سیّاح کے بارے میں
انسان ایک سیّاح ہے جبکہ کائناتیں اُس کے مطالعے کے لیے پیش کی گئی رنگا رنگ نمائیشیں ہیں ‘ بیش قیمت رنگین کتابیں ہیں ۔انسان اس جہان میں اِس مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے کہ وہ ان کتابوں کو پڑھے‘ اپنے علم میں اضافہ کرے‘ اور انسانیت کی بلندی پر پہنچ جائے۔یہ رنگین اور لطف انگیز سیّاحت ہر انسان کو صرف ایک بار نصیب ہوتی ہے۔۔۔اور میرا خیال ہے کہ جن لوگوں کے احساسات ہوشیار اور دل چوکنّے ہوتے ہیں ان کے لیے یہ اکلوتی سیاحت با غاتِ اِرم جیسی جنّیتں بنانے کے لیے کافی سے زیادہ ہوتی ہے۔اور جو لوگ آنکھوں پر پٹی باندھ کر زندگی گزار دیتے ہیں وہ ہر شے کے باوجود ایسے ہوتے ہیں جیسے دنیا میں صرف ایک سانس لینے کی خاطر آئے ہوں ‘ یعنی ان کا دنیا میں آنا او ر واپس چلے جانا بیک وقت ہو جاتا ہے۔
جو لوگ قدرت اور حیات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ گہری سوچ میں مصروف رہتے ہیں اور اِن کی قدر جاننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں وہ پھولوں کے بھڑکیلے رنگوں سے لے کر درختوں کی لہلہاتی ڈالیوں تک ‘آسمانی بجلیوں کی دہلا دینے والی گڑ گڑاہٹ سے پرندوں اوران کے بچوں کے پُر آہنگ نغموں تک ہر شے میں لامتناہی خوبصورتی کے جلووں کا نظارہ کرتے ہیں اور ہر آواز میں قدرتِ لامتناہی کے تقدّس کا ذکر سنتے ہیں ‘عشق‘ حرارت‘ جاذبیت‘ کیمیائی تعلق اور جانداروں کے نظم و نسق کے قوانین اور حوادث میں الٰہی تجلیوں کے نشان اور اشارے مشاہدہ کرتے ہیں ۔ روح جب تک مادی عالم کے پُر شور اور ہنگامہ خیز ماحول سے دور نکل کر عالمِ وحدت کی گہرائیوں میں ڈوبی رہتی ہے تب تک خالقِ اعظم کی کائنات میں ظہور پزیر ہونے والی شاندارتجّلیوں کا نظارہ کرتے کرتے آپے سے باہر ہو ئی رہتی ہے۔اپنے احساسات میں یوں وصالِ الٰہی تک پہنچ جانے‘ اور خود کو دائمی وجد اور استغراق کی لہروں کے مدوجزر کے حوالے کر دینے کی وجہ سے درجِ ذیل حقیقتیں اللہ تعالیٰ کی انسان کو مسحور کر دینے والی دائمی خوبصورتیوں کے عکس نہیں تو پھر کیا ہیں ؟
سمندروں کا اپنی گہرائیوں سے بھی نیچے ابلنا اور اس کے ولولے‘ تنہا جنگلات کا خاموش منظر‘ بادلوں کے ساتھ قد کا مقابلہ کرنے وال معظم چوٹیاں اور اُن کا باوقار انداز‘ گہری سبز ڈھلانوں کے نچلے کناروں میں کھیلتے شام کے سائے‘ اورساری زمین پر پھیلے ہوئے وہ جادو اثر ساخت والے باغات سے نکل کر اِرد گِرد کے سارے ماحول کو مست کر دینے والی قسم قسم کی خوشبوئیں ‘ گرمیوں کی شاموں کوچلنے والی ہواوئں سے کھیلنے والے ننھے ننھے پھول اور پھولوں کے لیے تخت بنا کر ماحول سے غمزے کرنے والی شبنم۔
