حکمت
حکمت ایک الٰہی مشعل ہے جو عقل کی راہ کو روشن کر کے اُس کے لیے نئے اُفق آشکار کر دیتی ہے۔وہ راہیں جو ایک سال میں عبور کی جاتی ہیں اُس مشعل کی روشنی میں ایک گھنٹے کے اندر اندر عبور کی جا سکتی ہیں ۔ اس مشعل کا نام ہے سوچ۔
* * * * *
سوچ کا کام سچ پر تحقیق کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے لازم مواد خداداد صلاحیت ہے جو اُسی کی لیبارٹری میں مل جاتی ہے جہاں بے شمار سچائیوں کو سچائی کی مد میں پے در پے تبدیل کیا جاتا رہتا ہے ۔سوچ کے بلندپایہ ہونے کا ثبوت بھی اسی عمل میں ہے۔
* * * * *
فکر کا مطلب سوچ ہے۔ سوچنا یہ نہیں ہوتا کہ انسان بغیر غوروفکر کے جو کچھ دماغ میں آئے اُس پر یقین کرتے ہوئے دوسروں کے عیب ڈھونڈنے اور پھر ان پر اعترازات کرنے میں اپنی ساری عمر برباد کردے۔ سوچنا اس سے کہیں آگے بڑھ کر ایک ایسی نیک جدوجہد ہے جو منطق‘ حکمت اور الہامِ اٍلٰہی سے قوت حاصل کرتی ہے اور انسان کو حقیقت تک پہنچا دیتی ہے۔
* * * * *
سوچ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہ عقل کی نفاست او راُس کے نورانی پن تک پہنچنے کا نام ہے۔سوچ کی عدم موجودگی کا مطلب عقل کی غیر موجودگی نہیں ہوتا۔عقل ہر چیز کو روشنی میں قابو کر کے اُس کے بارے میں چھان بین کرتی ہے‘ جبکہ اس کے مقابلے میں فکر کو اشیاءکا مطالعہ کرنامقصود ہوتا ہے وہ زیادہ تر اندھیرے میں مطالعہ کرنا پسند کرتی ہے۔ جی ہاں !فکر اور روح دونوں اندھیرے میں بہت زیادہ کام کر سکتے ہیں ۔
* * * * *
حکمت یا اسلامی فلسفہ ہمیشہ اِنہی معنوں میں سوچ کی ڈھلانوں پر پرورش پا کر پھلا پھولا ہے۔ ہر اُس جگہ پر اور ہر اُس دور میں جہاں بے عیب سوچ حاکم رہی ہے وہاں بے عیب حکمت موجود رہی ہے۔ اور جہاں جہاں ناقص اور نا مکمل سوچ حکم فرما رہی ہے وہاں ناقص اور گمراہ کُن فلسفے کا ظہور رہا ہے۔
* * * * *
اگر ہم رخنوں سے پُر‘ ناتمام فلسفے کو حکمت کہہ سکتے تو پھرفلاسفر کا مطلب بھی حاکِم ہوتا کیونکہ حاکِم کے معنی ہیں حکمت کو پسند کرنے والا۔
* * * * *
روشنی کے سب سے اہم سرچشموں میں سے ایک سرچشمہ حکمت یا اسلامی فلسفہ ہے جو انسانی سوچ کو ابہام سے اور انسا ن کووحشت سے بچاتااور اُس کی روح کی تطہیر کرکے اُس کے ضمیر کے ہاتھ میں ایک ایسی مشعل پکڑا دیتا ہے جو اُن سب مقاموں کوروشن کر دیتی ہے جہاں اُس انسان کو جانا ہوتا ہے‘ اور جس روشنی میں وہ ہستی کے چہرے پر لکھی ہر عبارت کو پڑھنے میں انسان کی مددکرتا ہے ۔
* * * * *
علوم‘ عقل کے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں جبکہ حکمت رحمانی ماحول میں جڑ پکڑتی اور نشوونما پاتی ہے۔ اخلاقی اور دینی معاملات عقل اور روح کے دائرے سے دور روحانیت کے ماحول میں پیدا ہو کر وہیں بڑے ہوتے ہیں ۔
