جسمانیت اور قلب کے مابین توازن
حقیقی زندگی وہ ہے جو دل کی سطح پر گزاری جائے۔ جو انسان اپنے دل کے ساتھ زندہ رہتا ہے۔ اس کے نزدیک ماضی اور مستقبل ایک ہی وحدت کے دو رُخ ہیں ۔یوں وہ زمان کی سطح سے ایک بالاتر ہستی بن جاتا ہے۔ایسی روح نہ ماضی کے غموں سے داغدار ہوتی ہے اور نہ مستقبل کے کسی خوف سے خوفزدہ۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو دل میں اپنے آپ کو نہیں پا سکتے وہ اپنی سطحی زندگی ہمیشہ بد بینی(کج بینی) اورقنوطیت میں گزارتے ہیں ۔ اس قسم کے لوگوں کی نظروں میں ماضی ایک دہشتناک مزار اور مستقبل ایک اتھاہ کنواں ہے۔وہ اگر مریں تو بھی عذاب زندہ رہیں تو بھی۔۔۔۔
* * * * *
انسان کا اِس کے بے حد لمبے ماضی اور کبھی نہ ختم ہونے والے مستقبل کے ساتھ رشتہ محض اس ایک بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنے دل اور روح کی سطحِ زندگی کو کس حد تک سمجھتا ہے۔ اس سطح پر زندگی گزارنے والی اور اسے سمجھنے والی خوش بخت روحیں ماضی کو اپنے آباواجداد کے شاندار خیموں اور شاہی تختوں کی شکل میں او ر اپنے مستقبل کو جنت کو جانے والی راہوں کے طور پر دیکھتی ہیں ۔ یہ لوگ اپنے وجدان میں پھوٹنے والی کوثر کی نہروں سے پانی پی پی کر دنیا کی اس سرائے سے اگلے جہان رخصت ہو جاتے ہیں ۔ جو بد بخت اِس سطح پر گزاری جانے والی زندگی کا ادراک نہیں کر سکتے اُن کی زندگی موت سے بدتر اور اُن کی موت اندھیروں سے بھی زیادہ اندھیرا جہنم ہوتی ہے۔
* * * * *
کسی شخص کے عمل ‘ طرزِ عمل اور اُس کی باطنی زندگی کے درمیان ایک رشتہ ہوتا ہے۔ جو ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے‘ دونوں میں ترتیب پیدا کرتا ہے اور اُنہیں پختگی مہیا کرتا ہے۔ اِسے ہم دائرہِ فاسد کے مقابلے میں دائرہِ صالح کا نام بھی دے سکتے ہیں ۔اِس رشتے کے وسیلے سے انسان کا عزم‘ اصرار’ اور فیصلہ کرنے کی قابلیت منعکس ہو کر اس کی باطنی دنیا کو روشن کر دیتی ہے۔ بالکل اسی طرح اس کے وجدان کی روشنی بھی اس کے عزم اور ارادے کو چابک لگا کر اسے اور زیادہ بلند افق دکھائے گی۔
* * * * *
وہ خوش نصیب لوگ جو اپنے طرزِ عمل میں اپنی روح کے تابع ہوتے ہیں وہ اپنے خالقِ حقیقی کی خوشنودی اور انسانیت اور فضیلت کی طرف جانے والی راہوں پر چلتے ہیں ۔ اُن کے قبلہ نما(یعنی قطب نما)ہمیشہ ایک ہی محراب کی طرف اشارہ کرتے ہیں ‘ اور ان کی حرکت کی سوئیاں بھی ہمیشہ ایک ہی راستہ دِکھاتی ہیں ۔اگر کبھی کبھار وہ تھوڑا بہت اِدھر اُدھر ہو بھی جائیں پھر بھی تہِ دل سے ندامت کے اظہار اور دل سے اٹھنے والی آہ سے اُن کے دلوں کو گھیرے میں لینے والے گناہ اُن کی روحوں میں گھل جاتے ہیں اور وہ پھر اپنی راہ پر چل کر اپنا سفر جاری رکھتے ہیں ۔
* * * * *
وہ خوش قسمت انسان جو اپنے تمام فرائض کو اُن کی چھوٹی سے چھوٹی جزیات تک نہایت احتیاط سے بجا لاتے ہیں ‘ وہ اپنی بیرونی دنیا کے نظام‘ آہنگ‘ اور فرائض کے عشق کے ساتھ ساتھ اپنے باطنی عالم کے اعتبار سے بھی متواتر اپنے بخوردان کی طرح سلگتے رہتے ہیں اور دن میں کئی مرتبہ پر نکال کر فرشتوں کی محفلوں میں جا پہنچتے ہیں ۔
* * * * *
صدیوں تک ابدیت کی سوچ میں ابل ابل کر حلّاج(منصور) بن جانے‘ اور ہمارے دلوں میں عشقِ لا متناہی کا خمیراٹھنے والا اِدراک‘ وقت کے ساتھ ساتھ اپنا مقام ایک ایسے عارفانہ اِدراک کے حوالے کر گیا ہے جس میں بے روح‘ فارمولا بازی اور بے حسی بھی شامل وہ گئے ہیں ۔وہ دن اور آج کا دن‘ جگنوﺅں کے جسموں سے نکلنے والے ننھے ننھے شراروں کی حیثیت والے الہاموں اور وحی کے روشن کئے ہوئے سارے ماحول کو ایک جیسا قرار دینے والی یہ منحوس سوچیں ‘ہماری روشن راہوں پر دھند اور دھواں چھوڑ چھوڑ کرہم انسانوں کے فلق کو کالا سیاہ کر رہی ہیں ۔
* * * * *
ان سب باتوں کے بعد ہمارے خیال میں ہم ایک حقیقت کے غلام کو یوں بیان کر سکتے ہیں :جسمانی لحاظ سے وہ ایک ایسے بدن کا مالک ہوتا ہے جو ہر قسم کی آفت کا چھاتی نکال کر مقابلہ کر سکے۔سوچ کے اعتبار سے اُسے ایک ایسا ذہن درکار ہے جو حالِ حاضر کی سمجھ کے مطابق حق کے بیان کو گڈ مڈ کر کے ابال سکے اور ایک ماہر کیمیاگر کی طرح اتنی تعمیری قابلیت کا مالک ہو کہ ہر آن اس آمیزش سے دوسرے مرکب بنا سکے۔۔روحانی صلاحیتوں اور قلبی لحاظ سے ایک ایسی روح کا مالک ہو جو صدیوں سے مولاناﺅں (مولانا رومی جیسے لوگ)اور یونسوں (یونس ایمرے جیسے لوگ) کی طرف سے تیا رکی گئی کٹھالی میں پکتے پکتے خوب پختہ کار ہوچکی ہو۔بالآخر ایک ایسے پختہ کار دل کا مالک ہو جو” انسانوں کے درمیان انسانوں میں سے ایک انسان“ کے فلسفے پر یقین رکھتا ہو اور اِتنا فدا کار ہو کہ دوسروں کی خوشی کی خاطراپنی لذتوں کو بھول جائے۔
- Created on .