ہمارا اللہ تعالیٰ کو جاننا یا نہ جاننا کیا معنی رکھتا ہے: جب ہر آواز اُس کا نغمہ اور ہر شے اُس کی طرف سے بھیجا گیا ایک مکتب ہے تو پھر۔۔۔؟جرمن حکیم اور شاعر گوئٹے کہتا ہے:”ہم اپنی روح میں بھی اور فطرت میں بھی اللہ کی ہستی کو پاتے ہیں ۔ہمارے اُس کی حقیقت کو نہ جاننے کی کیا اہمیت ہے؟ جی ہاں ! ہم اللہ کی حقیقت کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟ اللہ کے بارے میں ہمارے محدود اور تنگ خیالات سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ اگر میں اُسے اُس کے سینکڑوں ناموں اور بے شمار صفات سے یاد کروں تو پھر بھی حقیقت سے بہت پیچھے ہوں گا۔کیونکہ جسے ہم اُلوھیت کا نام دیتے ہیں وہ اعلیٰ ہستی صرف انسان میں نہیں ‘ دنیا کے چھوٹے بڑے تمام حوادث میں ‘ فطرت کے بیش قیمت اور طاقتور سینے میں ہر شکل میں بھی تجّلی پذیر ہے۔ کیا ایک ایسی ذاتِ اکمل کے بارے میں بشری اوصاف کے ذریعے تعمیر کیا گیا تخیل کافی اور جامع ہو سکتا ہے؟“یہ کہتے ہوئے گوئٹے اُس ”موجودومجہول“ ذات کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے جو اپنی نشانیوں کے ذریعے اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے مگر بذاتِ خوددنیاوی زندگی میں نظر نہیں آتی۔
وہ ذاتِ عالی جو ہماری آنکھو ں سے پنہاں ہے اور اپنے آپ کو اپنی نشانیوں کے ذریعے ہم سے شناسا کرانا چاہتی ہے‘ اس کی تلاش میں ہم بھی سیّاحوں اور سیّاحتوں کے بارے میں سوچتے ہیں ۔ ہمیشہ اُس کی راہ پر چلتے رہنے‘ اُس تک پہنچنے والے دروازوں کی دہلیزیں
گھساتے گھساتے اُس کی کبھی ختم نہ ہونے والی راہ پر چلتے نظر آتے ہیں ۔سارا جہان چلتے چلتے رک جائے پھر بھی ہم اُس کے گیتوں سے اپنے اِرد گِرد کے لوگوں میں جوش و خروش پیدا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ جوش و خروش کیوں نہ پیدا کریں ‘ کہ ہم سب اور ہر چیز کا وجود ہی اِس لیے ہے کہ اُسے پہچانیں اور اُسی کی شناخت کروائیں ۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر کو ئی اور بڑا فرض ہمارے ذمے نہیں ہے۔ ہم سب اُسی کی ہستی کے سائے ہیں ۔اور وہ ذات ہر چیز کا منبع ہے جس کی طرف ہر شے رجوع کرتی ہے۔
وہ جس کی رضا سے زمین سے پانی نکلتا ہے اور فیاضی سے چشمے پھوٹتے ہیں ‘جس نے سورج کے گرد روشنی کا کمر بندباندھا ہوا ہے اورزمین کو بیک وقت ہزاروں قسم کے لباسوں میں ملبوس کر رکھا ہے‘ یہ اسی کی ذات ہے۔آسمانوں ‘زمین اور وسیع و عریض سمندروں کا وجود اسی کے دم سے ہے‘ بادل سمندروں کی نگاہوں سے اُسی کا دیدار کر رہے ہیں اور سمندر بھی بادلوں کی زبان میں اُسی کا ذکر کر رہے ہیں ۔زمین کے پیٹ کو ہزارہا قسم کے دکھوں اور مصیبتوں سے اُسی نے بھر رکھا ہے۔مرجانوں کے جگر کو سرخ خون میں رنگنے والا بھی وہی ہے۔سورج اُسی کے در کے غلام ہیں ‘دنیائیں بھی اپنی گردنوں میں اُسی آقا کے طوق پہنے اُسی کی غلام ہیں ۔
