ہستی کے اُس پار کا سفر
اَے تمام ہستیوں سے عظیم تر اللہ!
تشہیر کے لیے نمائش میں تیری طرف سے ہماری راہ پر لگائی گئی اشیاءاور حوادث جن کا مشاہدہ کرنے کے لیے تو نے ہمیں دعوت دی ہے‘ اور جنہیں تو نے بالکل طبع زاد اور دلکش فن پاروں کی طرح بڑی احتیاط سے لپیٹ رکھا تھا‘ تیری فنکاری کے ان جمالیاتی فن پاروں کو ہم نے دیکھا ہے۔اور پھر ہم نے ان آنکھیں چندھیا دینے والی ‘ سر چکرا دینے والی تصاویر میں سے سب سے زیادہ روشن‘ موزوں ترین‘ اور آپس میں نہایت متناسب اشیاءاور حوادث کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔ جو تیرے پوشیدہ جمال کی تجلّیوں کے طور پر ہزاروں رنگوں کو جنبش میں لاتی ہیں اور جنہیں تو نے اپنے فن کاروں کے مجموعے یعنی قدرت کے سینے میں ایک مقام عطا کر رکھاہے۔ہم تیرے قلم سے نکلتی آواز میں ‘ اور اُس قلم سے تیری تحریر کر کے ظاہر کی گئی کتاب کے آہنگ میں بھی تجھی کو دیکھ رہے ہیں ‘تُجھی کو محسوس کر رہے ہیں ۔ اسی کے وسیلے سے ہماری روحوں کو پر لگ گئے ہیں اور اُڑتے ہوئے ہماری نظریں تیرے اسمائے حُسنیٰ کی روشنی میں کھلنے والے سوراخوں میں سے دکھائی دینے والے تمام نظاموں اور آہنگوں کے زیرِ مشاہدہ تمام رنگوں اور صورتوں کی ہر طرف سنی جانے والی آوازوں اور نغموں میں ‘ ان آوازوں سے پیدا ہونے والے اُس سرچشمے میں اٹک گئی ہیں جہاں سے تمام کورس اور سِمفونیاں نکلتی ہیں ۔ اور ہمارے دل اُن بلندوبالا عالموں کے اسرار میں گم ہو چکے ہیں جو ہر شے کا سرچشمہ ہیں ۔۔۔
ہمارے دل اور ایمان کی آنکھ کے سامنے کھلنے والی اُن الگ الگ کھڑکیوں کے اُس پار کی دنیا میں غوطہ زن ہو کر ہم نے اس بات کی بھی جرآت کی ہے کہ طوبیٰءجنت‘ جس کا بیج ہمارے دلوں میں بویا جا چکا ہے‘ اسے درخت کی اصل شکل میں مشاہدہ کریں ۔۔۔ اور پھر ہم ایک ایسی سیاحت پر نکلنے کے قصوروار ہوئے جو اگلے جہان‘ بلکہ اُس سے بھی بہت دورتک پھیلی ہوئی بے حد لمبی‘ بے حد دشوار‘ لیکن نہایت دلچسپ سیاحت تھی۔اس سیاحت کے دوران بھی ہم تیرے مقدس بیان کو اپنا راہبربناتے ہوئے‘ تیرے اسماءحسنی ٰاور صفات کی معلومات سے بھری روشنیوں تلے‘ ابدیت کی طرف جانے والے تمام راستوں کو منور کرنے والے تیرے نور کے بال وپرسے مزیّن ہو کر اُنہی راہوں پر نکل کھڑے ہوئے۔
اَے خوبروﺅں کے خوبرو خالقِ اعلیٰ! تو نے ہمیں وجود عطا کیا اور ہمارے دلوں کو وجودیت کی سطح پر پہنچنے کے بے انتہا ذوق سے نوازا۔ تو ہی ہے جس نے معظم کائناتوں کو ایک کتاب کی طرح ہمارے سامنے کھول کر پھیلا دیاہے۔تو ہی ہے جس نے اُن کے بھیدوں سے ہمارے وجدانوں کو آگاہ کر دیا ہے‘ اور تو ہی ہے جس نے ہمارے وجدانوں کو اُس ملک کا ساحل بنا دیا ہے جہاں لاہوُتی بھید موجوں کی شکل میں آ کر ٹکراتے ہیں ! اگر تو ہمیں صفحہءہستی پر نہ لاتا تو ہم صفحہءہستی پر نہیں آ سکتے تھے۔ اگر تو ان عظیم الشان کائناتوں کو ایک کتاب کی طرح ہمارے سامنے کھول کر نہ رکھ دیتا اور پھر اپنے عظیم رئیس المراسم اور مدّاحوں کے ذریعے اس کی تشریح نہ کر دیتا تو ہم تیری ہستی سے بے خبر‘ تیرے دل کی وسعتوں تک پہنچنے سے محروم جاہلوں کے گروہ کی طرح برباد ہو کر ختم ہو جاتے۔ اگر تو ہم پر کرم کرتے ہوئے ہمارے قدوقامت کے حساب سے اپنے آپ کو بیان نہ کرتا‘ بیرونی دنیاﺅں اور ہمارے درمیان ارتباط قائم کر کے اپنی ذاتِ اُلوھیت کے نام پر ان اشیاءکو جنہیں ہم جانتے ہیں اور اُنہیں جنہیں ہم آئندہ جان لیں گے ‘ گریبانوں سے پکڑ کر ایک شکل عطا کر کے ا ُنہیں صحیح استقامت میں ڈالنے والے‘ علم کو علم اور معرفت کو معرفت بنانے والے‘ اُ س سب سے پہلے تصدیق کنندہ کو ہماری روحوں میں مقام عطا نہ کرتا توپھر ہم کہاں سے تجھے اور اِنہیں جان سکتے تھے اور تیری راہوں کے بارے میں ہماری حیرت کہاں سے آ سکتی تھی؟۔۔۔۔
