور اسی پر عمربھرقائم رہااس کے بارے میں ہمیں امیدہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت سے محروم نہ رہے گا، لہٰذا اسے ملامت کیاجائے گا اورنہ ہی اس سے کسی چیزکامواخذہ ہوگا۔
چونکہ اس موضوع کاایک اورپہلوبھی ہم سے متعلق ہے، اس لیے مجھے اس پربھی گفتگو کرنے کی اجازت دیجئے۔قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے رسول اللہﷺکے پیغام رسالت کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچاکراسلام کی بہترین نمائندگی کی اوردلوں کو نورِاسلام سے منورکیا۔جب ہم ان کے حالات پڑھتے ہیں تو پیغام رسالت کو ساری دنیاکے سامنے پیش کرتے ہوئے وہ جس بلند حوصلگی کامظاہری کرتے تھے، وہ ہمیں محسوس ہوتی ہے۔اس دورمیں انسانیت کے لاپروا اور غیرمتعلق رہنے کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی ۔کسی سے بھی نہ ڈرنے والے ان بہادروں نے ساری انسانیت کے دلوں کوجیتااوراسلام کی دعوت اتنے جوش و خروش سے دی کہ اسے دنیاکے ہرانسان نے سنا۔
انہوں نے اسلام کوبہترین اندازمیں پیش کیا اورسارے جہان کواسلام کی روشنی سے روشن کردیاحتی کہ دنیاکاکوئی کونہ ایسانہ رہاجہاں اسلام کی روشنی نہ پہنچی ہو۔اس فریضے کی ادائیگی میں اس کی سرعت رفتار، اسلام کی نمائندگی کے اعلیٰ معیاراورخلیج سبت سے بحیرہ آرال اوراناطولیہ سے لے کر دیوارِچین تک قرآن کے پیغام کوپہنچانے کو دیکھ کر انسان انگشت بدنداں رہ جاتاہے۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں اسلام کا پیغام چین تک پہنچ چکا تھا۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے دورمیں مسلم سپہ سالارعقبہ بن نافع برج ہرقل تک پہنچنے میں کامیاب ہوچکے تھے اورتمام بربر علاقے یعنی مراکش،تیونس اورالجزائر اسلامی پرچم کے زیرنگیں آچکے تھے۔یہ سب کچھ تیس سال کی مدت میں ہوا۔ان تیس سالوں میں مسلمانوں نے نورِاسلام سے سارے عالم کوجگمگادیا،کیونکہ وہ اسلام کی بہترین نمائندگی کرتے تھے،یہی وجہ تھی کہ انہوں نے تمام اقوام کے دل اس قدرجیت لیے تھے کہ یہودونصاری مسلمانوں کو اپنے ہم مذہبوں پر ترجیح دیتے تھے اورجب حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ بیت المقدس اورحضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ شام گئے تو وہاں کے باشندوں نے ان کاپُرجوش استقبال کیاحتیٰ کہ جب مسلمانوں کو دمشق سے پسپائی اختیار کرنا پڑی توعیسائیوں اوران کے پادریوں نے اپنے کلیساؤں میں جاکرمسلمانوں کی واپسی کی دعائیں کیں اورمسلمانوں سے کہا:‘‘ہم اللہ تعالیٰ سے آپ لوگوں کی واپسی کی دعاکرتے ہیں، ہم جزیہ اداکر کے آپ لوگوں کے زیرسایہ رہناپسندکرتے ہیں۔’’ مسلمان اقوام عالم میں محبت کا مظہر بن گئے تھے اوراسی کانتیجہ تھا کہ لوگ فوج درفوج دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے تھے۔ہرمسلمان حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کانائب تھا، لہٰذا ایسی صورت میں عوام کی اکثریت کااسلام کی طرف متوجہ نہ ہوناناممکن تھا۔یہ بہادرانِ قوم رات کو عبادت گزارہوتے تو دن کو شہسوار ہوتے۔انہوں نے سب سے پہلے لوگوں کے دلوں کوجیتایہاں تک کہ یہ سمجھاجانے لگاکہ مسلمان کچھ ہی عرصے میں ساری دنیاکوفتح کرلیں گے۔
آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم ایک چھوٹے سے جزیرے{qluetip title=[(۱)]}(۱) جزیرہ قبرص کی طرف اشارہ ہے۔(عربی مترجم){/qluetip}سے بھی اپنی بات نہیں منواسکتے اوراپنے زیرنگیں علاقوں میں امن و امان قائم نہیں کرسکتے،لیکن قرونِ اولیٰ کے مسلمان امن پسندی اورحکمت ودانش کانمونہ تھے۔ قلعوں اور شہروں کی چابیاں ان کے قدموں میں ڈال دی جاتیں اورانہیں سیادت وقیادت کی پیشکش کی جاتی تھی، جسے علامتی چابیوں کی سپردگی یااعزازی شہریت دینے پرقیاس نہیں کرنا چاہیے۔
جب مسلمانوں نے موجودہ فلسطین اورشام کا علاقہ فتح کیا تو مسلمانوں کی عسکری قیادت نے بیت المقدس کی چابیوں کی سپردگی کامطالبہ کیا، لیکن وہاں کے سب سے بڑے پادری نے یہ کہہ کرانکارکردیا:‘‘جوشخص یہ چابیاں وصول کرنے کاحق دارہے، ہم اس کے اوصاف و اخلاق سے واقف ہیں،ہم اس کے سواکسی اور کو یہ چابیاں نہیں دیں گے...‘‘
چنانچہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے خادم کے ہمراہ بیت المقدس کی طرف چل پڑے، کوئی نہیں جانتاتھا کہ آپ رضی اللہ عنہ کیسے آئیں گے،لیکن آپ اسی اندازسے جارہے تھے جس اندازکااسقف کوعلم تھا۔آپ رضی اللہ عنہ نے سفرکے لیے بیت المال سے ایک اونٹ خریدا۔ اس دورمیں گاڑیاں توہوتی نہ تھیں،تاہم خلیفہ کے لیے سفر کے لیے کوئی اچھاگھوڑالیناممکن تھا، لیکن انہوں نے ایسانہ کیا،بلکہ سارے سفرمیں اس اونٹ پرخادم کے ساتھ باری باری سفر کرنے کوترجیح دی۔
جب وہ دونوں حضرات بیت المقدس کے قریب پہنچے تواسلامی لشکرکے کمانڈروں کی خواہش تھی کہ نہر اردن عبورکرنے کے بعد سوارہونے کی باری خلیفہ کی ہو،کیونکہ ان کے خیال میں شان وشوکت اور زیب و زینت کے مظاہردیکھنے کی عادی عوام اس منظرکویقینامعیوب سمجھے گی کہ خادم اونٹ پرسوارہو،سربراہ مملکت اونٹ کی مہارپکڑے چلاآرہا ہو اور نہر عبورکرنے کے بعد اس کے کپڑے گھٹنوں تک اٹھے ہوئے ہوں،لیکن حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی نظرمیں ناانصافی معیوب بات تھی، اس لیے وہ غیرمنصفانہ کام کرنے سے بچنے کی کوشش کرتے تھے۔تقدیرکی کرشمہ سازی دیکھئے کہ دریاعبورکرنے کے وقت اونٹ کی مہار پکڑ کرچلنے کی باری حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئی،چنانچہ حضرت عمررضی اللہ اونٹ سے اترے، خادم سوارہوا اور حضرت عمررضی اللہ عنہ اونٹ کی مہارپکڑے نہر عبورکرنے لگے۔زین کی رگڑکی وجہ سے آپ کے کپڑے کئی جگہ سے پھٹ چکے تھے۔آپ بیٹھ کر انہیں پیوندلگانے لگے۔آپ کے کپڑوں میں چودہ پیوندتھے۔سب سے بڑے پادری نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کو دیکھ کر کہا:‘‘یہی وہ شخص ہے، جس کے اوصاف ہماری کتابوں میں مذکور ہیں۔ہم شہرکی چابیاں صرف ایسے شخص کے سپردکریں گے۔‘‘