* * * * *
حکمت کا مقصد اُن راہوں کو روشن کرنا ہے جو اللہ اور روح کی طرف جاتی ہیں ۔ روشن کرنے کایہ عمل کبھی تصنیف سے صاحبِ تصنیف تک اور کبھی صاحبِ تصنیف سے تصنیف تک روشنی پہنچانے کی شکل میں ہوتا ہے۔یہ دونوں راستے مشعلِ حکمت کو ہاتھ میں پکڑنے والے شخص کی نیت اور اُس کی نگاہ کے بے عیب ہونے کی نسبت سے اُسے نیکی اور مکمل خوبصورتیوں تک پہنچا سکتے ہیں ۔
* * * * *
عالِم وہ نہیں ہوتا جو محض جانتا ہو بلکہ وہ ہوتا ہے جو اپنے علم کواپنے ضمیر میں بھی محسوس کرتا ہو۔ جو حیثیت جاہل کے مقابلے میں عالِم کی ہوتی ہے وہی عالٍم کے سامنے حکیم اور فلاسفر کی ہوتی ہے۔
* * * * *
عالِم عالَمِ شہادت سے اور صرف سلطنتِ الٰہی کی تمام موجودات کے ساتھ اپنا رشتہ قائم کرتا ہے جبکہ حکیم لگاتارعالَمِ غیب اور عالمِ ماورا الحیات کا کھوج لگانے میں مصروف رہتا ہے۔
* * * * *
عالم اُن خوبصورت اشیاءکو بدیوں میں شمار کر سکتا ہے جنہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر وہ اُن کا شاہد تو ہوتا ہے مگرجو اُس کے وجدان میں ایک ربّانی ذوق کے طور پر محسوس نہیں ہوتیں ۔حکیم ہر چیز کے قریب اُس وقت جاتا ہے جب وہ پسِ پردہ ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اپنی تمام فکری کاروایاں عموماَ عبادت کے شگفتہ ماحول میں جاری رکھتا ہے۔
* * * * *
ہر ناپسندیدہ شے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہر حال میں بدصورت اور بُری ہو گی ۔ بچے پڑھنے اور سوچنے کو‘ٹیکوں اور دوائیوں کو پسند نہیں کرتے۔ مگر آگ اور سانپ کے ساتھ کھیلنے کے لیے جان دیتے ہیں علمی عقل اور حکمتی عقل کا مطالعہ بھی اسی پیمانے کے مطابق کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے ہاں نئے فلاسفر وہ لوگ ہیں جن کا فلسفے سے بہت دور کا تعلق ہوتا ہے۔ان میں سے بہت سوں کی کارکردگی ایک برائے نام ترجمے پر مشتمل ہوتی ہے۔ کاش کہ وہ کم از کم اس ترجمے کو ہی مکمل تو کرسکتے۔
* * * * *
حکمت کو عقل کے ذریعے نہیں ‘ روح کی تصدیق اور گواہی کے وسیلے سے سراہا جاتا ہے۔جی ہاں ! آخر حکمت کو حکمت ہی سمجھتی ہے۔عقل یا تو اس کی دشمن ہے یا پھر غیر صمیمی دوست
* * * * *
کئی مرتبہ عقل کی طرف سے حکمت کی نا پسندیدگی کا سبب یہ ہوتا ہے کہ عقل حکمت کا ادراک نہیں کر سکتی۔حکمت کے مسائل اس قدر دقیق اور عقل کی سمجھ سے بعید ہیں کہ جو عقل الہام کے پروں سے محروم ہو اس کا حکمت کی بلندیوں تک پہنچنا نہایت دشوار بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔
* * * * *
اگر عقل کو آنکھ کا سفید حصّہ تصور کر لیا جائے تو حکمت اس کے سیاہ طبقے کی طرح ہے کیونکہ عقل اپنے نور کے بعد آنے والی تاریکی میں پیدا ہوتی ہے۔
