حکمت کے زاویہءنظر سے وجدان
حکمت ایک الٰہی مشعل ہے جو عقل کی راہ کو روشن کر کے اُس کے لیے نئے اُفق آشکار کر وجدان انسان کے خود اپنے آپ کو اور اپنی ہستی کو پہچاننے کا نام ہے۔ یہ ایک روحانی سسٹم ہے جوخواہش کرتا ہے‘محسوس کرتا ہے‘ سمجھتا ہے‘ اور بغیر کسی وقفے کے ابد کے لیے کھلا رہتا ہے۔
* * * * *
روح کے اِرادے‘ حس‘ ذہن اور قلب جیسے وسائل بیک وقت وجدان کے بھی اہم ترین سنگِ بنیاد ہیں ۔ یہ عناصرانسان کو اس دنیا میں کمالِ انسانیت پر پہنچاتے ہیں اور اگلی دنیا میں ابدی خوشیوں اور حقِ تعالیٰ کے دیدار کا وسیلہ بنتے ہیں ۔
* * * * *
وجدان ایک ایسا چم چم کرتا آئینہ ہے جو حق تعالیٰ کا دیدار کراتا ہے اور ذاتِ اُلوُہیت کی ترجمانی کرنے میں جس کاکوئی مدِ مقابل نہیں ہے۔اگر وجدان ایک ایسی روح حاصل کر لے جو ذاتِ عالی منصب کی ہستی کا احساس کر سکے اور ایسے کان حاصل کر لے جو اُس ذات کی آواز سن سکیں تو بس اُس کے لیے یہی کافی ہو گا۔
* * * * *
وجدان چونکہ روح کی حس‘ مشاہدہ اور ادراک ہے ‘ اس لیے اُسے ہمیشہ کون و مکاں سے بالا تر‘ عالمِ بالا کے لیے وا ‘ ایک بے عیب ترازو والا منصف‘ اور فرشتوں جیسا صاحبِ عصمت قبول کیا گیا ہے۔
* * * * *
مفتی توبہت ہیں جو تقریباَ سبھی اپنی سمجھ کے مطابق ایک ہی جیسے مشترک منبعوں کا رخ کر تے اور فتویٰ دیتے ہیں ۔مگر وجدان ایک ایسا گہری نظر والا مفتی ہے جو فتوے دیتے وقت حقیقت کے مطابق فتویٰ دیتا ہے‘ کسی کو گمراہ نہیں کرتا اور کسی سے نا انصافی نہیں کرتا۔
* * * * *
وجدانِ عمومی کا مطلب”سودائے اعظم“ کہلانے والی اکثریت کی حس‘ فہم اور ادراک ہے۔وجدانِ عمومی شاذو نادر ہی غلطی کھاتا ہے‘ خاص طور پر جب اس کی معلومات اور استعداد دونوں الہام کے سرچشمے پر اعتماد کرتی ہوں ۔
* * * * *
ایک حاکِم کی شکل میں جب وجدانِ عمومی کا یہ عالم ہو کہ وہ غلطی بھی نہیں کھاتا اور کسی کے دھوکے میں بھی نہیں آتا‘ توپھر ہر شخص کا فرض ہے کہ اُس کے احکام پر راضی ہو اور اُسے حاکِم قبول کرے۔اِس کے یہ معنی ہیں کہ بعض مسائل میں مُراجعت کرنے کے لیے وہی آخری اتھارٹی والا حاکِم ہے۔
* * * * *
فرض وہ کام ہے جس کے کرنے کا حکم اللہ دیتا ہے ۔ یہ انسان کے وجدان میں بھی ایک ایسی جان ڈال دیتا ہے کہ وہ انبیاءکے وجدان کی طرح بے عیب ہو جاتا ہے۔ غرضیکہ اسے قبول نہ کرنا انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔حق‘ حاکمِ مطلق ہے اوروجدان اُس کا سب سے سچا آئینہ۔ یہ آئینہ کبھی کبھار دھندلا عکس دکھا دے تو دکھا دے مگر اکثر جو عکس بھی دکھاتا ہے صحیح ہی دکھاتا ہے۔
* * * * *
ایک انسان کے طورواطوار اور طرزِ عمل میں نظم وضبط‘ اُس کی روح اور سوچ کے نظم و ضبط کی پیداوار ہوتا ہے۔اُس کی حرکات میں پائے جانے والے ربّانی معمّے اور راز اِس وجہ سے پائے جاتے ہیں کہ اُس کا وجدان اگلی دنیا کے لیے کھلا رہتا ہے۔
- Created on .