اے خالقِ اعظم! دنیا کے تمام ممالک اور سلطنتیں تیرے پرچم تلے تیرے آگے گردنیں جھکائے ہوئے ہیں اور سارے سلطان تیرے در پر تیری غلامی میں حاضر ہیں !ہر شے تیری طرف دوڑتی ہے‘تجھی سے اپنی ہستی کا سوال کرتی ہے۔اور تُو تو اپنی ہستی کا خود ہی خالق ہے! امانت کے طور پرآنے والی ہستیاں وجود میں آتی ہیں ‘ ایک خاص شکل اختیار کرتی ہیں ‘اور پھر بجھ کر غائب ہو جاتی ہیں ۔مگر تُو!تُو ان سب مرحلوں سے بری ہے‘ آزاد ہے۔ تُو واحد ہے‘ تیرا کوئی ثانی نہیں ہے۔تُو ضرورتمند نہیں ہے! تمام موجودات تیری وحدت سے مدد کی امید کرتی ہیں ۔
تیری وحدت صحرا میں بھٹکتے لوگوں کے لیے کوثر ہے ‘جنت ہے۔ یہ جگہیں تیرے ہی حکم سے اپنے اپنے مقام پر کھڑی ہیں ۔۔۔قبّہءفلک تیری ہی قدرت اور ارادے سے اپنے نظامِ حیات کی حفاظت کرتا ہے۔اگر ان تمام چیزوں کا انحصار تجھ پر نہ ہوتا تو ستارے دھاگہ ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح کائنات کے سینے میں بکھر کر غائب ہو جاتے اور کوئی اسے روک نہ سکتا۔
ہم سب کا خوشیوں سے ہمکنار ہونا تیرے ہی دَم سے ہے۔تجھے جان کر ہم حقیقی مسرت کے معنی جان گئے ہیں ۔وہ مسرت جو تجھ پر منحصر نہیں اور تیری طرف سے عطا نہیں کی جاتی ہم اس سے بچتے ہیں اور جس مسرت کے باعث ہم تجھے بھول جائیں اُس پر لعنت بھیجتے ہیں ۔جی ہاں !ہر وہ شے جو تیرا ذکر نہیں کرتی ہمیں اس کے سامنے خاموش رہنا چاہیے اور ناراضگی اختیار کرنی چاہیے اور تجھے یاد نہ کرنے والوں کو بھول جانا چاہیے۔
اے رحمتِ لامتناہی والے خالقِ عظیم! ہم تیرے در کے غلام‘ اور اسی حیثیت سے دنیا اور عقبیٰ سے گزر جانے کا ارادہ کیئے ہوئے یہ صادق بندے‘ آج تک کسی کے آگے سربسجود ہو کراس کے غلام نہیں بنے۔ آج تک ہم نے اپنا دکھ درد تیرے سِوا کسی اور کے آگے نہیں کھولا۔اگر کھولا بھی ہو توہزار بار توبہ کرتے ہوئے تیری درگاہ میں پناہ لی ہے۔تُو اس در سے جدا نہ ہونے والوں کے پیمانے اپنی محبت سے بھر دے اور اُن لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں پیدا کر دے جن کے ہونٹ صدیوں سے تبسم سے ہمکنار نہیں ہوئے۔
اے مایوس بندوں کی امید و سکون! اے غریبوں کے مالک!اَے چارہ گرِ بے چارگان! اپنے لاچار بندوں کے لیے کوئی پردہ ہٹا دے‘ اُن کی بھوک رفع کر دے اور ان کے دردوں کا درماں بن جا!۔۔۔۔ہم نے چاہا تھا کہ تصویروں کے ذریعے‘ شکلوں کی مدد سے تجھے بیان کر کے دوسرے لوگوں سے تیری ان خوبصورتیوں کا ذکربھی کرتے جو ہمارے وجدانوں نے محسوس کی ہیں ۔ اگر یوں ہم ناقابلِ فہم عُلوی حقیقتوں کے ساتھ انصاف نہ کر سکے ہوں تو پھر تجھ سے معافی کے خواستگار ہیں اور چاہتے ہیں کہ تُو ہمیں بخش دے۔
- Created on .