بیت المقدس کی چابیوں اورمسجداقصیٰ کو مسلمانوں کے حوالے کرنا لوگوں کے فوج در فوج دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کاذریعہ بن گیا۔ اسلام کی عظیم شخصیت حضرت عمررضی اللہ عنہ کے مناقب بیان کر کے میرامقصودآپ حضرات کے جذبات ابھارنانہیں ہے،بلکہ یہ سوال کرناہے کہ کیاآج اسلام کی نمائندگی اس کے شایاں کی جارہی ہے۔ابتدائی مسلمانوں نے پچیس تیس سال کے عرصے میں افریقہ،تاشقند،سمرقنداوربخارا کے علاقے فتح کرلیے،جس کے نتیجے میں دنیا کو بخاری،مسلم، ترمذی، ابن سینا، فارابی اوربیرونی جیسی ہستیاں ملیں،مسلمانوں کی حکومت قفقاز، عراق اورایران تک پھیل گئی،‘‘لاالہ الا اللہ محمّد رسول اللہ’’کی صداؤں سے دنیا کا کونہ کونہ گونج اٹھااوراسلا م کاپیغام سب تک پہنچ گیا۔
لیکن آج دوسری اقوام اورممالک تودرکنار ہم خودمسلمانوں تک اسلام کاپیغام پہنچانے کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔جولوگ ہماری بات سننے کے لیے تیارہوتے ہیں ہم انہیں اسلام کی دعوت دے کرقائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن وہ ایمان نہیں لاتے، گویاہماری آوازبرف کی دیوار سے ٹکراکرپوری شدت سے واپس ہمارے منہ پرآکر لگتی ہے۔ہم اپنی بات کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہم ان کے دلوں تک رسائی نہیں پاتے۔ہم یہ بات اللہ تعالیٰ کی بے شمارنعمتوں کی ناشکری کے طورپرنہیں کہہ رہے ہم ایساکہہ بھی نہیں سکتے۔ہمارامقصود صحابہ کرام اور اپناموازنہ کر کے اپنے اوران کے درمیان موجودوسیع فرق کی نشاندہی کرناہے۔
اطرافِ عالم کو فتح کرکے دنیاکے کونے کونے تک اسلام کاپیغام پہنچانے والے شاہینوں میں سے ایک شاہین عظیم سپہ سالار عقبہ بن نافع بھی تھے،جنہوں نے براعظم افریقہ کو قدموں تلے روند کر فتح کیا۔ان کی مسلسل فتوحات نے مسلمانوں کے دلوں کو خوشی سے سرشار کر دیا تھا، تاہم وہ ایک سازش کاشکارہوگئے اوراس وقت کے خلیفہ نے انہیں معزول کرکے قیدمیں ڈال دیا۔ وہ پانچ سال تک قیدمیں رہے اور اس دوران ان کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ انہیں اسلام کی اشاعت سے روک دیاگیاتھا۔ وہ پورے افریقہ میں اسلام کاپرچم لہرانا چاہتے تھے۔ جب یزید کو حکومت ملی تواس نے انہیں قید سے رہاکر کے مراکش کاوالی بنادیااوراس طرح اس نے گناہوں اوراسلام کونقصان پہنچانے والے اقدامات سے اپنے سیاہ نامۂ اعمال میں ایک بہت بڑی نیکی بھی شامل کرلی۔حضرت عقبہ نے فتوحات کا سلسلہ پھرسے شروع کردیا یہاں تک کہ وہ بحراٹلانٹک کے ساحل پر پہنچ گئے اورگھوڑے کوپانی میں داخل کرکے کہا:‘‘اے پروردگار! اگریہ سمندرنہ ہوتاتومیں تیری راہ میں جہادکرتے ہوئے ملک کے ملک فتح کرتاجاتا۔’’{qluetip title=[(۲)]}(۲) الکامل فی التأریخ، ابن الأثیر،۴؍۱۰۶.{/qluetip} اگرکوئی شخص انہیں براعظم امریکاکے بارے میں بتاتاتووہ اس تک اسلام کاپیغام پہنچانے کے لیے وہاں پہنچنے کاراستہ پوچھتے۔
