حکمت کے زاویہِ نظرسے علم
پڑھنا‘ مطالعے میں مشغول رہنا‘ اور معرفت کا متلاشی ہونا روح کی اہم ترین غذاﺅں میں سے ہیں ۔کسی شخص کا ان سے محروم ہونا ایک ایسی سنجیدہ محرومیت ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔
* * * * *
جب غیر ملکی لوگ گروہ در گروہ ہمارے ملک کے ہر گوشے کو چھان پھٹک کر ہمارے علم‘ صنعت اور ثقافت کے خزانوں سے استفادہ کرنے میں مصروف ہوں اور ہم خود اپنے ماضی کے علوم اور ثقافت کے سرچشموں کے بارے میں تحقیقات نہ کریں ‘ ان کامطالعہ نہ کریں یا نہ کر سکیں ‘ تو ہمیں چاہیے کہ بیٹھ کر اپنے حال پر آنسو بہائیں ۔
* * * * *
سچی بات ہے کہ ہمارے عظیم الشان آباواجداد ہمارے لیے جو میراث چھوڑ گئے ہیں اور جس کے پیچھے پڑ کر آج کی دنیا محبت اور ذوق و شوق سے تحقیقات کر رہی ہے ا ُن لاتعداد علوم اور ادبی اثرات کے بارے میں بحیثیتِ قوم ہماری بے اعتنائی ہماری سمجھ سے بالکل ہی باہر ہے۔
وہ لوگ جنہیں علمِ کامل حاصل نہ ہو یا جو اپنے علم کو ہضم نہ کر سکتے ہوں وہ اسی علم سے اپنی نسلوں کی سوچ اور افکار کو دھندلا کر دینے کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔یہ لوگ محض ضرررساں ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی ملک اور قوم کے غدّار بھی سمجھے جاتے ہیں ۔
* * * * *
اضطراب‘الہام کا شفّاف ترین سرچشمہ ہے۔
* * * * *
کسی قوم کی بقا اور شان و شوکت اُس قوم کی ثقافت اور فنون کی گہرائی سے براہِ راست متناسب ہوتی ہے۔وہ قوم جو دنیاکے چاروں طرف اپنی ثقافت اور فنی اثرات کی نمائش کرتی ہے وہ اپنے ان اثرات کی تعداد کے مطابق گویا اپنی زبان میں یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ”میں بھی ہوں “۔
* * * * *
انسانوں کے مابین کسی کی قدروقیمت اور شرف اس کے علم اور استعداد سے متّعین ہوتا ہے۔ ایک خسیس اور بے قدر شخص کسی وقت بھی امیر بن سکتا ہے مگر وہ کسی صورت بھی معزز نہیں ہو سکتا۔
* * * * *
کوئی انسان خواہ کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو اُسے مزید پڑھنے لکھنے سے ہرگز نہیں روکنا چاہیے۔ حقیقی اصحابِ علم کی اکثریت اُن لوگوں میں سے پیدا ہوتی ہے جو اپنی لگاتار تحقیقات کے باوجود اپنے عمل کو نا کافی سمجھتے ہیں ۔
* * * * *
جب حق کی بات کی جاتی ہے تو جہالت کو غصّہ آ جاتا ہے‘ تعصب مشتعل ہو جاتا ہے‘ مگر علم ہمہ تن گوش ہو کر سنتا ہے۔
* * * * *
ہر جاہل کو ان پڑھ کہنا درست نہیں ہے۔ حقیقی جاہل وہ ہے جو سچ کو محسوس کرنے سے قاصر ہو۔ اِس قسم کا انسان بہت کچھ جاننے کے باوجود جاہل ہوتا ہے۔
* * * * *
زندگی محض دیکھ کر جاننے اور کھانے پینے کا نام نہیں ہے۔حیات سن کر محسوس کرنے کا نام ہے۔جاننے والا مفید اور نہ جاننے والا مضر ہوتا ہے۔کم جاننے والا کچھ نہ جاننے والے سے زیادہ مضر ہوتا ہے۔سب کچھ جاننے والے اور با لکل کچھ نہ جاننے والے اگر کبھی کبھار دھوکہ کھالیں تو بھی دھوکا نہیں دیتے ‘ لیکن کم جاننے والا بہت زیادہ دھوکا دیتا ہے۔
* * * * *
جو باتیں علم کے نام سے بتائی جا سکتی ہیں اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سمجھ میں آ گئی ہیں ۔ اور جو نہیں بتائی جاسکتیں ‘ اُنہیں کسی حد تک غیر ہضم شدہ گِنا جاتا ہے۔اِس اعتبار سے مدارس میں جن نوجوانوں کو درس کی سمجھ نہیں آتی اُن پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے‘حالانکہ وہاں اساتذہ کی قابلیت کے معیار کی جانچ پڑتال کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔
* * * * *
جب تک مکاتب حقیقی اساتذہ کے ہاتھو ں معبدوں کی شکل میں تبدیل نہیں ہوتے ‘ جیل خانوں کے خالی ہو جانے کی امیدرکھنا خام خیالی ہے۔
* * * * *
جب انسان کوئی کام کرنے کی نیت کر لیتا ہے تو اُسے سب سے پہلے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اس موضوع سے متعلقہ باتوں کو اچھی طرح سیکھ لے۔ جب اُسے پورا یقین ہو جائے کہ وہ مجوزہ کام کر سکے گا تو پھر اُسے اپنی مہم کی تکمیل میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔
* * * * *
ہر شخص کو اپنے کام اور مسلک سے اچھی طرح واقفیت ہونی لازمی ہے اور جہاں تک ممکن ہو اُسے اپنے اختصاص ہی کی حدود میں رہنا چاہیے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ہر کوئی اپنے اختصاص سے باہر کے کسی موضوع میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ طبیب طبیب کے طور پر‘اور انجینئر انجینئر کے طور پر ہی کام کرتا رہے۔۔۔ معلم کو طبابت نہیں کرنی چاہیے اور طبیب کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو قانون دا ن بننے پر مجبور نہ کرے۔
- Created on .