* * * * *
عقل اشیاءکو ہاتھ سے چھُو کر سمجھنے کا اور حکمت اُنہیں نظروں کی گرفت میں لانے کا نام ہے۔ عقل ہستی کو عینکوں سے دیکھنے کا‘ حکمت اُسے دوربین سے یا ٹیلی سکوپ سے دیکھنے کا نام ہے۔
* * * * *
عقل مادّے کی حدود کو پار نہیں کر سکتی جبکہ مادے سے اُدھر کی دنیا کو حکمت اور حقیقی فلسفہ ہی دیکھ کر سمجھ سکتے ہیں ۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ انسان حکمت کی ٹن ٹن کرتی آواز کوجس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی‘ غور سے سننے کی بجائے جا کر ڈھول شہنائی سنتے رہتے ہیں ۔
زندگی کی تاریک اور پیچیدہ راہوں کو روشن کرنے والی دو مشعلیں ہیں ۔ ایک عقلِ سلیم اوردوسری حکمت۔
* * * * *
علوم عقل کی روشنی ہیں اور حکمت فلکِ روح پر چمکتی رہنے والی آسمانی بجلی۔
* * * * *
مادّی فلسفے اور حکمت کو ایک دوسرے میں خلط ملط کر دینا اس بات کی علامت ہے کہ یہ کام کرنے والا دونوں کو ہی سمجھ نہیں سکا۔کتنی عجیب بات ہے کہ اب ہر طرف سنی جانے والی آواز اسی قسم کے جاہلوں کی بُڑ بڑاہٹ ہے۔
* * * * *
وہ حکیم جس کا خمیر حکمت سے اٹھایا گیا ہو اپنے حجرے کی تنگ چاردیواری میں رہتے ہوئے بھی کائناتوں کا نظارہ کرتا رہتاہے۔اورایسے ناقابلِ رسائی مقامات پر جا پہنچتا ہے کہ جن کے ایک فیصد حصّے کو بھی دنیا میں گھومنے پھرنے والے سیاح نہیں دیکھ سکتے۔
* * * * *
فلسفیوں کو کائنات شناس کہتے ہیں ۔ جو شخص حقیقت شناس اور عارف بِاللہ نہ ہو وہ حقیقی فلسفی نہیں ہو سکتا۔
* * * * *
ہر لفظ متعلقہ شخص کے عرفان اور ثقافت کے معیار کے مطابق اُس کی روح سے پھوٹ کرظہور پذیر ہوتا ہے۔کہ اسے صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کا افق اور پایہ اِس شخص جتنا ہوتاہے۔ دقیق الفاظ اور دقیق حقیقتوں کونہ سمجھ سکنا یا اُنہیں معمولی سمجھنا روح کی لاعلمی یا بھونڈے پن کے باعث نہیں ہوتا بلکہ اُس میں عرفان کی عدم موجودگی کے باعث ہوتا ہے۔
* * * * *
قومیں اکثر ایسی طاقت کے پہیوں کے نیچے آ کر پستی رہتی ہیں جس میں حکمت کا نام و نشان نہیں ہوتا۔ دراصل جب کوئی حکمت سے محروم طاقت‘ طاقت سے محروم حکمت کو کچلتی ہے تو ایک ایسی شے بھی ہوتی ہے جو حقیقتاَ اس کے کچلے جانے پر آنسو بہاتی ہے۔ اوروہ ہے حقیقت۔
* * * * *
جواہرات کی قدر جوہری جانتے ہیں ‘ صاحبِ علم انسان کی قدر عالِم‘ اور انسان کی قدر وہ کامل لوگ جانتے ہیں جو خودانسانیت کی بلندی تک پہنچ چکے ہوں ۔ جواہر ت پیتل فروشوں کی مارکیٹ میں عجیب لگتے ہیں ‘ عالِم جاہلوں کے درمیان‘ انسان حیوانی روحوں کے درمیان‘ اور حکیم ایسی دنیا میں عجیب لگتے ہیں جہاں لوگ تشخیص اور وجدان پر کان نہیں دھرتے۔۔۔۔
- Created on .