اُس دورکے مسلمان اسلام کا پیغام ہرکسی تک پہنچاتے تھے اورجن ممالک تک وہ اسلام کی دعوت نہ پہنچاسکے ان کے بارے میں ان کاضمیرانہیں ملامت کرتا،لیکن ہم مسلم معاشرے میں اسلام کو صحیح طریقے سے پیش کرسکے اورنہ ہی اسلام کوبرق رفتاری سے دنیاکے دوسرے حصوں تک پہنچاسکے،کیونکہ ہم اسلام کی خاطر اپنے ذاتی کام اور مشاغل کو نہ چھوڑسکے۔ہم اسلام کے لیے کام کرنے کواپنی پہلی ترجیح اوراپنے دیگرامور کو دوسری،تیسری یاچوتھی ترجیح نہیں سمجھتے۔اگرچہ ہم مارک،ڈالر،شلنگ اورفرانک کمانے کے لیے غیرمسلم ممالک میں جاتے ہیں،لیکن خداکے دین کی اشاعت کے لیے نہیں جاتے، اسی لیے ہم انہیں اسلام کے اعلیٰ حقائق سے آگاہ نہ کر سکے۔ اگر آج وہ اقوام کفروگمراہی کی تاریکی میں زندگی بسرکررہی ہیں تواس میں ہماری سستی اور ناکامی کو بھی دخل ہے۔قیامت کے دن جس طرح ان سے پوچھ گچھ ہوگی،اسی طرح ہم سے بھی سوال ہوگا۔
کل میں نے ایک لیکچر کی ویڈیو دیکھی۔ لیکچرجرمن زبان میں تھا۔اگرچہ مجھے جرمن زبان نہیں آتی، لیکن جو منظرمیرے سامنے تھا وہ بہت کچھ سمجھنے کے لیے کافی تھا۔میں کچھ عرصہ پہلے برلن کے ایک قبرستان میں گیا...مجھے یوں لگاجیسے میری ٹانگوں نے میرا بوجھ اٹھانے سے انکارکر دیا ہو۔ میں نے گڑگڑاکرخداسے عرض کی:‘‘اے ہمارے پروردگار!ہم پررحم فرما۔ہم آپ کے دین کو یہاں تک نہ پہنچاسکے۔’’لیکن یہ ویڈیوکیسٹ دیکھ کرمیرے جذبات تازہ ہوگئے...یہ جگہ ہالینڈ کا کوئی گرجا گھر تھا،لیکچردینے والامسلمان نوجوان تھا، پادری بیٹھ کر اس کی بات سن رہاتھا اور ہالینڈ کی باحجاب مسلمان خواتین بھی اس کی بات غورسے سن رہی تھیں اورسوالات پوچھ رہی تھیں،جن کے وہ جوابات دے رہاتھا۔غیرمسلم خواتین بھی سوالات پوچھ رہی تھیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ منظر دیکھ کر اپنے اندرپیداہونے والے جذبات کی تعبیرکے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں،تاہم ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس قسم کی سرگرمیاں بعض شوق سے کام کرنے والوں کی طرف سے سرانجام دی جا رہی ہیں جو بالکل ناکافی ہیں۔یہ اسلامی خدمات کا حصہ ضرورہیں،لیکن اسلامی خدمات کامکمل نظام نہیں ہیں۔
ابھی تک ہم اسلامی اورایمانی خدمات کے محل کی راہداریوں میں گھوم رہے ہیں اوراس سلسلے میں کوئی خاص کام سرانجام دینے کادعوی نہیں کرسکتے۔آج بہت سے لوگوں کے گمراہی میں رہنے کایہی سبب ہے۔اگرچہ ہم خدمت دین کی خاطران ممالک میں بھی گئے ہیں،لیکن ہم وہاں بھی آپس کے اختلاف کو نہیں بھلاسکے اوراسلام کو اس اندازسے نہ پیش کرسکے، جس اندازسے اسے حضرت عمر،عقبہ بن نافع،ابوعبیدۃ،احنف بن قیس،مغیرۃبن شعبہ اورقعقاع رضی اللہ عنہم ایسے پہلے مسلمانوں نے پیش کیاتھا۔نہ جانے ان حضرات کی مروّ ت ،بہادری، انصاف پسندی،انسانی ہمدردی، ایمان اورعزم کودیکھ دشمنوں کے دلوں کی کیاکیفیت ہوتی ہوگی!نہ جانے وہ کس قدر متاثر ہوئے ہوں گے اور ان بہادرہستیوں کو دیکھ کر نہ جانے کتنی باراسلام کی طرف مائل ہوئے ہوں گے!