ہم تیرے در کے غلام ہیں جن کی گردنوں میں تیری غلامی کے طوق پڑے ہوئے ہیں ۔ ہمارے وجدانوں پر منعکس ہوتی رہنے والی چمک بھی تیری ہی ہستی کی ضیاءہے۔ہم جن اشیاءکے مالک ہیں وہ سب تیری ہی دَین ہیں ‘ تیری ہی عطا کی ہوئی ہیں ہم اس بات کا ایک مرتبہ پھر اعلان کرتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ ہم تیرے در کے آزادی قبول نہ کرنے والے غلام ہیں اوراس سلسلے میں ہم اپنے عہدوپیمان کو پھر سے تازہ کرنے کے خواہشمند ہیں ۔
اے ذکروفکر کرنے والی روحوں کو اطمینان بخشنے والے سلطان القلوب! تو نے جو باتیں ہمیں سکھائی ہیں اور جن کا احساس ہماری روحوں کو دلایا ہے‘اُن باتوں کو‘ جن لوگوں کے دل ہمارے دلوں کی طرح مُردہ اور دربدر ہوچکے ہیں اُن تک پہنچانے کے لیے ہم تیری ہستی کے دیدار کی جانب کھلنے والی کھڑکیوں اور تیرے حضورکی بلندی تک پہنچانے والی راہوں کی تلاش اور تصدیق کی کوشش میں مصروف رہے ہیں ۔ اس کام کے لیے ہم جا بجااشیاءاور حوادث کی الماریوں میں داخل ہو کر اور بعض اوقات اپنی خودی کے پاس واپس جا کر وقوع پذیر ہونے والے واقعات اور اشیاءکی کھوج لگانے کا طریقہ استعمال کرتے رہے ہیں ۔ہماری خواہش تھی کہ تیرے ساتھ ہونے والی ہماری ملاقات کے مبارک دن کا حال محتاج دلوں کو سناتے لیکن ہم اُن بلند حقیقتوں سے منسلک نہ رہ سکے جن کی تصویر خالص ترین اور صاف ستھرے طرزِ بیان نے ہم پر نقش کر رکھی تھی۔ بنجر رہ جانے والی کچھ نا پختہ روحوں کو جو اس دنیا کی ظاہری خوبصورتیوں کے جال میں پھنس چکی تھےں ‘ بعض باتیں بتانے کے خیال سے غیر مادّی قدسی دیواروں کو ہلا ہلا کر مادّی اور غیرمادّی دونوں کی تعریفوں کے نعرے لگاتے رہے۔ شاید کہ ہم سب سے عیاں حقیقتوں کو اصل وفاداری کے ساتھ پیش نہ کرنے پرجرائم کے مرتکب ہو گئے ہوں ‘ کہ یوں ہم نے اپنی ہی ہواوحوس کی خدمت کر ڈالی ہو گی۔۔۔! اگر ہم نے غلطی کی ہے تو تیری طرف آنے کے دوران اور دوسروں کو تیری راہ دکھانے کی کوشش میں کی ہے۔اگر ہم سے کوئی قصور سرزد ہوا ہے تو وہ بھی تیری راہ پر چلتے ہوئے ہوا ہے۔خطا ہمیشہ خطا اور قصور بھی ہمیشہ قصور ہی ہوتا ہے۔ہمارے دل کانپ رہے ہیں ‘ہماری روحیں جھک کر دوہری ہو رہی ہیں ‘ ہماری گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں ‘ ہم ہزار جان سے تیرے حکم کے منتظر ہیں ۔ یہ کہتے ہوئے بھی ہمیں معلوم ہے کہ تیری لامتناہی رحمت ہمیشہ تیرا غضب نازل ہونے سے پہلے ہوتی ہے۔تیرے در کے غلام جو تیری نوازشوں کو سمجھ چکے ہیں وہ یقیناَجانتے ہیں کہ سرزد ہونے والا قصور تیری شان کو زیب دیتا ہے یا نہیں ‘ لیکن برائے کرم ہمیں یہ کہنے کی اجازت دے دو کہ تیری عفو تجھے بہت زیب دیتی ہے!
جی ہاں ‘ میرے سلطان:”سلطان کو سلطانی اُتنی ہی زیب دیتی ہے جتنی کہ گداگرکوگداگری“
اگر اب تُو ہمیں معاف کر دے تو ہم اپنی اگلے جہان کی سیاحت کی حقیقت کوسینوں کے مخصوص ترین مقام تک محفوظ کرتے ہوئے ایک بار پھر نئے سرے سے تیری اس کائنات کی کتاب کے صفحات کو اُلٹ پَلٹ کر ایک نئی سیاحت کی غرض سے لمبے لمبے مطالعے میں کھو جائیں ۔ ہم تیرا بیان کرنے والے دلالوں کو سننے‘ اور تیرے متعلق نغمے سن سن کر آپے سے باہر ہو جانے کے خواہشمند ہیں ۔تیری محفل تک پہنچنے کے مشتاق ‘ محتاج اور دربدر انسانوں کو بال و پر عطا کر کے اُنہیں اپنے وصال کے ذریعے دلشاد کر دے!۔۔۔
- Created on .