جب ہم اس موضوع کو اس پہلو سے دیکھیں توہمیں پیرس،لندن اورنیویارک میں رہنے والوں سے ہمدردی ہونے لگتی ہے،بلکہ افسوس سے اپناسینہ پیٹنے کوجی چاہتاہے،کیونکہ ہمیں جس طرح ان تک اسلام کی دعوت پہنچانی چاہیے تھی ہم نے نہیں پہنچائی۔آئندہ سطورمیں ایک حقیقی واقعہ بیان کرتاہوں،جسے میں نے ایک مشہور واعظ شیخ نجم الدین نورسچان سے سناہے:
ہماراایک ہم وطن کسی یورپی ملک میں روزگارکے سلسلے میں گیا۔ وہاں اس نے ایک گھر میں رہائش اختیار کی اوراس کے گھرکے افرادسے اس کی واقفیت ہو گئی۔وہ اکثران کے ساتھ بیٹھتا اوران سے گفتگوکرتا۔آہستہ آہستہ ان کی آپس میں دوستی ہوگئی،لیکن اس شخص نے اسلام کوپیش کرنے،اس کے بارے میں انہیں بتانے اوران کے سوالات کے جوابات دینے میں کوتاہی نہ کی۔ کچھ مدت گزرنے کے بعد گھروالے نے اسلام قبول کرلیا، تھوڑے ہی عرصے بعداس کی بیوی نے بھی اسلام قبول کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کلمہ شہادت پڑھ لیااورپھران کے بیٹے بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے، جس کے نتیجے میں خوش بختی اس گھرکامقدربن گئی اوروہ گھرجنت کانمونہ پیش کرنے لگا۔
کچھ دن گزرنے کے بعد گھروالے نے اپنے مرشد و راہنماسے بڑی عجیب بات کہی: ‘‘بعض اوقات میراجی چاہتاہے کہ میں آپ کو اپنے سینے سے لگاکرخوب بوسے دوں، لیکن کبھی خیال ہوتاہے کہ تمہیں خوب ماروں، کیونکہ آپ ہمارے پاس آکر بطور مہمان ٹھہرے اورآپ کے ذریعے سے ہمیں رسول اللہﷺ، قرآن کریم اورایمان باللہ کا علم ہوا اورآپ کی برکت سے ہمیں ایمان نصیب ہوا اور ہمارا گھرجنت کانمونہ بن گیا۔ میراباپ بہت اچھا اورپاک طینت انسان تھا، لیکن آپ کے آنے سے کچھ ہی عرصہ پہلے اس کاانتقال ہوگیا۔ ایساکیوں ہوا؟ آپ ہمارے پاس اس کی وفات سے پہلے کیوں نہ آئے؟‘‘
میں سمجھتاہوں کہ اس فریادمیں سارے عیسائیوں اوریہودیوں کی فریاد شامل ہے۔ہم ان تک جاکر انہیں اسلام کی دعوت نہ دے سکے،بلکہ ہم تو اپنے ہی ممالک میں اسلام کو صحیح طرح سے پیش نہ کرسکے۔ہم نے اپنی زندگی اسلام کے مطابق ڈھالی، نہ اس کی تعلیمات کی وضاحت کی اور نہ ہی ضرورت مندوں تک اسے پہنچایا۔
مجھے ایک اوربات کہنے کی اجازت دیجیے:جن لوگوں نے ہمیں اسلام سے دورکیا انہوں نے ہمیں مغربی زندگی کے معیارکے مطابق معیارِزندگی فراہم کرنے کاوعدہ کیاتھا،لیکن ڈیڑھ صدی گزرنے کے باوجود ہم اہل مغرب کے در کے بھکاری بنے ہوئے ہیں، کوئی تبدیلی واقع ہوئی اورنہ ہی کوئی ترقی ہوئی۔ مغرب آج بھی ہمیں چندڈالروں کی خاطر اپنی چوکھٹ پرآئے ہوئے غلاموں کی حیثیت سے دیکھتاہے۔اب میں آپ سے ایک سوال کرتاہوں۔
عیسائی اوریہودی اسلام لاتے ہیں اور نہ ہی ہمارے اعلیٰ اصولوں کو قبول کرتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی اس کی وجہ پر غور کیاہے؟اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کے سامنے بہت ہی عمدہ اصول اورلائحہ عمل پیش کرے،بلکہ آسمان کے دروازے کھول کرآپ کو جنت تک پہنچانے والے راستے دکھا دے،لیکن اگر وہ شخص آپ کے ہاں خادم کی حیثیت سے گھٹیاترین کام سرانجام دیتاہے تو کیا آپ اس کے دین کو قبول کرلیں گے؟آپ اپنے خادم کا پیروکار بننا ہرگز گوارانہ کریں گے اورکبھی بھی اپنے درپرسوالی بن کر آنے والوں کی پیروی اختیارنہ کریں گے۔
عالم اسلام نے اپنی شیرازہ بندی کی، نہ اپنی خودی کو پہچانااور نہ ہی اسلام کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالا، بلکہ آج بھی مغرب کی چوکھٹ پرسوالی بن کر کھڑاہے، لہٰذاجب تک عالم اسلام یکے بعد دیگرے پڑنے والے تھپیڑوں سے مغلوب،مغرب کے در کا سوالی اور اسیر اور اس سے خائف رہے گا اس وقت تک مغرب کے ہماری بات پرکان دھرنے یاہمارے پیغام کو سنجیدگی سے سننے کاکوئی امکان نہیں، لیکن اگرہم اپنے اسلاف کی شخصیت اورعزت نفس کے معیارکے مطابق اپنے آپ کو بلند کرکے اسلام کو اس کے شایاں رفعت کے ساتھ پیش کریں اور مغرب کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے تو وہ ہماری بات کو غورسے سنے گا،اسے وزن دے گا اوراسے قبول کرے گا۔
میں یہ نہیں کہتاکہ اپنے ہاں کام کرنے والوں کی بات نہ سننے میں مغرب حق بجانب ہے، لیکن شاید انہیں اس بارے میں معذورسمجھاجاسکتاہے۔مغرب پراسلام قبول نہ کرنے کی ذمہ داری ڈالنے کاکیافائدہ جبکہ اسلام کواس کے شایاں اندازسے پیش نہ کرنے کی زیادہ ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے؟
میرے خیال میں اس معاملے کو اس پہلوسے دیکھناچاہیے اورہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ذمہ داری ہم دونوں پرعائد ہوتی ہے۔ ہماری رائے منصفانہ ہونی چاہیے، ہمیں ان لوگوں کی طرح نہیں سوچناچاہیے،جوغیرمتوازن رائے رکھتے ہیں اور غیرمسلم ممالک میں بسنے والے سارے انسانوں کو جہنم کا ایندھن سمجھتے ہیں، نیز ہمیں ان لوگوں جیسی سوچ بھی نہیں رکھنی چاہیے جو یہ توقع کیے بیٹھے ہیں کہ جیسے ہی وہ اسلام کو ناقص اورغیرمناسب اندازمیں پیش کریں گے ہر کوئی اسے قبول کرنے کے لیے تیارہوجائے گا۔ایں خیال است ومحال است وجنون لیکن ہماراایمان ہے کہ عنقریب موجودہ بین الاقوامی توازن میں تبدیلی آئے گی اور ترکی، مصراور ترکستان کے ممالک{qluetip title=[(۳)]}(۳) اس سے روسی استعمار سے آزادہونے والی مسلم ترک ریاستیں مرادہیں۔(عربی مترجم){/qluetip} کی نئی نسل اپنی ذات، خودی اوراصل شناخت کی طرف لوٹ کر اپنے عقیدے اوراصولوں کے مطابق جیئے گی۔یہ پاکیزہ اورروشن نسل نئے بین الاقوامی توازن میں اپنا مقام حاصل کرے گی، تب مشرق ومغرب ہماری بات کوغورسے سنیں گے۔
یہ ناممکن نہیں ہے اورایسایقیناہوگا،بلکہ اس کاآغازہوچکاہے۔مغرب کے اہل فکر اسلام کی سحرانگیزی اور صدابہار تروتازگی کودیکھ کرانگشت بدنداں ہیں۔یوں لگتاہے جیسے یہ کسی بڑی تبدیلی کاپیش خیمہ بنے گا۔مستقبل قریب میں بڑے پیمانے پر معاشرتی تبدیلی کاآنا بعید از قیاس نہیں ہے۔مستقبل میں دنیاکے جغرافیائی نقشے میں بھی تبدیلیاں آئیں گی،لیکن یہ کارنامہ وہی لوگ سرانجام دے سکتے ہیں جنہوں نے اپنی خودی، شخصیت اور اصل شناخت کوپالیاہے۔یہ بات فراغت کے اوقات میسرآنے تک کام کومؤخرکرنے والے بے بس اور ناکام لوگوں کے بس کی نہیں۔
جیساکہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں جب لوگ قبروں سے سراٹھاکرتمہیں دیکھیں گے اور کہیں گے:’’انہی لوگوں کاہمیں انتظارتھا۔‘‘تب وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوگا اور تم سارے عالم کے ساتھ اپنے حساب و کتاب کے لیے اٹھ کھڑے ہوگے۔
- Created on .